حضرت اسماعیل علیہ السّلام اللہ پاک کے برگزیدہ بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اللہ نے آپ علیہ السّلام کو بڑے کمال اوصاف نوازا ہے۔

(1)وعدے کے سچے : آپ علیہ السّلام وعدے کے بہت سچے تھے آپ جس سے وعدہ فرماتے اُس وعدے کو کمالِ انداز سے پورا فرماتے۔ آپ کے اس وصف کا ذکر اللہ پاک نے قراٰن پاک میں فرمایا ہے۔ چنانچہ الله پاک پارہ 26 سورہ مریم کی آیت 54 میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بیشک وہ وعدے کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول تھا۔ (پ16، مریم: 54)یہاں اللہ پاک نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے دو اوصاف بیان فرمائے۔ ایک یہ کہ آپ وعدے کے سچے تھے دوسرا یہ کہ آپ غیب کی خبریں دیتے تھے۔ کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ حضرت اسماعیل علیہ السّلام وعدے کے سچے تھے اور دیگر انبیائے کرام علیہم السّلام وعدے کے سچے نہیں تھے بلکہ اس وصف کے بیان کرنے میں مقصود یہ تھا کہ آپ علیہ السّلام اس وصف میں بہت زیادہ ممتاز تھے۔ ایک بار ایک شخص نے آپ علیہ السّلام سے عرض کی آپ یہاں ٹھہریں رہیں جب تک میں نہیں آجاتا ، آپ علیہ السّلام تین دن تک اس کے انتظار میں وہیں رہے ۔

(2)غیب کی خبریں : آپ علیہ السّلام کا اس آیت میں دوسرا وصف یہ بیان کیا گیا کہ آپ علیہ السّلام غیب کی خبریں دیتے تھے، ویسے نبی غیب کی خبریں دیتے تھے لیکن حضرت اسماعیل علیہ اسلام کا اس وصف کے ذکر میں ہ مقصود ہے کہ اس میں بنی اسرائیل کے ان لوگوں کا رد کیا جو یہ سمجھتے تھے کہ نبوت صرف حضرت اسحاق علیہ السّلام کے لئے ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام نبی نہیں ہیں۔

(3)پسندیدہ بندہ : آپ علیہ السّلام اللہ پاک کی اطاعت میں اور اعمال میں اور صبر و رضائے الہی کی وجہ سے بڑے پسندیدہ بندے تھے۔ الله کے اللہ پاک قراٰنِ پاک میں پارہ 16 میں سورہ مریم ، آیت 55 میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا(۵۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے رب کے ہاں بڑا پسندیدہ بندہ تھا۔(پ16، مریم:55)

(4)صبر اور رضائے الٰہی: اللہ پاک نے قراٰن میں آپ علیہ السلام کے اس وصف کا ذکر فرمایا۔ سورۃُ الانبیآء‏، آیت 85 پارہ 17 میں ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(۸۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اسمعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17، الانبیآء‏:85) آپ علیہ السّلام اللہ کی رضا میں راضی رہنے والے تھے۔ جب آپ کے والد ماجد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا تھا جس میں حکم ہوا تھا کہ اپنے بیٹے کو قربان کرو تو آپ علیہ السلام اس بھی اللہ کی رضا پر راضی رہے آپ علیہ السّلام نے کہا اپنے والد سے کہ ابا جان آپ کو جس کام کا حکم ہے کر ڈالئے ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔

(5) تعمیرِ کعبہ میں والد کی مدد: آپ علیہ السّلام کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ اپنے والد محترم ابراہیم علیہ السّلام کے ساتھ تعمیرِ کعبہ میں حصہ لیا۔ آپ کو پتھر اٹھانے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ اس کا ذکر اللہ کریم نے قراٰنِ مجید میں کچھ اس طرح فرمایا: ﴿وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُؕ- ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور جب اٹھاتا تھا ابراہیم اس گھر کی نیویں اور اسمٰعیل ۔(پ1،البقرۃ:127)