اعتدال و میانہ روی دینِ اسلام کی ایسی عظیم صفت ہے جو اس کے ہر معاملہ اور ہر حکم میں جلوہ گر نظر آتی ہے،اعتدال اور میانہ روی کا مطلب "تمام احکام و امور میں ایسی درمیان راہ اختیار کرنا، جس میں نہ  افراط ہو نہ تفریط"

اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے:

ترجمہ کنز الایمان:اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہواور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔(سورۃ البقرہ ، 143)

اور فرمایا: یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّؕ-

ترجَمۂ کنزُالایمان:اے کتاب والو اپنے دین میں زیادتی نہ کرو اور اللہ پر نہ کہو مگرسچ ۔ (النساء : 171)

اسلام نے نہ صرف یہ کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں درمیانی راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی ہے ،بلکہ غلوو تقصیر میں سے کسی ایک جانب جھک جانے سےڈرایا بھی ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

ترجمہ کنزالایمان:" ہم کو سیدھا راستہ چلا، راستہ اُن کا جن پر تُو نے احسان کیا، نہ اُن کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔( الفاتحہ، 5۔7)

خرچ کرنے کے سلسلے میں میانہ روی اس فرمانِ الہی سے واضح ہے:

ترجمہ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)

مسئلہ: ایمان کے سلسلے میں اہلِ سنت والجماعت کا مؤقف افراط وتفریط سے پاک ہے، وہ عمل کو ایمان کا ایک جُز قرار دیتے ہیں اور معصیّت کے مُرتکب کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتے۔

نبوت و ولایت اور صحابیت: ان درجات میں بھی اعتدال ہے، ان لوگوں کی طرح غلو نہیں، جنہوں نے نبیوں اور ولیوں کو ربّ اور نہ یہو دیوں کی طرح ، جنہوں نے نبیوں اور رسولوں کی تکذیب کی اور انہیں قتل کیا۔

اہلِ اسلام درمیانی راہ اپناتے ہوئے اللہ تعالی کے تمام رسولوں اورپیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی کتابوں پر بھی، اس کے ولیوں سے بھی محبت کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے بھی۔۔۔

ہمارے دین اسلام نےاگرچہ آخرت کومطمعِ نظر اور مقصد حیات بنانے پرسعاد ت وکامرانی کا دارومدا رکھا ہے، لیکن اس طرف بھی توجّہ دلائی ہے کہ دنیاوی زندگی کی اُستواری کے لئے جائز طریقوں سے مال و اسباب کا حصول اور مُباحات میں اس کا خرچ تمہارا فطری حق ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ترجمہ کنزالایمان:اے آدم کی اولاد اپنی زینت لو جب مسجد میں جاؤ اور کھاؤ اور پیؤ اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔ ( اعراف، 31)

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:" کھاؤ، پیو، پہنو اور صدقہ کرو، جب تک اس میں اسراف اور تکبر کی آمیزش نہ ہو۔"( سنن ابن ماجہ )

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"دین آسانی کا نام ہے اور جو شخص دین کے بارے میں سختی کرنے کی کوشش کرے گا، خدا کی قسم! یہ دین اس پر غالب آجائے گا،تم سیدھے رہو اور میانہ روی اختیار کرو۔"(اخرجہ البخاری،39،والنسائی،5049)

عبادات میں میانہ روی:

عبادات میں میانہ روی اختیار کرنے کے بارے میں چندفرا مین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:

اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل ہے، جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو"

( صحیح بخاری و صحیح مسلم، مشکوٰۃ شریف، جلد اول، حدیث1217)

اللہ کی قسم! میں تم سب کے مقابلے میں اللہ سے زیادہ ڈرتا اور اس کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں، لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں، نوافل پڑھتا بھی ہوں اور سو بھی جاتا ہوں،اور میں نے خواتین کے ساتھ شادی بھی کی ہوئی ہے اور جوشخص میری سنت سے منہ موڑے گا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"(اخرجہ البخاری،5063)

" بال کی کھال اُتارنے والے ہلاکت کاشکار ہو جائیں"(اخرجہ مسلم،2670)

"تمہارے اوپر تمہارے نفس کا حق ہے، تمہارے گھر والوں کا بھی تم پرحق ہے اور تمہارے ربّ کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر حقدار کا حق ادا کرو۔"(احمد و مسلم)

اللہ پاک ہم سب کو اپنے ہرعمل میں میانہ روی اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم