رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:"مسلمانو! میانہ روی اختیار کرو، کیوں کہ جس کا م میں میانہ روی ہوتی ہے، وہ کام سنْور جاتا ہے اور جس کام میں میانہ روی نہیں ہوتی، وہ بگڑ جاتا ہے۔"
ایک حدیث شریف میں ہے:
"اعتدال
یعنی ہر کام کو افراط و تفریط کے بغیر کرنا نبوت کا پچیسواں حصّہ ہے، اسی طرح سرکار
صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے:" لوگو! میانہ روی اختیار
کرو، میانہ روی اختیار کرو، کیونکہ اللہ
تعالی نہیں تھکتا ہے، مگر تم تھک جاتے ہو ،
ہمارا دن رات کا مشاہدہ ہے کہ جو لوگ اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور
شدت و اِنتہا پسندی کو اختیار کر لیتے ہیں،
ان کی زندگی سے اعتدال کے ساتھ ساتھ اَمن
و سکون بھی جاتا رہتا ہے اور ان کے معاملات اتنے اُلجھ جاتے ہیں کہ ان کی ساری قوتیں اور وقت کا
بیشتر حصّہ ان کے معاملات کو سُلجھانے میں ہی صرف ہو جاتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ راحت سے محروم ہو جاتے ہیں،
اس کے برعکس جو لوگ اپنے معاملے میں میانہ
روی کو ملحوظ رکھتے ہیں، وہ مصائب میں مُبتلا نہیں ہوتے اور ان کے
متعلقین اور احباب بھی ان سے شاکی نہیں
ہوتے، میانہ رو افراد خود بھی پرسکون زندگی گزارتے ہیں اور دوسروں کے بھی
کام آتے ہیں۔
"میانہ
روی سب کے لیے ضروری ہے، ہر کام میں ضروری ہے، صرف دنیاوی معاملات
اور معاشی مسائل ہی میں میانہ روی مفید نہیں ہے، بلکہ دینی معاملات میں بھی اعتدال مستحسن ہے۔"(
مسلم)