
اعتدال
و میانہ روی دینِ اسلام کی ایسی عظیم صفت ہے جو اس کے ہر معاملہ اور ہر حکم میں
جلوہ گر نظر آتی ہے،اعتدال اور میانہ روی کا مطلب "تمام احکام و امور میں ایسی
درمیان راہ اختیار کرنا، جس میں نہ افراط
ہو نہ تفریط"
اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے:
ترجمہ کنز الایمان:اور بات یوں ہی ہے کہ ہم
نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم
لوگوں پر گواہ ہواور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔(سورۃ
البقرہ ، 143)
اور
فرمایا: یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا
عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّؕ-
ترجَمۂ کنزُالایمان:اے کتاب
والو اپنے دین میں زیادتی نہ کرو اور اللہ پر نہ کہو مگرسچ ۔
(النساء : 171)
اسلام
نے نہ صرف یہ کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں درمیانی راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی ہے
،بلکہ غلوو تقصیر میں سے کسی ایک جانب جھک جانے سےڈرایا بھی ہے، جیسا کہ ارشادِ
باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ کنزالایمان:" ہم کو سیدھا راستہ چلا، راستہ اُن کا جن پر تُو
نے احسان کیا، نہ اُن کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔( الفاتحہ،
5۔7)
خرچ
کرنے کے سلسلے میں میانہ روی اس فرمانِ الہی سے واضح ہے:
ترجمہ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال
پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)
مسئلہ: ایمان کے سلسلے میں اہلِ سنت
والجماعت کا مؤقف افراط وتفریط سے پاک ہے،
وہ عمل کو ایمان کا ایک جُز قرار دیتے ہیں
اور معصیّت کے مُرتکب کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتے۔
نبوت
و ولایت اور صحابیت: ان درجات میں بھی
اعتدال ہے، ان لوگوں کی طرح غلو نہیں، جنہوں نے نبیوں اور ولیوں کو ربّ اور نہ یہو
دیوں کی طرح ، جنہوں نے نبیوں اور رسولوں کی تکذیب کی اور انہیں قتل کیا۔
اہلِ
اسلام درمیانی راہ اپناتے ہوئے اللہ
تعالی کے تمام رسولوں اورپیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی کتابوں پر بھی، اس
کے ولیوں سے بھی محبت کرتے اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے صحابہ سے بھی۔۔۔
ہمارے
دین اسلام نےاگرچہ آخرت کومطمعِ نظر اور مقصد حیات بنانے پرسعاد ت وکامرانی کا دارومدا رکھا ہے، لیکن اس طرف بھی توجّہ دلائی
ہے کہ دنیاوی زندگی کی اُستواری کے لئے جائز طریقوں سے مال و اسباب کا حصول اور مُباحات
میں اس کا خرچ تمہارا فطری حق ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ
ہے:
ترجمہ کنزالایمان:اے آدم کی اولاد اپنی زینت لو جب مسجد میں جاؤ اور کھاؤ
اور پیؤ اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔
( اعراف، 31)
اور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی حدیث ہے:" کھاؤ، پیو، پہنو اور صدقہ کرو، جب تک اس میں اسراف اور تکبر کی
آمیزش نہ ہو۔"( سنن ابن ماجہ )
نبی
پاک صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:"دین آسانی کا نام ہے اور جو شخص دین کے بارے میں سختی کرنے کی
کوشش کرے گا، خدا کی قسم! یہ دین اس پر غالب آجائے گا،تم سیدھے رہو اور میانہ روی
اختیار کرو۔"(اخرجہ البخاری،39،والنسائی،5049)
عبادات میں میانہ روی:
عبادات
میں میانہ روی اختیار کرنے کے بارے میں چندفرا مین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:
اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل ہے، جو
ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو"
(
صحیح بخاری و صحیح مسلم، مشکوٰۃ شریف، جلد اول، حدیث1217)
اللہ کی قسم! میں تم سب کے مقابلے میں
اللہ سے زیادہ ڈرتا اور اس کی بارگاہ
میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں، لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں،
نوافل پڑھتا بھی ہوں اور سو بھی جاتا ہوں،اور میں نے خواتین کے ساتھ شادی بھی کی
ہوئی ہے اور جوشخص میری سنت سے منہ موڑے گا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"(اخرجہ
البخاری،5063)
"
بال کی کھال اُتارنے والے ہلاکت کاشکار ہو جائیں"(اخرجہ مسلم،2670)
"تمہارے
اوپر تمہارے نفس کا حق ہے، تمہارے گھر والوں کا بھی تم پرحق ہے اور تمہارے ربّ کا
بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر حقدار کا حق ادا کرو۔"(احمد و مسلم)
اللہ پاک ہم سب کو اپنے ہرعمل میں میانہ
روی اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم

میانہ روی سے مراد اوسط درجے کی روش، کفایت شعاری
اور اعتدال ہے، دینِ اسلام ہمیں زندگی کے تمام
معاملات میں اعتدال اور میانہ روی کا
حکم دیتا ہے، دین کا ہر حکم فطرت کے عین مطابق اور اعتدال پر قائم ہے، مثلاً عبادات، اخراجات، گفتگو، آواز، چال وغیرہ۔
قدرت کا نظام: اللہ کریم نے ہر جاندار کو زندہ
رہنے کے لئے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، جیسے پانی کو دیکھ لیں، ہر جاندار کی
زندگی کے لئے یہ کتنا ضروری ہے، لیکن اگر کوئی پانی کے اندر نہر میں گر جائے تو وہ
پانی کی بہتات کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو سکتاہے اور اگر کوئی صحرا میں بھٹک رہا
ہو اور وہاں پانی کی بُوند تک نہ ملے تو بھی زندگی ختم ہو جائے گی، سیلاب کی وجہ
سے پانی کی کثرت ہو جائے تو علاقوں کے علاقے اس کی زَدمیں آ کر تباہ ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح ہوا کو دیکھ لیں، اگر اس کی کثرت ہو
جائے تو طوفان اور آندھیوں کی صورت میں کتنے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر
ہوا بالکل ہی نہ ملے تو بھی دم گھُٹنے سے موت واقع ہو جاتی ہے، اس لئے ہمیں یہ
اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ میانہ روی کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔
عبادات میں
میانہ روی:عبادت نہ تو
اتنی زیادہ کی جائے کہ آدمی کے کام متأثر ہونے لگیں اور نہ ہی اتنی کم کہ اس اہم فریضے سے غفلت کا
گُمان ہونے لگے، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نماز میں بھی اعتدال تھا اور خطبہ بھی
معتدل (یعنی نہ بہت طویل اور نہ بہت مختصر) ہوا کرتا تھا۔ (مسلم،ص334،حدیث:2003)
اخراجات میں میانہ روی:کفایت شعاری سے کام لینا اخراجات میں
میانہ روی ہے، انسان کو چاہئے کہ مال و دولت کو ضرورت کے مطابق خرچ کرے، کیونکہ
اخراجات میں میانہ روی، اِسراف اور بخل کے درمیان کی راہ ہے۔ ہمارے نبیِّ محترم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:میانہ روی اختیار کرنے والاکبھی مفلس نہیں
ہوتا۔( مسند احمد،3/157،حدیث: 4269)
اسلام نے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا بھی بہت اچھا سلیقہ
بتایا ہے کہ صدقہ بھی اتنا نہ دو کہ بعد میں تم خود صدقہ لینے والی حالت میں آ
جاؤ، سُورۃُ الفُرقان میں اللہ کریم نے اپنے بندوں کی یہ صفت بھی بیان فرمائی، ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور وہ لوگ
کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ حد سے بڑھتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان
دونوں کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں۔
(پ19،
الفرقان: 67 )
آواز اور
گفتگو میں اعتدال:آپس میں
گفتگو کے دوران بھی ہماری آواز پست ہونی چاہئے، قراٰنِ پاک میں
اللہ کریم نے صحابۂ کرام رضی اللہُ
عنہم کو سکھایا کہ وہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے اونچی
آواز سے گفتگو نہ کریں، کیونکہ یہ عمل
ان کے تمام نیک اعمال کو ضائع کرنے کا سبب
بن جائے گا، تیز آواز میں باتیں کرنے سے مریض، پڑھنے والے، سونے والے اور
دیگر کاموں میں مصروف لوگ متأثر ہوتے ہیں۔
چال میں میانہ روی:اسلام ہمیں چال میں بھی میانہ روی
سکھاتا ہے، غرور و تکبر کے ساتھ نہیں چلنا چاہئے اور نہ ہی اتنا آہستہ چلے کہ
بیمار لگے، قراٰنِ پاک میں تکبر کے ساتھ چلنے والے کو ناپسند کیا گیا ہے، ہمارے
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بہت باوقار انداز میں چلا کرتے تھے، آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میانہ روی اور نرمی سے چلتے تھے، روایت ہے کہ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایسا چلتے تھے کہ گویا زمین آپ کے لئے سمٹتی ہے۔
(تفسير ابن کثیر،6/110، پ19،الفرقان،تحت الآیۃ:63)
ہمیں چاہئے کہ ہم زندگی کے
تمام مراحل جیسے تعلیم، کھیل کود، تفریح، کھانے پینے، سونے اور زندگی کے
دیگر معاملات میں اعتدال کی روِش اپنائیں اور اللہ کریم کی بتائی ہوئی
حُدود سے تجاوز نہ کریں۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم

سجدہ سہو کا طریقہ:
التحیّات پڑھ کر بلکہ افضل یہ ہے کہ دُرود
شریف بھی پڑھ لیجئے، سیدھی طرف سلام پھیر کر دو سجدے کیجئے پھر تشہّد، دُرود شریف
اور دُعا پڑھ کر سلام پھیر دیجئے۔
(فتاوٰی قاضی خان معہ عالمگیری، ج1، ص 121 ، نماز
کے احکام، ص210)
سجدہ سہو کرنا بھول جائیں تو:
سجدہ سَہو کرنا تھا اور بُھول کر سلام پھیرا،
تو جب تک مسجد سے باہر نہ ہوا کر لے۔
(دُرِ مختار معہ ردالمختار، ج2 ، ص 556)
میدان میں ہو تو جب تک صفوں سے مُتجاوز نہ ہو
یا آگے کو سجدہ کی جگہ سے نہ گزرا کر لے، جو چیز مانِع بنا ہے، مثلاً کلام وغیرہ
منافی نماز اگر سلام کے بعد پائی گئی تو
اب سجدہ سہو نہیں ہو سکتا۔
( در مختار معہ
ردالمختار، ج2، ص556 ،نماز کے احکام، ص281)
وہ اُمور جن کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہوتا ہے،
وہ دس صورتیں یہاں بیان کی جاتی ہیں ۔
(1 ) واجبات نماز میں جب کوئی واجب بھولے سے
رہ جائے تو اس کی تلافی کے لیے سجدہ سہو واجب ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ التحیات کے
بعد دہنی طرف سلام پھیر کردو سجدے کرے پھر تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیرے ۔
(2 )فرض و نفل دونوں کا ایک حکم ہے یعنی
نوافل میں بھی واجب ترک ہونے سے سجدہ سہو واجب ہے۔
(3 )فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور نوافل و
وترکی کسی رکعت میں سورہ الحمد کی آیت بھی رہ گئی یاسورت سے بیشتر دوبارہ الحمد
پڑھی یا سورت ملانا بھول گیا یا سورت کو فاتحہ پر مقدم کیا یا الحمد کے بعد ایک یا
دو چھوٹی آیتیں پڑھ کر رکوع میں چلا گیا پھر یاد آیا اور لوٹا اور تین آیات پڑھ کر
رکوع کیا تو ان سب صورتحال میں سجدہ سہو واجب ہے۔
(4 )الحمد کے بعد سورت پڑھی اسکے بعد پھر
الحمد پڑھی تو سجدہ سہو واجب نہیں یونہی فرض کی پچھلی رکعتوں میں فاتحہ کی تکرار
سے مطلقا سجدہ سہو واجب نہیں اور اگر پہلی رکعتوں میں الحمد کا زیادہ حصہ پڑھ لیا
تھا پھر اعادہ کیا تو سجدہ سہو واجب ہے۔
(5 ) الحمد پڑھنا بھول گیا اور سورت شروع کر دی اور بقدر ایک آیت پڑھ لی اب یاد آیا
تو الحمد پڑھ کر سورت پڑھے تو سجدہ سہو واجب ہے۔
(6
)فرض کی پچھلی رکعتوں میں سورت ملائی تو سجدہ سہو نہیں تو قصدا ملائی تو بھی حرج
نہیں مگر امام کو نا چاہیے. یونہی اگر پچھلی رکعتوں میں ا لحمد نا پڑھی تو بھی
سجدہ سہو نہیں اور رکوع و سجودو قعدہ میں قرآن پڑھا تو سجدہ سہو واجب ہے۔
(7 ) رکوع کی جگہ سجدہ کیا یا سجدہ کی جگہ
رکوع کیا یا کسی ایسے رکن کو دوبارہ کیا جو نماز میں مکرر مشروع نا تھا یا کسی رکن کو مقدم یا موخر کیا تو ان سب
صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہے۔
(8 )قرات وغیرہ کسی موقع پر سوچنے لگا کہ
بقدر ایک رکن یعنی تین بار سبحان اللہ کہنےکا وقفہ ہوا تو سجدہ سہو واجب ہے ۔
(9)تشهد کے بعد یہ شک ہوا کہ تین ہویں یا چار
اور ایک رکن کی قدر خاموش رها اور سوچتا رہا پھر یقین ہوا کہ چار ہو گیں۔تو سجده
سهو واجب ہےاور اگر ایک طرف سلام پھیرنے کے بعد ایسا ہوا تو کچھ نهیں اور اگر اسے
حدث ہوا اور وضو کرنے گیا تھا کہ شک واقع ہوا اور سوچنے میں وضو سے کچھ دیر تک رک
رہا تو سجد سہو واجب ہے۔
(10(قعده اولی میں تشهد کے بعد اتنا پڑھا
الھم صلی علی محمد تو سجده سهو واجب هے۔اس وجہ سے نهیں کہ درود شریف پڑھا بلکہ اس
وجہ سے کہ تیسری کے قیام میں تاخیر ہوی۔تو اگر اتنی دیر تک سکوت کیاجب بھی سجده سہو
واجب ہے۔جسے قعده و رکوع و سجود میں قرآن پڑھنے سے سجده سهو واجب هے۔حالانکہ وه
کلام الہی ہے۔امام اعظم رضی الله تعالی عنہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں
دیکھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔درود پڑھنے والے
پرتم پر کیوں سجده واجب بتایا۔عرض کی اس لیے کہ اس نے بھول کر پڑھاحضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے تحسین فرمائی۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اِسلام
ہمارا دینِ فطرت ہے، ہمارے دینِ اِسلام میں دیگر مذاہب کی نسبت بہت آسانی رکھی گئی
ہے، جس طرح دیگر عبادات کے اندر آسانی رکھی گئی ہے، اِسی طرح اُمّتِ مسلمہ کی
کمزوری کو مدِّنظر رکھتے ہوئے نماز میں کافی حد تک ہم کو آسانی مُیّسر ہے، اِنہی میں
سے ایک یہ بھی ہے کہ جب ہم سے نماز میں سے کوئی واجب بھولے سے ترک ہوجائے، تو آخر میں
سجدہ سہو ہے، آئیے اب ہم سجدہ سہو کے واجب ہونے کی دس دس صورتوں کو ذکر کرتے ہیں:
(1)
نماز میں جب کوئی واجب بُھولے سے رہ جائے تو اِس کی تلافی کے لیے سجدہ سہو واجب ہے۔(
بہارِشریعت، ج 1، ص708)
(2)
سجدہ سہو اس وقت واجب ہے، جب کہ وقت میں گنجائش ہو اور اگر نہ ہو تو سجدہ سہو ساقط
ہوگیا۔(ایضاً، ص709)
(3)نفل
کی دو رکعتیں پڑھیں اور ان میں سَہو ہوا (یعنی بھولا)، پھر اِس پہ بنا کر کے( یعنی
اس کے ساتھ ملا کر) دو رکعتیں پڑھیں، سجدہ
سہو کرے۔(ايضاً، ص 710)
(4)
فرض کی پہلی دو رکعتوں میں یا نفل و وِتر کی کسی رکعت میں الحمد کی ایک آیت بھی رہ گئی تو سجدہ
سہو واجب ہے۔(ايضاً)
(5)
مذکورہ بالا نمازوں میں اگر سورت سے پہلے دوبارہ الحمد پڑھی یا سورت ملانا بھول گیا، سورت
کو فاتحہ یر مُقدّم کیا، پھر بھی سجدہ سہو واجب ہے۔(ايضاً)
(6)آیتِ
سجدہ پڑھی اور سجدہ بھول گیا، تو سجدہ تلاوت ادا کرے اور سجدہ سہو کرے۔(ايضاً)
(7)
جو فعل نماز میں مُکرر ہیں، ان میں ترتیب واجب ہے، لہذا خلافِ ترتیب واقع ہو تو
سجدہ سہو واجب ہے۔(ايضاً)
(8)
کسی رکعت کا سجدہ رہ گیا، آخر میں یاد آیا تو سجدہ کرے پھر التحیات پڑھ کر سجدہ
سہو کرے۔(ايضاً)
(9)تعدیلِ
اَرکان بھول گیا تو سجدہ سہو واجب ہے۔(ايضاً)
(10)مُسافر
نے سجدہ سہو کے بعد اِقامت (یعنی مُقیم ہونے)کی نیّت کی، تو چار پڑھنا فرض ہے اور
آخر میں سجدہ سہو کا اِعادہ کرے۔
اللہ عزوجل سے دُعا ہے ہمیں فِقہی اَحکام سیکھنے
اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم

سجدہ سہو کا طر یقہ: التحیات پڑھ کر بلکہ افضل یہ
ہے کہ درود شریف بھی پڑ ھ لیجیئے ، سیدھی طرف سلام پھیر کر دو سجدے کیجیے ، پھر
تشہد ، دُرود شر یف اور دُعا پڑ ھ کر سلام
پھیر د یجیئے۔
(نماز کے احکام، فتاوی قاضی خان عالمگیری، ج1، ص 121)
سجدہ سہو کے مسائل کو سمجھنے اور انہیں یاد ر کھنے کے
لیے ایک اُصول ذہن نشین کر لینا مفید ر ہے گا۔
مسئلہ ( اُصول ) : واجبات ِ نماز میں سے اگر کو
ئی واجب بھو لے سے رہ جائے تو سجدہ سہو واجب ہے۔
(دلچسپ معلومات، ج1، در مختار ، در المختار ، کتاب
الصلوۃ ، باب سجودالسہو ، ج 2 ، ص651۔655)
(اِسی طرح ) واجب کی تاخیر رُکن ( یعنی فرض ) کی تقدیم
یا ( فر ض کی ) تا خیر یا اس کو مُکرر کر نا یا واجب میں تغیّر( یعنی تبدیلی کر نا
) یہ سب بھی تر ک ِ واجب ہیں۔( بہار ِ شریعت حصہ4، 710/10)
(یعنی ) حقیقتاً سجدہ سہو کا وُجوب صرف ایک چیز سے ہو تا ہےاور وہ ہے (
نماز کے ) واجب کا ( بھو لے سے) چھوٹ جانا۔(فتاویٰ ھند یہ، ج 1 ، ص 139)
1۔ قراءَت
وغیرہ کسی مو قع پر سو چنے میں تین مر تبہ " سبحان
اللہ"کہنے کا وقفہ گز ر گیا سجدہ
سہو واجب ہو گیا۔
( نماز کے احکام ، رد المختار ج 2 ، ص 655)
2۔قیام کے علاوہ د یگر اَرکان میں قرآن مجید پڑ ھنے سے سجدہ سہو
واجب ہو تا ہے ۔
( ردالمختار، کتاب الصلوۃ ، باب سجودالسہو ، ج 2 ، ص
657، دلچسپ معلومات، ج1)
3۔جو سورت ملانا بھو ل گیا اگر اسے ر کوع میں یاد آیا ، تو
فوراً کھڑے ہو کر سورت پڑھے ، پھر رُکوع دوبارہ کرے، پھر نماز
تمام کر کے سجدہ سہو کر ے اور اگر رُکوع کے بعد سجدے میں یاد آیا تو صرف اَخِیر
میں سجدہ سہو کر لے، نماز ہو جائے گی۔
(فتاویٰ رضویہ، ج 8 ، ص 196)
4۔فرض کی پہلی دو ر کعتوں میں اور نفل و وِ تر کی کسی رکعت میں
سورت سے پہلے دو بار سورہ فاتحہ پڑ ھی تو سجدہ سہو واجب ہے۔ ( فتاویٰ ھند
یہ، کتاب الصلوۃ ، الباب الثا نی عشرفی سجود السہو ، 139/1)
5۔کسی رکعت کا کوئی سجدہ رہ گیا آ خر میں یاد آیا، تو سجدہ کر لے پھر التحیات پڑ ھ کر سجدہ سہو کرے۔
(بہارِ شریعت ، حصّہ 4، ص 711)
6۔ اگر
قعدہ اولیٰ میں چند بار تشہد پڑ ھا، سجدہ سہو واجب ہو گیا۔ ( بہارِ شریعت ، حصہ
4،ص 713 )
7۔اِمام نے جَہری نماز میں بقدرِ جواز ِ نماز یعنی ایک آیت آ ہستہ
پڑھی یا سِرّی میں جَہر سے تو سجدہ سہو واجب ہے اور ایک کلمہ آہستہ یا جہر سے پڑ ھا
تو معاف ہے۔ ( بہارِ شر یعت حصہ 4 ، ص 714)
8۔مُنفرد نے سِرّی نماز میں جہر سے پڑ ھا تو سجدہ سہو واجب ہے اور
جہر ی میں آہستہ تو نہیں۔
(بہارِ شر یعت حصّہ
4 ، ص 714)
9۔مَسبوق نے امام کے سہو میں امام کے ساتھ سجدہ سہو کیا، پھر جب اپنی
پڑ ھنے کھڑا ہوا اور اس میں بھی سہو ہوا تو اس میں بھی سجدہ سہو کر ے۔ ( بہارِ شر
یعت حصہ 4 ، ص 715)
10۔وِتر میں شک ہو ا کہ دوسری ہے یا تیسری تو اِس میں قُنوت پڑھ کر
قعدہ کے بعد ایک رکعت اور پڑ ھے اور اس میں بھی قُنوت پڑھے اور سجدہ سہو کرے ۔ (
بہارِ شر یعت حصّہ 4 ، ص 719)

1. واجباتِ نماز میں
سے اگرکوئی واجب بھولےسے رہ جائے یا فرائض و واجباتِ نماز میں بھولے سے تاخیر
ہوجائے تو سَجْدَہ سَہْو واجب ہے۔
2. تعدیلِ ارکان (مثلاً
رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا یا دوسجدوں کے درمیان ایک بار سبحٰن اللہ کہنے کی
مقدار بیٹھنا) بھول گئے سجدہ سہو واجب ہے۔
3. قنوت یا تکبیرِ
قنوت بھول گئے سجدہ سہو واجب ہے۔
4. قِرَاءَتْ وغیرہ
کسی موقع پر سوچنے میں تین مرتبہ " سبحٰن اللہ" کہنے کا وقفہ گزر گیا
سجدہ سہو واجب ہوگیا.
5. امام سے سہو ہوا
اور سجدہ سہو کیا تو مقتدی پر بھی واجب ہے.
6. قَعْدَہ اُولیٰ
میں تشہد کے بعد اتنا پڑھا "اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ" تو سجدہ
سہو واجب ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ درود شریف پڑھا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ تیسری
رکعت کے قیام میں تاخیر ہوئی، لہٰذا اگر اتنی دیر تک خاموش رہا جب بھی سجدہ سہو
واجب ہے.
7. کسی قَعدہ میں
تشہد سے کچھ رہ گیا تو سجدہ سہو واجب ہے۔
(نماز کے احکام، رسالہ نماز کا طریقہ، سہو کا
بیان، ص 105 تا 109، مکتبۃ المدینہ)
8. آیتِ سجدہ پڑھی
اور سجدہ میں سہواً تین آیت یا زیادہ کی تاخیر ہوئی تو سجدہ سہو کرے.
9. "الحمد" کا ایک لفظ بھی رہ گیا تو سجدہ سہو کرے.
10. ایک رکعت میں تین
سجدے کیے یا دو رکوع یا قَعْدَہ اولی بھول گیا تو سجدہ سہو کرے۔
(بہارِ
شریعت، ج اول، حصہ سوم، واجباتِ نماز، ص 519 تا 520،مکتبۃ المدینہ)
.jpeg)
11مارچ
2021ء کو مدرستہ المدينہ بالغان رحيم يارخان صادق آباد و اطراف ميں 100سے زائد مدنى قاعدہ ناظرہ مکمل کرنے
والوں کو شبِ معراج اجتماع صادق آباد ميں
رکن شورى حاجى محمد بلال عطارى نے تحائف و اسناد دى اور عمامہ کے تاج بھى سجائے۔
.jpeg)
11مارچ
2021ء کو رکن شورى حاجى محمد بلال عطارى نے ملتان ريجن میں اراکينِ زون رحيم يارخان مدرستہ
المدينہ بالغان کا مدنى مشورہ فرمايا۔ مدرستہ المدينہ بالغان و مدنى کاموں کى
کارکردگى کا جائزہ ليا۔ تعليمى اداروں ميں
مدرستہ المدينہ بالغان بڑھانے کے اہداف کے ساتھ ايک ماہ اعتکاف رمضان عطيات کے
اہداف بھى اراکين زون کو عطا کئے۔
.jpeg)
11مارچ
2021ء کو نگران مجلس مدرستہ المدينہ بالغان غلام عابدعطارى کى والدہ وفات پر ان
کے ايصال ثواب و دعائے مغفرت کے ليے رکن شورى حاجى محمد بلال عطارى نے ان کے
گھر پر ايصال ثواب اجتماع ميں شرکت کی اور خصوصی بيان کیا۔ اس موقع پر فاتحہ خوانی اور دعا کا سلسلہ بھی ہوا۔
.jpeg)
شعبہ کورسز
دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام ڈیفنس کابینہ
اور شعبۂ تعلیم کے تحت فیضانِ اسلام مسجد ڈیفنس فیز 7 میں 3 دن کا طہارت کورس 8، 9 اور 10
مارچ کو ہوا جس میں طلباء ، ڈاکٹرز اور پولیس افسران سمیت کثیر اسلامی بھائیوں نے شرکت
کی ۔
.jpeg)
دعوت اسلامی کے زیر اہتمام نگران ریجن برمنگھم
یوکے حاجی سید فضیل رضا عطاری نے آن لائن مدنی مشورہ لیا جس میں اسٹوک آن ٹرینٹ یوکے ڈویژن کے ذمہ داران نے شرکت کی۔
مدنی مشورے میں دعوت اسلامی کے تحت جاری دینی
کام اور مختلف پروجیکٹ کے بارے میں بات چیت ہوئی جبکہ نگران ریجن یوکے نے رمضان
المبارک میں ہونے والے دینی کاموں کے حوالے سے اہداف دیئے۔
.jpeg)
دعوتِ اسلامی
کے شعبہ رابطہ برائےحکیم کے زیر اہتمام 11 مارچ 2021ء بروز جمعرات گجرات، مظفرگڑھ ، شجاع آباد بستی میں مدنی
حلقہ منعقد کیا گیا جس میں شعبہ رابطہ برائے حکیم کے نگران حکیم محمد حسان عطاری نے سنتوں بھرا بیان کیا اور مختلف اطباء کرام سے
ملاقات کی۔(رپورٹ: محمد عظیم
عطاری)