محمد کامران عطاری (درجہ
دورۃ الحدیث جامعۃُ المدینہ فیضان کنزالایمان کراچی پاکستان )
اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں جن انبیائے کرام علیہم السّلام
کا تذکرہ فرمایا ان میں ایک حضرت اسماعیل علیہ السّلام بھی ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ
السّلام حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے فرزند ہیں
اور سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم آپ علیہ السّلام کی اولاد سے ہیں ، ان ہی کی برکت سے زم زم کا
کنواں جاری ہوا، آئیے قراٰنِ پاک سے ان کا مبارک صفات کا ذکر کرتے ہیں۔
(1)وعدے کا سچا ہونا: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ
اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور
کتاب میں اِسماعیل کو یاد کرو، بے شک وہ وعدے کا سچّا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں
بتاتا۔ (پ16، مریم:54)تفسیر صراط الجنان میں ہے : آپ
علیہ السّلام وعدے کے سچے تھے ۔ یاد رہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السّلام وعدے
کے سچے ہی ہوتے ہیں مگر آپ علیہ السّلام
کا خصوصی طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے۔ اسی طرح (جب حضرت ابراہیم
علیہ السّلام آپ کو اللہ پاک کے حکم سے
ذبح کرنے لگے تو) ذبح کے وقت آپ علیہ السّلام نے صبر کرنے کا وعدہ فرمایا تھا، اس
وعدے کو جس شان سے پورا فرمایا اُس کی مثال نہیں ملتی۔
(2) غیب کی خبریں دینے والا رسول:آپ علیہ السّلام غیب کی خبریں دینے والے رسول تھے۔ آپ علیہ السّلام کو رسول اور
نبی فرمایا گیا ہے، اس میں بنی اسرائیل کے
ان لوگوں کی تردید کرنا مقصود تھا جو یہ
سمجھتے تھے کہ نبوت صرف حضرت اسحاق علیہ السّلام کے لیے ہے اور حضرت اسماعیل علیہ
السّلام نبی نہیں ہیں ۔
(3)اپنے گھر
والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دینا اور رب کے پسندیدہ بندے کی سند ملنا۔﴿وَ كَانَ
یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ۪-وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ
مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا اور اپنے رب کو
پسند تھا۔(پ 16، مریم : 55)
(4)صابر بندہ بننا اور رب کے قرب خاص میں
ہونا: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ
وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ
رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے
تھے اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں
ہیں۔ (پ17، الانبیآء: 86،85) تفسیر صراط الجنان: ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، آپ حضرت اسماعیل ، حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل علیہم
السّلام کو یاد کریں ، وہ سب عبادات کی مشقتوں اور آفات و بَلِیّات کو برداشت کرنے پر کامل صبر کرنے والے تھے ۔ حضرت
اسماعیل علیہ السّلام نے اپنے ذبح کئے جانے کے وقت صبر کیا، غیرآباد بیابان میں ٹھہرنے پر صبر کیا اور اس کے صِلے میں اللہ پاک نے انہیں یہ مقام عطا کیا کہ ان کی نسل سے اپنے حبیب اور
آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ظاہر فرمایا۔
(5) انبیائے کرام کے ساتھ تذکرہ: ﴿وَ اذْكُرْ
اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو اسمٰعیل اور یسع اور ذُو الکِفْل کو اور سب اچھے ہیں ۔(پ23، صٓ:48)
(6)رب کے حکم پر ذبح کے لیے تیار ہو جانا: ﴿فَلَمَّا بَلَغَ
مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ
اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰىؕ-قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا
تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۰۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے کہا اے میرے باپ کیجئے
جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:102)تفسیر صراط الجنان: حضرت ابراہیم علیہ
السّلام نے فرمایا: اے میرے بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کررہا
ہوں اور انبیائے کرام علیہم السّلام کے خواب حق ہوتے ہیں اور ان کے افعال اللہ پاک
کے حکم سے ہوا کرتے ہیں ، اب تو دیکھ لے کہ تیری کیا رائے ہے؟ ، چنانچہ اس فرزندِ
اَرْجْمند نے اللہ پاک کی رضا پر فدا ہونے کا کمالِ شوق سے اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
اے میرے باپ! آپ وہی کریں جس کا آپ کو اللہ پاک کی طرف سے حکم دیا جا رہا ہے۔ اگر
اللہ پاک نے چاہا تو عنقریب آپ مجھے ذبح پر صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
(7)خانہ کعبہ کی تعمیر میں حصہ لینا: ﴿وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ-وَ
اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ-وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ
وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ
الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ(۱۲۵)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان :اور یاد کرو جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور
امان بنایا اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ اور ہم نے تاکید
فرمائی ابراہیم و اسماعیل کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف
والوں اور رکوع و سجود والوں کے لئے۔(پ1،البقرۃ:125)
﴿وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ
اِسْمٰعِیْلُؕ-رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ
الْعَلِیْمُ(۱۲۷)﴾ ترجمۂ کنزالایمان:
اور جب اٹھاتا تھا ابراہیم اس گھر کی نیویں اور اسمٰعیل یہ کہتے ہوئے کہ اے رب
ہمارے ہم سے قبول فرما بیشک تو ہی ہے سنتا جانتا۔(پ1،البقرۃ:127) تفسیر صراط الجنان: پہلی مرتبہ خانہ کعبہ کی بنیاد
حضرت آدم علیہ السّلام نے رکھی اور طوفانِ
نوح کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اسی بنیاد پر تعمیر فرمایا۔ یہ تعمیر خاص آپ علیہ السّلام کے دستِ مبارک
سے ہوئی، اس کے لیے پتھر اٹھا کر لانے کی خدمت و سعادت حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام کو میسر ہوئی، دونوں حضرات نے اس وقت یہ دعا کی
کہ یارب ! ، ہماری یہ طاعت و خدمت قبول فرما۔
(8)معصوم ہو کر بھی عاجزی کرنا: ﴿رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً
مُّسْلِمَةً لَّكَ ۪-وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَاۚ-اِنَّكَ اَنْتَ
التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۱۲۸)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے رب ہمارے اور
کر ہمیں تیرے حضور گردن رکھنے والے اور ہماری اولاد میں سے ایک امت تیری
فرمانبردار اور ہمیں ہماری عبادت کے قاعدے بتا اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع
فرما بیشک تو ہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پ1،البقرۃ:128) تفسیر
صراط الجنان: سبحان اللہ ،وہ حضرات اللہ پاک کے مطیع و مخلص بندے تھے پھر بھی یہ
دعا اس لیے مانگ رہے ہیں کہ مزید اطاعت و عبادت و اخلاص اور کمال نصیب ہو۔ حضرت
ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السّلام
معصوم ہیں ،آپ کی طرف سے توبہ تواضع یعنی عاجزی ہے اور اللہ والوں کے لیے تعلیم
ہے۔ خانہ کعبہ اور اس کا قرب قبولیت کا مقام ہے ،یہاں دعا اور توبہ کرنا سنت
ِابراہیمی ہے۔
(9)حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ثمرہ:
﴿اَلْحَمْدُ
لِلّٰهِ الَّذِیْ وَهَبَ لِیْ عَلَى الْكِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَؕ- اِنَّ
رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۹)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: سب خوبیاں اللہ کو جس نے مجھے بڑھاپے میں اسمٰعیل و اسحاق دیئے بیشک میرا رب دعا سننے
والا ہے۔(پ13، ابرٰھیم:39)تفسیر صراط الجنان: حضرت ابراہیم علیہ السّلام
نے ایک اور فرزند کی دعا کی تھی اللہ پاک نے قبول فرمائی تو آپ علیہ السّلام نے اس
کا شکر ادا کیا اور بارگاہِ الٰہی میں عرض
کیا ’’تمام تعریفیں اس اللہ پاک کیلئے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے کے باوجود حضرت اسمٰعیل اور
حضرت اسحاق علیہما السّلام دئیے۔ بیشک میرا رب میری دعا قبول فرمانے والا ہے۔ حضرت
اسماعیل علیہ السّلام کی ولادت اس وقت ہوئی جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی عمر99
برس ہو چکی تھی اور حضرت اسحاق علیہ السّلام کی ولادت اس وقت ہوئی جب حضرت ابراہیم
علیہ السّلام کی عمر مبارک 112 برس ہو چکی تھی۔
(10)قراٰنِ پاک میں فضیلت کا تذکرہ: ﴿وَ
اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى
الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور
اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت
دی۔ (پ7،الانعام:86)
ہمیں بھی چاہیے کہ ہم حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی صفات کا
مطالعہ کرتے ہوئے یہ عہد کریں کہ ہم بھی مشکلات پر صبر کرتے ہوئے رضائے الٰہی پر راضی رہیں گے اور احکامات الٰہی پر عمل
بجا لائیں گے۔اللہ کریم ہمیں اسی طرح قراٰنِ پاک کو سمجھ کر پڑھنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم