محمد صغیر عطاری(درجہ خامسہ مرکزی جامعۃُ المدینہ ملک کالونی نواب شاہ
پاکستان)

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دو بیویاں تھیں ۔ایک زوجہ
محترمہ کا اسم گرامی حضرت سارہ رضی اللہ عنہا تھا جن کے بطن اطہر سے حضرت اسحاق
علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام ہوئے۔ اور
دوسری زوجہ کا نام نامی حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا تھا۔ ان کے بطن منور سے
حضرت اسماعیل علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام پیدا ہوئے ۔اپ علیہ السّلام حضرت
ابراہیم علیہ السّلام کے بڑے ،نہایت فرمانبردار، اپنے رب کی رضا پر راضی اور اس
کے حکم کو بجا لانے میں بہت جلدی کرنے
والے بیٹے تھے۔
نام و لقب: آپ علیہ السّلام کا نام مبارک اسماعیل ہے۔اس کی وجہ تسمیہ سے متعلق منقول ہے
کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام اولاد کے لیے دعا مانگتے تو اس کے بعد کہتے تھے
(اسمع ایل)یعنی اے اللہ میری دعا سن لے یعنی قبول فرما ۔اس دعا کی یادگار میں آپ
کے والد نے آپ کا نام اسماعیل رکھا ۔اور آپ علیہ السّلام کا لقب "ذبیح
اللہ" ہے۔ کیونکہ جب رب کریم کی طرف سے آپ کے والد کو آپ کو ذبح کرنے کا حکم
دیا گیا تو آپ نے بغیر کسی سوچ اور تامل کے اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کر دیا
تھا۔(سیرت الانبیآء "حضرت اسماعیل علیہ
السّلام کا تعارف")
آپ کا ایک عظیم الشان خاصہ یہ بھی ہے کہ آپ ہی کے نسل پاک
سے حضور علیہ السّلام پیدا ہوئے ۔قراٰنِ کریم اور احادیث نبویہ آپ کے اوصاف حمیدہ
اور آپ پر ہونے والے انعاماتِ عظیمہ سے بھری پڑی ہیں ،لیکن یہاں پر صرف قراٰن مجید
سے آپ کے اوصاف وہ بھی چند ایک ذکر کرنے کی سعی کی ہے ۔درج ذیل میں ملاحظہ ہو ۔
(1)وعدے کا سچا ہونا: حضرت اسماعیل علی نبینا و علیہ السّلام اپنے وعدے کے سچے اور پکے تھے ۔قراٰن
پاک میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور کتاب میں
اِسماعیل کو یاد کرو، بے شک وہ وعدے کا سچّا تھا۔ (پ16، مریم:54)
(2) آپ علیہ السّلام کا شمار انبیا ورسل علیہم السلام میں ہوتا
ہے ،قراٰنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور
رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا۔ (پ16، مریم:54)
(3)صبر کرنے والے:آپ علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام صبر و تحمل کے پیکر تھے۔ جیسا کہ اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ
اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے
تھے۔ (پ17، الانبیآء:85)
(4) بہترین بندہ: آپ علیہ السّلام مخلوق میں ایک بہترین فرد ہیں۔جیسا کہ ارشاد ہوا : ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا
الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل
کو اور سب اچھے ہیں ۔(پ23، صٓ:48)
(5) آپ علیہ السّلام
اپنے رب کریم کے ہاں بڑے پسندیدہ بندے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ
مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور
اپنے رب کو پسند تھا۔(پ16، مریم:55)
اللہ پاک ہمیں آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی سیرت مبارکہ کو
اپنانے کی توفیق رفیق عطا فرمائے ۔اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جنت الفردوس میں
داخلہ نصیب فرمائے ۔اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

حضرت اسماعیل علیہ السّلام دعائے ابراہیم علیہ السّلام ہیں۔
چنانچہ قراٰنِ کریم میں ارشاد ہے: ﴿ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰۰)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے میرے رب! مجھے نیک اولاد عطا فرما۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:100) یہ دعا
قبول ہوئی اور اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو ایک بردبار لڑکے کی
خوشخبری عطا فرمائی۔ چنانچہ قراٰن حکیم میں ارشاد ہے: ﴿فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ
حَلِیْمٍ(۱۰۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری سنائی۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:101)
حضرت اسماعیل علیہ السّلام کا لقب "ذبیح اللہ" ہے
آپ کے لقب ذبیح اللہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے آپ کے والدِ گرامی حضرت
ابراہیم کو حکم دیا کہ وہ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو ذبح کریں حضرت اسماعیل علیہ
السّلام نے حکم باری سنتے ہی خود کو قربانی کے لیے پیش کردیا۔ حضرت اسماعیل علیہ
السّلام کو رب کریم نے انتہائی اعلی و عمدہ اوصافِ جمیلہ عطا فرمائے ہیں۔ قراٰنِ حکیم کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں:۔
(1)آپ علیہ
السّلام وعدے کے سچے اور غیب کی خبریں بتانے والے تھے۔ چنانچہ قراٰنِ کریم میں ارشاد ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا
نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے
کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول
تھا۔ (پ16، مریم: 54)یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام
علیہم السّلام وعدے کے سچے ہی ہوتے ہیں مگر آپ علیہ السّلام کا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ
السّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے،
چنانچہ ایک مرتبہ آپ علیہ السّلام کو کوئی شخص کہہ گیا جب تک میں نہیں آتا آپ یہیں ٹھہریں تو آپ علیہ السّلام اس کے انتظار میں 3دن تک وہیں ٹھہرے رہے۔ اسی طرح (جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام آپ کو اللہ پاک کے حکم سے ذبح کرنے لگے تو) ذبح کے
وقت آپ علیہ السّلام نے صبر کرنے کا وعدہ فرمایا تھا، اس وعدے کو جس شان سے پورا
فرمایا اُس کی مثال نہیں ملتی۔( صراط
الجنان)
(2) آپ علیہ
السّلام صابرین کے اعلیٰ ترین گروہ میں سے تھے۔ چنانچہ قراٰن مجید میں ارشاد باری
ہے: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ
وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر کرنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85) آپ علیہ السّلام کے صبر کے واقعات میں غیر آباد بیابان
علاقے میں ٹھرنے اور قربانی کے لیے خود کو پیش کرنے کا واقعہ سر فہرست ہے۔
(3)آپ علیہ
السّلام کی ایک اعلیٰ صفت یہ بھی تھی کہ پہلے اپنے گھر کو دین کی تبلیغ کرتے تھے۔ چنانچہ
قراٰنِ کریم میں ارشاد باری ہے: ﴿وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ
الزَّكٰوةِ۪-وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا اور اپنے رب کو پسند تھا۔(پ 16، مریم : 55)
(4) آپ علیہ السّلام کا سب سے اعلی وصف یہ ہے کہ آپ اپنے رب کی
بارگاہ میں پسندیدہ بندے تھے۔ چنانچہ قراٰنِ کریم میں فرمانِ باری ہے: ﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے رب
کے ہاں بڑا پسندیدہ بندہ تھا۔ (پ16، مریم:55)
مولی کریم کی
بارگاہ اقدس میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے پیارے انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت
پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں مدنی مذاکرے
کا سلسلہ، امیر اہلسنت نے مدنی پھول ارشاد
فرمائے

19
اگست 2023ء بروز ہفتہ عالمی مدنی مرکز فیضانِ
مدینہ کراچی میں مدنی مذاکرے کا انعقاد کیا گیا۔
معمول
کے مطابق تلاوتِ قراٰن و نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کے
بعد ملک و بیرونِ ملک کے عاشقانِ رسول کی جانب سے امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ
مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری ضیائی دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ سے مختلف سولات ہوئے جن کے آپ دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے علم و حکمت بھرے جوابات ارشاد فرمائے۔ان میں سے
بعض درج ذیل ہیں:
سوال: طبیعت میں ٹھہراؤ کس
طرح لایاجائے؟
جواب: غصیلے شخص میں جذباتی پن زیادہ ہوتاہے یا زیادہ عمرہونے سے بھی بندہ
غصیلا ہوجاتاہے ۔اس کا حل یہ ہے کہ غصے کو باتکلف کنٹرول کرے،دینی کتابوں کا
مطالعہ کرکے غصے کے نقصانات جاننے کی کوشش
کی جائے۔غصے پر قابو پانےکے فضائل پر نظررکھی جائے ۔ جذباتی اندازکی وجہ سےپہلے جو نقصانات ہوئے ہوں تو انہیں یاد کرکے اپنے
اندازکو کنٹرول کیا جاسکتاہے ۔بعض اوقات
جلدبازی کی وجہ سے بھی غصہ آجاتاہے تو کوشش کرکے اسے بھی کنٹرول کیا جائے۔
سوال: نیکی کی دعوت کیسے دی جائے؟
جواب:حکمتِ عملی کے ساتھ ،سامنے والے کی نفسیات کے مطابق
نیکی کی دعوت دی جائے؟
سوال: کچھ لوگ صفرکے مہینے کو منحوس سمجھتے ہیں
،اس کی کیا وجہ کیا ہے؟
جواب:
اسلام سے پہلے بھی لوگ اسے منحوس سمجھتے تھے،اسلام نے اسے منحوس کہنے، سمجھنے سےمنع کیاہے ۔مکتبۃ المدینہ
کی کتاب بدشُگونی پڑھئے ۔ماہِ
صفر ماہِ خیرہے ،اس میں کئی اولیائے
کرام کے عُرس مبارک ہوتے ہیں ۔اِمامِ اہلسنت،سیدی اعلیٰ حضرت اما م احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا
عرس بھی اسی ماہِ صفرمیں ہوتاہے ۔اس لیے دعوت ِ اسلامی والے اسے ماہِ رضا بھی کہتے ہیں۔
سوال: کیااسلامی
مہینوں میں بھی کوئی مہینا 31دن کا ہوتاہے؟
جواب:نہیں،اسلامی
مہینا 29 یا 30دن کا ہوتاہے۔
سوال: کون سی دعائیں افضل ہیں؟
جواب: ماثورہ دعائیں یعنی وہ دعائیں جوقرآن وحدیث
میں آئی ہیں، وہ دعائیں پڑھنا
افضل ہے۔
سوال:کیا
رات کو برتن دھو کر سونا چاہئے؟
جواب: حدیث پاک ہے: برتنوں کا
دُھلا رکھنا اور صحن کا صاف رکھنا غنا کا باعث ہے۔ (طیبی، کنزالعمال ص:277) رات کو برتن دھونے کی تاکیدپڑھی نہیں۔
سوال : آپ کو اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ
علیہ کا تعارف کب ہوا؟
جواب : میں
چھوٹی عمر میں نعتوں میں” رضا“ تخلص سنتاتھا تو یوں تعارف
ہوا۔ ایک شخص نے آپ کا نام لے کر رحمۃ اللہ علیہ
کہاتو میں نے اس سے پوچھاکہ کیا یہ کوئی بزرگ تھے ؟تو انہوں نے مجھےاعلیٰ حضرت کا تعارف کروایا۔
سوال: اِس ہفتے کارِسالہ ” امیرِ
اہلِ سنت سے تلاوتِ قرآ ن کے بارے میں
سوال جواب “ پڑھنے یاسُننے والوں کوجانشین امیراہل سنت نے کیا
دُعا دی؟
جواب: یا اللہ پاک !جوکوئی 14صفحات کا رسالہ ’’ امیرِ اہلِ سنت سے تلاوتِ قرآ ن کے بارے میں سوال جواب ‘‘پڑھ یا سُن لے اسے قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے اور اس
پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور اس کی بے حساب مغفِرت فرما۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتم النَّبیّن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔
محمد فیضان عطاری (درجہ سادسہ جامعۃُ المدينہ فیضان میلاد
کامرہ اٹک پاکستان)

حضرت آدم علیہ السّلام وہ پہلی ہستی ہیں جنہیں اللہ پاک نے
نبوت کا عظیم منصب عطا فرمایا، اور انہی سے رفتہ رفتہ انسانوں کی تعداد میں اضافہ
فرمایا، جہاں انسانوں کی اس زمین پر آمد ہوئی وہیں شیطان لعین کی کوششیں بھی رنگ
لانا شروع ہوئیں تو لوگ اس کے بہکاؤں اور وسوسوں کا شکار ہو کر گناہ اور گمراہی
میں مبتلا ہو گئے یہاں تک کہ خالقِ حقیقی اور معبود برحق کی بندگی کو چھوڑ کر اپنے
ہی ہاتھوں سے بتوں کو تراش کر ان کی عبادت کر کے خدا کا شریک اور اپنا معبود بنا
لیا ۔ کفر و شرک ، گمراہی اور بد عملی کے اس ماحول میں لوگوں کو اللہ کی وحدانیت
پر ایمان لانے ، بتوں کی عبادت سے نکال کر ایک اللہ کی طرف بلانے کے لیے اللہ نے
آدم علیہ السّلام کی اولاد میں اپنے مقرب بندو کو نبوت و رسالت کا عظیم الشان منصب عطا فرما کر انسانوں کی طرف بھیجا، انبیائے
کرام اللہ پاک کی طرف سے وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کو اللہ پاک کا قرب خاص حاصل عطا ہوتا ہے ۔ جہاں یہ حضرات تبلیغِ دین
کرتے ہیں وہیں یہ ہستیاں تقرب الی اللہ کا
بھی ایک ذریعہ ہوتے ہیں ان ہی ہستیوں میں ایک عظیم نبی حضرت اسماعیل علیہ السّلام
ہیں جنہیں اللہ پاک نے بے شمار اوصاف عطا فرمائے ہیں ان ہی اوصاف میں سے کچھ اوصاف
قراٰنِ کریم میں بھی بیان ہوئے چنانچہ
(1)عقلمند اور بردبار :اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں آپ علیہ السّلام کو آپ کی ولادت سے قبل ہی عقل
مند اور بردبار فرمایا ۔ قراٰن پاک میں ہے: ﴿فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ(۱۰۱)﴾ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: تو ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری سنائی۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:101)
(2)وعدے کے سچے اور غیب کی خبریں دینے والے :آپ علیہ السّلام وعدہ پورا کرنے والے اور پوشیدہ یعنی غیب
کی خبریں دینے والے تھے۔ ﴿وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا
نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے
کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول
تھا۔ (پ16، مریم: 54)
(3)مخلوق میں سب سے بہترین فرد :آپ علیہ السّلام مخلوق میں ایک بہترین فرد تھے۔ چنانچہ ارشاد
باری ہے : ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ
وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد
کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔(پ23، صٓ:48)
(4)بارگاہ الہٰی میں بڑے پسندیدہ : آپ علیہ السّلام صبر و استقلال ، اطاعت و اعمال ، احوال و
خصال کی وجہ سے بارگاہ خداوندی میں بڑے پسندیدہ بندے تھے۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے رب
کے ہاں بڑا پسندیدہ بندہ تھا۔(پ16، مریم:55)
(5)بہت صبر کرنے والے : آپ علیہ السّلام صابرین کے اعلی ترین گروہ میں داخل تھے
۔چنانچہ ارشاد باری ہے: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ
وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر کرنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85)
(6)جہان
والوں سے افضل : آپ علیہ السّلام کو آپ کے زمانے والوں میں سے سب پر فضیلت
عطا کی گئی ۔چنانچہ ارشاد باری ہے:﴿وَ
اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور
اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت
دی۔ (پ7،الانعام:86)
(7)اللہ پاک کی رحمت خاص اور قرب خاص میں
داخل :اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو اپنے رحمت خاص میں داخل اور
قربِ خاص کے لائق بندو میں شامل فرمایا۔چنانچہ ارشاد باری ہے: ﴿وَ
اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل فرمایا، بیشک وہ ہمارے قربِ خاص کے لائق
لوگوں میں سے ہیں ۔(پ17، الانبیآء:86)یہی انبیائے کرام ہی تھے جنہوں نے اللہ پاک کی رضا والے کام کیے اور دنیا و
آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل کی ۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی ان کی سیرت
کا مطالعہ کریں اور ان اوصافِ جمیلہ کو اپنائیں جن کے ذریعے اللہ ہمیں بھی دنیا و
آخرت میں کامیابی عطا فرمائے گا۔ اٰمین بجاہ
النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد جنید عطاری (درجہ خامسہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ عطار اٹک پاکستان)

اللہ پاک نے اپنی قدرتِ کاملہ سے انبیائے کرام علیہم
السّلام کو مبعوث فرما کر انسانیت پر احسانِ عظیم فرمایا جنہوں نے آکر کفر و شرک
کی تاریکیوں کو توحید کے اجالوں میں تبدیل فرمایا انہی روشن چراغوں میں سے ایک نہایت ہی عظیم چراغ حضرت اسماعیل علیہ
السّلام ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے فرزند ہیں۔ یہ ہی وہ صاحبِ کمال نبی
ہیں جن کی اولادِ پاک سے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔ اللہ
پاک نے دیگر انبیائے کرام علیہم السّلام کے ساتھ ساتھ آپ کی صفات کو قراٰنِ پاک میں بیان فرمایا ۔چند
ایک یہاں ملاحظہ ہو۔
(2،1)سچے وعدے والے،رسول ونبی: ﴿وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا
نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور
کتاب میں اِسماعیل کو یاد کرو، بے شک وہ وعدے کا سچّا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں
بتاتا۔ (پ16، مریم:54)اس آیت میں حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے دو وصف بیان کئے
گئے۔ آپ علیہ السّلام وعدے کے سچے تھے ۔ یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم
السّلام وعدے کے سچے ہی ہوتے ہیں۔ مگر آپ
علیہ السّلام کا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام اس وصف
میں بہت زیادہ ممتاز تھے، چنانچہ ایک
مرتبہ آپ علیہ السّلام کو کوئی شخص کہہ گیا جب تک میں نہیں آتا آپ یہیں ٹھہریں، تو آپ علیہ السّلام اس کے انتظار میں 3دن تک وہیں ٹھہرے رہے۔ اسی طرح (جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام آپ کو اللہ پاک کے حکم سے ذبح کرنے لگے تو) ذبح کے
وقت آپ علیہ السّلام نے صبر کرنے کا وعدہ فرمایا تھا، اس وعدے کو جس شان سے پورا
فرمایا اُس کی مثال نہیں ملتی۔( خازن،
مریم، تحت الآیۃ: 54 ،3/238)آپ علیہ
السّلام غیب کی خبریں دینے والے رسول تھے۔
آپ علیہ السّلام کو رسول اور نبی فرمایا گیا ہے، اس میں بنی اسرائیل کے ان لوگوں کی تردید کرنا مقصود تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ
نبوت صرف حضرت اسحاق علیہ السّلام کے لیے ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام نبی
نہیں ہیں ۔ (صراط الجنان، 6/121)
(3)آپ کے ذکر کی ترغیب: اللہ پاک آپ کے ذکر کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرماتا
ہے: ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا
الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل
کو اور سب اچھے ہیں ۔(پ23، صٓ:48)اے حبیب! صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، آپ حضرت اسماعیل (حضرت یَسَع اور حضرت ذو الکِفل) علیہم
السّلام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کو تسلی حاصل ہو۔ اور ان کی پاک خصلتوں سے لوگ نیکیوں کا ذوق و شوق حاصل کریں اور وہ سب بہترین لوگ ہیں ۔(صراط الجنان، 8/409)اس
سے معلوم ہوا کہ صالحین کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی ان کا ذکر باعثِ سعادت و برکت ہے۔
(4) صابر ہونا: آپ کے عظیم صبر کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ
مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس
ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85) ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم،
آپ حضرت اسماعیل (حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل) علیہم السّلام کو یاد کریں ، وہ
سب عبادات کی مشقتوں اور آفات و بَلِیّات
کو برداشت کرنے پر کامل صبر کرنے والے تھے ۔ حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے اپنے
ذبح کئے جانے کے وقت صبر کیا، غیرآباد بیابان میں ٹھہرنے پر صبر کیا اور اس کے صِلے میں اللہ پاک نے انہیں یہ مقام عطا کیا کہ ان کی نسل سے اپنے حبیب اور
آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ظاہر فرمایا۔
اس سے معلوم ہوا
کہ جو شخص اللہ پاک کی اطاعت کرنے اور اس
کی نافرمانی سے بچنے پر صبر کرے ، یونہی جو شخص اپنے مال، اہل اور جان میں آنے والی کسی مصیبت پر صبر کرے تو وہ اپنے صبر
کی مقدار کے مطابق نعمت، رتبہ اور مقام پاتا ہے اور اسی حساب سے و ہ اللہ پاک کی رحمت کا حق دار ہوتا ہے۔ (صراط
الجنان، 6/364) اللہ پاک ہمیں انبیا کا فیضان نصیب فرمائے اور انکی سیرت
سے درس حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم

آپ علیہ السّلام کا نام مبارک "اسماعیل" ہے، اپ علیہ
السّلام کا لقب ذبیح اللہ ہے ، کیونکہ اللہ پاک نے آپ کے والد حضرت ابراہیم علیہ
السّلام کو انہیں ذبح کرنے کا حکم دیا تھا اور آپ علیہ السّلام نے حکم الہی سن کر
خود کو قربانی کے لیے پیش کر دیا تھا۔ اللہ پاک نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو
بہت سارے اوصاف سے نوازا ہے ، جن میں سے 5
یہاں ذکر کیے جاتے ہیں۔
(1،2)وعدے کے سچے اور غیب کی خبریں دینے والے
: قراٰن پاک میں آپ علیہ السّلام کے ان اوصاف کا ذکر ان الفاظ
میں ہے ۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ
صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا
اور غیب کی خبریں دینے والا رسول تھا۔
(پ16، مریم: 54)یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السّلام وعدے کے سچے ہی
ہوتے ہیں مگر آپ علیہ السّلام کا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ
السّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے۔
( 3)مخلوق میں ایک بہترین فرد: ارشاد باری ہے : ﴿وَ
اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ
الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد
کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔(پ23، صٓ:48)
(4)اللہ پاک کی بارگاہ میں پسندیدہ بندے: آپ علیہ السّلام اپنے اعمال و صبر کی وجہ سے بارگاہ الہی کے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔ اللہ پاک نے
فرمایا :﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے رب
کے ہاں بڑا پسندیدہ بندہ تھا۔(پ16، مریم:55)
(5) صبر کرنے والے : آپ علیہ السّلام صبر کرنے والوں کے اعلیٰ ترین گروہ میں داخل تھے۔اللہ پاک نے
ارشاد فرمایا : ﴿وَ
اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر کرنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85)
آپ علیہ السّلام کے صبر کرنے والے واقعات میں سے دو
نمایاں واقعات یہ ہیں۔ (1) اللہ پاک کے
حکم پر خود کو قربانی کے لیے پیش فرمانا۔ (2) بغیر پانی اور سازو سامان کے مکہ میں رہنا۔(سیرت الابنیاء،ص347)اللہ
پاک سے دعا ہے کہ آپ علیہ السّلام کی سیرت
پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔اٰمین بجاہ
النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد حسیب عطاری(درجہ
ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضان میلاد کامرہ تحصیل حضرو ضلع اٹک پاکستان)

قراٰنِ مجید میں 26 انبیائے کرام علیہم السّلام کا
ذکر صراحتاً آیا جس میں سے ایک حضرت اسماعیل علیہ السّلام بھی ہیں۔ آپ علیہ
السّلام حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بڑے فرزند ہیں۔ آپ علیہ
السّلام انتہائی اعلی و عمدہ
اوصاف کے مالک تھے آپ کے کچھ اوصاف کا تذکرہ قراٰنِ مجید میں بھی آیا۔
(1) بہترین فرد: آپ علیہ السّلام مخلوق میں ایک بہترین فرد تھے، اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے: ﴿وَ اذْكُرْ
اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد
کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔(پ23، صٓ:48)
(2) پسندیدہ بندہ:آپ علیہ السّلام اپنی طاعت و اعمال، صبر و استقلال اور احوال و
خصال کی وجہ سے بارگاہ الہی کے پسندیدہ بندے تھے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے رب
کے ہاں بڑا پسندیدہ بندہ تھا۔(پ16، مریم:55)
(3، 4) سچے اور غیب کی خبریں دینے والے: آپ علیہ السّلام وعدے کے سچے اور غیب کی خبریں دینے والے رسول تھے، اللہ پاک قراٰنِ
کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ
صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا
اور غیب کی خبریں دینے والا رسول تھا۔
(پ16، مریم: 54)تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ: یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام
علیہم السّلام وعدے کے سچے ہی
ہوتے ہیں مگر آپ علیہ السّلام کا
خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام اس
وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے مثلاً والد صاحب سے وعدہ کیا کہ آپ مجھے حکمِ خداوندی
پر ذبح کریں آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور پھر آپ علیہ السّلام نے اس وعدے کو پورا کیا۔ ( تفسیر صراط الجنان ،6/121)
(5) صبر کرنے والے: آپ علیہ السّلام صبر کرنے والوں
میں سے تھے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ
مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب
صبر کرنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85) مفسرین فرماتے
ہیں کہ حضرت اسماعیل علیہ السّلام عبادات
کی مشقتوں اور آفات و بلیات کو برداشت کرنے پر کامل صبر کرنے والے تھے۔
انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت، اوصاف و کمالات کو جاننے کے لیے
مکتبۃ المدینہ کی شائع کردہ تصنیف "سیرت الانبیاء " کا مطالعہ فرمائیں۔ اللہ پاک
سے دعا ہے کہ ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت کو اپنانے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ابو عبید دانیال سہیل عطاری(درجہ سابعہ مرکزی جامعۃُ المدينہ فیضان عطار ، اٹک پاکستان )

نبی اور رسول کی تعریف : "نبی" اس بشر ( یعنی انسان ) کو کہتے ہیں جس کی طرف رب العالمین نے مخلوق کی
ہدایت کے لئے وحی بھیجی ہو۔ اور ان نبیوں میں سے جو نئی شریعت "اسلامی
قانون اور رب العالمین کے احکام" لے کر آئے ، اسے "رسول" کہتے
ہیں۔رب العالمین نے مخلوق کی ہدایت کے لیے کم و بیش 1لاکھ 24ہزار انبیائے کرام علیہم
السّلام بھیجے ، جن میں بعض بعض سے بلند درجے پر فائز تھے اور ان تمام انبیا کے
سردار ہمارے پیارے آخری نبی حضرت سیدنا محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ہیں۔ محبوب کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جدِّ اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ
السّلام کے بڑے فرزند اور حضرت ہاجرہ کے بطن اطہر سے پیدا ہونے والے بیٹے
"حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السّلام" ہیں۔
حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے ایک چھوٹے بھائی حضرت اسحاق علیہ
السّلام تھے۔ مگر زیادہ خصوصیات و واقعات کی وجہ سے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کا
ذکر خیر کثرت سے کیا جاتا ہے۔آپ علیہ السّلام کا قراٰن مجید میں مختصر تذکرہ متعدد
سورتوں میں موجود ہے مگر کچھ احوال کا تفصیلی ذکر درج ذیل سورتوں 6 میں موجود ہے۔(1)۔
سورہ بقرہ ، آیت 125،127۔ (2)۔ سورہ انعام ، آیت 86 ۔(3)۔ سورہ مریم ، آیت 54،55 ۔(4)۔
سورہ انبیاء ، آیت 85،86 ۔(5)۔ سورہ صافات ، آیت 101،107 ۔(6)۔ سورہ صٓ ، آیت 48 ۔قراٰن
مجید نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے اوصاف کو ذکر فرمایا جن میں سے 5درج ذیل
ہیں۔
(2،1)حضرت
اسماعیل علیہ السّلام وعدے کے سچے اور غیب کی خبریں دینے والے رسول تھے۔قراٰنِ
مجید میں ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا
نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے
کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول
تھا۔ (پ16، مریم: 54) نوٹ: یاد رکھیں انبیائے کرام
علیہم السّلام کے وعدے سچے ہی ہوتے ہیں مگر آپ کا خصوصی ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ
آپ علیہ السّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے۔ جب آپ کے والد حضرت ابراہیم علیہ
السّلام کو حکم ہوا کہ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو ذبح کریں ، تو اس وقت حضرت
ابراہیم علیہ السّلام نے صبر کرنے کا وعدہ کیا اور پھر ایسا صبر کیا جس کی مثال
نہیں ملتی۔
(3)حضرت اسماعیل علیہ
السّلام مخلوق میں ایک بہترین فرد تھے۔ قراٰنِ مجید میں ارشاد باری ہے:﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ
كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔(پ23، صٓ:48)
(4)حضرت
اسماعیل علیہ السّلام اپنی طاعت و اعمال ، صبر و استقلال اور احوال و خصال کی وجہ
سے بارگاہ الٰہی کے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔قراٰن مجید میں ارشاد باری ہے : ﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے رب
کے ہاں بڑا پسندیدہ بندہ تھا۔(پ16، مریم:55)
(5)حضرت
اسماعیل علیہ السّلام صابرین کے اعلیٰ ترین گروہ میں داخل تھے۔ قراٰن مجید میں ارشاد
باری ہے: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ
وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر کرنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85) حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی ان صفات میں ہمارے لیے بہت
درس ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے صبر
اور پختہ وعدے نے ہمیں بتلایا کہ دنیا کی کوئی بھی مشکل آن پہنچے ہمیں ہر وقت صبر
کرنا ہے، کرنا ہوگا اور ہر حال میں اپنے وعدے کو مکمل کرنا ہوگا ، اسی میں عافیت
ہے اور یہی عمل حصول برکت کا ذریعہ ہے۔ اور اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے ، اور
اپنے اعمال کو درست کرنا چاہیے۔

اللہ پاک نے مخلوق کو پیدا فرمایا اور مخلوق کو کفر و شرک ،
گمراہی اور بد عملی سے روکنے ، ایمان لانے
پر جنت کی بشارت دینے اور کفر و انکار پر عذاب کی وعید سنانے کے لیے اپنے مقرب
بندے ( یعنی انبیائے کرام ) کو نبوت ورسالت کا منصب عطا فرما کر امت کی طرف بھیجا
اور انبیائے کرام اپنے رب کے حکم کی فرمانبرداری کرتے ہوئے لوگوں کو راہِ ہدایت پر
لانے کی کوشش کرتے رہے انہی انبیائے کرام میں سے حضرت اسماعیل علیہ السّلام بھی
ہیں۔ آپ کے بے شمار اوصاف ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر کیا جائے گا۔
(1)وعدے کے سچے :آپ علیہ السّلام وعدے کے سچے اور غیب کی خبریں دینے والے رسول تھے۔ جیسا کہ قراٰنِ کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
﴿وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا
نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے
کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول
تھا۔ (پ16، مریم: 54)
(2)پسندیدہ
بندے : آپ علیہ السّلام اپنی طاعت و اعمال ، صبر و استقلال اور
احوال و خصال کی وجہ سے بارگاہ الہی کے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔ جیسا کہ قراٰنِ کریم
میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ
مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
وہ اپنے رب کے ہاں بڑا پسندیدہ بندہ تھا۔(پ16، مریم:55)
(3)صبر کرنے والے : آپ علیہ السّلام صابرین کے اعلی ترین گروہ میں داخل تھے۔ جیسا کہ قراٰنِ کریم میں اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا۔﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ
وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر کرنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85)
(4)بہترین
فرد : آپ علیہ السّلام مخلوق میں ایک بہترین فرد تھے۔ جیسا کہ قراٰنِ
کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ
اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ
الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد
کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔(پ23، صٓ:48)
(5)زمانے والوں پر فضیلت : آپ علیہ السّلام کو آپ کے زمانے میں تمام جہان والوں پر
فضیلت عطا کی۔ جیسا کہ قراٰنِ کریم میں اللہ پاک
نے ارشاد فرمایا۔﴿وَ
اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى
الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور
اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت
دی۔ (پ7،الانعام:86)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں انبیائے کرام کی سیرت کو اپنانے
اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد عمیر حمزہ عطاری(درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی پاکستان)

اللہ پاک نے مخلوق کو پیدا فرمایا اور تمام مخلوقات میں
انسانوں اور جنوں کو مکلف بنایا اور ان کی راہ نمائی کے لیے انبیا و رسل بھیجے ان
انبیا و رسل نے ان کی راہ نمائی کی ۔اللہ پاک نے
ان برگزیدہ ہستوں کو بہت بڑے مقام و مرتبے عطا فرمائے ان میں سے 26 انبیا
علیہم السّلام کا نام صراحتاً قراٰن مجید میں مذکور ہے جن میں ایک نبی حضرت
اسماعیل علیہ السّلام بھی ہیں یہ نبی بھی ہیں اور رسول بھی ۔قراٰنِ پاک کی بہت سی
آیات میں ان کا ذکر موجود ہے ان کی شان میں بہت سی آیات نازل ہوئی جن میں سے بعض
میں ان کے اوصاف کا تذکرہ بھی ہے ویسے تو بہت سی آیات ایسی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :
(1)آپ کے
بارے میں فرمایا گیا آپ وعدے کے سچے ہیں
(2)آپ غیب کی خبریں بتانے والے رسول ہیں۔ چنانچہ قراٰنِ
کریم میں ارشاد ہوا : ﴿وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا
نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور
کتاب میں اِسماعیل کو یاد کرو، بے شک وہ وعدے کا سچّا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں
بتاتا۔ (پ16، مریم:54)آپ کیسے وعدے کے سچے تھے اس کا
اندازہ اس واقعے سے لگائیے کہ ایک مرتبہ
آپ علیہ السّلام کو کوئی شخص کہہ گیا جب تک میں نہیں آتا آپ یہیں ٹھہریں تو آپ علیہ السّلام اس کے انتظار میں 3دن تک وہیں ٹھہرے رہے۔(صراط
الجنان پارہ16 سورہ مریم تحت آیت نمبر 58)
(3)حضرت اسماعیل علیہ
السّلام مخلوق میں ایک بہترین آدمی تھے ۔قراٰنِ مجید میں ارشاد ہوا: ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا
الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل
کو اور سب اچھے ہیں ۔(پ23، صٓ:48) اس آیت میں اللہ
پاک نے آپ کا تذکرہ اچھے لوگوں میں کیا ۔
(4) آپ علیہ السّلام اپنے اوصاف کی وجہ سے اپنے رب کے پسندیدہ
بندے تھے ۔ قراٰن مجید میں ارشاد ہوا: ﴿وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ
الزَّكٰوةِ۪-وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا اور اپنے رب کو پسند تھا۔(پ 16، مریم : 55)
جن کی طرف آپ علیہ السّلام مبعوث تھے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم
دیتے تھے اور آپ علیہ السّلام اپنی طاعت و اَعمال ،صبر و اِستقلال اور اَحوال و
خِصال کی وجہ سے اللہ پاک کی بارگاہ کے
بڑے پسندیدہ بندے تھے۔(صراط الجنان پارہ 16سورہ مریم تحت آیت نمبر 55)
(5)آپ کے اوصاف میں
نمایاں پہلو آپ علیہ السّلام کا صبر بھی ہے اسی وجہ سے اللہ پاک نے قراٰن پاک میں
آپ علیہ السّلام کا ذکر صبر کرنے والوں کے گروہ میں کیا ہے ۔ قراٰن مجید میں ارشاد
ہوا : ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ
وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ
رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے
تھے اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں
ہیں۔ (پ17، الانبیآء: 86،85) حضرت اسماعیل علیہ
السّلام نے اپنے ذبح کئے جانے کے وقت صبر کیا، غیرآباد بیابان میں ٹھہرنے پر صبر کیا اور اس کے صِلے میں اللہ پاک نے انہیں یہ مقام عطا کیا کہ ان کی نسل سے اپنے حبیب اور
آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ظاہر فرمایا۔ (صراط الجنان پارہ 17
سورہ انبیاء تحت آیت نمبر 85 )اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں سیدنا اسماعیل علیہ
السّلام کے فیضان سے حصہ عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم

اللہ پاک نے اس عالم میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے
کرام و رسل عظام کو مبعوث فرمایا تا کہ وہ لوگوں تک اللہ پاک کا پیغام پہنچائیں اور
لوگوں کو اللہ پاک کی طرف بلائیں۔ ان تمام انبیائے کرام و رسل عظام میں سے اللہ کے پانچ نبی ایسے ہیں جن کی شان و
مرتبہ باقی انبیا و رسل سے زیادہ ہے۔ ان حضرات کو ””مرسلین اولوالعزم““ کہتے
ہیں۔ان اولوا العزم مرسلین میں ایک نام حضرت ابراہیم علیہ السّلام ہے۔ جب آپ علیہ
السّلام کی عمر مبارک 99سال ہوئی تو اللہ پاک نے آپ کو بیٹے کی نعمت سے نوازا اور
ان کو بھی اللہ نے نبوت عطا فرمائی۔ جن کا نام حضرت اسماعیل علیہ السّلام ہے۔ اللہ
پاک نے اپنی لاریب کتاب قراٰنِ کریم میں مختلف مقامات پر ان کا ذکر فرمایا ۔اور ان
کے اوصاف بیان فرمائے۔ قراٰن میں مذکور
اسماعیل علیہ السّلام کے اوصاف میں سے چند یہ ہیں۔اللہ پاک نے سورہ مریم کی آیت
نمبر 54 حضرت اسماعیل علیہ کے دو اوصاف کو بیان فرمایا
(1) وعدے کا سچا ہونا: تمام انبیائے کرام علیہم السّلام وعدے کے سچے ہوتے ہیں مگر آپ کا خصوصی ذکر اس
لیے فرمایا کیوں کہ آپ اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک شخص
آپ علیہ السّلام کو یہ کہہ کر گیا کہ جب تک میں نہیں آتا آپ یہیں ٹھہریں۔تو آپ علیہ
السّلام اس کے انتظار میں 3 دن تک وہیں ٹھہرے رہے۔ اسی طرح (جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام آپ کو اللہ پاک کے حکم سے ذبح کرنے لگے تو) ذبح کے
وقت آپ علیہ السّلام نے صبر کرنے کا وعدہ فرمایا تھا، اس وعدے کو جس شان سے پورا
فرمایا اُس کی مثال نہیں ملتی۔
(2) غیب کی خبریں دینے والے رسول: آپ علیہ السّلام کو رسول اور نبی فرمایا گیا۔ اس میں بنی
اسرائیل کے ان لوگوں کی تردید ہے جو یہ سمجھتے تھے کہ نبوت صرف حضرت اسحاق علیہ
السّلام کے لیے ہے اور اسماعیل علیہ السّلام نبی نہیں تھے ۔ اللہ نے ان دو اوصاف
کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا: ﴿وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا
نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور
کتاب میں اِسماعیل کو یاد کرو، بے شک وہ وعدے کا سچّا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں
بتاتا۔ (پ16، مریم:54)
(3) نماز اور زکوة کا حکم دینا: آپ علیہ السّلام اپنے گھر والوں کو اور اپنی قوم جرہم جس کی
طرف آپ علیہ السّلام مبعوث تھے ان کو نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے کا حکم
دیتے تھے ۔
(4)رب کے پسندیدہ بندے: آپ علیہ السّلام اپنی طاعت و اعمال صبر و استقلال اور احوال
و خصال کی وجہ سے اللہ پاک کے پسندیدہ بندے تھے۔ اللہ
نے قراٰنِ کریم میں آپ علیہ السّلام کی ان صفات کو یوں بیان فرمایا: ﴿وَ كَانَ
یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ۪-وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ
مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا اور اپنے رب کو
پسند تھا۔(پ 16، مریم : 55)
(5)صبر والا ہونا: اللہ نے قراٰن میں آپ کا ایک وصف صابر ہونا بھی ذکر فرمایا ۔آپ علیہ السّلام
عبادات کی مشقتوں اور آفات و بلیات کو برداشت کرنے پر کامل صبر کرنے والے تھے ۔آپ علیہ
السّلام نے اپنے ذبح کیے جانے پر کیا۔اس وقت آپ ننھے منے مدنی منے تھے ،اس کے صلے
میں اللہ نے انہیں یہ مقام عطا فرمایا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
ان کی نسل سے ظاہر فرمایا۔ اللہ نے آپ علیہ السّلام کی اس صفت کو یوں بیان فرمایا: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ
وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے
تھے۔ (پ17، الانبیآء:85)

الله پاک نے
انسان کو پیدا فرمایا تو ساتھ ہی اس کی راہ نمائی کے لیے انبیا اور رسل عظام کو
بھی مبعوث فرمایا۔ رسولوں کو نئی شریعت کے ساتھ
جبکہ نبیوں کو پرانی
شریعت پر ہی مبعوث فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السّلام سے لیکر ہمارے پیارے آخری نبی
محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ان میں سے بعض صرف
نبی ہیں اور بعض نبی اور رسول دونوں ہیں۔ انہیں میں سے ایک جلیل القدر نبی و رسول
حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السّلام بھی ہیں۔ آپ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السّلام کے فرزند
ہیں کہ جن کی پیروی کرنے کا حکم خود نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیا
گیا ہے کہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:
﴿ ثُمَّ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ اَنِ
اتَّبِـعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاؕ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(۱۲۳) ﴾ ترجَمۂ
کنزُالایمان: پھر
ہم نے تمہیں وحی بھیجی کہ دین ابراہیم کی پیروی کرو جو ہر باطل سے الگ تھا اور
مشرک نہ تھا۔ (پ14، النحل:123)
حضرت
سیدنا اسماعیل علیہ السّلام کے فضائل کے
واقعات ایسے ہیں کہ وہ ہر خاص و عام کی زبان پر عام ہیں جیسا کہ آپ کی جگہ جنت سے
مینڈھا آنا۔ آپ کے پاؤں کی ایڑی مبارک کی جگہ سے آبِ زم زم جاری ہونا وغیرہ۔ یہاں ہم
آپ علیہ السّلام کی چند ایسی صفات ذکر کریں گے کہ جو قراٰنِ عظیم میں مذکور ہیں:
(1) صادق الوعد: آپ کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ وعدے
کے سچے تھے۔آپ کی یہی صفت اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں یوں ارشاد فرمایا: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ
اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور کتاب میں اِسماعیل کو یاد کرو، بے
شک وہ وعدے کا سچّا تھا ۔ (پ16، مریم:54)
(2) رسول و نبی: ہر رسول نبی ہوتا ہے لیکن ہر نبی کا
رسول ہونا ضروری نہیں لیکن اللہ کریم نے آپ کو دونوں صفات سے متصف فرمایا ہے آپ
نبی بھی ہیں اور رسول بھی ۔ اللہ کریم قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجمہ کنزالایمان: اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا ۔(پ16،
مریم:54)
(3) نماز و زکوٰۃ کی
تلقین: آپ
کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ نماز و زکوٰۃ کی تلقین فرماتے تھے۔ الله کریم قراٰنِ
مجید میں آپ کی اس صفت کے بارے میں ارشاد
فرماتا ہے: ﴿وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ۪- ﴾ ترجمۂ
کنزالایمان: اور اپنے گھر والوں کو نماز
اور زکوٰۃ کا حکم دیتا ۔(پ 16، مریم : 55)
(4)
رب کا پسندیدہ بندہ: آپ علیہ السّلام اپنی طاعت و اَعمال
،صبر و اِستقلال اور اَحوال و خِصال کی وجہ سے اللہ پاک کی بارگاہ کے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔ الله کریم قراٰن مجید میں
ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے
رب کو پسند تھا۔(پ 16، مریم : 55)
(5)
صابر :آپ کی ایک
صفت صبر بھی ہے۔ الله کریم قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا
الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85)
محترم قارئین! ہمیں بھی چاہیے کہ ہم انبیاء
علیہم السّلام اور بزرگانِ
دین کی صفات و خصوصیات کا مطالعہ کریں اور ان کی زندگی کے معمولات کا مطالعہ کر کے ان کو اپنی زندگی میں بھی عمل کرنے
کی کوشش کریں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں انبیا اور اولیا کے نقش قدم پر چلتے
رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم