جمع حدیث:

احادیث کو لکھنے اور محفوظ کرنے کا کام عہد رسالت میں شروع ہو چکا تھا اور صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ کے افعال اور احوال لکھ کر قلم بند کیا کرتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کے تابعین نے صحابہ کی مرویات کولکھ کر محفوظ کرنا شروع کیا، اس طرح یہ سلسلہ روایت آگے بڑھتا رہا ، اس طرح بہت سے علماءِ کرام نے جمع حدیث میں بہت سی مشکلیں اٹھائیں، جن میں چند کا تذکرہ مندرجہ ذیل ہے۔( تذکرۃ المحدثین، ص31)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے روایتِ حدیث میں بار بار دُور دراز شہروں کا سفر کیا اور برسہا برس وطن سے دور بیٹھے اکتسابِ علم کرتے رہے، انہوں نے خود بیان کیا ہے کہ میں طلب حدیث کے لیے مصر اور شام دو مرتبہ گیا، چار مرتبہ بصرہ گیا، چھ سا ل حجازِ مقدس میں رہا اور اَن گنت مرتبہ محد ثین کے ہمراہ کو فہ اور بغداد گیا۔( تذکرۃ المحدثین، ص128)

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ:

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ فن حدیث کے اکابر آئمہ میں شمار کیے جاتے ہیں، علمِ حدیث کی طلب میں امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد شہروں کا سفر اختیار کیا، "نیشا پور" کےاساتذہ سے اکتسابِ فیض کے بعد وہ حجاز، شام، عراق اور مصر گئے اور ان گنت بار بغداد کا سفر کیا۔ (تذکرۃ المحدثین، ص220)

امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ:

ابتدائی تعلیم کے بعد حدیث کی طرف رجوع کیا، وطن اور بیرونِ وطن ہر جگہ روایتِ حدیث کو تلاش کیا، اس سلسلہ میں انہوں نےخراسان، عراق، حجاز، مصر ، شام اور متعدد شہروں کا سفر کیا۔

(تذکرۃ المحدثین، ص316)

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ:

علمِ حدیث نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نہایت اونچا مقام ہے، انہوں نے افاضل صحابہ اور اقابر تابعین سے احادیث کا سماع کیا، امامِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ علم حدیث میں مجتہدانہ بصیرت کے حامل تھے، اس لئے محض نقل و روایات پر ہی اکتفا نہیں کرتے تھے، بلکہ قرآن کریم کی نصوص صریحہ اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں روایات کی جانچ پڑتال کرتے تھے، آپنے زیادہ احادیث حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سماع کیں، حضرت انس رضی اللہ عنہ کی زندگی میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بارہا بصره گئے تھے، علم حدیث کے لیے۔

( تہذیب التہذیب، ج 1، ص378)


سب سے پہلے حدیث کے جمع کرنے میں صحابہ کرام علیھم الرضوان نے جو مشقتیں اٹھائی ۔اس میعار پر جب ان کی زندگیاں دیکھی جاتی ہیں تو ہر مسلمان بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور نظر آتا ہے کہ انکی تبلیغ و ہدایت محض اللہ عزوجل اور رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا کے لئے تھی اپنے نفس کو دخل دینے کے وہ بالکل روادار نہ تھے کسی کو حکم رسول سنانے میں نہ انہیں کوئی خوف محسوس ہوتا اور نہ کسی سے حدیث رسول سیکھنے میں کوئی عار محسوس ہوتی تھی ان معزز حضرات کے بعد یہ ذمہ داری تابعین اور تبع تابعین علیھم الرضوان نے بخوبی انجام دی اور انہی کے نقش قدم پر چلیں۔

دوسری طرف ایسی شخصیات کی بھی کمی نہ تھی جنہوں نے فقر و فاقہ کی زندگی بسر کی جانفشانیاں کیں، مصائب و آلام برداشت کئے لیکن اس انمول دولت کے حصول کے لئے ہر موقع پر خندہ پیشانی کا مظاہرہ کیا۔

امام ابو حاتم رازی:

آپ علل حدیث کے امام ہیں امام بخاری امام داؤد ، امام نسائی اور امام ابن ماجہ کے شیوخ سے ہیں ۔ طلب حدیث میں اس وقت سفر شروع کیا۔جب ابھی سبزہ کا آغاز نہیں ہوا تھا،مدتوں سفر میں رہتے اور جب گھر آتے تو پھر سفر شروع کر دیتے آپکے صاحبزادے بیان کرتے ہیں میرے والد فرماتے تھے سب سے پہلی مرتبہ علم حدیث کے حصول میں نکلا تو چند سال سفر میں رہا۔ پیدل تین ہزار میل چلا جب زیادہ مسافت ہوئی تو میں نے شمار کرنا چھوڑ دیا۔

امام ہیثم بن جمیل بغدادی:

آپ عظیم محدث ہیں علم حدیث کی طلب میں شب و روز سر گردان رہے مالی پریشانیوں سے بھی دو چار ہوئے ۔ افلس الھیشم بن جمیل فی طلب الحدیث مرتین علم حدیث کی طلب میں ھیثم بن جمیل دو مرتبہ افلاس کے شکار ہوئے سارا مال و متاع خرچ کر ڈالا۔

امام ربیعہ بن،ابی عبد الرحمٰن:

آپ عظیم محدث ہیں تابعی مدنی ہیں۔ اسی علم حدیث کی تلاش و جستجو میں ان کا حال یہ ہو گیا تھا کہ آخر میں گھر کی چھت کی کڑیاں تک بیچ ڈالیں اور اس حال سے بھی گزرنا پڑا کہ ”مزیلہ“ جہاں آبادی کی خس و خاشاک ڈالی جاتی ہے وہاں سے منقی یا کھجوروں کے ٹکرے چن کر بھی کھاتے۔

امام محمد بن اسمعیل بخاری :

عمر بن حفص بیان کرتے ہیں :بصرہ میں ہم امام بخاری کے ساتھ حدیث کی سماعت میں شریک تھے۔ چند دنوں کے بعد محسوس ہوا کہ بخاری کئی دن سے درس میں شریک نہیں ہوئے ، تلاش کرتے ہوئے انکی قیام گاہ پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک حدیث کی تحقیق کیلئے باقاعدہ سفر کیا۔

اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور انکے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اقوال و افعال آپ کے شب و روز کے معاملات ہی مسلمانوں کے لے سر چشمہ ہدایت ہیں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے ایک ایک ورق کو حفظ کیا صحابہ کرام نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے احادیث کو سینوں سے لیکر صحیفوں تک محفوظ کیا ۔ان کے بعد تابعین اور تابع تابعین نے حفظ کیا کتابت کے اس عمل کو جاری رکھا۔

علماء کرام نے احادیث کی تحصیل کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں ۔انہوں نے بار ہا صرف ایک حدیث کی خاطر سینکڑوں میل کا سفر کیا۔طلب حدیث میں کوئی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی تھی یہاں تک کہ اگر وہ اپنے شاگرد سے بھی کوئی حدیث پاتے تو لے لیتے۔ ناقلین کو پرکھنے کے لئے "علم رجال" ایجاد کیا احادیث رسول کی حفاظت وکتابت کا سلسلہ عہد رسالت سے لے کراتباع تبع تابعین تک پورے تسلسل اور تواتر سے ہوتا رہااور ڈھائی سو سال کے اس طویل عرصے کے کسی وقفہ میں بھی اس کام کا انقطاع نہیں ہوا۔

حضور سید عالم کے مبارک زمانے میں متعدد صحابہ کرام علیہم الرضوان نے احادیث کو قلمبند کرنا شروع کر دیا تھا، اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص کو احادیث لکھنے کی عام اجازت تھی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے بھی حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی الله عنہ کے احادیث لکھنے کا تذکرہ کیا ہے ۔فرماتے ہیں۔

" صحابہ میں مجھ سے کسی کے پاس حضور صلی الله علیہ وسلم کی احادیث محفوظ نہ تھی سوائے عبداللہ بن عمروبن عاص کے کیونکہ وہ احادیث لکھتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا"

(صحیح بخاری، جلد 1 صفحہ نمبر 22)

ہمارے علمائے کرام نے احادیث کے لئے"اصول" وضع کیے جس سے جھوٹی احادیث کا فرق واضع ہو جاتا ہے اور اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا ، ترجَمۂ کنزُالایمان:اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو ۔ (سورۃ الحجرات آیت 6)

اس آیت مبارکہ سے پتہ چلتا ہےکہ حدیث کو نقل کرنے میں دقت نظر اور دور اندیشی کے متعلق خبردار کیا گیا ہے چنانچہ ہمارے علماء کرام نے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم کو بجا لاتے ہوئے احادیث کو قبول کرنے اور نقل کرنے میں تحقیق سے کام لیا۔خاص طور پر اس وقت جب ان کو نقل کرنے کی صداقت میں شک ہو۔

اللہ عزوجل سے دعا ہے ہمیں پکا سچا عاشق رسول بنا دے اور ہمارے علمائے کرام کے صدقے ہمیں سنتوں کا پیکر بنا دے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : اللہ تعالی اس شخص کو تروتازہ رکھے، جو مجھ سے کوئی بات سنے اور اُسے اسی طرح آگے پہنچادے، جس طرح سُنا، بعض وہ لوگ جن تک حدیث پہنچائی جاتی ہے، سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنا کرتے اور وہ علم کی مجلس ہوتی تھی، صحابہ کرام آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں کو قلمبند کرتے اور جو صحابی اس مجلس میں حاضر نہ ہوتے، ان تک وہ حدیث پہنچاتے، آپس میں احادیث کا تبادلہ کرتے اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فرمان کو، تمام احادیث اپنے پاس محفوظ رکھتے اور ذوق و شوق سے اس کا تذکرہ بھی فرماتے تھے۔ اب جن لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ میسر نہ ہوا اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض یافتہ صحابہ کرام کو پایاتو انہوں نے ان سے حدیث لے کر ذخیرہ محفوظ کر لیا، صحابہ کرام علیہم الرضوان کے دور سے ہی حدیث کو قبول کرنے اور اس کو روایت کرنے میں احتیاط شروع ہوگئی تھی، پھر تابعین و تبع تابعین کے دور میں علم الجرح والتعدیل ظہور پذیر ہوا۔

پھر علماء نے اس میں وسعت پیدا کی، حتی کہ حدیث سے متعلق بہت سے علوم میں بحث ظاہر ہوئی، جو اس کے ضبط،حدیث لینے اور ادا کرنے کی کیفیت، ناسخ و منسوخ کی معرفت اور حدیث غریب کی پہچان وغیرہ سے متعلق تھی، لیکن علماء اسے زبانی طور پرحفظ کرتے تھے۔

امام بخاری، امام مسلم، اصحاب سنن کا زمانہ آیا، انہوں نے اس سلسلے میں وہ کام کیا جو ان کی مرتب کی ہوئی کتب صحاح کی شکل میں سندوں کے ساتھ اور اصول کو پرکھتے ہوئے کتابی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے، جس سے ہم آسانی سے مستفیض ہو سکتےہیں۔لیکن ان احادیث کو جمع کرنے اور کتابی شکل میں ہمارے سامنے پیش کرنے میں علماء کرام کو جو مشقتیں پیش آئیں، اس کا احاطہ بھی ناممکن ہے ۔

سب سے پہلا سفر:

حضرت سیدنا فضل بن زیاد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو فرماتے سنا:"جب تم حضرت سیدنا معمر رحمۃ اللہ علیہ سے کسی کا موازنہ کرو گے، تو انہیں اس سے بڑھ کر پاؤگے کیونکہ انہوں نے طلبِ حدیث کے لئے یمن کا سفر فرمایا اور وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نےاس کام کے لئے سفر فرمایا۔"

علماء کی مشقت:

حضرت سیدنا حاجی ابو مسعود عبد الرحیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا ابن ظاہر رحمۃ اللہ علیہ کو فرماتے سنا کہ میں طلب حدیث کے لئے سفر کرنے کی وجہ سے دو مرتبہ خون آلود ہوا۔

محمد ثین کی ہمیشہ مدد ہوتی رہے گی:

فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہےکہ" میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا، اور ان کی مخالفت کرنے والا انہیں نقصان نہ پہنچا سکے گا" علمائے کرام فرماتے ہیں:" کہ اس گروہ سے مراد محمد ثین ہیں۔"

اللہعزوجل سے دعا ہے کہ علماء کرام کی صحبت سے فیضیاب ہونے اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر اخلاص کے ساتھ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


"میانہ روی" طرفین کے بیچ مُعتدل موقف سے عبارت ہے،    جس میں افراط و تفریط نہ ہو ، غلو و زیادتی اورکمی و زیادتی، اور کمی و کوتاہی نہ ہو، یہ روحانیت و مادیّت، واقعیت و مقالیّت اور اِنفرادیت و اجتماعیت کے درمیان ایک دُرُست پیمانہ ہے اور جیسا کہ کہا گیا ہے :

" الوسط فضیلۃ بین رذیلتین " یعنی "دو کمتریوں کے بیچ ایک فضیلت و برتری اعتدال اور میانہ روی کہلاتا ہے ۔

اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے :وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ-

ترجمہ کنز الایمان :" اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ "۔(پارہ 2، البقرہ ،آیت 143)

پھرمزیدفرمایا: كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ-

ترجمہ کنزالایمان:"تُم بہتر ہو، ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو" ۔(پارہ 3، آل عمران ، آیت 110)


"میانہ روی" طرفین کے بیچ مُعتدل موقف سے عبارت ہے،    جس میں افراط و تفریط نہ ہو ، غلو و زیادتی اورکمی و زیادتی، اور کمی و کوتاہی نہ ہو، یہ روحانیت و مادیّت، واقعیت و مقالیّت اور اِنفرادیت و اجتماعیت کے درمیان ایک دُرُست پیمانہ ہے اور جیسا کہ کہا گیا ہے :

" الوسط فضیلۃ بین رذیلتین " یعنی "دو کمتریوں کے بیچ ایک فضیلت و برتری اعتدال اور میانہ روی کہلاتا ہے ۔

اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے :وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ-

ترجمہ کنز الایمان :" اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ "۔(پارہ 2، البقرہ ،آیت 143)

پھرمزیدفرمایا: كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ-

ترجمہ کنزالایمان:"تُم بہتر ہو، ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو" ۔(پارہ 3، آل عمران ، آیت 110)


میانہ روی کے معنی ہیں" درمیانی راستہ"،  اس سے مراد ہے زندگی گزارتے ہوئے تمام مُعاملات میں درمیانہ راستہ ہی اختیار کیا جائے، میانہ روی اعتدال پسندی ہےاور یہ زندگی گزارنے کا بہترین اُصول ہے، اللہ ربُّ العزت نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا ہے: "اور میانہ چال چل"۔ ( پارہ 21 ، سورۃ لقمان، آیت نمبر19)

قرآن مجید کی روشنی میں میانہ روی:

اللہ ربُّ العزت اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْۚ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا(۲۸) ترجمہ کنزالایمان:" اللہ چاہتا ہے کہ تم پر تخفیف(آسانی)کرے اور آدمی کمزور بنایا گیا۔ (پارہ 5، سورۃ النساء، آیت نمبر28)

حدیث مبارکہ کی روشنی میں میانہ روی:

عبادت میں میانہ روی کا حکم:

حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار مسجد ِنبوی میں داخل ہوئے تو سُتُونوں کے درمیان ایک رسی کو بندھے ہوئے دیکھا تو اِستفسار فرمایا:"یہ رسی کیسی ہے؟" لوگوں نے عرض کی، " یہ اُمّ المؤمنین حضرت سیّدنا زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنہا کی رسّی ہے، جب (رات کی نماز میں) تھک جاتی ہیں تو اسے تھام لیتی ہیں، سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"نہیں!(اور)اس رسّی کو کھول دو، تم میں سے ہر شخص اپنی نشاط بھر( یعنی خوشی، تازگی اور مُسْتَعِدی کی مقدار رات کی)نماز پڑھے، جب تھک جائے تو (اس وقت) عبادت (نماز) سے بیٹھ جائے۔( اصلاح اعمال، جلد ا ول، صفحہ669)

بول چال میں میانہ روی کی تعلیم:

بول چال میں میانہ روی اختیار کرنے کی تعلیم بھی حدیثِ مبارکہ سے ملتی ہے، بِلا ضرورت گفتگو سے اِجتناب کرنے اور خاموشی اختیار کرنے کے بارے میں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:" جس کی شاھد بخاری شریف کی یہ حدیثِ مبارکہ ہے۔ " جو اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے، اُسے چاہئے کہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش ر ہے ۔

( بخاری، جلد4، ص105، حدیث6018)

روزی کی تلاش میں میانہ روی:

آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے روزی کی تلاش میں میانہ روی کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:"دنیا کی طلب میں اِعتدال سے کام لو، اس لیے کہ ہر ایک کو وہ کچھ ضرور ملے گا، جو اس کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔"( صحیح مسلم، جلد1 ، حدیث1097)

مختلف اقوال:

اِمام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" ہمیشہ گوشت نہیں کھانا چاہیے، کیونکہ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمانِ نصیحت ہے:"جو چالیس دن تک گوشت نہیں کھاتا، اُس کے اَخلاق بگڑ جاتے ہیں اور جو چالیس دن تک لگاتار گوشت کھاتا ہے اس کا دل سخت ہو جاتا ہے ۔"

( اصلاح اعمال، ج 1 ، صفحہ نمبر659)

امیر ِاہلسنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:"ہر کام میں اعتدال یعنی( میانہ روی) ہونا چاہیے۔"( 12 شوال، 1435ھ، مدنی مذاکرہ)



وسط   کا لفظ افراط و تفریط سے پاک، بالکل "درمیان" کے معنٰی میں استعمال ہوتا ہے ، یعنی میانہ روی اور اعتدال۔

اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے، جس کا سارا نظام مُعتدل ہے اور اس کے تمام امور اعتدال پر قائم ہیں، اس کے اعتقادات میں اعتدال، اعمال و عبادات میں اعتدال، معاشرت و تمدن میں اعتدال، اقتصادیات وسیاسیات میں اعتدال، معاملات و تعلیمات میں اعتدال ، غرض کہ حیاتِ انسانی کے تمام شعبوں اور ادوار میں اسلام نے میانہ روی اور اعتدال کا درس دیا ہے، اور یہ اسلام کا طُرہ امتیاز ہے۔

قرآن پاک میں اعتدال کا حکم :

قَالَ اللہُ تَعٰالٰی فیِ الْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ ! وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷)ترجمہ کنزالایمان:"اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)

تفسیر خزائن العرفان:"اسراف معصیت میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں اور تنگی کرنا یہ ہے کہ اللہ تعالٰیکے مقرر کیے ہوئے حقوق ادا کرنے میں کمی کرے۔"

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی حق کو منع کیا اس نے اقتار کیا یعنی تنگی کی اور جس نے ناحق میں خرچ کیا، اس نے اسراف کیا اور اس آیت میں ان بندوں کے خرچ کرنے کا حال ذکر فرمایا جا رہا ہے کہ جو اسراف و اِقتار کے دونوں مذمُوم طریقوں سے بچتے ہیں۔

حدیث مبارکہ کی روشنی میں اعتدال کی اہمیت:

سید السّادات، فخر ِموجودات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"دولت مندی میں میانہ روی کتنی اچھی ہے اور تنگدستی میں میانہ روی کتنی اچھی ہےاور عبادت میں میانہ روی کتنی اچھی ہے۔"

آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مُشکبار ہے:"جو میانہ روی اختیار کرے گا، وہ تنگ دست نہیں ہو گا۔

اعتدال پر قولِ بزرگان دین رَحِمَھُمُ اللہُ الْمُبِیْن :

"ہر کام میں میانہ روی بہت سی تکالیف سے بچاؤ کا ڈھال ہے۔" ( حضرتِ شیخ سعدی)

اللہ کریم ہمیں اعتدال کی راہ اپناتے ہوئے، زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم



افراط و تفریط ،انتہا پسندی ،شدت اور بے اعتدالی اُن خصوصیات میں شامل ہیں،  جن کو کبھی مفید اور پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا ہے، اس کے برعکس میانہ روی اور اعتدال کو ہمیشہ قابلِ تعریف قرار دیا گیا ہے اور ہمیشہ دیا جاتا رہے گا، اِسلام دینِ فطرت ہےاور اسی لیے اس کا دیا ہوا نظامِ حیات نہایت مکمل،متوازن اور معتدل نظام ہے۔

نبی کریم صلی الله عليه وسلم جب منصبِ نبوت پر فائز ہوئےاور آپ صلی الله عليه وسلم کو دعوتِ حق کےاعلان کا حکم دیا گیا، تو آپ صلی الله عليه وسلم نے اس حکم کی تعمیل میں لوگوں کو دینِ حق کی جانب بلانا شروع کیا، لیکن اُس وقت عرب كے لوگ اس قدر بے راہ تھے اور کفروشرک کی اتنی تاریکی میں تھے کہ حق کی روشنی میں ان کے لئے کشش نہ رہی تھی، انکی بے حسی نے ان کو اعلانِ حق پر بھی کان دھرنے نہ دیا ، نبی کریم صلی الله عليه وسلم کو معلوم تھا کہ دینِ حق کی یہ آخری دعوت فیصلہ کُن ہے، جو اس دعوت کو قبول کرے گا وہ رحمتوں اور نعمتوں سے نوازا جائے گا، اللہ تعالیٰ نے جب آپ کو دین اسلام کے لئے اس قدر پریشان دیکھا تو فرمایا:

مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲) ترجمہ کنز الایمان: "اے محبوب! ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو"(سورت طہٰ، آیت 2 )

کسی آدمی کو اتنا کنجوس نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی دولت کو کسی چیز میں خرچ ہی نہ کرے اور اپنی اپنے خاندان اور اپنے اعزاء کی جائز ضروریات بھی پوری نہ کرے اور اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین کو بلا وجہ تکلیف میں مبتلا رکھےاور نہ اتنا فراخ دست اور فضول خرچ ہو کہ بے جا خرچ کرے ،نمودونمائش میں پیسہ ضائع کرے ، یہ دونوں طریقے میانہ روی کے خلاف ہیں اور دونوں کا نتیجہ مایوسی اور تباہی ہے۔

بخل کی عادت انسان کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں سے لُطف اندوز نہیں ہونے دیتی اور فضول خرچی سے بالآخر انسان تنگ دست ہو کر دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے، اسی لئے اعتدال اور میانہ روی کی تاکید فرمائی گئی ہے ۔

سورۃ فرقان میں ارشاد ہوتا ہے:وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷) ترجمہ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)

دیکھئے کتنی صاف ہدایت ہےاور کس قدر وضاحت سے سمجھا دیا گیا ہے کہ میانہ روی مؤمن کی صفت ہے، مؤمن نہ ضرورت سے زیادہ خرچ کرتا ہےاور نہ ضروری خرچ کے موقع پر ہاتھ روکتا ہے، بلکہ معتدل رہتا ہے اور میانہ روی کو اپنا کر زندگی کو حُسن خوبی سے گزارتا ہے ، نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے :

نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے فرمایا :"اے مسلمانو! میانہ روی اختیار کرو، کیونکہ جس کام میں میانہ روی ہوتی ہے وہ کام سنْور جاتا ہےاور جس کام میں میانہ روی نہیں ہوتی وہ بگڑ جاتا ہے ، میانہ روی سب کے لیے ضروری ہے اور ہر کام میں ضروری ہے ۔"(صحیح مسلم)

صرف دنیاوی معاملات اور معاشی مسائل ہی میں میانہ روی مفید نہیں ہے، بلکہ دینی معاملات میں بھی اعتدال مستحسن ہے۔

اسلام دینِ فطرت ہے اور ایک مکمل نظام ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بے اعتدالی سے جو ایک غیر ضروری فطری کیفیت ہے، اس سے بچنا چاہئے اور اس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے کہ جس میں حقوق اور فرائض کے درمیان توازن ہو، نہ اپنے فرائض کو فراموش کیا جائے ، نہ ہی ان سے غفلت برتی جائے ، اللہ تعالیٰ سختی پسند نہیں فرماتا، اس نے اپنے دین کوآسان بنایا ہے، تاکہ لوگ سختی اور شدّت سے گھبرا کر ترکِ دین پر مائل نہ ہوں۔


میانہ روی نہایت ہی اَہم اَمر ہے،  میانہ روی کا مطلب ہے "درمیانی راہ"، جب کہ اس راہ پرآ نا ہی نہیں وہ بخل ہے، اور اس راہ سے تجاوز کرنا فضول خرچی( اِسراف) کہلاتا ہے، یقیناً فضول خرچ اسراف ناجائز ہے اور ہم اس کے بارے کافی بار سن چکے ہیں، لیکن فضول خرچی پر اُبھارنے کی ایک وجہ بخل یعنی کنجوسی ہے، جی ہاں! کنجوسی پہ ایک ایسا مرض ہے جو نسلوں کو بے جا خرچ کرنے پر اُبھارتا ہے۔

وہ کیسے؟ جی اس صورت کو ایک مثال سے بیان کرتی ہوں، اگر کوئی آدمی بخل کرے، اپنے بال بچوں کا حق ادا نہ کرے، جہاں خر چ کرنا ضروری ہے وہاں بھی خرچ نہ کرے، تو اس کا یہ رویّہ اس کی اولاد پر دو طرح سے اثر انداز ہوگا۔

(1)یاتو اس کی اولاد اس کے نقشِ قدم پر چل کر بخیل بنے گی۔

(2)یا اس کی اولاد دولت ہاتھ میں پا کر بے جا خرچ میں مبتلا ہوگی، بچپن میں ہونے والی محرومیاں اور جائز خواہش کا پورا نہ ہونا، ضرورت کی اَشیاء بھی اسے نہ ملنا، یہ تمام احساسات وقت کے ساتھ ساتھ اس کے اندر ایک ایسا سوچ پیدا کریں گے کہ پیسے آئے تو میں یہ کروں، وہ کروں، اس طرح جب حقیقتاً اس کے پاس دولت آئے گی وہ اپنے آپ کو تسکین دینے کی غرض سے جائز و ناجائز خواہشات کی تکمیل کرے گا، یوں وہ فضول خر چی میں مبتلا ہوکر میانہ روی کے راستے پر نہیں چل سکے گا ۔

میانہ روی اہم ہے اور خرچ کرنے والا اگر کنجوسی کا مظاہرہ نہ کرے، عورتوں کو ان کا پورا حق دے، اولاد کے حقوق کو پورا کرے تو آگے چل کر معاشرے میں پیدا ہونے والی خرابی، فضول خرچی سے بچا جاسکتا ہے ۔

میانہ روی کے ساتھ خرچ کرنا، دولت کا صحیح استعمال کرنا، آگے آنے والی نسل کو بھی میانہ روی کی راہ پر چلائے گا۔


اعتدال اور میانہ روی کی تعریف:

اعتدال اور میانہ روی کا مطلب یہ ہےکہ تمام احکام و اُمور میں ایسی درمیانی راہ اختیار کرنا، جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط یعنی نہ رشوت ہو نہ ازخود کوتاہی، اعتدال و میانہ روی دینِ اسلام کی ایک ایسی صفت ہے، جو اسکے ہر معاملے اور ہر حکم میں جلوہ گرنظر آتی ہے، جب دینِ اسلام کی یہ نمایاں خصوصیت ہے، جو اسکو تمام ادیان سے ممتاز بناتی ہے، تو لازمی طور پر امت مسلمہ کی خصوصیت بھی یہی ہوگی کہ وہ عدل و اعتدال سے متصف اور افراط و تفریط سے مبّرا رہے، ارشادِ باری تعالی ہے:

وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ-

ترجمہ کنز الایمان:اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہواور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔(سورۃ البقرہ ، 143)

اِسلام کی امتیازی خصوصیات میں توازن و اعتدال اور میانہ روی شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم کو "الکتاب" کے علاوہ "المیزان" بھی کہاگیا ہےاور مسلمانوں کو اُمّتِ وسط کے خطاب سے بھی نوازا گیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:"مسلمانو! میانہ روی اختیار کرو، کیونکہ جس کام میں میانہ روی ہوتی ہے، وہ کام سنْورجاتا ہےاور جس کام میں میانہ روی نہیں ہوتی وہ بگڑ جاتا ہے۔"(صحیح مسلم )

میانہ روی اختیارکرو اور خاموش ہوجاؤ:

عبد السّلام بن مطہر نے بیان کیا، انہوں نے کہا:" کہ ہم کو عمر بن علی نے معین بن محمد غفاری سے خبر دی، وہ سعید بن ابو سعید مقبری سے، وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بے شک دین آسان ہےاور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا، تو دین اس پر غالب آجائے گا(اور اسکی سختی نہ چل سکے گی )، پس اپنے عمل میں پختگی اختیار کرواور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی برتو اور خوش ہوجاؤ اور صبح اور دوپہر اور شام اور کسی قدر رات میں (نماز) سے مدد حاصل کرو۔(کتاب الایمان ، دین آسان ہے )

حدیث میں ارشاد ہوتا ہے:

"سیدھی راہ اختیار کرو، سیدھی راہ پر چلو، میانہ روی اختیار کرو اور خوشخبری دو(اللہ کی رحمت کی ) خوش رہو۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر7122 )

"میانہ روی سب کیلئے ضروری ہے اور ہر کام میں ضروری ہے، صرف دنیاوی معاملات اور معاشی مسائل ہی میں میانہ روی مفید نہیں، بلکہ دینی معاملات میں بھی اعتدال مستحسن ہے۔" 


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مسلمانو! میانہ روی اختیار کرو، کیوں کہ جس کا م میں میانہ روی ہوتی ہے، وہ کام سنْور جاتا ہے اور جس کام میں میانہ روی نہیں ہوتی، وہ بگڑ جاتا ہے۔"

ایک حدیث شریف میں ہے:

"اعتدال یعنی ہر کام کو افراط و تفریط کے بغیر کرنا نبوت کا پچیسواں حصّہ ہے، اسی طرح سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے:" لوگو! میانہ روی اختیار کرو، میانہ روی اختیار کرو، کیونکہ اللہ تعالی نہیں تھکتا ہے، مگر تم تھک جاتے ہو ، ہمارا دن رات کا مشاہدہ ہے کہ جو لوگ اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور شدت و اِنتہا پسندی کو اختیار کر لیتے ہیں، ان کی زندگی سے اعتدال کے ساتھ ساتھ اَمن و سکون بھی جاتا رہتا ہے اور ان کے معاملات اتنے اُلجھ جاتے ہیں کہ ان کی ساری قوتیں اور وقت کا بیشتر حصّہ ان کے معاملات کو سُلجھانے میں ہی صرف ہو جاتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ راحت سے محروم ہو جاتے ہیں، اس کے برعکس جو لوگ اپنے معاملے میں میانہ روی کو ملحوظ رکھتے ہیں، وہ مصائب میں مُبتلا نہیں ہوتے اور ان کے متعلقین اور احباب بھی ان سے شاکی نہیں ہوتے، میانہ رو افراد خود بھی پرسکون زندگی گزارتے ہیں اور دوسروں کے بھی کام آتے ہیں۔

"میانہ روی سب کے لیے ضروری ہے، ہر کام میں ضروری ہے، صرف دنیاوی معاملات اور معاشی مسائل ہی میں میانہ روی مفید نہیں ہے، بلکہ دینی معاملات میں بھی اعتدال مستحسن ہے۔"( مسلم)