محمد اویس منظور عطاری(درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان عبد
اللہ شاہ غازی کلفٹن کراچی پاکستان)
الله پاک نے اولادِ آدم کی ہدایت کے لیے کم و بیش ایک لاکھ
چوبیس ہزار انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا اور ان کو مختلف صفات سے موصوف فرمایا ۔
کسی کو صفی اللہ ، کسی کو خلیل اللہ ،کسی
کو کلیم اللہ ، کسی کو نجی اللہ ،کسی کو روح اللہ تو کسی کو حبیب اللہ فرمایا ۔
انہیں انبیا و رسل میں سے ایک اللہ پاک کے برگزیدہ نبی حضرت سیدنا اسمٰعیل علیہ
الصلاة والسلام بھی ہیں ۔ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں کئی جگہ پر ان کی مختلف صفات
کا ذکر فرمایا ہے ۔ چنانچہ
(1)حلیم ( عقل مند ): حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اللہ پاک سے اولاد
کا سوال کیا تو اللہ پاک نے انہیں آپ کی خوشخبری دی۔ قراٰن میں فرمایا: ﴿فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ(۱۰۱)﴾ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: تو ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری سنائی۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:101)
(2)صابر ( صبر کرنے والے): آپ علیہ السّلام
رضائے رب الانام پر راضی رہنے اور اس پر صبر کرنے والے تھے ۔ اللہ پاک فرماتا ہے
کہ ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ
وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے
تھے۔ (پ17، الانبیآء:85)
(3) کمالِ فرمانبرداری: حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے جب آپ علیہ السّلام کو اپنا خواب (جس میں آپ
انہیں ذبح کر رہے تھے) سنا یا اور ان کی رائے دریافت کی تو حضرت اسمٰعیل نے عرض کی
ابو جان! آپ کو جس کام کا حکم دیا گیا ہے آپ اس پر عمل کریں ان شا اللہ آپ مجھے
صابر پائیں گے۔ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے قراٰنِ پاک ارشاد فرماتا ہے۔ ﴿فَلَمَّا بَلَغَ
مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ
اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰىؕ-قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا
تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۰۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے کہا اے میرے باپ کیجئے
جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:102)۔
(4)اللہ پاک کی راہ میں قربان ہونے والے : جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے فرزند ارجمند کو راہِ
خدا میں قربان کرنے کے لیے میدانِ منی میں ماتھے کے بل لٹایا اور گردن پر چھری
چلائی تو اللہ کی قدرت کہ چھری نے کوئی کام نہ کیا، تو اللہ پاک نے حضرت ابراہیم
کو ندا دی اور فرمایا کہ تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا اور اطاعت و فرمانبرداری کو
کمال تک پہنچا دیا اپنے فرزند کو بے دریغ قربانی کے لیے پیش کر دیا بس اب اتنا کافی
ہے۔ اس سارے واقعے کی تصویر کشی کرتے۔ ہوئے قراٰن پاک فرماتا ہے کہ﴿ فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِۚ(۱۰۳) وَ
نَادَیْنٰهُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰهِیْمُۙ(۱۰۴) قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَاۚ-اِنَّا
كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۰۵) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پر گردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا
حال نہ پوچھ۔ اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا حال نہ
پوچھ اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم بےشک تو نے خواب سچ کر دکھائی ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:103تا105)
(5)صالح: الله پاک حضرت اسمعیل و ادریس و ذوالکفل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ سب
صالحین میں سے تھے۔ چنانچہ: ﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ
مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۸۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے اور
انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17،
الانبیآء: 86،85)
الله پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے
نقش قدم پر چل کر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم