حضرت اسماعیل علیہ السّلام دعائے ابراہیم علیہ السّلام ہیں۔
چنانچہ قراٰنِ کریم میں ارشاد ہے: ﴿ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰۰)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے میرے رب! مجھے نیک اولاد عطا فرما۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:100) یہ دعا
قبول ہوئی اور اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو ایک بردبار لڑکے کی
خوشخبری عطا فرمائی۔ چنانچہ قراٰن حکیم میں ارشاد ہے: ﴿فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ
حَلِیْمٍ(۱۰۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری سنائی۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:101)
حضرت اسماعیل علیہ السّلام کا لقب "ذبیح اللہ" ہے
آپ کے لقب ذبیح اللہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے آپ کے والدِ گرامی حضرت
ابراہیم کو حکم دیا کہ وہ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو ذبح کریں حضرت اسماعیل علیہ
السّلام نے حکم باری سنتے ہی خود کو قربانی کے لیے پیش کردیا۔ حضرت اسماعیل علیہ
السّلام کو رب کریم نے انتہائی اعلی و عمدہ اوصافِ جمیلہ عطا فرمائے ہیں۔ قراٰنِ حکیم کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں:۔
(1)آپ علیہ
السّلام وعدے کے سچے اور غیب کی خبریں بتانے والے تھے۔ چنانچہ قراٰنِ کریم میں ارشاد ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا
نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے
کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول
تھا۔ (پ16، مریم: 54)یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام
علیہم السّلام وعدے کے سچے ہی ہوتے ہیں مگر آپ علیہ السّلام کا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ
السّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے،
چنانچہ ایک مرتبہ آپ علیہ السّلام کو کوئی شخص کہہ گیا جب تک میں نہیں آتا آپ یہیں ٹھہریں تو آپ علیہ السّلام اس کے انتظار میں 3دن تک وہیں ٹھہرے رہے۔ اسی طرح (جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام آپ کو اللہ پاک کے حکم سے ذبح کرنے لگے تو) ذبح کے
وقت آپ علیہ السّلام نے صبر کرنے کا وعدہ فرمایا تھا، اس وعدے کو جس شان سے پورا
فرمایا اُس کی مثال نہیں ملتی۔( صراط
الجنان)
(2) آپ علیہ
السّلام صابرین کے اعلیٰ ترین گروہ میں سے تھے۔ چنانچہ قراٰن مجید میں ارشاد باری
ہے: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ
وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر کرنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85) آپ علیہ السّلام کے صبر کے واقعات میں غیر آباد بیابان
علاقے میں ٹھرنے اور قربانی کے لیے خود کو پیش کرنے کا واقعہ سر فہرست ہے۔
(3)آپ علیہ
السّلام کی ایک اعلیٰ صفت یہ بھی تھی کہ پہلے اپنے گھر کو دین کی تبلیغ کرتے تھے۔ چنانچہ
قراٰنِ کریم میں ارشاد باری ہے: ﴿وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ
الزَّكٰوةِ۪-وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا اور اپنے رب کو پسند تھا۔(پ 16، مریم : 55)
(4) آپ علیہ السّلام کا سب سے اعلی وصف یہ ہے کہ آپ اپنے رب کی
بارگاہ میں پسندیدہ بندے تھے۔ چنانچہ قراٰنِ کریم میں فرمانِ باری ہے: ﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے رب
کے ہاں بڑا پسندیدہ بندہ تھا۔ (پ16، مریم:55)
مولی کریم کی
بارگاہ اقدس میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے پیارے انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت
پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم