عالمی تحریک دعوت اسلامی کے بانی علامہ و مولانا ابو بلال الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ نے امت کو ایک نعرہ دیا:  ”مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے انشاءاللہ“ اور اپنی اصلاح کے لئے فرض علوم حاصل کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ علم کے بغیر اپنی اصلاح مشکل ہے جن علوم کا سیکھنا فرض ہے ان میں سے ایک باطنی گناہوں کا علم بھی ہے باطنی گناہوں میں سے ایک گناہ جو لوگوں میں کثرت سے پایا جاتا ہے وہ حسد ہے حاسد کو ہمیشہ یہ آیت پیش نظر رکھنی چاہیے: ﴿وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوْاؕ-وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَؕ-وَ سْــٴَـلُوا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا(۳۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور ا س کی آرزو نہ کرو جس سے اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پر بڑائی دی مردوں کے لیے ان کی کمائی سے حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کی کمائی سے حصہ اور اللہ سے اس کا فضل مانگو بے شک اللہ سب کچھ جانتا ہے۔(پ5، النسآء : 32)

بندے کو اللہ کے دئیے پر راضی رہنا چاہیے اور حسد یہ ہے کہ جب کسی مسلمان بھائی کو اللہ پاک کی نعمت ملتی ہے تو حاسد انسان اسے ناپسند کرتا اور بھائی کی نعمت کا زوال چاہتا ہے۔ (احیاء العلوم کا خلاصہ، ص 254) اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی بہت سی جگہوں پر حسد کی مذمت فرمائی ہے ۔

(1)‌ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: حسد نیکیوں کو اس طرح کھا تا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھاتی ہے( بہار شریعت ،3/ 540 )

(2)‌ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ حسد ایمان کو ایسا بگاڑتا ہے، جس طرح ایلوا شہد کو بگاڑتا ہے۔ ( بہار شریعت ، 3 / 540)

(3)‌رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ حسد اور چغلی اور کہانت نہ مجھ سے ہیں اور نہ میں ان سے ہوں ۔ یعنی مسلمان کو ان چیزوں سے بالکل تعلق نہ ہونا چاہیے۔ ( بہار شریعت ، 3 / 540)

(4) ‌رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: آپس میں نہ حسد کرو، نہ بغض کرو، نہ پیٹھ پیچھے برائی کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہو کر رہو۔ ( بہار شریعت ، 3 / 541)

اور یاد رہے کہ حسد حرام ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ہاں البتہ اگر کسی بندے کی یہ تمنا ہے کہ میں بھی ویسا ہو جاؤں مجھے بھی وہ نعمت مل جائے یہ حسد نہیں اس کو غبطہ کہتے ہیں جس کو لوگ رشک سے تعبیر کرتے ہیں یہ اچھا عمل حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: المُؤْمِنُ يَغْبِطُ والمُنافِقُ يَحْسُدُ کہ مؤمن رشک کرتا ہے اور منافق حسد کرتا ہے ( تفسیر قرطبی،20/259، سورۃ الفلق تحت آیت 5 ، دار الکتب المصریہ ) اور حسد کے بہت سے اسباب ہے جیسے دشمنی، فخر، بغض، تکبر ، خود پسندی، حکومت کی خواہش، اور یہ سب مذموم ہے ۔

حسد کا علاج یہ ہے کہ غور کرے کہ دنیا اور آخرت میں نقصان دیتا ہے دنیوی نقصان یہ ہے حاسد جس سے حسد کرتا ہے اس کے بارے میں سوچتا رہتا ہے اور دن رات غم و الم کا شکار رہتا ہے اخروی نقصان یہ ہے اعمال برباد ہو جاتے ہیں اور گویا کہ بندہ اپنے رب العزت کی تقسیم سے راضی نہیں ہے یہ گناہ ہے۔ اللہ پاک ہم سب کی حسد سے حفاظت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے بھائیو! آج ہمارا معاشرہ جن برائیوں کا شکار ہے ان میں ایک اہم اور خطرناک برائی حسد ہے، یاد رکھیں! حسد سب سے پہلا آسمانی گناہ ہے ، حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃُ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں : رب کریم کی پہلی نافرمانی ،جس گناہ کے ذریعے کی گئی ،وہ حسد ہے، ابلیس شیطان نے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنے کے معاملے میں ان سے حسد کیا، لہذا اسی حسد نے ابلیس کو اللہ پاک کی نافرمانی پر ابھارا۔ (الدرا المنثور فی التفسیر الماثور ،سورۃُ البقرہ، 1/125)

اگر ہم اس گناہ سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ حسد کی مذمت پر جو کتابیں اور مضامین لکھے ہیں ان کا مطالعہ کریں تاکہ ہم اس گناہ سے بچنے میں کامیاب ہو جائیں۔

اب ہم حسد کی مذمت پر کچھ احادیث بیان کریں گے اس سے پہلے ہم حسد کی تعریف بیان کرتے ہیں تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ حسد کہتے کسے ہیں ؟حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس کے چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں کو یہ نعمت نہ ملے ، اس کا نام حسد ہے ۔ ( الحدیقۃ الندیۃ، الخلق الخامس عشر---الخ، 1/600)حسد کا حکم: اگر اپنے اختیار و ارادے سے بندے کے دل میں حسد کا خیال آئے اور یہ اس پر عمل بھی کرتا ہے یا بعض اعضاء سے اس کا اظہار کرتا ہے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ (الحدیقۃ الندیۃ الخلق الخامس عشر الخ، 1/601)

(1)حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حسد سے دور رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو ۔(ابوداود، کتاب الادب،باب فی الحسد،4/360،حدیث : 4903)

(2)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: آدمی کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے ۔(سنن نسائی، کتاب الجہاد، فضل من عمل فی سبیل اللہ ۔۔۔ الخ، ص505 ، حديث : 3610)

(3)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: حسد ایمان کو اس طرح خراب کر دیتا ہے جس طرح ایلوا ( یعنی ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رس ) شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (کنز العمال، كتاب الاخلاق قسم الاقوال ،3/186،حدیث: 7437)

(4)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کہ ایک دوسرے سے حسد مت کرو اور ایک دوسرے سے بعض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو اور اے اللہ کے بندو! تم آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن کر رہو ۔(صحیح البخاری،کتاب الاداب، باب یایھا الذین امنوا اجتنبوا....الخ،ص 1386، حدیث: 2563 ) حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بدگمانی، حسد، بغض و غیرہ وہ چیزیں ہیں جن سے محبت ٹوٹتی ہے اور اسلامی بھائی چارہ محبت چاہتا ہے، لہذا یہ معیوب چھوڑو تاکہ بھائی بھائی بن جاؤ۔ (مرآۃ المناجیح جلد : 6 ،حدیث: 5028)

(5)حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ حسد کرنے والا اور چغلی کھانے والا اور کاہن (یعنی نجومی کے پاس جانے والا) مجھ کو ان لوگوں سے اور ان لوگوں کو مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق قسم الاقوال، الحسد، حدیث 7442 ، الجزء الثالث ، ص 186 )

حسد کو ختم کس طرح کریں؟ : حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بندے کا موت کو کثرت سے یاد کرنا خوشی اور حسد کو کم کر دیتا ہے۔( ‌احیاء العلوم، 3/663)

پیارے اسلامی بھائیو! بیان کردہ احادیث سے معلوم ہوا کہ حسد بہت خطرناک برائی ہے جو ایمان کو بھی برباد کر دیتی ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس باطنی مرض سے ہر وقت بچنے کی کوشش کریں ۔ اللہ پاک ہمیں اس گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! باطنی بیماریوں میں سے ایک بیماری ایسی ہے جس کے سبب ہمارے معاشرے میں کئی فتنے و فساد پیدا ہوتے ہیں، دینی، اخلاقی، اقتصادی، علمی  الغرض جہاں جہاں اس بیماری کا وجود ہوگا وہاں وہاں یہ ترقی میں رکاوٹ بنے گی، اور یہ بیماری حسد ہے۔ حسد ایسا خطرناک گناہ ہے جس کے سبب روئے زمین پر پہلا قتل ہوا تھا، یہ ایک گناہ کئی دوسرے گناہوں کی طرف جانے کے راستے کو ہموار کرتا ہے جب کسی کے دل میں حسد ہو وہ جھوٹ، غیبت چغلی اور قتل جیسے بڑے بڑے گناہوں پر آمادہ ہو جاتا ہے، قراٰن و حدیث میں بھی اس کی مذمت بیان کی گئی ہے، آئیے حسد کی تعریف اس کا حکم اور اس کی مذمت میں چند احادیث ملاحظہ کرتے ہیں :۔

حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال کی تمنّا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے اس کا نام حسد ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، 1/600)

حسد کا حکم: اگر اپنے اختیار و ارادے سے بندے کے دل میں حسد کا خیال آئے اور یہ اس پر عمل بھی کرتا ہے یا بعض اعضاء سے اس کا اظہار کرتا ہے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ، 1/601)

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : آپس میں حسد نہ کرو، آپس میں بغض و عداوت نہ رکھو، پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی بیان نہ کرو اور اے اللہ پاک کے بندو بھائی بھائی ہو کر رہو ۔(بخاری، 4/117 ،حدیث:6066)

(2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : حسد سے دور رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو ۔( ابو داؤد، 4/360 ،حدیث:4903)

(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : آپس میں حسد نہ کرو، نہ بغض رکھو، نہ جاسوسی کرو، نہ ایک دوسرے کے عیب تلاش کرو، اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن کر رہو۔ (مسلم، 7/10 ،حدیث :6703)

(4) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: آپس میں ایک دوسرے سے نہ حسد کرو، نہ قطع تعلق کرو اور نہ ہی ایک دوسرے سے منہ پھیرو۔ اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی ہو جاؤ۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے۔(مسند احمد ، 3/165 ،حدیث :12714)

مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات معلوم ہو چکی ہوگی کہ حسد کتنا بد ترین گناہ ہے ۔ حسد کرنے والا نہ دنیا میں کامیاب ہوتا ہے اور نہ ہی آخرت میں کامیاب ہوگا، اسی لئے جب بھی دل میں حسد کی چنگاری بھڑکے تو فوراً یہ سوچ لے کہ جس نعمت پر وہ حسد کر رہا ہے وہ نعمت اللہ کریم کی عطا کردہ ہے، اس سے نعمت کے زوال کی تمنا کرنا خدا کی تقسیم سے ناراض ہونا ہے اور اللہ سے لڑائی لینا ہے۔ اللہ کریم ہمیں حسد جیسی عظیم گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


محترم قارئین! یقیناً اس دنیائے فانی سے ہمیں ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہے، ہمیں ضرور دارالفنا سے دارالبقا کی طرف اپنے رخ کو موڑنا ہے، اس سفر کے دوران ہمیں بہت مشکل کن مراحل سے گزرنا ہوگا مثلاً قبر، حشر، پل صراط وغیرہ ،اس کے بعد جنت یا دوزخ ہمارا ٹھکانہ ہوگا۔ اگر ہم نے دنیا میں رہ کر ربِّ کریم کو راضی کر لیا تو اللہ کی رحمت سے جنت ملے گی اِن شآءَ اللہ اور اگر گناہوں بھری زندگی کے سبب رب ناراض ہو گیا تو کہیں جہنم ٹھکانہ نہ بن جائے۔ العیاذ باللہ !

گناہ ظاہری بھی ہوتے ہیں مثلاً شراب نوشی، قتل، ڈکیتی وغیرہ کرنا، اور کچھ گناہ باطنی بھی ہوتے ہیں مگر ظاہری گناہوں کی بنسبت باطنی گناہ زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ انہی باطنی گناہوں میں سے ایک ”حسد“ بھی ہے۔ آئیے پہلے ہم یہ جانتے ہیں کہ حسد کہتے کسے ہیں؟ خلیفۂ اعلٰی حضرت، مصنفِ بہارِ شریعت حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: حسد کے یہ معنی ہیں کہ کسی شخص میں خوبی دیکھی اس کو اچھی حالت میں پایا اس کے دل میں یہ آرزو ہے کہ یہ نعمت اس سے جاتی رہے اور مجھے مل جائے۔ (بہار شریعت، 3/542)

حسد کی مذمّت حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی اپنی زبانِ حق سے بیان فرمائی اور اپنی امت کو حسد سے دور رہنے کا حکم فرمایا ۔ آئیے چند احادیث ِکریمہ پر نظر ڈالتے ہیں: چنانچہ

(1) ایمان کا خراب ہونا: پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حسد ایما ن کو اس طرح خراب کر دیتا ہے جس طرح ایلوا (یعنی ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رَس) شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (کنزالعمال، 2/ 186، حدیث:7437)

(2)نیکیوں کو ختم کرنے والا: حُضورِپاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔(ابو داؤد، 4/ 360،حدیث:4903)

(3)حاسد اور چغل خور ہم سے نہیں: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ: حسد کرنے والے، چغلی کھانے والے اور کاہن کے پاس جانے والے کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی میرا اس سے کوئی تعلق ہے ۔(مجمع الزوائد، 8/114، حدیث : 13126)

(2)دین مونڈتی ہے: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری حسد اور بغض سرائیت کر گئی، یہ مونڈ دینے والی ہے، میں نہیں کہتا کہ یہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی، 4/228،حدیث:2518) اس طرح کہ دین و ایمان کو جڑ سے ختم کر دیتی ہے کبھی انسان بغض و حسد میں اسلام ہی چھوڑ دیتا ہے، شیطان بھی انہیں دو بیماریوں کا مارا ہوا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح،6/615)

حسد کرنے کے نقصانات: (1)اللہ و رسول کی ناراضگی (2) ایمان کی دولت چھن جانے کا خطرہ (3) مختلف گناہوں میں مبتلا ہو جانا (4) دُعا قبول نہ ہونا(5) نُصرتِ الٰہی سے محرومی (6) ذِلّت ورُسوائی کا سامنا (7)سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہو جانا (8) خود پر ظُلم کرنا (9)بغیر حساب جہنم میں داخلہ۔ (حسد،ص23)

محترم قارئین! اللہ پاک پر توکل رکھئے، جس طرح اس نے سامنے والے کو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے یقیناً وہ آپ کو بھی عطا کرنے پر قادر ہے، جب بھی اس طرح کا کوئی خیال آئے تو فوراً اللہ پاک سے دعا کیجئے کہ مولیٰ اس کی اس نعمت کو باقی رکھتے ہوئے مجھے بھی عطا فرما۔

مولائے کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس خطر ناک بیماری سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنے شکر گزار بندوں میں شامل فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں جن انبیائے کرام علیہم السّلام کا تذکرہ فرمایا ان میں ایک حضرت اسماعیل علیہ السّلام بھی ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السّلام حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے فرزند ہیں  اور سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ علیہ السّلام کی اولاد سے ہیں ، ان ہی کی برکت سے زم زم کا کنواں جاری ہوا، آئیے قراٰنِ پاک سے ان کا مبارک صفات کا ذکر کرتے ہیں۔

(1)وعدے کا سچا ہونا: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور کتاب میں اِسماعیل کو یاد کرو، بے شک وہ وعدے کا سچّا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا۔ (پ16، مریم:54)تفسیر صراط الجنان میں ہے : آپ علیہ السّلام وعدے کے سچے تھے ۔ یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السّلام وعدے کے سچے ہی ہوتے ہیں مگر آپ علیہ السّلام کا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے۔ اسی طرح (جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام آپ کو اللہ پاک کے حکم سے ذبح کرنے لگے تو) ذبح کے وقت آپ علیہ السّلام نے صبر کرنے کا وعدہ فرمایا تھا، اس وعدے کو جس شان سے پورا فرمایا اُس کی مثال نہیں ملتی۔

(2) غیب کی خبریں دینے والا رسول:آپ علیہ السّلام غیب کی خبریں دینے والے رسول تھے۔ آپ علیہ السّلام کو رسول اور نبی فرمایا گیا ہے، اس میں بنی اسرائیل کے ان لوگوں کی تردید کرنا مقصود تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ نبوت صرف حضرت اسحاق علیہ السّلام کے لیے ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام نبی نہیں ہیں ۔

(3)اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دینا اور رب کے پسندیدہ بندے کی سند ملنا۔﴿وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ۪-وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا اور اپنے رب کو پسند تھا۔(پ 16، مریم : 55)

(4)صابر بندہ بننا اور رب کے قرب خاص میں ہونا: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء‏: 86،85) تفسیر صراط الجنان: ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، آپ حضرت اسماعیل ، حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل علیہم السّلام کو یاد کریں ، وہ سب عبادات کی مشقتوں اور آفات و بَلِیّات کو برداشت کرنے پر کامل صبر کرنے والے تھے ۔ حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے اپنے ذبح کئے جانے کے وقت صبر کیا، غیرآباد بیابان میں ٹھہرنے پر صبر کیا اور اس کے صِلے میں اللہ پاک نے انہیں یہ مقام عطا کیا کہ ان کی نسل سے اپنے حبیب اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ظاہر فرمایا۔

(5) انبیائے کرام کے ساتھ تذکرہ: ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اور سب اچھے ہیں ۔(پ23، صٓ:48)

(6)رب کے حکم پر ذبح کے لیے تیار ہو جانا: ﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰىؕ-قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۰۲) ترجمۂ کنزالایمان: پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے کہا اے میرے باپ کیجئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:102)تفسیر صراط الجنان: حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا: اے میرے بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں اور انبیائے کرام علیہم السّلام کے خواب حق ہوتے ہیں اور ان کے افعال اللہ پاک کے حکم سے ہوا کرتے ہیں ، اب تو دیکھ لے کہ تیری کیا رائے ہے؟ ، چنانچہ اس فرزندِ اَرْجْمند نے اللہ پاک کی رضا پر فدا ہونے کا کمالِ شوق سے اظہار کرتے ہوئے فرمایا: اے میرے باپ! آپ وہی کریں جس کا آپ کو اللہ پاک کی طرف سے حکم دیا جا رہا ہے۔ اگر اللہ پاک نے چاہا تو عنقریب آپ مجھے ذبح پر صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

(7)خانہ کعبہ کی تعمیر میں حصہ لینا: ﴿وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ-وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ-وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ(۱۲۵)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان :اور یاد کرو جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسماعیل کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لئے۔(پ1،البقرۃ:125)

﴿وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُؕ-رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۱۲۷)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور جب اٹھاتا تھا ابراہیم اس گھر کی نیویں اور اسمٰعیل یہ کہتے ہوئے کہ اے رب ہمارے ہم سے قبول فرما بیشک تو ہی ہے سنتا جانتا۔(پ1،البقرۃ:127) تفسیر صراط الجنان: پہلی مرتبہ خانہ کعبہ کی بنیاد حضرت آدم علیہ السّلام نے رکھی اور طوفانِ نوح کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اسی بنیاد پر تعمیر فرمایا۔ یہ تعمیر خاص آپ علیہ السّلام کے دستِ مبارک سے ہوئی، اس کے لیے پتھر اٹھا کر لانے کی خدمت و سعادت حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام کو میسر ہوئی، دونوں حضرات نے اس وقت یہ دعا کی کہ یارب ! ، ہماری یہ طاعت و خدمت قبول فرما۔

(8)معصوم ہو کر بھی عاجزی کرنا: ﴿رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ۪-وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَاۚ-اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۱۲۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے رب ہمارے اور کر ہمیں تیرے حضور گردن رکھنے والے اور ہماری اولاد میں سے ایک امت تیری فرمانبردار اور ہمیں ہماری عبادت کے قاعدے بتا اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما بیشک تو ہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پ1،البقرۃ:128) تفسیر صراط الجنان: سبحان اللہ ،وہ حضرات اللہ پاک کے مطیع و مخلص بندے تھے پھر بھی یہ دعا اس لیے مانگ رہے ہیں کہ مزید اطاعت و عبادت و اخلاص اور کمال نصیب ہو۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السّلام معصوم ہیں ،آپ کی طرف سے توبہ تواضع یعنی عاجزی ہے اور اللہ والوں کے لیے تعلیم ہے۔ خانہ کعبہ اور اس کا قرب قبولیت کا مقام ہے ،یہاں دعا اور توبہ کرنا سنت ِابراہیمی ہے۔

(9)حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ثمرہ: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ وَهَبَ لِیْ عَلَى الْكِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَؕ- اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۹) ترجمۂ کنزالایمان: سب خوبیاں اللہ کو جس نے مجھے بڑھاپے میں اسمٰعیل و اسحاق دیئے بیشک میرا رب دعا سننے والا ہے۔(پ13، ابرٰھیم:39)تفسیر صراط الجنان: حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے ایک اور فرزند کی دعا کی تھی اللہ پاک نے قبول فرمائی تو آپ علیہ السّلام نے اس کا شکر ادا کیا اور بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا ’’تمام تعریفیں اس اللہ پاک کیلئے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے کے باوجود حضرت اسمٰعیل اور حضرت اسحاق علیہما السّلام دئیے۔ بیشک میرا رب میری دعا قبول فرمانے والا ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی ولادت اس وقت ہوئی جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی عمر99 برس ہو چکی تھی اور حضرت اسحاق علیہ السّلام کی ولادت اس وقت ہوئی جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی عمر مبارک 112 برس ہو چکی تھی۔

(10)قراٰنِ پاک میں فضیلت کا تذکرہ: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔ (پ7،الانعام:86)

ہمیں بھی چاہیے کہ ہم حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی صفات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ عہد کریں کہ ہم بھی مشکلات پر صبر کرتے ہوئے رضائے الٰہی پر راضی رہیں گے اور احکامات الٰہی پر عمل بجا لائیں گے۔اللہ کریم ہمیں اسی طرح قراٰنِ پاک کو سمجھ کر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قراٰن مجید رب کریم کا بے مثل کلام ہے جسے اللہ پاک نے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل فرمایا۔  جس میں ہر چیز کا کھلا اور واضح بیان ہے جس طرح الله پاک نے قراٰنِ پاک میں مسلمانوں کیلئے احکام اور پچھلی امتوں کے واقعات بیان فرمائے اسی طرح اس میں انبیا و رسول علیہم السّلام کی صفات و کمالات کو بھی بیان فرمایا۔ جیسے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایک صفت رحمۃُ للعالمین بیان فرمائی، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی صفت روحُ الله بیان فرمائی اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی صفت کلیمُ الله بیان فرمائی اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی صفت خلیلُ اللہ بیان فرمائی اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی بھی صفات بیان فرمائیں ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیے۔

(1) تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔ (پ7،الانعام:86)

(2)وہ وعدے کا سچا تھا: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول تھا۔ (پ16، مریم: 54)

(3) وہ سب صبر کرنے والے تھے : اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17، الانبیآء‏:85)

(4) ایک بڑا ذبیحہ دے دیا: الله پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ(۱۰۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسماعیل کے فدیے میں ایک بڑا ذبیحہ دیدیا ۔(پ23، صٓ:107)

(5) بہترین لوگ: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔(پ23، صٓ:48)الله پاک ہمیں حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی سیرتِ طیبہ پر عمل پر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی طرح صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور الله پاک ہمیں وعدہ خلافی سے بچنے کی توفیق عطا فر مائیں۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ارض مقدس پہنچنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی تھی کہ (پ ، 23 ، سورۃُ الصّٰٓفّٰت ، آیت ، 100 میں ارشاد فرماتا ہے کہ ترجمہ : اے میرے رب مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ رب نے ان کی دعا قبول فرمائی۔ آپ علیہ السّلام کو ایک پر بردبار لڑکے کی بشارت دی۔ اللہ پاک ایک جگہ پر ارشاد فرماتا ہے کہ ﴿فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ(۱۰۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری سنائی۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:101) کچھ عرصے بعد آپ علیہ السّلام حضرت ہاجرہ رضی الله عنہا سے نکاح فرمایا تو ان کے بطن سے اللہ پاک نے فرزند عطا فرمایا جن کی بشارت دی تھی۔

نام و لقب: آپ علیہ السّلام کا نام مبارک اسماعیل ہے۔اس کی وجہ تسمیہ سے متعلق منقول ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام اولاد کے لیے دعا مانگتے تو اس کے بعد کہتے تھے (اسمع ایل)یعنی اے اللہ میری دعا سن لے یعنی قبول فرما ۔اس دعا کی یادگار میں آپ کے والد نے آپ کا نام اسماعیل رکھا ۔اور آپ علیہ السّلام کا لقب "ذبیح اللہ" ہے۔ کیونکہ جب رب کریم کی طرف سے آپ کے والد کو آپ کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو آپ نے بغیر کسی سوچ اور تامل کے اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کر دیا تھا۔(سیرت الانبیاء‏)

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے پہلے فرزند : آپ علیہ السّلام حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے پہلے فرزند ہیں ،حضرت اسماعیل علیہ السّلام حضرت اسحاق علیہ السّلام سے عمر میں بڑے ہیں ۔بعثت : اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو قبیلہ جرہم اور سرزمین حجاز میں رہنے والی قومِ عمالیق کی طرف مبعوث فرمایا جنہیں آپ علیہ السّلام کی تبلیغ و نصیحت فرمائی تو کچھ لوگ آپ پر ایمان لے آئیں اور کچھ کافر ہی رہے۔ آپ علیہ السّلام انتہائی اعلیٰ و عمدہ اوصاف کے مالک تھے جن میں سے چند اوصاف درج ذیل ہیں:

(1) آپ علیہ السّلام مخلوق میں ایک بہترین فرد تھے ارشاد باری ہے: ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔(پ23، صٓ:48)

(2) آپ علیہ السّلام کو آپ کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت حاصل ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔ (پ7،الانعام:86)


حضرات انبیا علیہم السّلام رب العالمین کے نیک اور برگزیدہ بندے ہیں۔ جو ہر گناہ سے پاک ہیں ۔ اللہ پاک نے مختلف زمانوں میں مختلف انبیائے کرام کو انسانوں کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا ۔ جو انسان کو تاریک راستوں سے نکال کر نو ر و ہدایت کا راستہ دکھاتے۔ انہیں میں سے ایک نبی حضرت اسماعیل علیہ السّلام ہیں۔ آپ علیہ السّلام حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بڑے فرزند اور سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جد ا علیٰ ہیں۔ آپ علیہ السّلام ہی کی مبارک ایڑیاں کی برکت سے اللہ پاک نے آب زم زم کا چشمہ جاری کر دیا جو آج تک جاری و ساری ہے اور رہتی دنیا تک رہے گا۔

آپ علیہ السّلام کا ذکر بھی قراٰن پاک میں کئی مقامات میں آیا ہے۔ جن میں سے کچھ یہ ہیں :

(1)وعدہ کے سچے: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول تھا۔ (پ16، مریم: 54) آپ علیہ السّلام وعدے کے سچے تھے ۔ یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام وعدے کے سچے ہی ہوتے ہیں مگر آپ علیہ السّلام کا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے۔(تفسیر صراط الجنان،6/121)

(2) غیب کی خبر دینے والے : آپ علیہ السّلام غیب کی خبریں دینے والے تھے اس لیے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: غیب کی خبریں بتاتا۔(پ16، مریم:54)

(3) پسندیده بنده: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب کو پسند تھا۔(پ16، مریم:55)

(4)صبر کرنے والے : جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو آپ کی قربانی کے بارے میں رب کا حکم سنایا تو آپ نے جواب دیا ۔ ﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰىؕ-قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۰۲) ترجمۂ کنزالایمان: پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے کہا اے میرے باپ کیجئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:102)۔

(5) قرب خاص : آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے خاص قرب والے بندو میں سے ہیں۔ ارشاد باری ہے : ﴿وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۸۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل فرمایا، بیشک وہ ہمارے قربِ خاص کے لائق لوگوں میں سے ہیں ۔(پ17، الانبیآء‏:86)معزز قارئین ! اللہ پاک نے قراٰن پاک میں متعدد مقامات میں انبیا علیہم السّلام کی صفات کمالات معجزات اور عظمت بیان فرمائی ہے۔ اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السّلام کی مبارک سیرت کا مطالعہ کرنے اور اس پر عمل کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


نبوت و رسالت کا سلسلہ انسانیت کی ابتدا سے ہی چل پڑا تھا۔ شرک و گمراہی اور ڈھیروں معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لئے اللہ پاک نے ان گنت انبیا کو مبعوث فرمایا اُنکی عادات و اطوار کو لوگوں کے لئے مثال بنایا اور انہیں ایسی عمده ترین صفات عطا فرمائی جو نوعِ انسانی کے لیے موثر ہو اور ان کی طرز زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیں۔ اللہ پاک نے جس نبی کو قبیلہ جرہم اور قوم عمالیق کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے منتخب فرمایا وہ حضرت اسماعیل علیہ السّلام تھے ۔ (سیرت الانبياء ،ص 345 )

آپ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بڑے بیٹے اور حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جدّ ِ اعلی تھے، آپ کا لقب ذبیح الله ہے، آپ بی بی حاجرہ کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے۔ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ حضرت ابراہيم عليہ السّلام تعميلِ حكم الہی کی خاطر آپ کو آپ کی والدہ کے ساتھ عرب کے بے آب و گیاہ ریگستان میں چھوڑ آئے۔ زاد خورد ونوش ختم ہو چکی تھی اور آپ علیہ السّلام شدت پیاس سے بے چین تھے کہ اچانک فرشتے کے پر مارنے یا آپ کی ایڑیاں لگنے کی برکت سے اللہ پاک نے زمزم کا چشمہ جاری کر دیا اور یہ قدرتِ الہی کا وہ کرشمہ تھا جو آج تک جاری وساری ہے۔ کچھ عر صے بعد قبیلہ جرہم لوگ وہاں آکر آباد ہوگئے اور حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے آپ کی مدد سے وہاں خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی ۔( خازن)اللہ پاک نے آپ کو بہت سے اوصافِ حمیدہ سے نوازا تھا آئیے قراٰنی نقطۂ نظر سے آپ کے اوصاف کا مطالعہ کرتے ہیں:۔

(1) انتہائی صبر کرنے والے : اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ آپ صبرو استقلال میں اپنی مثال آپ تھے۔ قراٰن پاک نے آپ کی اس صفت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر کرنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85) آپ نے عبادتوں کی مشقتوں اور اپنے ذبح کیے جانے کے وقت صبر کیا اور اس کے صِلے میں اللہ پاک نے آپ کو یہ مقام عطا کیا ہے کہ آپ ہی کی نسل سے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ظاہر فرمایا ( تفسیر صراط الجنان)

(2) صادق الوعد: قراٰن پاک نے آپ کو صادق الوعد کے لقب سے یاد کیا۔سورہ مريم آیت نمبر 54 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور کتاب میں اِسماعیل کو یاد کرو، بے شک وہ وعدے کا سچّا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا۔ (پ16، مریم:54)یوں تو تمام انبیا وعدے کے سچے ہوتے ہیں مگر آپ کا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے جیسا کہ ذبح کے وقت آپ نے اپنے والد سے صبر کا وعدہ کیا اور پھرا سے پورا فرمایا ۔( تفسير نور العرفان تحت الآيۃ)

(3)اللہ کے پسندیدہ بندے : آپ طاعت و اعمال اور احوال و خصال کی وجہ سے اللہ کی بارگاہ کے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔ فرمان باری ہے۔ ﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب کو پسند تھا۔(پ16، مریم:55)

(4) تمام جہاں والوں پر فضیلت : آپ کا ایک وصف یہ تھا کہ اللہ پاک نے آپ کو آپ کے زمانے میں تمام جہاں والوں پر فضیلت عطا کی۔ سورہ انعام آیت نمبر 86 میں اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔ (پ7،الانعام:86)

(5) مخلوق میں بہترین فرد : قراٰنِ کریم میں ہے: ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔(پ23، صٓ:48)آئیے ہم بھی ان انبیا کے اوصاف اور ان کی عادات و اطوار کو اپنا نے کی بھر پور کوشش کریں اور اپنی زندگیوں کو وہ قلبی سکون مہیا کریں ۔


الله پاک نے اولادِ آدم کی ہدایت کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا اور ان کو مختلف صفات سے موصوف فرمایا ۔ کسی کو صفی اللہ ، کسی کو خلیل اللہ  ،کسی کو کلیم اللہ ، کسی کو نجی اللہ ،کسی کو روح اللہ تو کسی کو حبیب اللہ فرمایا ۔ انہیں انبیا و رسل میں سے ایک اللہ پاک کے برگزیدہ نبی حضرت سیدنا اسمٰعیل علیہ الصلاة والسلام بھی ہیں ۔ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں کئی جگہ پر ان کی مختلف صفات کا ذکر فرمایا ہے ۔ چنانچہ

(1)حلیم ( عقل مند ): حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اللہ پاک سے اولاد کا سوال کیا تو اللہ پاک نے انہیں آپ کی خوشخبری دی۔ قراٰن میں فرمایا: ﴿فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ(۱۰۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری سنائی۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:101)

(2)صابر ( صبر کرنے والے): آپ علیہ السّلام رضائے رب الانام پر راضی رہنے اور اس پر صبر کرنے والے تھے ۔ اللہ پاک فرماتا ہے کہ ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17، الانبیآء‏:85)

(3) کمالِ فرمانبرداری: حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے جب آپ علیہ السّلام کو اپنا خواب (جس میں آپ انہیں ذبح کر رہے تھے) سنا یا اور ان کی رائے دریافت کی تو حضرت اسمٰعیل نے عرض کی ابو جان! آپ کو جس کام کا حکم دیا گیا ہے آپ اس پر عمل کریں ان شا اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے قراٰنِ پاک ارشاد فرماتا ہے۔ ﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰىؕ-قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۰۲) ترجمۂ کنزالایمان: پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے کہا اے میرے باپ کیجئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:102)۔

(4)اللہ پاک کی راہ میں قربان ہونے والے : جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے فرزند ارجمند کو راہِ خدا میں قربان کرنے کے لیے میدانِ منی میں ماتھے کے بل لٹایا اور گردن پر چھری چلائی تو اللہ کی قدرت کہ چھری نے کوئی کام نہ کیا، تو اللہ پاک نے حضرت ابراہیم کو ندا دی اور فرمایا کہ تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا اور اطاعت و فرمانبرداری کو کمال تک پہنچا دیا اپنے فرزند کو بے دریغ قربانی کے لیے پیش کر دیا بس اب اتنا کافی ہے۔ اس سارے واقعے کی تصویر کشی کرتے۔ ہوئے قراٰن پاک فرماتا ہے کہ﴿ فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِۚ(۱۰۳) وَ نَادَیْنٰهُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰهِیْمُۙ(۱۰۴) قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَاۚ-اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۰۵) ترجمۂ کنزالایمان: تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پر گردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا حال نہ پوچھ۔ اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا حال نہ پوچھ اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم بےشک تو نے خواب سچ کر دکھائی ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:103تا105)

(5)صالح: الله پاک حضرت اسمعیل و ادریس و ذوالکفل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ سب صالحین میں سے تھے۔ چنانچہ: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء‏: 86،85)

الله پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے نقش قدم پر چل کر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضرت اسماعیل علیہ السّلام اللہ پاک کے برگزیدہ بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اللہ نے آپ علیہ السّلام کو بڑے کمال اوصاف نوازا ہے۔

(1)وعدے کے سچے : آپ علیہ السّلام وعدے کے بہت سچے تھے آپ جس سے وعدہ فرماتے اُس وعدے کو کمالِ انداز سے پورا فرماتے۔ آپ کے اس وصف کا ذکر اللہ پاک نے قراٰن پاک میں فرمایا ہے۔ چنانچہ الله پاک پارہ 26 سورہ مریم کی آیت 54 میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول تھا۔ (پ16، مریم: 54)یہاں اللہ پاک نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے دو اوصاف بیان فرمائے۔ ایک یہ کہ آپ وعدے کے سچے تھے دوسرا یہ کہ آپ غیب کی خبریں دیتے تھے۔ کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ حضرت اسماعیل علیہ السّلام وعدے کے سچے تھے اور دیگر انبیائے کرام علیہم السّلام وعدے کے سچے نہیں تھے بلکہ اس وصف کے بیان کرنے میں مقصود یہ تھا کہ آپ علیہ السّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے۔ ایک بار ایک شخص نے آپ علیہ السّلام سے عرض کی آپ یہاں ٹھہریں رہیں جب تک میں نہیں آجاتا ، آپ علیہ السّلام تین دن تک اس کے انتظار میں وہیں رہے ۔

(2)غیب کی خبریں : آپ علیہ السّلام کا اس آیت میں دوسرا وصف یہ بیان کیا گیا کہ آپ علیہ السّلام غیب کی خبریں دیتے تھے، ویسے نبی غیب کی خبریں دیتے تھے لیکن حضرت اسماعیل علیہ اسلام کا اس وصف کے ذکر میں ہ مقصود ہے کہ اس میں بنی اسرائیل کے ان لوگوں کا رد کیا جو یہ سمجھتے تھے کہ نبوت صرف حضرت اسحاق علیہ السّلام کے لئے ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام نبی نہیں ہیں۔

(3)پسندیدہ بندہ : آپ علیہ السّلام اللہ پاک کی اطاعت میں اور اعمال میں اور صبر و رضائے الہی کی وجہ سے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔ الله کے اللہ پاک قراٰنِ پاک میں پارہ 16 میں سورہ مریم ، آیت 55 میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے رب کے ہاں بڑا پسندیدہ بندہ تھا۔(پ16، مریم:55)

(4)صبر اور رضائے الٰہی: اللہ پاک نے قراٰن میں آپ علیہ السلام کے اس وصف کا ذکر فرمایا۔ سورۃُ الانبیآء‏، آیت 85 پارہ 17 میں ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17، الانبیآء‏:85) آپ علیہ السّلام اللہ کی رضا میں راضی رہنے والے تھے۔ جب آپ کے والد ماجد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا تھا جس میں حکم ہوا تھا کہ اپنے بیٹے کو قربان کرو تو آپ علیہ السلام اس بھی اللہ کی رضا پر راضی رہے آپ علیہ السّلام نے کہا اپنے والد سے کہ ابا جان آپ کو جس کام کا حکم ہے کر ڈالئے ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔

(5) تعمیرِ کعبہ میں والد کی مدد: آپ علیہ السّلام کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ اپنے والد محترم ابراہیم علیہ السّلام کے ساتھ تعمیرِ کعبہ میں حصہ لیا۔ آپ کو پتھر اٹھانے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ اس کا ذکر اللہ کریم نے قراٰنِ مجید میں کچھ اس طرح فرمایا: ﴿وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُؕ- ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور جب اٹھاتا تھا ابراہیم اس گھر کی نیویں اور اسمٰعیل ۔(پ1،البقرۃ:127)


حضرت اسماعیل علیہ السّلام کا لقب ذبیح الله ہے اور آپ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بڑے شہزادے ہیں۔ ہم یہاں حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی چند صفات ذکر کریں گے۔

(1) بہترین انسان : قراٰنِ پاک میں آپ علیہ السّلام کو بہترین انسان فرمایا گیا۔ ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔(پ23، صٓ:48)

(2) صبر کرنے والا: اللہ پاک نے قراٰن مجید میں آپ علیہ السّلام کو صبر کرنے والا فر مایا: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17، الانبیآء‏:85)

(3) وعدہ پورا کرنے والے : آپ علیہ السّلام کے بارے میں یہ وصف بھی نمایا ہے کہ آپ وعدے کے پورا کرنے والے ہیں۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا ۔ (پ16، مریم: 54)

(4) نبی و رسول : آپ علیہ السّلام کے بارے میں یہ وصف بھی مذکور ہے کہ آپ غیب کی خبریں دینے والے رسول ہے: ﴿وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: غیب کی خبریں بتاتا۔(پ16، مریم:54)

(5)خانہ کعبہ کی تعمیر میں حصہ لینے والے : آپ علیہ السّلام کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ اپنے والد محترم ابراہیم علیہ السّلام کے ساتھ تعمیر کعبہ میں حصہ لیا۔ آپ کو پتھر اٹھانے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ اس کا ذکر اللہ کریم نے قراٰنِ مجید میں کچھ اس طرح فرمایا: ﴿وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُؕ- ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور جب اٹھاتا تھا ابراہیم اس گھر کی نیویں اور اسمٰعیل ۔(پ1،البقرۃ:127)

(6)افضل ترین : آپ علیہ السّلام کی الله پاک نے ایک صفت یہ بھی بیان کی کہ آپ کو دیگر انبیائے کرام علیہم السّلام کے ساتھ ساتھ آپ کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی۔ اللہ پاک اپنی لاریب کتاب میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔ (پ7،الانعام:86)

الله رحمن ہمیں انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت کو مطالعہ کرنے اور اس پر عمل کرنے کی سعادت عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم