علم دین  حاصل کرنا اللہ پاک کی رضا کا سبب،بخشش و نجات کا ذریعہ اور جنت میں داخلے کا سبب ہے علم دین کی روشنی سے جہالت کے اندھیرے دور ہوتے ہیں اسی سے دنیا و آخرت میں کامیابی نصیب ہوتی ہے

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہىں : علم مدارِ کار اور قطبِ دىن ہے (یعنی علم دین ودنیا میں کامیابی کی بنیاد ہے) ( احیاء علوم الدین، کتاب العلم، الباب الاول فی فضل العلم…الخ، 1/ 29)

صدرُالشریعہ،بدْرُالطَّریقہ حضرت علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اِرْشاد فرماتے ہیں:عِلْم ایسی چیز نہیں جس کی فضیلت اور خوبیوں کے بیان کرنے کی حاجت ہو،ساری دنیاہی جانتی ہے کہ عِلْم بہت بہتر چیز ہے،اس کا حاصل کرنا بلندی کی علامت ہے۔یہی وہ چیزہے جس سے انسانی زندگی کامیاب اور خوشگوار ہوتی ہے اور اسی سے دنیا وآخرت بہترہوجاتی ہے۔ (اس عِلْم سے) وہ عِلْم مُراد ہے جو قرآن و حدیث سے حاصل ہو کہ یہی وہ عِلْم ہے جس سے دنیا و آخرت دونوں سَنْوَرتی ہیں،یہی عِلْم نجات کا ذریعہ ہے،اسی کی قرآن و حدیث میں تعریفیں آئی ہیں اور اسی کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ (بہار شریعت ،3/618 ملخصاً)

اسلام دنیا كا وہ واحِد دین ہے جس کو یہ شَرَف حاصِل ہے کہ اس نے اپنے ہر ماننے والے کیلئے بقدر ضرورت عِلْم حاصِل کرنا فَرْض قرار دیا، یہی وجہ ہے کہ کائناتِ عالَم کے سب سے پہلے اِنسان حضرت سَیِّدُنا آدَم علیہ السّلامکو اَوّلاً اللہ پاک نے عِلْم کی بدولت ہی تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی۔چُنَانْچِہ اِرشَاد باری تعالی ہے:

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا 1، البقرة: 31)

ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ پاک نے آدم کو تمام اَشیا کے نام سکھائے۔

عُلَمائے کرام اَنبِیَائے کِرام علیہمُ السّلام کے وَارِث ہوتے ہیں جیسا کہ فرمانِ مصطفےٰ صلّی اللہُ علیہ و سلّم ہے: بے شک عُلَما ہی اَنبیاءکے وَارِث ہیں، اَنبِیَا علیہمُ السّلام دِرْہَم ودینار کاوارِث نہیں بناتے بلکہ وہ نُفُوسِ قدسیہ علیہمُ السّلام تو صِرف عِلْم کا وارِث بناتے ہیں، تو جس نے اسے حاصِل کرلیا اس نے بڑا حِصّہ پالیا۔[1]جبکہ عُلَما ءکے عِلْمِ نبوَّت کے وَارِث ہونے کی وَضَاحَت قرآنِ کریم میں یوں فرمائی گئی ہے:

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاۚ- 22، فاطر: 32)

ترجمۂ کنز الایمان: پھر ہم نے کِتاب کا وارِث کیااپنے چُنے ہوئے بندوں کو۔

مذکورہ آیات کریمہ سے علم کی اہمیت واضح طور پر معلوم ہورہی ہے دیگر آیات و کثیر احادیث مبارکہ میں بھی علم دین کے فضائل بیان ہوئے ہیں چنانچہ علم دین کے 6 حروف کی نسبت سے مُعَلِّمِ کائنات، فَخْرِ مَوجُودَات صلّی اللہُ علیہ و سلّم نے اِسْلَامی بہنوں کی تعلیم وتَرْبِیَت کے حوالے سے جو مُخْتَلِف مَوَاقِع پر فرامین اِرشَاد فرمائے، ان میں سے 6پیشِ خِدْمَت ہیں:

(1) …عورتوں کو چرخہ کاتنا سکھاؤ اور انہیں سورۂ نُور کی تعلیم دو۔

(2) …عِلْمِ دِین سیکھنے کی غَرَضْ سے آئے ہوئے صَحابۂ کِرام رضی اللہُ عنہم سے اِرشَاد فرمایا: جاؤ اپنے بیوی بچوں کو دِین کی باتیں سکھاؤ اور ان پر عَمَل کا حُکْم دو۔

(3) … اللہ پاک نے سورۂ بقرہ کو دو۲ ایسی آیات پر خَتْم فرمایا ہے جو مجھے اس کے عَرْشی خزانے سے عَطا ہوئی ہیں، لہٰذا انہیں خود سیکھو اور اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی سکھاؤ کہ یہ دونوں نَماز، قرآن اور دُعا (کا حِصّہ) ہیں۔

(4) …اپنی اولادکو تین۳ باتیں سکھاؤ (۱) اپنے نبی کی مَحبَّت (۲) اَہْلِ بیْت کی مَحبَّت اور (۳) قرأتِ قرآن۔

(5) …اپنی اولاد کے ساتھ نیک سُلُوک کرو اور انہیں آدابِ زِنْدَگی سکھاؤ۔

(6) …جس نے تین۳ بچیوں کی پروش کی، انہیں اَدَب سکھایا، ان کی شادی کی اور اَچھّا سُلُوک کیا اس کے لیے جنّت ہے۔ (احادیث کا حوالہ:صحابیات اور شوق علم دین)

مذکورہ احادیث مبارکہ سے خاص خواتین کے علم دین سیکھنے کی اہمیت معلوم ہوئی مزید خواتین کے لئے عالمہ کورس کی اہمیت کی چند وجوہات ملاحظہ فرمائیے۔

اصلاح نفس:

ہر مسلمان پر دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنی اصلاح ضروری ہے اصلاح نفس کے لئےخوف خدا عزوجل بنیادی چیز ہے حضرت سَیِّدُنا ابوالحسن رضی اللہُ عنہ فرماتے تھے ، ‘‘

نیک بختی کی علامت بدبختی سے ڈرنا ہے کیونکہ خوف اللہ پاک اور بندے کے درمیان ایک لگام ہے، جب یہ لگام ٹوٹ جائے تو بندہ ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوجاتا ہے ۔ (احیاء العلوم ، کتاب الخوف والرجاء 4/199)

حضرت ابو سلیمان رضی اللہُ عنہ نے فرمایا:خوف خدا دنیا و آخرت کی ہر بھلائی کی اصل ہے (خوف خدا صفحہ نمبر18) علماء کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ پاک سے ڈرتے ہیں چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:

اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ 22، فاطر : 28)

ترجمہ کنزالایمان:اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں

مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:

اوروجہ اِس حصرکی(یعنی ڈرکو علماکے ساتھ خاص کرنے کی وجہ) ظاہر ہے کہ جب تک انسان خدا کے قہر (غضب) اور بےپرواہى(بےنیازی) اور احوالِ دوزخ اور اَہوالِ قىامت(قیامت کی ہولناکیوں) کو بتفصىل نہىں جانتا (اس وقت تک) حقىقت خوف وخشىت کى اُس کو حاصل نہىں ہوتی اور تفصىل ان چىزوں کى علماء کے سوا کسى کو معلوم نہىں۔ (فیضان علم و علماءصفحہ نمبر 10)

معلوم ہوا علم عمل کا رہنما ہے درست علم ہوگا تو خوف خدا بھی نصیب ہوگا اور خوف خدا کی برکت سے نیکیوں سے رغبت اور گناہوں سے بچنے کا ذہن بنے گا۔

نسل نو کی تعمیر:

یہ ایک مُسَلَّمَہ حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم یا مِلّت کو اس کی آئندہ نسلوں کی مذہبی و ثقافتی تَرْبِیَت کرنے اور اسے ایک مَخْصُوص قومی و مِلّی تَہْذِیب و تَمَدُّن اور کلچرسے بہرہ وَر کرنے میں اس قوم کی خواتین نے ہمیشہ بُنْیَادِی و اَساسی کِردار ادا کیا ہے۔کیونکہ ایک عورت ہر مُعَاشَرے میں بَطَورِ ماں،بہن،بیوی اور بیٹی کے زِنْدَگی گزارتی ہے اور اپنی ذات سے وَابَسْتہ اَفراد پر کسی نہ کسی طرح ضَرور اَثَر انداز ہوتی ہے، [5]لِہٰذا اِسْلَام نے عورتوں کی اس بُنْیَادِی اَہَمِیَّت کے پیشِ نَظَر اس کی ہر حَیْثِیَّت کے مُطابِق اس کے حُقُوق و فَرَائِض کا نہ صِرف تَعَیُّن کیا بلکہ اسے مُعَاشَرے کا ایک اَہَم اور مُفِید فرد بنانے کے لیے اس کی تعلیم و تَرْبِیَت پر بھی خُصُوصِی تَوَجُّہ دی تاکہ یہ اپنی ذِمَّہ داریوں سے کَمَا حَقُّہٗ عُہْدَہ بَرآ ہوں اور ان کی گود میں ایک صِحَّت مند نسل تیّار ہو۔

اصلاح معاشرہ:

اسلامی تعلیمات سے دوری کے سبب خواتین کے عقائد و اعمال اور اخلاق و کردار میں بھی شدید بگاڑ پیدا ہوگیا ہے گھروں میں دینی ماحول میسر نہیں اور دیگر ذرائع کتب اور میڈیا میں غلط اور درست کی پہچان مشکل ۔۔۔اس بگاڑ کو دور کرنے کے لئے خواتین ہی کو درست علم دین سیکھ کر معاشرے کی دیگر خواتین کو علم دین سکھانے اور نیکی کی دعوت کے ذریعے انکے عمل و کردار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

یہ صحابیات رضی اللہُ عنہُنّ کی سنت بھی ہے اسلامی بہنوں سے متعلق کئی مسائل ایسے ہیں جو صحابیات رضی اللہُ عنہُنّ کے سوال کرنے کی برکت سے ہم تک پہنچے-

خواتین کی مخصوص مسائل میں رہنمائی:

خواتین کے مخصوص مسائل کے بارے میں اسلامی بہنوں میں بہت سے غلط نظریات ہوتے ہیں لیکن شرم کے باعث سوال نہیں کرتیں اور کم علمی کے سبب گناہ میں پڑ جاتی ہیں اسلئے خواتین کو ان مسائل میں مہارت حاصل کرنی چاہئیے تاکہ عوام اسلامی بہنوں کی درست رہنمائی کرسکیں-

دور حاضر کی ضرورت:

دور حاضر میں ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کی کوشش میں بعض خواتین اسلامی تعلیمات کے خلاف زندگی گزارنے کو کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہوئے گناہوں میں مشغول ہیں انہیں نیکی کی راہ پر لانے کے لئے خواتین کو خود مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین سے متعلقہ مسائل معلوم ہونا ضروری ہے تاکہ متعلقہ خواتین کو صحیح و غلط طریقوں سے روشناس کرواتے ہوئے عمل کی طرف راغب کرسکیں۔

مذکورہ خصوصیات اور جامعۃ المدینہ گرلز کا کردار:

علم دین :قرآن و حدیث میں علمائے دین کے کثیر فضائل بیان ہوئے ایک عالم کو بنیادی طور پر جن فنون کو پڑھنا ضروری ہے جامعۃ المدینہ میں تقریبا وہ تمام فنون (تفسیر اصول تفسیر،حدیث،اصول حدیث،عقائد،فقہ اصول فقہ ،بلاغت ،عربی گرامر وغیرہ)پڑھائے جاتے ہیں-

اصلاح نفس: جامعۃ المدینہ گرلز کی طالبات کے اخلاق و کردار میں نمایاں تبدیلی آتی ہےایسے کئی واقعات ہیں کہ بے نمازی نمازی ،بے پردہ باپردہ،والدین کی نافرماں فرماں بردار ،بد اخلاق حسن اخلاق کا پیکر بن گئیں بلکہ طالبات کے کردار سے متاثر ہوکر گھر والے بھی نمازوں کے پابند اور سنتوں کے عامل بن جاتے ہیں

نسل نو کی تعمیر:جامعات المدینہ گرلز میں صحابیات رضی اللہُ عنہُنّ کی سیرت بھی پڑھائی جاتی ہے تاکہ انکے نقش قدم پر چلتے ہوئے طالبات اپنی گھریلو زندگی بھی شریعت کے مطابق گزارسکیں - دینی تعلیم کے ساتھ امور خانہ داری بھی سکھائے جاتے ہیں تاکہ طالبات کما حقہ اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں-

اصلاح معاشرہ:جامعۃ المدینہ گرلز کا اصلاح معاشرہ میں ایک اہم کردار ہے جامعۃ المدینہ گرلز معاشرے سے بے علمی و عملی کو ختم کرنے کے لئے کوشاں ہے ہر سال ہی اسکی برانچز اور طالبات میں اضافہ ہورہا ہے اور جامعۃ المدینہ گرلز کی فارغ التحصیل طالبات دعوت اسلامی کے دیگر شعبہ جات فیضان آن لائن اکیڈمی، مدرسۃ المدینہ،مجلس مالیات،مجلس اجارہ ہوغیرہ میں بھی اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں نیز دعوت اسلامی کے تحت ہونے والے تنظیمی کاموں میں بھی حصہ لیتی ہیں۔

سال 2021 سے منتخب جامعات المدینہ گرلز کی طالبات کوعلوم دینیہ کے ساتھ مروجہ دنیاوی تعلیم کا بھی آغاز کیا گیا ہے تاکہ جامعات المدینہ گرلز سے فارغ التحصیل اسلامی بہنیں معاشرے کی شرعی رہنمائی کے ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اسلام و سنیت کی خدمت کرسکیں-

خواتین کے مخصوص مسائل: خواتین کے مخصوص مسائل سے متعلق مسائل بالتفصیل شامل نصاب ہیں۔

دور حاضر کی ضرورت:دور حاضر سے متعلقہ مسائل بھی شامل نصاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے مثلا: خواتین میں آن لائن بزنس بہت بڑھ گیا ہے جامعۃ المدینہ میں خرید و فروخت کے بنیادی مسائل بھی پڑھائے جاتے ہیں۔

المختصر دینی،دنیاوی،اخروی بھلائیوں کے حصول کے لئے علم دین سیکھنا ناگزیر ہے اور جامعات المدینہ گرلز اسکا بہترین ذریعہ ہے ۔

اللہ پاک ہمیں علم دین حاصل کرنے اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یا رب العالمین) ۔


دورِ جاہلیت میں عرب کے لوگ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے، اسلام نے جہاں عربوں کو تہذیب و تمدن اور علم کے زیور سے آراستہ کیا، جس کی بدولت مرد حضرات علم کے سمندر سے سیراب ہونے لگے، وہیں عورتوں میں بھی علم کی پیاس بڑھنے لگی، وہ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے خاص مواقع مثلاً عیدین وغیرہ میں حاضری کی منتظر رہتیں، ان کی علمی پیاس روز روز بڑھتی چلی گئی، اس کا اظہار اس وقت سامنے آیا، جب ایک صحابیہ نے خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی کہ ان کے لئے بھی کچھ خاص وقت ہونا چاہئے، جس میں وہ دین کی باتیں سیکھ سکیں، ان میں یہ شعور حضور پاک صلّی اللہُ علیہ وسلّم کی نظرِ رحمت کا نتیجہ تھا، کیونکہ آپ صلّی اللہُ علیہ وسلّم کو اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ عورت پر پوری نسل کی تعلیم و تربیت کا انحصار ہے۔

چنانچہ آپ نے خواتین کو جہاں بحیثیت ماں، بہن، بیٹی کی عظمت بخشی، ان کے حقوق مقرر کئے، وہیں ان کی بہترین تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام کیا، تا کہ ان کی گود میں ایک صحت مند نسل تیار ہو کر معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے۔

اسلام وہ واحد دین ہے، جس کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے اپنے ہر ماننے والے کے لئے علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے، خواہ مرد ہو یا عورت، سب کے لئے علم حاصل کرنا ضروری ہے، رسول پاک صلّی اللہُ علیہ وسلّم نے فرمایا:طَلَبُ الْعِلْمُ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ۔ علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مردو عورت) پر فرضِ عین ہے۔" (ابن ماجہ، صفحہ 49، حدیث 224، صحابیات و صالحات کے اعلی اوصاف، ص107)

خواتین معاشرے کا اہم فرد ہیں، ان کی تعلیم و تربیت اگر بہترین انداز میں ہو تو اس سے نہ صرف ایک گھرانہ، بلکہ ایک بہترین معاشرہ قائم ہوسکتا ہے۔

سرکار مدینہ صلّی اللہُ علیہ وسلّم نے علمِ دین سیکھنے کے بارے میں خواتین کی حوصلہ افزائی فرمائی، ہم علمِ دین حاصل کر کے دنیا و آخرت سنوار سکتے ہیں، جب ایک عورت علمِ دین حاصل کرے گی تو وہ دینی مسائل جانتی ہو گی، زندگی کے ہر باب پر دینِ اسلام کی روشنی میں مسائل حل کر سکے گی، اس طرح ایک اچھی نسل پروان چڑھا کر ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکے گی، کیونکہ تعلیم یافتہ عورت پورے گھرانے کے لئے مشعلِ راہ ہے، اس کا بہترین ذریعہ دعوت اسلامی کے مدارس و جامعات ہیں، جہاں بغیر معاوضے کے اسلامی بہنیں عالمہ کورس کرکے عالمہ بن کر اپنی دنیا اور آخرت سنوار رہی ہیں۔

عورت کے لئے پردہ کرنا فرض ہے، جب تک وہ اس کے بارے میں علم حاصل نہیں کرے گی، وہ شرعی پردہ کس طرح کر پائے گی کہ مجھے کس کس سے پردہ کرنا ہے اور کس سے پردہ نہیں کرنا، یہ معلومات حاصل کرنے کے لئے اس کا علم حاصل کرنا ہوگا ،ورنہ شرعی مسائل کو جان نہ سکے گی، عالمہ کورس کرنے سے فرض علوم سیکھنا اور اس کے ساتھ ساتھ تمام مہلکات مثلاً جھوٹ، غیبت، حسد، خود پسندی وغیرہ کے بارے میں علم حاصل کرنا بے حد آسان ہوگیا ہے۔

دعوت اسلامی ان تمام شعبہ جات میں پیش پیش ہے، مدارس و جامعات میں اسلامی بہنوں کے لئے اعلی سطح پر تعلیم کا انتظام ہے، اب تو علمِ دین کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی تعلیم بھی دی جارہی ہے، تاکہ دنیاوی اعتبار سے بھی خواتین کسی سے کم تر نا کہلائیں، علماء انبیاء کے وارث ہیں، یہ اتنی بڑی فضیلت علمِ دین حاصل کرنے کی ہی ہے۔

ہمارے اسلاف پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صحابیات اور اُمہات المؤمنین کی زندگی خواتین کے لئے بہترین نمونہ ہے، صحابیات علمِ دین حاصل کرنے کے جذبے سے سرشار تھیں، انہوں نے سرکار صلّی اللہُ علیہ وسلّم سے علمی مسائل سیکھے، اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ، طاہرہ، عالمہ، زاہدہ کی علمی شان و شوکت ہے۔

حضرت سیدنا موسٰی اشعری رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں، ہم اصحابِ رسول کو کسی بات میں اشکال ہوتا تو ہم آپ رضی اللہُ عنہا کے پاس سے ہی اس بات کا علم پاتے۔" (سنن ترمذی، صفحہ 873، حدیث3882)

اس سے حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا کی علمی حیثیت کا معلوم ہوتا ہے، آپ کے سامنے بڑے بڑے اہلِ علم کی عقلیں اور زبانیں گنگ نظر آتیں، آپ بہترین عالم اور زبردست فقیہہ تھیں۔ حضرت سیدناعطا رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں،حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا تمام لوگوں سے بڑھ کر فقیہہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عالمہ اور تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔ ( المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابہ کانت عائشہ افقہ الناس)

معلوم ہوا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ کو اللہ پاک نے علم و فقاہت کی نعمتوں اور بھرپور ذہنی صلاحیتوں سے نواز کر اس حوالے سے سب سے ممتاز کر دیا، اپنی امی جان کی سیرت طیبہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سب کو چاہئے کہ اپنے دل میں جذبہ علمِ دین بیدار کریں، اللہ پاک ان کے صدقے ہمیں بھی علم دین حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (فیضان عائشہ صدیقہ)

حضرت عائشہ کا یہ روشن پہلو اسلامی بہنوں کی توجّہ کا طالب ہے، اسلامی بہنوں کو چاہئے کہ وہ علمِ دین حاصل کر کے خود کو دنیا و آخرت میں سرخرو کریں، مگر افسوس! اس وقت جبکہ علم دین حاصل کرنا مشکل نہ رہا، ہماری اکثریت علم سے دور دکھائی دیتی ہے، نماز پڑھنے والیوں کو وضو کا درست طریقہ معلوم نہیں ہوتا، کثیر عورتیں رمضان کے فرض روزوں، حج و زکوۃ کے ضروری مسائل سے نا آشنا ہیں اور ہماری صحابیات کو جب بھی کوئی دینی اور دنیاوی الجھن ہوتی تو فوراً بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر اس کا حل معلوم کر لیا کرتی تھیں، اے کاش! ہمیں بھی علمِ دین حاصل کرنے کی تڑپ پیدا ہوجائے اور اپنی آخرت سنوارنے کی فکر پیدا ہوجائے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم اسلامی بہنوں کے اندر خوب علم دین سیکھنے کا، اس پر عمل کرنے کا جذبہ بیدار ہو جائے، تاکہ ہم اپنی دنیا وآخرت کو سنوار سکیں۔آمین

(یہ مضمون صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف حصہ اول کے باب صحابیات اور شوقِ علم دین کے صفحہ 102 سے 138 تک میں سے لکھا ہے اور فیضان عائشہ صدیقہ کتاب سے کچھ حوالے لئے ہیں)

مصر سے قاری محمد وجیہ اور تنزانیہ سے قاری عبید ادریس کی عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی آمد ہوئی جہاں عربی ڈیپارٹمنٹ کے مولانا فرقان شامی نے انہیں خوش آمدید کہا۔

قراء حضرات کو عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں قائم مختلف شعبہ جات اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ، عربی ڈیپارٹمنٹ اور شعبہ مدنی چینل کا وزٹ کروایا گیا۔ اس کے علاوہ قاری صاحبان کو دعوت اسلامی کے تعارف پر مشتمل پریزنٹیشن دکھائی گئی۔

بعدازاں قاری عبید ادریس اور قاری محمد وجیہ نے رکن شوریٰ حاجی محمد امین عطاری سے ملاقات کی جبکہ مولانا فرقان شامی نے انہیں دعوت اسلامی کی جانب سے شائع ہونے والی عربک سہ ماہی میگزین ”نفحات المدینہ“ اور دعوت اسلامی کے دینی، تعلیمی اور فلاحی کاموں کے بارے میں بریفنگ دی جس پر قاری صاحبان نے نہایت خوشی اظہار کیا۔


اپنی زندگی کو قرآن و حدیث کے اصولوں کے مطابق گزارنے کے لئے ہمیں بزرگان دین رحمۃ اللہ علیہم کا سہارا لینا پڑتا ہے جنہوں نے درست انداز میں قرآن و حدیث کو سمجھا اور اس کی تعلیم کو عام کیا ہے۔ اس کےعلاوہ ان بزرگان دین رحمۃ اللہ علیہم کے ایسے ایسے اقوال بھی ملتے جس پر عمل کرکے بندہ اپنی زندگی کو سنتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور عین اسلام کے مطابق گزار سکتا ہے۔

چند بزرگانِ دین رحمۃ اللہ علیہم کے اقوال سے عاشقان رسول کو مستفیض کرنے کے لئے امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے اس ہفتے 17 صفحات پر مشتمل رسالہبزرگانِ دین کی باتیں پڑھنے/ سننے کی ترغیب دلائی ہے اور پڑھنے/سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے بھی نوازا ہے۔

دعوت اسلامی کی مجلس تراجم کی جانب سے اس رسالے کا چھ زبانوں(انگلش، اردو،بنگلہ، رومن اردو، سندھی، پشتو) میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے، دعوت اسلامی کی ویب سائٹ پر ان زبانوں میں رسائل موجود ہیں، مذکورہ زبانوں کے جاننے والے درج ذیل لنک پر کلک کرکے رسائل کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔

دعائے عطار

یارب المصطفٰے! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ بزرگانِ دین کی باتیں پڑھ یا سن لے اُسے فیضان اولیاء سے مالا مال فرما اور بے حساب بخش دے۔ اٰمین

یہ رسالہ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے ابھی مفت ڈاؤن لوڈ کیجئے

Download

رسالہ آڈیو میں سننے کے لئے کلک کریں

Audio Book


18 اگست 2022ء کو دعوت اسلامی کے وفد نے گیمبیا، ویسٹ افریقہ میں  وزیر مذہبی امور، لینڈز اور ریجنل گورنمنٹ شیرف اباسانیانگ سے ملاقات کی۔ وفد میں نگران شعبہ پبلک ریلیشن یوکے حاجی سید فضیل رضا عطاری اور دیگر ذمہ داران شامل تھے۔

حاجی فضیل عطاری نے انہیں دعوت اسلامی کے دینی، تعلیمی و فلاحی سرگرمیوں کے بارے میں بریفنگ دی جس کو شیرف ابا سانیانگ نے خوب سراہا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔


پچھلے دنوں جانشین امیر اہلسنت حاجی مولانا عبید رضا عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی کی اہلیہ رضائے الہی سے انتقال کرگئیں تھیں۔

اسی سلسلے میں وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی نے بذریعہ ٹیلیفون جانشین امیر اہلسنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ سے رابطہ کیا اور افسوس کا اظہار کیا۔ اس موقع پر چوہدری پرویز الہی کا کہنا تھا کہ غم کی اس گھڑی میں پنجاب حکومت اور تمام سیاسی اراکین آپ کے ساتھ شریک ہیں ۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے ٹیلیفون پر جانشین امیر اہلسنت کی اہلیہ مرحومہ کے لئے دعا بھی کی۔


امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت، قدروعظمت اور شان کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ تابعیت کے عظیم دینی اور روحانی شرف کے حامل ہیں، امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ ایسی فضیلت ہے، جس نے اپنے معاصر فقہاء، محدّثین میں اسنادِ عالی کی حیثیت سے ممتاز کردیا۔

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فقہ و کلام کے علاوہ بطورِ خاص حدیث پاک کی تعلیم و تحصیل کی تھی اور اس کے لئے حضرات محدّثین کی روشنی کے مطابق اسفار بھی کئے، چنانچہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ جو رجالِ علم و فن کے احوال و کوائف کی معلومات میں امتیازی شان کے مالک ہیں، اپنی مشہور اور انتہائی مفید تصنیف "سیر اعلام النبلا" میں امام صاحب کے تذکرہ میں لکھتے ہیں"امام صاحب نے طلبِ حدیث کی جانب خصوصی توجّہ کی اور اس کے لئے اسفار کئے۔"

امام معصرین کدام جو اکابر حفاظِ حدیث میں ہیں، امام صاحب کی جلالت شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رفاقت میں حدیث کی تحصیل کی، تو وہ ہم پر غالب رہے اور زہدو پرہیزگاری میں مصروف ہوئے تو اس میں بھی فائق رہے اور فقدان کے ساتھ شروع کی تو تم دیکھتے ہو کہ اس فن میں کمالات کے کیسے جوہر دکھائے۔

مشہور امام تاریخ و حدیث حافظ ابو سعد سمعانی کتاب الاشاب میں امام صاحب کے تذکرہ میں لکھتے ہیں"کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ طلب علم میں مشغول ہوئے تو اس درجہ غایت انہماک کے ساتھ ہوئے کہ جس قدر علم انہیں حاصل ہوا، دوسروں کو نہ ہو سکا۔

غالباً امام صاحب کے اس کمالِ علمی کے اعتراف کے طور پر امام احمد بن حنبل اور امام بخاری کے استاذ حدیث شیخُ الاسلام حافظ عبدالرحمن مقری، جب امام صاحب سے کوئی حدیث روایت کرتے تو اس الفاظ کے ساتھ روایت کرتے :"اخبرنا شاہنشاہ"یعنی ہمیں علمِ حدیث کے شہنشاہ نے خبر دی۔"

اس بات کا اعتراف محدثِ عظیم حافظ یزید بن ہارون نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ :"امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پاکیزہ سیرت، متقی وپرہیزگار، صداقت شعار اور اپنے زمانے میں بہت بڑے حافظ حدیث تھے۔"

امام بخاری کے ایک اور استاذِ حدیث امام مکی بن ابراہیم فرماتے ہیں:کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ پرہیزگار، عالم،آخرت کے راغب،بڑے راست باز اور اپنے معاصرین میں سب سے بڑے حافظِ حدیث تھے۔

مشہور محدث ابو المقائل حفص بن سلم امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ و حدیث میں امام کا اعتراف ان الفاظ سے کرتے ہیں کہ "امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانے میں فقہ و حدیث اور پرہیزگاری میں امام الدنیا تھے، ان کی ذات آ زمائش تھی، جس سے اہل سنت و جماعت اور اہل بدعت میں فرق و امتیاز ہوتا تھا، انہیں کوڑوں سے مارا گیا، تاکہ وہ دنیا داروں کے ساتھ دنیا میں داخل ہوجائیں (کوڑوں کی ضرب برداشت کرلی)مگر دخولِ دنیا کو قبول نہیں کیا۔"

علمِ حدیث میں امام صاحب کے اس بلند مقام و مرتبہ کی بناء پر اکابر محدثین اور آ ئمہ حفاظ کی جماعت میں عام طور پر امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے!

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

ہراک کا نصیب یہ بخت رسا کہاں

امام الائمہ، سراج الامۃ، سید الفقہاء، مسید الاتقیاء، محدث کبیر حضرت ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہُ عنہ میں اللہ پاک نے علم و عمل کی تمام خوبیاں جمع کردی تھیں، وہ میدانِ علم میں تحقیق و تدقیق کے شاہسوار، اخلاق وعادات میں لائقِ تقلید اور عبادت و ریاضت میں یگانہ روزگار تھے۔

متعصب حضرات فنِ حدیث میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بصیرت پر نکتہ چینی کرتے ہیں، کچھ بے لگام لوگ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو صرف سترہ حدیثیں یاد تھیں، اس لئے ہم نہایت اختصار کے ساتھ علم حدیث کے فنِ روایت و درایت میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مقام و رتبہ ٹھوس دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔

حق تو یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اسلامی علم و فنون کے تمام شعبوں میں امام اور مجتہد تھے، جس طرح وہ آ سمان فقہ کے درخشندہ آ فتاب تھے، اسی طرح عقائدو کلام کے افق پر بھی انہی کا سورج طلوع ہوتا تھا۔

فن حدیث میں یہ بہار انہی کی کاوشوں کا ثمرہ ہے، حدیث پاک کے ایک راوی ہونے کی حیثیت سے رجال حدیث میں امام اعظم کا مقام معلوم کرنا نہایت ضروری ہے ، امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے معاصرین میں سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ، اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے خدمت حدیث میں بڑا نام کمایا ہے، لیکن ان میں سے کسی کو بھی تابعیت وہ عظیم شرف حاصل نہیں، جو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصیت ہے۔

"تابعی اس شخص کو کہتے ہیں، جس نے رسول اللہ صلّی اللہُ علیہ و سلّم کے کسی صحابی کو دیکھا ہو" اور اس بات پر سب نے اتفاق کیا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سیدنا انس رضی اللہُ عنہ کو دیکھا تھا اور ملاقات بھی کی تھی، کیونکہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 80ھ میں ہوئی اور حضرت انس رضی اللہُ عنہ اس کے بارہ سال سے زیادہ عرصہ تک زندہ رہے۔

صحابہ کرام رضی اللہُ عنہمسے حدیث کا سماع اور ان کی روایت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا جلیل القدر وصف اور عظیم خصوصیت ہے، احناف تو خیر کمالاتِ امام کے مداح ہیں ہی، شوافع سے بھی امام اعظم کے اس کمال کا انکار نہ ہوسکا، بلکہ بعض شافعیوں نے بڑی فراخ دلی سے امام اعظم کی روایت صحابہ پر خصوصی رسائل لکھے ہیں۔

چونکہ بعض اہلِ ہواءیہ کہتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو صرف سترہ حدیثیں یاد تھیں، اس لئے ہم ذرا تفصیل سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ امام اعظم کے پاس احادیث کا وافر ذخیرہ تھا۔

امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ:"امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف میں ستر ہزار سے زائد احادیث بیان کی ہیں اور چالیس ہزار احادیث مبارکہ سے "کتاب الآثار " کا انتخاب کیا ہے، ان حوالوں سے جو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا علم حدیث میں تجربہ ظاہر ہو رہا ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔

امام اعظم ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  علمِ حدیث میں  جس عظیم مہارت کے حامل اور جلیل القدر مرتبہ پر فائز تھے، فنِ حدیث میں امام اعظم کے کمالات میں سے ایک عظیم کمال یہ ہے کہ آ پ مختلف اور متناقص روایات میں بہ کثرت تطبیق دیتے تھے اور مختلف اور متناقص روایتوں کا محل اس طرح الگ الگ بیان کردیتے تھے کہ منشاء رسالت نکھر کر سامنے آ جاتا تھا۔

دعوت  اسلامی کے تحت پچھلے دنوں ہونے والی شجر کاری مہم کے سلسلے میں لالیاں میں محمد اسماعیل عطاری اور محمد تنویر اکبر عطاری نے اسسٹنٹ کمشنر لالیاں کامران اشرف، صدر تحصیل بار لالیاں اور سیاسی شخصیت ملک لیاقت علی نسوانہ سے ملاقات کی ۔

دوران ملاقات شجرکاری مہم پر بات ہوئی جس پر اسسٹنٹ کمشنر اور وہاں موجود شخصیات کے ساتھ ملکر شجر کاری کی جس پر انہوں نے دعوت اسلامی کی بہت تعریف کی۔ آخر میں انہیں ماہنامہ فیضان مدینہ تحفے میں پیش کیا گیا۔ (رپورٹ: کوآرڈینیشن ڈیپارٹمنٹ ڈسٹرکٹ چنیوٹ /ڈویژن فیصل آباد،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری) 


ہمارے آقا ہمارے مولیٰ امام اعظم ابو حنیفہ

ہمارے ملجا ہمارے ماویٰ امام اعظم ابو حنیفہ

امام اعظم ابو حنیفہ کا نام مبارک نعمان ، والد کا نام ثابت اور آپ کی کنیت ابو حنیفہ ہے، لقب امام اعظم اور سراج الامہ ہے، امام اعظم نے مرکز علم کوفہ میں آنکھ کھولی اس شہر کی علمی فضا کو معلم امت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللهُ عنہ اور مدینۃ العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور دیگر صحابہ و تابعین کی سرپرستی کا شرف حاصل تھا، آپ نے ائمہ حدیث و فقہ سے خوب خوب استفادہ حاصل کیا چنانچہ خود بیان فرماتے ہیں:"میں حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہماور ان کے اصحاب و تلامذہ کی فقہ حاصل کرچکا ہوں۔" (صفحہ30، سیرت امام ابو حنیفہ، حیات امام ابو حنیفہ ص67)

امام اعظم کی محدثانہ حیثیت پر کلام کرتے ہوئے مخالفین نے طرح طرح کی باتیں کی ہیں،بعض ائمہ حدیث نے حضرت امام اعظم پر حدیث میں ضعف کا طعن کیا ہے، خطیب نے امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ ابو حنیفہ حدیث میں قوی نہیں ہیں۔ (فتح الباری 1/112)

علامہ ابن خلدون رقمطراز میں:"امام اعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان سے صرف 17 احادیث مروی ہیں یا اس کے قریب قریب یہ بعض حاسدوں کی خام خیالی ہے کہ جس اِمام سے روایت کم مروی ہوں، وہ حدیث نہیں قلیل النضاعت ہوتا ہے، حالانکہ ایسا لغو تخیل کیا ائمہ کے بارے میں سخت گستاخی وبے عقلی نہیں ہے۔؟ (سیرت امام اعظم، ص236، مقدمہ ابن خلدون، ص447)

حقیقت یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ نے چار ہزار مشائخ ائمہ تابعین سے حدیث اخذ کی ہیں، آپ وہ پہلے امام تھے، جنہوں نے ادلہ شرعیہ سے مخصوص اصول و ضوابط کے تحت استنباط و اجتہاد کا کام کیا اور خلاصہ یہ ہے کہ یہ کام بغیر فن حدیث کی مہارت ہو نہیں سکتا۔

امام اعظم کی حدیث فانی کا اعتراف: یحییٰ بن معین فرماتے ہیں "امام ابو حنیفہ حدیث میں شقہ تھے، ان میں اصول جرح و تعدیل کی رُو سے کوئی عیب نہیں تھا۔" ان اقوال کی روشنی میں امام اعظم پر قلت حدیث کا طعن بے بنیاد ہوکر رہ جاتا ہے۔" امام اعظم جب دنیا سے کنارہ کش ہوکر عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئے تو ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضور اکرم صلّی اللہُ علیہ وسلّم کی ہڈیوں کو مزار اقدس سے نکال کر علیحدہ علیحدہ کررہا ہوں اور جب پریشان ہوکر اُٹھے تو امام بن سیرین سے تعبیر معلوم کی تو انہوں نے کہا کہ بہت مبارک خواب ہے اور آپ کو سنت نبوی کے پرکھنے میں وہ مرتبہ عطا کیا جائے گا کہ احادیث صحیحہ کو موضوع حدیث سے جُدا کرنے کی شناخت ہو جائے گی، اس کے بعد دوبارہ پیارے آقا کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے، تو آپ نے فرمایا اے ابو حنیفہ اللہ پاک نے تیری تخلیق میری سنت کے اظہار کے لئے فرمائی ہے، لہذا دنیا سے کنارہ کش مت ہو۔ (تذکرہ الاولیاء، ص122)

قبول حدیث کا معیار: یہ خواب امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی علم حدیث میں بلند مرتبہ کا ٹھوس ثبوت ہے، علم حدیث میں امام اعظم کا سب سے اہم کارنامہ قبول روایت اور وہ معیار و اصول ہیں جنہیں آپ نے وضع کیا جن سے بعد کے علمائے حدیث نے فائیدہ اٹھایا۔ (سیرت امام اعظم، ص240)

فہم حدیث: امام اعظم صاحبِ حدیث کے ظاہری الفاظ اور ان کی روایات پر زور نہیں دیتے تھے، بلکہ وہ احادیث کے مفہوم اور سائل فقیہہ کی تخریج و انسباط پر زور دیتے تھے، امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"میرے نزدیک حدیث کی تفسیر اور حدیث میں فقہی نکتوں کے مقامات کا جاننے والا امام اعظم سے بڑھ کر کوئی نہیں، مزید فرماتے ہیں: مجھ سے زیادہ امام صاحب کے متبع سفیان ثوری ہیں، سفیان ثوری نے ایک دن ابن مبارک سے امام اعظم کی تعریف بیان کی فرمایا کہ وہ ایسے علم پر سوار ہوتے ہیں، جو برچھی کی انی سے زیادہ تیز ہے، خدا کی قسم وہ غایت درجہ علم کو لینے والے محارم سے بہت رکھنے والے، اپنے شہر والوں کی بہت اتباع کرنے والے ہیں، صحیح حدیث کے سوا دوسری قسم کی حدیث لینا مبتول حلال نہ جانتے۔ (سیرت امام اعظم، ص243-242، الخیرات الحسان، ص61)

ان تمام اقوال سے امام اعظم ابو حنیفہ کا حدیث میں مقام معلوم ہوتا ہے، آپ علم حدیث کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے۔

تمہارے آگے تمام عالم نہ کیوں کرے زانوئے ادب خم

کہ پیشوایانِ دیں نے مانا امام اعظم ابو حنیفہ

تلامذہ حدیث: آپ کے حلقہ درس میں کثیر تعداد میں علم حدیث سیکھنے والے موجود ہوتے، علامہ ابن حجر عسقلانی نے ذکر کیا ہے کہ امام اعظم سے حدیث کا سماع کرنے والے مشہور حضرات میں حماد بن لغمان اور ابراہیم بن طہمان، حمزہ بن حبیب، قاضی ابو یوسف، اسد بن عمرو ابو نعیم، ابو عاصم شامل تھے، وکیع بن جراح کو امام اعظم کی سب حدیثیں یاد تھیں، امام مکی بن ابراہیم آپ کے شاگرد تھے اور امام بخاری کے استاد تھے، امام اعظم کوفہ جیسے عظیم شہر میں جو فقہ و حدیث کا بڑا مرکز تھا پرورش پائی، آپ کا حدیث میں مقام بہت بلند تھا، بڑے بڑے اساتذہ سے آپ نے علم حدیث حاصل کیا، ان کے علاؤہ جلیل القدر تابعین سے بھی استفادہ حاصل کیا، بعض اہل علم نے آپ کے مشائخ کی تعداد چار ہزار بتائی ہے، ان میں اکثریت محدثین کی ہے، آپ کے تلامذہ کی بڑی تعداد محدثین کی ہے۔

امام اعظم اور عمل بالحدیث: امام اعظم پر طعن کرنے والے کہتے ہیں کہ آپ حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس و رائے کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن اس مقام میں کوئی آپ کے برابر نہیں، سفیان فرماتے ہیں: میں نے امام ابو حنیفہ سے فرماتے سُنا کہ میں قرآن پاک سے حکم کرتا ہوں تو جو اِس میں نہیں پاتا، اس کا حکم رسول اللہ کی حدیث سے لیتا ہوں اور جو قرآن اور حدیث میں نہیں پاتا، اس میں صحابہ کرام کے اقوال سے حکم کرتا ہوں اور جس صحابی کے قول سے چاہتا ہوں سند پکڑتا ہوں اور جس کا قول چاہتا ہوں نہیں لیتا ہوں اور صحابہ کرام کے قول سے باہر نہیں جاتا لیکن جب حکم ابراہیم اور شعبی اور ابن سیرین اور حسن اور عطا اور سعید بن مسیب وغیرہ تک پہنچتا ہے تو ان لوگوں نے اجتہاد کیا، میں بھی اجتہاد کرتا ہوں، جیسے انہوں نے اجتہاد کیا۔ (تبہییض الصحیفہ 23، سیرت امام اعظم، ص250)

یہ اعتراض کہ آپ حدیث پر قیاس کو مقدم کرتے ہیں بالکل غلط کے، یہ آپ پر صریح بہتان ہے، آپ کی شخصیت علمی دینی اور روحانی شخصیت ہے، سفیان فرماتے ہیں:"علم میں لوگ ابوحنیفہ سے حسد کرتے ہیں۔" امام اعظم میں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں، جو ایک بلند پایہ عالم دین میں ہونی چاہئیں، علم حدیث میں کوئی آپ کا ثانی نہیں، مال و دولت کی فراوانی کے باوجود بڑی سادہ زندگی بسر کرتے تھے، اکثر ارباب تاریخ کا بیان ہے کہ امام صاحب کی وفات 150ھ میں ہوئی، آپ نے رجب میں انتقال فرمایا، علی بن ہاشم کا قول ہے۔ (بحوالہ مناقب موفق، 1/120)

"ابو حنیفہ علم کا خزانہ تھے جو مسائل بہت بڑے عالم پر مشکل ہوتے تھے، آپ پر آسان ہوتے تھے۔" (سیرت امام اعظم، ص263)

کہ جتنے فقہا محدثین ہیں تمہارے خرمن سے خوشہ چیں ہیں

ہوں واسطے سے کہ بے وسیلہ امام اعظم ابو حنیفہ

سراج تو ہے بغیر تیرے جو کوئی سمجھے حدیث و قرآن

پھرے بھٹکتا نہ پائے رستہ امام اعظم ابو حنیفہ

(حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان صاحب سالک نعیمی علیہ الرحمۃ)


مورخہ 16 اگست 2022 ءبروز منگل شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے تحت رائے محمود اسسٹنٹ ڈائریکٹر LDA اور حاجی محمد اکبر علی آفس اسسٹنٹ سے ذمہ داران دعوت اسلامی نے ان سے اور دیگر آفس اسٹاف سے ملاقاتیں کیں۔

ملاقاتوں میں شجر کاری مہم، دعوت اسلامی کے مختلف شعبہ جات کا تعارف، فیضانِ مدینہ جوہر ٹاؤن میں نماز جمعہ کی ادائیگی اور وزٹ کی دعوت دی جو اُنہوں نے قبول کی۔

اس کے علاوہ آفس عملے کودعوت اسلامی کے شعبہ FGRF اور دعوت اسلامی کی ڈیجیٹل اپلی کیشن ، کڈز لینڈ کے بارے میں بتایا گیاجبکہ ڈپٹی ڈائریکٹر (NADRA)عمران سے ٹیلی فون کے ذریعے سے رابطہ ہوا اور انہیں بھی نیکی کی دعوت دی ۔

دوسری طرف عصر تا مغرب نگران ٹاؤن زون علی اصغر مدنی نے فیضانِ مدینہ جوہر ٹاؤن میں مدنی مشورہ لیا جس میں اسلامی بھائیوں کو دینی کام کے حوالے سے ا پڈیٹ نکات بتائے اور انہیں آئندہ کے لئے اہداف دیئے۔(رپورٹ: سید مقصود شاہ عطاری شعبہ رابطہ برائے شخصیات اقبال زون ،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


دعوتِ اسلامی  کی طرف سے 17 اگست 2022ء کو شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے گجرات میں( DPO سید غضنفر پرویز گوندل ، سٹی ضغیم DSP ایلیٹ فورس،سب انسپکٹر عمران پی ایس او ڈی پی او،سب انسپکٹر کاشف پی آر او ڈی پی او،امجد حسین انچارج سیکیورٹی برانچ ڈسٹرکٹ،ڈپٹی کمشنر جنرل افضل حیات تاڑر،ڈپٹی کمشنر فنانس مرزا ظہیر بیگ،اسسٹنٹ ہیڈ کلرک ڈپٹی کمشنر) سے ملاقات کی۔

مبلغ دعوت اسلامی نے ان کو دعوت اسلامی کی دینی خدمات کے حوالے سے آگاہی دی اور انہیں ہفتہ وار سنتوں بھراے اجتماع میں آنے، مدنی مرکز فیضان مدینہ وزٹ کرنے کی دعوت دی نیز ڈی پی او ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ان کے دفتر میں شجر کاری کا پروگرام طے ہوا اور آخر میں شخصیات کو محرم الحرام 1444 ھ کے ماہنامہ فیضان مدینہ دیئے۔(رپورٹ: رابطہ برائے شخصیات گوجرانولہ ،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)