محمد فیضان عطاری (درجہ سادسہ جامعۃُ المدينہ فیضان میلاد
کامرہ اٹک پاکستان)
حضرت آدم علیہ السّلام وہ پہلی ہستی ہیں جنہیں اللہ پاک نے
نبوت کا عظیم منصب عطا فرمایا، اور انہی سے رفتہ رفتہ انسانوں کی تعداد میں اضافہ
فرمایا، جہاں انسانوں کی اس زمین پر آمد ہوئی وہیں شیطان لعین کی کوششیں بھی رنگ
لانا شروع ہوئیں تو لوگ اس کے بہکاؤں اور وسوسوں کا شکار ہو کر گناہ اور گمراہی
میں مبتلا ہو گئے یہاں تک کہ خالقِ حقیقی اور معبود برحق کی بندگی کو چھوڑ کر اپنے
ہی ہاتھوں سے بتوں کو تراش کر ان کی عبادت کر کے خدا کا شریک اور اپنا معبود بنا
لیا ۔ کفر و شرک ، گمراہی اور بد عملی کے اس ماحول میں لوگوں کو اللہ کی وحدانیت
پر ایمان لانے ، بتوں کی عبادت سے نکال کر ایک اللہ کی طرف بلانے کے لیے اللہ نے
آدم علیہ السّلام کی اولاد میں اپنے مقرب بندو کو نبوت و رسالت کا عظیم الشان منصب عطا فرما کر انسانوں کی طرف بھیجا، انبیائے
کرام اللہ پاک کی طرف سے وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کو اللہ پاک کا قرب خاص حاصل عطا ہوتا ہے ۔ جہاں یہ حضرات تبلیغِ دین
کرتے ہیں وہیں یہ ہستیاں تقرب الی اللہ کا
بھی ایک ذریعہ ہوتے ہیں ان ہی ہستیوں میں ایک عظیم نبی حضرت اسماعیل علیہ السّلام
ہیں جنہیں اللہ پاک نے بے شمار اوصاف عطا فرمائے ہیں ان ہی اوصاف میں سے کچھ اوصاف
قراٰنِ کریم میں بھی بیان ہوئے چنانچہ
(1)عقلمند اور بردبار :اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں آپ علیہ السّلام کو آپ کی ولادت سے قبل ہی عقل
مند اور بردبار فرمایا ۔ قراٰن پاک میں ہے: ﴿فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ(۱۰۱)﴾ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: تو ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری سنائی۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:101)
(2)وعدے کے سچے اور غیب کی خبریں دینے والے :آپ علیہ السّلام وعدہ پورا کرنے والے اور پوشیدہ یعنی غیب
کی خبریں دینے والے تھے۔ ﴿وَ اذْكُرْ فِی
الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا
نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے
کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول
تھا۔ (پ16، مریم: 54)
(3)مخلوق میں سب سے بہترین فرد :آپ علیہ السّلام مخلوق میں ایک بہترین فرد تھے۔ چنانچہ ارشاد
باری ہے : ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ
وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد
کرو اور سب بہترین لوگ ہیں۔(پ23، صٓ:48)
(4)بارگاہ الہٰی میں بڑے پسندیدہ : آپ علیہ السّلام صبر و استقلال ، اطاعت و اعمال ، احوال و
خصال کی وجہ سے بارگاہ خداوندی میں بڑے پسندیدہ بندے تھے۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے رب
کے ہاں بڑا پسندیدہ بندہ تھا۔(پ16، مریم:55)
(5)بہت صبر کرنے والے : آپ علیہ السّلام صابرین کے اعلی ترین گروہ میں داخل تھے
۔چنانچہ ارشاد باری ہے: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ
وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر کرنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85)
(6)جہان
والوں سے افضل : آپ علیہ السّلام کو آپ کے زمانے والوں میں سے سب پر فضیلت
عطا کی گئی ۔چنانچہ ارشاد باری ہے:﴿وَ
اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور
اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت
دی۔ (پ7،الانعام:86)
(7)اللہ پاک کی رحمت خاص اور قرب خاص میں
داخل :اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو اپنے رحمت خاص میں داخل اور
قربِ خاص کے لائق بندو میں شامل فرمایا۔چنانچہ ارشاد باری ہے: ﴿وَ
اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل فرمایا، بیشک وہ ہمارے قربِ خاص کے لائق
لوگوں میں سے ہیں ۔(پ17، الانبیآء:86)یہی انبیائے کرام ہی تھے جنہوں نے اللہ پاک کی رضا والے کام کیے اور دنیا و
آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل کی ۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی ان کی سیرت
کا مطالعہ کریں اور ان اوصافِ جمیلہ کو اپنائیں جن کے ذریعے اللہ ہمیں بھی دنیا و
آخرت میں کامیابی عطا فرمائے گا۔ اٰمین بجاہ
النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم