
ویسے تو ہمیں لڑنا نہیں چاہیے مگر
اگر شرعی عذر نہ ہو تو صلح کروانے میں دیر بھی نہیں کرنی چاہیے۔ صلح کروانا بہت ہی
اجر وثواب کا کام ہے،صلح کروانا ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
سنت ہے۔
قرآن پاک میں بھی اللہ پاک صلح
کروانے کا حکم ارشاد فرماتا ہے، چنانچہ پارہ 26 سورۃُ الحجرات کی آیت نمبر 9 میں
خدائے رحمٰن کا فرمان عالیشان ہے: وَاِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ
الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ- ترجمۂ کنز العرفان: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں
لڑیں تو اُن میں صلح کراؤ۔(پ26، الحجرات:9) ایک اور مقام پر صلح کی ترغیب دلاتے
ہوئے ارشاد فرمایا: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ
فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ
تُرْحَمُوْنَ۠(۱۰) ترجمۂ کنزالایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو
اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔ (پ26، الحجرات:10)
احادیث میں بھی صلح کے بہت فضائل
بیان ہوئے ہیں:
(1)مصطفےٰ جان رحمت صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان فضیلت نشان ہے: کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل
عمل نہ بتاؤں؟ صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم! ضرور بتائیے۔ ارشاد فرمایا:وہ عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح
کرا دینا ہے کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔(ابوداؤد،
4/365، حدیث: 4919 احیاء التراث العربی
بیروت)
(2)حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے، سرکار عالی وقار مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا اللہ پاک اس کا معاملہ درست
فرما دے گا اور اسے ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا
اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔(الترغیب
والترہیب،کتاب الادب، 3/321، حدیث:9، دارالکتب
العلمیۃ بیروت)
صلح کروانے کا طریقہ: صلح کروانے سے پہلے اللہ عزوجل کی
بارگاہ میں کامیابی کی دعا کرے، پھر ان دونوں کو الگ الگ بٹھا کر ان کی شکایات سنے
اور اہم نکات لکھ لے۔ ایک فریق کی بات سن کر کبھی فیصلہ نہ کرے کہ ہو سکتا ہے جس کی
بات سنی وہی غلطی پر ہو، اس طرح دوسرے فریق کی حق تلفی کا قوی امکان ہے، دونوں کی
بات سننے کے بعد انہیں صلح پر آمادہ کرے، اور حضور کی زندگی کے بارے میں بتائے کے
وہ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے، انہوں نے اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف کر دیا۔
صلح کروانے میں کوئی
خلاف واقع بات کہنا:دو
مسلمانوں میں صلح کروانے کے لئے خلاف واقع (جھوٹی) بات کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے
کہ ایک فریق کو کہے کہ وہ تمہیں اچھا جانتا ہے تمہاری تعریف کرتا ہے دوسرے کو بھی
ایسا ہی کہے گا تو بغاوت کم ہو جائے گی اور صلح ہو جائے گی۔ جیسا کہ حضرت سیدتنا
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمان معظم ہے: تین باتوں کے سوا جھوٹ بولنا جائز نہیں،خاوند اپنی بیوی
کو راضی کرنے کے لئے کوئی بات کہے،جنگ کے موقع پر جھوٹ بولنا اور لوگوں کے درمیان
صلح کروانے کے لئے جھوٹ بولنا۔(ترمذی،کتاب الصبر والصلۃ، 3/377، حدیث:1945 دارلفکر
بیروت)
صلح کے بہت سے دنیاوی اور اخروی
فوائد میں سے چند یہ ہیں: دنیاوی فوائد: (1)ذہنی پریشانی سے حفاظت(2)کام لینا آسان
ہو جاتا ہے (3)محبت بڑھتی ہے (4)خاندان امن کے گہوارے بنتے ہیں(5)بےجا کوٹ کچہریوں
کے اخراجات سے بچت وغیرہ۔ اخروی فوائد:(1)اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا کاسبب (2)حقوق العباد کے معاملے میں آسانی ہوگی (3)جنت
کے حصول کا ذریعہ۔
فرمان امیر اہل سنت: کاش کے ہم جوڑنے
والے بنیں توڑنے والے نہیں۔
اللہ کرے کہ اس پر ہم سب عمل کرنے
والے بن جائیں۔
محمد انس رضا عطّاری (درجہ
دورۃالحدیث شریف جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ فیصل آباد)
.jpg)
فطری طور پر ہر انسان کا اپنا الگ
مزاج ہے۔ ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں مختلف اختلافات یا غلط فہمیاں،
ناچاقی اور قطع تعلقی کا باعث بن جاتی ہیں۔ باہمی معاملات میں اکثر اوقات غلط
فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ غلط فہمیاں بڑھتے بڑھتے نفرت و عداوت، قطع کلامی و
قطع تعلقی تک جا پہنچتی ہیں۔ نتیجتاً معاشرے میں فساد شروع ہوجاتا ہے، تو انسانی
نظامِ زندگی تباہ ہو کر رہ جاتا ہے، حتیٰ کہ خاندانوں کے خاندان اجڑ جاتے ہیں۔ ان
سارے فتنوں سے بچاؤ کیلئے اسلام میں باہمی صلح و صفائی پر بہت زور دیا گیا ہے۔
قرآنِ مجید اور اَحادیثِ مبارکہ میں بکثرت مقامات پر مسلمانوں کو آپس میں صلح
صفائی رکھنے اور ان کے درمیان صلح کروانے کا حکم دیا گیا اور اس کے بہت فضائل بیان
کئے گئے ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا
جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًاؕ-وَ الصُّلْحُ خَیْرٌؕ- ترجمۂ کنز الایمان: اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی زیادتی
یا بے رغبتی کا اندیشہ کرے تو ان پر گناہ نہیں کہ آپس میں صلح کرلیں اور صلح خوب ہے ۔(پ5، النسآء:128)
حضرت اُمِّ کلثوم بنت عقبہ رَضِیَ
اللہ عَنْہَا سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے کہ اچھی بات پہنچاتا ہے یا
اچھی بات کہتا ہے۔(بخاری، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس، 2/210،
حدیث:2692)
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ عَنْہُ
سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں روزے، نماز اور زکوٰۃ سے
بھی افضل ہو۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی
اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! کیوں نہیں۔ ارشاد فرمایا: آپس میں صلح کروا
دینا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، 4/365، حدیث: 4919)
پیارے اسلامی بھائیو! صلح کروانا
افضل عبادت ہے لیکن صلح کرواتے وقت یہ بات ذہن میں رہے کہ مسلمانوں میں صرف وہی صلح کروانا جائز ہے جس
میں شرعی طور پر کوئی برائی نہ ہو چنانچہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ہے مگر وہ صلح (جائز
نہیں) جو حرام کو حلال کردے یا حلال کو حرام کر دے۔(ابوداؤد، 3/ 425، حدیث: 3594)
مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: زوجین میں اس طرح صلح کرائی جائے کہ خاوند اس عورت کی سوکن(اپنی
دوسری بیوی)کے پاس نہ جائے گا یا مسلمان مقروض اس قدر شراب و سود اپنے کافر قرض
خواہ کو دے گا۔ پہلی صورت میں حلال کو حرام کیا گیا، دوسری صورت میں حرام کو حلال،
اس قسم کی صلحیں حرام ہیں جن کا توڑ دینا واجب ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 4/ 303)
فیضان علی چشتی عطّاری (دورہ
حدیث شریف جامعۃُ المدینہ اوکاڑہ پنجاب پاکستان)

اسلام ایک ایسا آفاقی مذہب ہے جو
مسلمانوں کو آپس میں پیار محبت امن اور رواداری کا درس دیتا ہے، اگر کسی کا باہم
لڑائی جھگڑا ہو جائے تو دوسرے کو صلح کروانے کی تلقین اور اس پر اجر کی نوید
(خوشخبری) سناتا ہے اور بندہ مؤمن کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ صلح کروانا ہمارے
پیارے آقا و مولیٰ امام الانبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت ہے، آپ نے
دشمنیاں ختم کیں، خونی بدلے معاف کیے، ایک دوسرے کو معاف کرنے کا ہنر سکھایا، صلح
کے ستون پر معاشرے کی عمارت قائم فرمائی۔
مسلمان بھائیوں میں
صلح کرواؤ: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد
فرماتا ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ
وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠(۱۰) ترجمۂ کنزالایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ
تم پر رحمت ہو۔ (پ26، الحجرات:10)
عبادات سے افضل عمل:حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں
تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں روزے، نماز اور زکوٰۃ سے بھی افضل ہو۔صحابۂ کرام
رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کیوں
نہیں۔ ارشاد فرمایا: آپس میں صلح کروا دینا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح
ذات البین، 4/ 345، حدیث: 4919)
کونسی صلح جائز نہیں؟ حضورِ اَقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا:مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ہے مگر وہ صلح (جائز
نہیں) جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔(ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب
فی الصلح، 3/ 425، حدیث: 3594)
اللہ کا پسندیدہ قدم:امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے
ہیں: اللہ عزوجل کو سب سے زیادہ وہ قدم پسند ہیں جو مسلمانوں میں صلح اور باہمی
تعلقات کی اصلاح کے لیے اٹھیں۔(تفسیر قرطبی، 7/129، النسآء، تحت الآیہ: 114)
امیر اہل سنت کی صلح
میں پہل:ہمارے بڑوں کے آپس میں کچھ مسائل
ہوئے ہوں گے جس کی وجہ سے میری (یعنی امیرِ اہلِ سنّت کی) خالہ کے ہاں ہم لوگوں کا
آنا جانا بند تھا اور نہ ہی وہ آتی تھیں۔ کھارادر میں شہید مسجد کے پاس خالہ کا
گھر تھا اور میں اسی مسجد میں امامت کرتا تھا، اللہ کے کرم سے مجھے توفیق مل گئی
اور میں ہمت کرکے خالہ کے گھر چلا گیا(میرا تو ویسے بھی ان سے کوئی جھگڑا نہیں
تھا)، مجھے دیکھ کر وہ لوگ حیران ہوگئے اور کہنے لگے: تُم؟ میں نے کہا: ہاں! میں صلح کرنے آیا ہوں، مُعاف کردو! خالو
سے ملا تو انہوں نے کہا کہ تُم اتنے بڑے آدمی ہوگئے ہو اورہم سے خود ملنے آئے
ہو!(یہ ان دنوں کی بات ہے جب دعوتِ اسلامی کو بنےہوئے تھوڑا عرصہ ہوا تھا لیکن
دعوتِ اسلامی کی وجہ سے میرا نام ہوگیا تھا)، یوں ان سے صلح کرکے میں گھر آیا اور
اپنی بہن وغیرہ کو سمجھا بُجھا کر کہا کہ میں راہ ہموار کرکے آیا ہوں لہٰذا تم لوگ
خالہ کے ہاں چلے جاؤ اور اَلحمدُلِلّٰہ وہ لوگ بھی ان کے ہاں چلے گئے اور اللہ پاک
کے کرم سے خالہ کے ہاں ہمارے آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔( مدنی مذاکرہ رَمَضانُ
المبارَک1441ھ کی 25ویں شب)
مولانا روم فرماتے ہیں:
تو برائے وصل کردن آمدی نے برائے فضل کردن آمدی
یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کیلئے آیا
ہے، توڑ پیدا کرنے کیلئے نہیں آیا۔(مثنوی شریف دفتر دوم، ص173)
محمد طلحٰہ خان عطّاری (درجہ
رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان خلفا ئے راشدین راولپنڈی پاکستان)
.jpg)
صلح بمعنی درستی و مصالحت ہے اس کا
مقابل فساد ہے بمعنی لڑائی و جھگڑا۔ (مراٰة المناجیح، باب الصلح)
دینِ اسلام کی بہت ساری خصوصیات میں
سے ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ مذہب امن و سلامتی کو قائم کرنے کا بہترین درس دیتا ہے۔
اسلام ہر طرح کے فتنہ و فساد سے نہ صرف خود بچنے کا حکم دیتا ہے بلکہ لوگوں کے
مابین ہونے والے جھگڑوں کو بھی احسن انداز سے روکنے کی تلقین کرتا ہے، جس کا حکم
خود اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ
اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ
تُرْحَمُوْنَ۠(۱۰) ترجمۂ کنزالایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو
اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔ (پ26، الحجرات:10) معاشرے کی خوبصورتی اس کے امن
و امان میں پوشیدہ ہے اور امن و امان کو قائم کرنے اور باقی رکھنے کے لیے ایسے
لوگوں کا موجود ہونا ضروری ہے جو لوگوں کے درمیان پائے جانے والے معاملات کا درست
فیصلہ کریں اور حتی الامکان فریقین کے مابین صلح کرانے کی کوشش کریں۔ احادیثِ
مبارکہ میں صلح کرانے کے بہت سے فضائل موجود ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں
تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں روزے،نماز اور زکوٰۃ سے بھی افضل ہو؟ صحابۂ کرام
رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کیوں نہیں۔
ارشاد فرمایا: آپس میں صلح کروا دینا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات
البین، 4/365، حدیث: 4919)
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ایسے عمل کے بارے میں نہ بتاؤں جسے اللہ
اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں؟ وہ یہ ہے کہ جب لوگ ایک دوسرے سے ناراض ہو کر روٹھ
جائیں تو ان میں صلح کروادو۔(الترغیب والترھیب، 3/ 321، حدیث: 8)
صلح کرانے میں اگر جھوٹ کا سہارا بھی
لینا پڑے تو لیا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت ِاُمِّ کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا سے
روایت ہے،سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص
جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے کہ اچھی بات پہنچاتا ہے یا اچھی بات کہتا
ہے۔ (بخاری، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس،2/210، حدیث:2692)
صلح کرانے میں ایک شرط کا خیال رکھنا
لازم ہے کہ صلح ایسی ہو جو شریعت سے ٹکراتی نہ ہو۔ حلال کو حرام کرنے یا حرام کو
حلال کرنے کے لیے صلح کروانا ناجائز و گناہ ہے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ
مسلمانوں کے مابین صلح کرواناجائز ہے مگر وہ صلح (جائز نہیں) جو حرام کو حلال کر
دے یا حلال کو حرام کر دے۔(ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی الصلح، 3/425، 3594)
لہٰذا ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا
چاہیے جو تین طلاقیں قائم ہونے کے بعد بھی شوہر و بیوی کے درمیان صلح کروا رہے
ہوتے ہیں جبکہ تین طلاقوں کے بعد وہ عورت اس مرد پر حرام ہو جاتی ہے اور اس ناجائز
صلح کرانے کے بعد ان دونوں کا اکٹھے رہنا حرام اور اس کا گناہ نہ صرف شوہر و بیوی
کو ہوگا بلکہ ناجائز صلح کروانے والوں کو بھی ہوگا۔
صلح کرانے کے طریقے: صلح کرانے کے بہت سے طریقے ہیں جیسے
اگر دو شخصوں کے مابین کوئی رنجش ہو تو ان دونوں کو اکیلے میں ایک دوسرے کے بارے
میں کہا جائے کہ ”فلاں آپ سے محبت رکھتا ہے یا آپکے بارے میں دل صاف رکھتا ہے“
وغیرہ۔ یا کوئی تحفہ لے کر دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ یہ فلاں کی طرف سے ہے تو
اس طرح دونوں کے درمیان احساس کا جذبہ اٹھے گا اور آپسی معاملات کو حل کرنے میں
آسانی ہوگی۔ اسی طرح اگر دونوں کو اچھے ماحول بالخصوص عاشقانِ رسول کی تبلیغِ قرآن
و سنت کی عالمگیر دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ کرادیا جائے تو
اچھوں کی صحبت ملنے سے دل نرم ہو جائیں گے اور جلد صلح کرنےکا جذبہ بھی بیدار
ہوجائے گا، ان شآء اللہ۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں شریعت کے
دائرے میں رہتے ہوئے صلح کرنے والا اور کروانے والا بننے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
ابو حنین سید ثقلین عطّاری
(درجہ سابعہ عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی،پاکستان)
.jpg)
معاشرہ افراد سے مِل کر بنتا ہے اور
معاشرہ میں رہنے والے لوگوں کے باہمی مراسم و تعلقات کبھی نہایت خوشگوار اور کبھی
بہت زیادہ ناروا ہو جاتے ہیں۔ جس طرح شریعتِ مطہرہ نے ہر معاملے میں ہماری راہنمائی
کی ہے، اسی طرح جب لوگوں کے آپسی معاملات اگر ناخوشگوار صورت اختیار کر جائیں تو
ہمیں کیا فریضہ سر انجام دینا چاہیے، اس پر بھی بڑے عمدہ انداز میں دینِ اسلام
ہماری تربیت کرتا ہے۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ جب بھی ایسا معاملہ دیکھیں تو حکمتِ
عملی کے ساتھ ان دونوں کے درمیان صلح کروائیں کہ قرآن و احادیث میں مختلف مقامات
پر صلح کروانے کا حکم اور اس کے فضائل بیان کیے ہیں، چنانچہ اللہ کریم ارشاد
فرماتا ہے:اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ
وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠(۱۰) ترجمۂ کنزالایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ
تم پر رحمت ہو۔ (پ26، الحجرات:10)
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کروائے گا، اللہ عزوجل اُس کا
معاملہ درست فرمادے گا اور اُسے ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا
فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔ (الترغیب
و الترہیب، کتاب الادب، الترغیب فی الاصلاح بین الناس، 3/321، حدیث: 9، دار الکتب
العلمیہ بیروت) کس قدر خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جو اپنی کوشش اور کاوش سے دو بچھڑے
ہوئے مسلمانوں کو ملا دیتا ہے کہ اسے ہر کلمہ پر ایک غلام کی آزادی اور صلح
کروانےکے بعد لوٹنے پر مغفرت سے نوازے جانے کی بشارت عطا کی ہے۔ ایک اور مقام پر
نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں روزہ، نماز
اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان عرض کرنے لگے:یا رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ضرور بتائیں۔ ارشاد فرمایا: وہ عمل آپس میں
روٹھنے والوں میں صلح کرانا ہے، کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو
کاٹ دیتا ہے۔(ابو داود، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، 4/365، حدیث: 4919 دار
احیاء التراث العربی بیروت)
ان روایات سے صلح کروانے کی اہمیت
اور فضیلت معلوم ہوئی، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ جب بھی دو مسلمانوں کے درمیان رنجش
دیکھیں تو اُن کے درمیان صلح کروانے کی بھرپور کوشش کریں۔ بعض اوقات جب کوئی شخص
دو بندوں کے درمیان ناراضی کو دیکھتا ہے تو ان کے درمیان صلح کروانے سے اس لیے
پیچھے ہٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ماننا تو ہے نہیں تو میرے سمجھانے سے کیا فائدہ ہوگا
یہ شیطان کا وسوسہ ہے اس کو فوراً دور کیجئے اور اپنا ذہن بنایئے کہ سمجھانا کبھی
بھی فائدے سے خالی نہیں ہوتا کیونکہ اللہ کریم نے ارشاد فرمایا:وَّ ذَ كِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۵۵) ترجمۂ کنز الایمان:اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو
فائدہ دیتا ہے۔(پ27، الذٰریٰت: 55) اگر اس طرح اپنا ذہن بنائیں گے تو اللہ پاک کی
رحمت سے امید ہے کہ شیطان کے اس وسوسے سے چھٹکارا مل جائے گا۔ صلح کروانے کی کس
قدر اہمیت ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ویسے تو جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ ہے
اور دینِ اسلام میں جھوٹ بولنے کی سخت مذمت بیان کی ہے، لیکن چند مقامات ایسے ہیں
جہاں واقع کے خلاف بات کرنا (یعنی جھوٹ بولنا) جائز ہے، ان میں سے ایک مقام وہ ہے
کہ جب دو مسلمان ناراض ہو جائیں تو ان کے درمیانی نفرتوں کو محبتوں میں تبدیل کرنے
کے لیے جھوٹ بولنے کی اجازت ہے، مثلاً صلح کروانے والا دو ناراض بندوں میں سے کسی
ایک کے پاس جائے اور اس سے کہے کہ فلاں جو تم سے ناراض ہے وہ تو تمہاری تعریف کر
رہا تھا یا تمہیں سلام کہہ رہا تھا اسی طرح دوسرے شخص سے بھی کہے تاکہ ان کے
درمیان صلح ہو جائے۔(بہارِ شریعت، 3/517، مکتبۃ المدینہ) لیکن آج اگر معاشرے پر
نگاہ ڈالیں تو صورتِ حال اِس کے برعکس نظر آتی ہے کہ صلح کروانے کے بجائے ایک
دوسرے کو مزید لڑانے کے لیے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بگاڑ کر دوسرے کے سامنے رکھا
جاتا ہے۔ بحیثیتِ مسلمان ہمیں اس بات کی طرف توجہ کرنی چاہیے کہ جب شریعتِ مطہرہ
نے صلح کروانے کی اس قدر تاکید کی ہے تو پوری کوشش کر کے لوگوں کے دلوں میں اپنے
بھائیوں کی محبت و الفت کو بٹھائیں اور نفرتیں دور کریں۔
اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ
ہمیں صلح کروا کر اس کے فضائل پانے کی توفیق عطا فرمائے۔
محمد احمد رضا عطّاری(درجہ
ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان خلفائے راشدین بحریہ ٹاؤن اسلام آباد پاکستان)

حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: کیا میں تمہیں روزے، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں صحابہ کرام علیہم
الرضوان نے عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ضرور بتائیے۔
فرمایا کہ وہ عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دینا ہے کیونکہ روٹھنے والوں
میں ہونے والے فساد خیر کو کاٹ دیتے ہیں۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات
البین،4/365، حدیث:4919)
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی
اللہ عنہما سے روایت ہے کہ پیکر حسن و جمال بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سب سے افضل صدقہ روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کرا دینا ہے۔(الترغیب
والترہیب، کتاب الآداب، باب اصلاح بین الناس، 3/321، رقم:6)
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین رحمۃ اللعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: لوگوں کے ہر جوڑ پر ہر اس دن میں جس میں سورج طلوع ہوتا ہے ایک صدقہ ہے،
دو آدمیوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے کسی شخص کی مدد کے لیے اسے اپنی سواری پر
سوار کرنا یا اس کا سامان اپنی سواری پر لانا صدقہ ہے اچھی بات کہنا صدقہ ہے نماز
کے لیے ہر قدم چلنے صدقہ ہے اور راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کر دینا صدقہ ہے۔(صحیح
بخاری، کتاب الجہاد، باب من اخز بالرکاب ونحو، 2/302، حدیث: 2989 بتغیر قلیل)
حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ تاجدار رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابو ایوب رضی
اللہ عنہ سے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک تجارت کے بارے میں نہ بتاؤں؟ انہوں نے عرض
کیا ضرور بتائیں۔ ارشاد فرمایا: جب لوگ جھگڑا کریں تو ان کے درمیان صلح کروا دیا
کرو، ایک دوسرے سے دوری اختیار کریں تو انہیں قریب کر دیا کرو۔ ایک روایت میں ہے
کہ حضرت سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے فرمایا: میں تمہیں ایسے صدقہ کے بارے میں نہ بتاؤں جسے
اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پسند کرتے ہیں، جب لوگ
ایک دوسرے سے ناراض ہو کر لوٹ جائیں تو ان میں صلح کروا دیا کرو۔(الترغیب والترہیب،
کتاب الآداب، باب اصلاح بین الناس، رقم:7، 8، 9، 3/321)
حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ نور کے پیکر تمام انبیاء کی سرور دو جہاں کے تاجدار سلطان بحر و بر
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے
گا اللہ تعالیٰ اس کے معاملے درست فرما دے گا، اس کے ہر کلمہ بولنے پر اسلام آزاد
کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور وہ جب لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت
یافتہ ہو کر لوٹے گا۔(الترغیب والترہیب، کتاب الآداب، باب اصلاح بین الناس، 3/321)
محمد شیرازعطاری( درجۂ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
غوث اعظم کراچی پاکستان)
.jpg)
پیارے اسلامی بھائیو! اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں
ہر شے کا واضح بیان ہے ان ہی میں سے ایک صلح بھی ہے۔آئیے صلح کے بارے میں چند باتیں
آپ بھی پڑھئے:اللہ پاک فرماتا ہے : ﴿لَا
خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ
مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِؕ﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: ان کے اکثر مشوروں میں کچھ بھلائی نہیں مگر جو حکم دے
خیرات یا اچھی بات یا لوگوں میں صلح کرنے کا۔ (پ 5، النسآء: 114) ایک جگہ اور
ارشاد فرمایا: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ
اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠(۱۰)﴾ ترجَمۂ کنزُا لایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے
دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔(پ26،الحجرات:10)
(1)بخاری شریف میں حضرت اُمِّ کُلثوم بنتِ عقبہ رضی اللہُ
عنہا سے مروی ہے:رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمفرماتے ہیں: وہ شخص
جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے کہ اچھی بات پہنچاتا ہے یا اچھی بات
کہتاہے۔(بخاری،2/210، حدیث: 2692) (2)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: مسلمانوں کے مابین صلح جائز ہے
مگر وہ صلح کے حرام کو حلال کردے یا حلال کو حرام کردے۔(ابوداؤد،3/425،حدیث:3594)
(3)اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سب سے افضل
صدقہ روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کرادینا ہے۔(الترغیب والترھیب،3 /321،حدیث:6)
مذکورہ بالا آیات اور احادیثِ مقدسہ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے
کہ ہمیں ہمیشہ آپس میں پیار و محبت سے رہنا چاہئے کبھی بھی لڑائی جھگڑے وغیرہ نہیں
کرنے چاہئیں،آپس میں بھائی بھائی بن کے رہنا چاہئے اور اگر کسی کے آپس میں اختلافی
معاملات ہوں تو انہیں آپس میں حل کرکے صلح کر لینی چاہئے، اللہ پاک ہم سب کو آپس میں
اتفاق و اتحاد نصیب فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حمزہ
رسول( جامعۃُ المدینہ فیضان حسنین کریمین کھوکھر روڈ ،لاہور ،پاکستان)
.jpg)
شریعت
مطہرہ نے ہمیں مکلف بنایا ہے۔ بعض اعمال کا تعلق ظاہری بدن کے ساتھ ہے جیسے نماز،روزہ
وغیرہ، نیکیاں کرنا، برے کاموں سے بچنا اور بعض اعمال ایسے ہیں جن کا تعلق باطن دل
کے ساتھ ہے جیسے حسد سے بچنا ریاکاری رشوت تکبر سے بچنا اور بخل سے بچنا وغیرہ۔ بخل
ایک انتہائی قبیح یعنی برا کام ہے۔ امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ
احیاء العلوم جلد تین میں بخل کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: جہاں مال خرچ
کرنا ضروری ہے وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ یہ تعریف جامع مانع اور زندگی کے ہر معاملے میں صادق آتی ہے قرآن و
حدیث میں بخل کی مذمت اور اس سے بچنے کی ترغیب کثیر مقامات پر بیان کی گئی ہے۔
(1)صحیح مسلم
شریف میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بخل سے بچو کیونکہ بخل نے تم سے پہلے لوگوں کو
ہلاک کیا ہے اور بخل ہی کی وجہ سے انہوں نے لوگوں کے خون بہائے اور حرام کو حلال کیا۔
جب کوئی مالدار شخص ضرورت مند کو بھی
مال دینے سے بخل یعنی کنجوسی کرتا ہے تو مجبوراً شخص حرام کام کی طرف چلے جاتا ہے بعض اوقات تو بات خون بہانے تک بھی چلی
جاتی ہے۔
(2)
ابو داؤد میں روایت ہے حضرت عبد اللہ بن عمر
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا: بخل و حرص سے بچو اس لیے کہ تم سے پہلے
لوگ بخل و حرص کی وجہ سے ہلاک ہوئے حرص نے لوگوں کو بخل کا حکم دیا تو وہ بخیل ہو
گئے،بخل نے انہیں ناطہ توڑنے کا حکم دیا
تو لوگوں نے ناطہ توڑا اور اس نے انہیں فسق و فجور کا حکم دیا تو وہ فسق و فجور میں لگ گئے۔ مذکورہ حدیث مبارکہ سے معلوم
ہوا کہ اکثر برائیوں کی جڑ بخل ہی ہے۔
(3)
سنن نسائی میں موجود ہےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بخل اور ایمان
یہ دونوں کسی بندے کے دل میں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔
(4)
جامع ترمذی میں روایت ہے حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ میں
نے عرض کیا یا رسولاللہ! میرے
گھر میں صرف زبیر کی کمائی ہے کیا میں اس میں سے صدقہ کروں ؟ آپ علیہ السلام نے
فرمایا ہاں صدقہ کرو اور گرہ مت لگاؤ ورنہ تمہارے اوپر گرہ لگا دی جائے گی (یعنی بغل مت کرو ورنہ تمہارے مال سے
برکت ختم ہو جائے گی)
(5)
بخاری مسلم اور کثیر کتابوں میں یہ حدیث مبارکہ موجود ہے کہ نبی آخرالزماں صلی
اللہ علیہ وسلم یوں دعا کرتے کہ یعنی اے اللہ میں تجھ سے عاجز ہونے سستی ،بزدلی، بڑھاپے اور بخل سے پناہ مانگتا ہوں اور
میں تجھ سے عذاب قبر، زندگی اور موت کی آزمائشوں سے پناہ مانگتا ہوں۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں ہمیشہ بخل سے محفوظ رکھے۔ آمین
مبشر رضا عطّاری (درجہ ثالثہ
جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی
لاہور،پاکستان)

بخل ایک مہلک اور قابل مذموم مرض ہے کہی تو یہ بہت سے
گناہوں کا سبب بن جاتا ہے بقول یہ ہے کہ جہاں شرعاً یا عرف و عادت کے اعتبار سے
خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل (کنجوسی) ہے ۔ (احیاء العلوم کتاب زم البخل
وزم حب المال، 3/320،ملخصا )قراٰن و حدیث میں شدید مذمت بیان کی گئی ہے بخل کی مذمت
پر اللہ پاک قراٰن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا یَحْسَبَنَّ
الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ
مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-بَلْ
هُوَ شَرٌّ لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا
بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ
السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا
تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠(۱۸۰)۔ ترجمۂ کنز
الایمان: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے
لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت
کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا اور اللہ ہی وراث ہے آسمانوں اور زمین کااور اللہ
تمھارے کا موں سے خبردار ہے۔ (پ 4،آل عمران:180)کثیر احادیث میں بخل کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
چنانچہ بخل کی مذمت پر پانچ فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ ہوں۔
(1) اللہ سے دور : حضور
نبی اکرم نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کر نے ارشاد فرمایا : بخیل اللہ
پاک سے دور ہے جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے جبکہ جہنم سے قریب ہے۔(ترمذی، کتاب
البر والصلۃ، باب ما جاء فی السخائ، 3/387، حدیث: 1968)(2)رلا نے والی :حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشاد فرمایا: آدمی کی دو عادتیں بریہیں
(1)بخیلی جو رلانے والی ہے (2)بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے (ابو داؤد، کتاب الجہاد، 3/18، حدیث:2511)(3)بلا حساب جہنم میں
داخلہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: مالدار بخل کرنے کی وجہ سے
بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار، باب السین، 1/444، حدیث: 3309) (4)جہنم میں داخل کرے گی
:حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:بخل جہنم میں ایک درخت ہے جو بخیل ہے اس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے وہ
ٹہنی جہنم میں داخل کئے بغیر نہیں چھوڑے گی۔(شعب الایمان،435/7، حدیث: 10877)(5) جنت میں نہیں جائے گا : نبی
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : کوئی بخیل جنت میں نہیں
جائے گا ۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ علی، 3 / 125، حدیث: 4066)الله سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس مرض سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے
اور ہمیں خلوث کی عظیم دولت سے نوازے۔
محمد مدثر عطّاری (درجہ
ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور پاکستان)

بخل کی تعریف: جہاں شرعاً یا عرف و عادت کے اعتبار سے خرچ
کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل (کنجوسی) ہے ۔ (احیاء العلوم کتاب زم البخل وزم
حب المال، 3/320،ملخصا )قرآن مجید میں بخل کے
بارے ارشاد : اللہ پاک کا فرمان عالیشان ہے ۔ وَ اَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَ اسْتَغْنٰىۙ(۸)ترجمۂ کنز العرفان : اور رہا وہ جس نے بخل کیا اور بے پرواہ بنا۔(پ30،اللیل:8)بخل کی مذمت کے بارے میں 5 فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
(1)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضور پر نور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو
بخیل ہے اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اُسے جہنم میں داخل کیے بغیر نہ
چھوڑے گی۔(شعب الایمان، الرابع و السبعون من شعب الایمان، 7 / 435، حدیث: 10877)(2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم
نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کر نے ارشاد فرمایا : بخیل اللہ پاک سے
دور ہے جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے جبکہ جہنم سے قریب ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ،
باب ما جاء فی السخائ، 3/387، حدیث: 1968)(3)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے ، نبی
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : کوئی بخیل جنت میں نہیں
جائے گا ۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ علی، 3 / 125، حدیث: 4066)(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مالدار
بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار، باب السین، 1/444، حدیث: 3309) (5) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بخیل( یعنی کنجوسی کرنے والا)، دھوکے باز، خیانت کرنے والا اور بد
اخلاق جنت میں نہیں جائیں گے۔(المسند للامام احمد بن حنبل مسند ابی بکر الصدیق ،1/20 ،حدیث:13)
محمود علی عطّاری(اسسٹنٹ
سول انجینئر انصاری شگر ملز ٹنڈو غلام حیدر پاکستان)
.jpg)
بخل کیا ہے ؟ مع معنی و تعریف اور حکم:۔ بخل ایک باطنی بیماریوں
میں سے ایک بیماری ہے۔ بخل کے معنی کنجوسی کے ہیں، بخل کی تعریف یہ ہے کہ جہاں شرعاً،
عادتاً، مروتاً خرچ کرنا لازم ہو، نہ کرنا جیسے زکوٰۃ، عشر ،صدقۂ فطر وغیرہ شرعاً
لازم اور رشتے دار دوست وغیرہ پر مروتاً لازم ہے۔ بخل کا حکم ناجائز و حرام اور
گناہ ہے ۔ اللہ پاک و رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضی کا باعث ہے۔بخل کے متعلق احادیث
مبارکہ میں کئی مذمتیں آئی ہیں آیئے انہیں میں سے پانچ پڑھتے ہیں۔
(1) فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: دو عادتیں مومن میں جمع نہیں ہوسکتیں ،
بخل اور بد خلقی۔( ترمذی ،کتاب
البروالصلۃ ، باب ماجاء فی البخل، 3/387، حدیث: 1969) دیکھئے بخل کیسی بری بیماری ہے کہ مؤمن کے دل میں داخل ہی نہیں ہو سکتی کہ مؤمن
کے اوصاف میں سے ایک وصف اس کا بخیل نہ ہونا ہے۔ (2) ایک اور فرمان آخری رسول صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم: کوئی بخیل جنت میں نہ جائے
گا۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ علی، 3 / 125، حدیث: 4066)
اللہ اکبر کہ ساری طلب یہی بندۂ مؤمن کی ہوتی ہے کہ وہ
جنت پالے پر مالک جنت خود فرماتے ہے کہ بخل کرنے والا جنت سے محروم ہے اتنی بڑی
تباہ کاری ہے بخل کی۔ تفسیر صراط الجنان میں ہے: بخل کی وجہ سے جنت سے روکا جاسکتا ہے۔( تفسیر صراط الجنان،333/9)(3)
حدیث پاک پڑھئے اور بخل کی نحوست سے بچئے: آدمی کی دو عادتیں بری ہے :بخیلی جو
رلانے والی ہے اور بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔(ابوداؤد،18/3،حدیث:2511)(4) حدیث پاک میں ہے مال دار کو بخل کی وجہ سے بے حساب دوزخ میں ڈالا
جائے گا۔(مسند الفردوس ،444/1، حدیث: 3309) تفسیر صراط
الجنان میں ہے بخل کرنے والا گویا اس درخت کی شاخ پکڑ رہا ہے جو اسے
جہنم کی آگ میں داخل کرکے ہی چھوڑے گی۔ ( تفسیر صراط الجنان،333/9)(5)بخل سے بچو کہ بخل نے پہلے
کے لوگوں کو ہلاک کیا ،اسی بخل نے انہیں خون بہانے اور حرام کو حلال ٹھہرانے پر
آمادہ کیا۔(مسلم،کتاب البروالصلۃ و الآداب،باب تحریم الظلم،ص1069، حدیث:2578)
پیارے اسلامی بھائیوں ! دیکھا ہم سب نے بخل کیسی مذموم اور منحوس خصلت
ہے جو سوائے تباہی کہ کچھ نہیں لاتی۔ دنیا میں بھی بخیل ذلت اٹھاتا ہے اور آخرت میں
درد ناک عذاب۔الامان والحفیظ اللہ پاک ہمیں بخل
سے بچائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
.jpg)
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پانچ باتوں سے اللہ کی پناہ مانگی۔
فرمانِ
نبوی ہے: اے گروہ مہاجرین! پانچ بلائیں ایسی ہیں جن کے متعلق میں اللہ پاک سے
تمہارے لئے پناہ مانگتا ہوں : جب کسی قوم میں کھلم کھلا بدکاریاں ہوتی ہیں تو اللہ
پاک ان پر ایسے مکروہات نازل کرتا ہے جو پہلے کسی پر نازل نہیں ہوتے۔ جب کوئی قوم
ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو ان پرتنگدستی، قحط سالی اور ظالم حاکم مسلط کردیا جاتا
ہے، جب کوئی قوم اپنے مالوں کی زکوٰۃ نہیں دیتی انہیں خشک سالی گھیر لیتی ہے، اگر
زمین پر چوپائے نہ ہوں تو کبھی ان پر بارش نہ برسے۔ جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول کے عید کو توڑ رہی۔ جب
کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑ دیتی ہے تو اس پر اس کے دشمن مسلط
ہوجاتے ہیں جو ان سے ان کا مال و دولت چھین لیتے ہیں اور جس قوم کے فرمانروا کتاب
اللہ سے فیصلہ نہیں کرتے، ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے خوف پیدا ہوجاتا ہے۔
(1)فرمانِ
نبوی ہے: اللہ پاک بخیل کی زندگی اور سخی کی موت کو ناپسند فرماتا ہے۔(
کنزالعمال،کتاب الاخلاق، الباب الثانی فی الأخلاق والأفعال۔۔۔الخ، 2/180،
الجزء الثالث ،حدیث: 7373)
(2)فرمانِ نبوی ہے: دو عادتیں مومن
میں جمع نہیں ہوسکتیں ، بخل اور بد خلقی۔( ترمذی ،کتاب البروالصلۃ ، باب ماجاء
فی البخل، 3/387، حدیث: 1969)
(3)فرمانِ نبوی ہے: اللہ پاک نے
قسم کھائی ہے کہ بخیل کو جنت میں نہیں بھیجے گا۔( تاریخ مدینہ دمشق، 57/373)
(4)فرمانِ نبوی ہے:بخل سے بچو! جس
قوم میں بخل آجاتا ہے وہ لوگ زکوٰۃ نہیں دیتے، صلہ رحمی نہیں کرتے اور ناحق خون
ریزیاں کرتے ہیں ۔ (کنزالعمال
، کتاب الاخلاق، 2/182،الجزء الثالث، حدیث: 7401)
(5)فرمانِ نبوی ہے: اللہ پاک نے
رکاکت اور شعلہ پن کو پیدا کیا اور اسے مال اور بخل سے ڈھانپ دیا۔( کنزالعمال
، کتاب الاخلاق، 2/183، حدیث: 7407)