اللہ پاک نے اپنی قدرتِ کاملہ سے انبیائے کرام علیہم السّلام کو مبعوث فرما کر انسانیت پر احسانِ عظیم فرمایا جنہوں نے آکر کفر و شرک کی تاریکیوں کو توحید کے اجالوں میں تبدیل فرمایا انہی روشن چراغوں میں سے  ایک نہایت ہی عظیم چراغ حضرت اسماعیل علیہ السّلام ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے فرزند ہیں۔ یہ ہی وہ صاحبِ کمال نبی ہیں جن کی اولادِ پاک سے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔ اللہ پاک نے دیگر انبیائے کرام علیہم السّلام کے ساتھ ساتھ آپ کی صفات کو قراٰنِ پاک میں بیان فرمایا ۔چند ایک یہاں ملاحظہ ہو۔

(2،1)سچے وعدے والے،رسول ونبی: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور کتاب میں اِسماعیل کو یاد کرو، بے شک وہ وعدے کا سچّا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا۔ (پ16، مریم:54)اس آیت میں حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے دو وصف بیان کئے گئے۔ آپ علیہ السّلام وعدے کے سچے تھے ۔ یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السّلام وعدے کے سچے ہی ہوتے ہیں۔ مگر آپ علیہ السّلام کا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے، چنانچہ ایک مرتبہ آپ علیہ السّلام کو کوئی شخص کہہ گیا جب تک میں نہیں آتا آپ یہیں ٹھہریں، تو آپ علیہ السّلام اس کے انتظار میں 3دن تک وہیں ٹھہرے رہے۔ اسی طرح (جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام آپ کو اللہ پاک کے حکم سے ذبح کرنے لگے تو) ذبح کے وقت آپ علیہ السّلام نے صبر کرنے کا وعدہ فرمایا تھا، اس وعدے کو جس شان سے پورا فرمایا اُس کی مثال نہیں ملتی۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: 54 ،3/238)آپ علیہ السّلام غیب کی خبریں دینے والے رسول تھے۔ آپ علیہ السّلام کو رسول اور نبی فرمایا گیا ہے، اس میں بنی اسرائیل کے ان لوگوں کی تردید کرنا مقصود تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ نبوت صرف حضرت اسحاق علیہ السّلام کے لیے ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام نبی نہیں ہیں ۔ (صراط الجنان، 6/121)

(3)آپ کے ذکر کی ترغیب: اللہ پاک آپ کے ذکر کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اور سب اچھے ہیں ۔(پ23، صٓ:48)اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، آپ حضرت اسماعیل (حضرت یَسَع اور حضرت ذو الکِفل) علیہم السّلام کے فضائل اور ان کے صبر کو یاد کریں تاکہ ان کی سیرت سے آپ کو تسلی حاصل ہو۔ اور ان کی پاک خصلتوں سے لوگ نیکیوں کا ذوق و شوق حاصل کریں اور وہ سب بہترین لوگ ہیں ۔(صراط الجنان، 8/409)اس سے معلوم ہوا کہ صالحین کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی ان کا ذکر باعثِ سعادت و برکت ہے۔

(4) صابر ہونا: آپ کے عظیم صبر کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17، الانبیآء‏:85) ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، آپ حضرت اسماعیل (حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل) علیہم السّلام کو یاد کریں ، وہ سب عبادات کی مشقتوں اور آفات و بَلِیّات کو برداشت کرنے پر کامل صبر کرنے والے تھے ۔ حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے اپنے ذبح کئے جانے کے وقت صبر کیا، غیرآباد بیابان میں ٹھہرنے پر صبر کیا اور اس کے صِلے میں اللہ پاک نے انہیں یہ مقام عطا کیا کہ ان کی نسل سے اپنے حبیب اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ظاہر فرمایا۔

اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ پاک کی اطاعت کرنے اور اس کی نافرمانی سے بچنے پر صبر کرے ، یونہی جو شخص اپنے مال، اہل اور جان میں آنے والی کسی مصیبت پر صبر کرے تو وہ اپنے صبر کی مقدار کے مطابق نعمت، رتبہ اور مقام پاتا ہے اور اسی حساب سے و ہ اللہ پاک کی رحمت کا حق دار ہوتا ہے۔ (صراط الجنان، 6/364) اللہ پاک ہمیں انبیا کا فیضان نصیب فرمائے اور انکی سیرت سے درس حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم