اللہ ربّ العزت نے اپنے برگزیدہ بندے حضرت صالح علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو قومِ ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجا تھا، ثمود عرب کا  ایک قبیلہ تھا، یہ لوگ ثمود بن رام بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں تھے اور حجاز و شام کے درمیان سرزمینِ حجر میں رہتے تھے، حضرت صالح علیہ الصلوۃ و السلام کے والد کا نام عبید بن آسف بن ماسح بن عبید بن حاذر ابنِ ثمود ہے، قومِ ثمود، قومِ عاد کے بعد ہوئی اور حضرت صالح علیہ السلام حضرت ہود علیہ السلام کے بعد ہیں۔(روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ، جلد 3، صفحہ 190۔189)

قومِ ثمود سنگ تراشی کے فن میں یدِ طولیٰ رکھتی تھی، انہوں نے پہاڑوں کی چٹانوں کو کھود کر اور کاٹ کر اپنے لئے رہائش گاہیں تعمیر کر رکھی تھیں، ان کی پائیداری اور پختگی پر بڑا ناز تھا، انہیں یقین تھا کہ کوئی زلزلہ، کوئی سیلاب، کوئی جھگڑ ان کو ہلا نہیں سکتی۔(ضیاء القرآن، صفحہ 577، تحت الآیۃ:9 ، سورہ فجر)

لیکن ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر ربّ پاکٰ کا ایسا غضب ناک عذاب نازل ہوا کہ ان کا سارا فخر و غرور خاک میں مل گیا اور جن گھروں کے پختگی اور مضبوطی پر ناز کرتے تھے، انہیں گھروں میں اوندھے منہ ہلاک ہوگئے۔

قومِ ثمود کی نافرمانیاں:

ہوا یوں کہ جب حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:اے میری قوم! تم اللہ پاک کو ایک مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، صرف وہی عبادت کا مستحق ہے، جبکہ تمہارے یہ بت عبادت کے لائق ہی نہیں، پھر اللہ پاک کی وحدانیت اور اس کی کمالِ قدرت پر دلائل دیتے ہوئے فرمایا: کہ معبود وہی ہے، جس نے تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو زمین سے پیدا کیا، پھر تمہیں زمین میں بسایا اور زمین کو تم سے آباد کیا، تو اللہ پاک سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو، پھر شرک سے کنارہ کشی کرکے اُسی کی طرف رُجوع کرو، بے شک میرا ربّ پاک ایمان والوں کے قریب ہے اور ان کی سننے والا ہے۔(تفسیر صراط الجنان، سورہ ھود، تحت الآیۃ:61)

تو قومِ ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت کا انکار کر دیا، قرآن پاک میں ہے:

اَلَاۤ اِنَّ ثَمُوْدَاۡ كَفَرُوْا رَبَّهُمْ١ؕ اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَؒ۶۸

ترجمہ کنزالایمان:"سن لو بے شک ثمود اپنے ربّ سے منکر ہوئے ارے لعنت ہو ثمود پر۔"(پ12، ہود،:68)

پھر قومِ ثمود کے مطالبے پر حضرت صالح علیہ السلام کو نشانی کے طورپر اُونٹنی دی، تو قوم نے ماننے کی بجائے اُونٹنی پر ہی ظلم کیا اور اسے قتل کر دیا، چنانچہ قومِ ثمود کے سردار جندہ بن عمرو نے حضرت صالح علیہ السلام سے عرض کیا:اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں فلاں صفات کی اُونٹنی ظاہر کریں، اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے۔"

حضرت صالح علیہ السلام نے ایمان کا وعدہ لے کر ربّ پاک سے دعا کی، سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اسی شکل و صورت کی پوری جوان اُونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے برابر کے بچہ جنا، یہ معجزہ دیکھ کر جندہ تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا، جبکہ باقی لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے۔(تفسیر صراط الجنان، الاعراف، تحت الآیۃ:73۔79)

پھر قومِ ثمود نے اپنی سرکشی سے اپنے رسول حضرت صالح علیہ السلام کو اس وقت جھٹلایا، جب ان کا سب سے بڑا بدبخت آدمی قدار بن سالف ان سب کی مرضی سے اُونٹنی کی کونچیں(رگیں) کاٹنے کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا، تو اللہ پاک کے رسول حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا: تم اللہ پاک کی اُونٹنی کے درپے ہونے سے بچو اور جو دن اس کے لئے پانی پینے کا مقرر ہے، اس دن پا نی نہ لو تا کہ تم پر عذاب نہ آئے تو انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا، پھر اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں، تو ان پر ان کے ربّ پاک نے ان کے اس گناہ کے سبب تباہی ڈال کر اور ان کی بستی کو برابر کر کے سب کو ہلاک کر دیا اور ان میں سے کوئی باقی نہ بچا۔(تفسیر خازن، الشمس، تحت الآیۃ11 تا 15، ج4، صفحہ 382۔383)

منقول ہے کہ ان لوگوں نے چہارشنبہ(بدھ کے دن) ناقہ(اونٹنی) کی کونچیں کاٹی تھیں، تو حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا: کہ تم اس کے بعد تین روز زندہ رہو گے، پہلے روز تمہارے سب کے چہرے زرد ہو جائیں گے، دوسرے روز سُرخ، تیسرے روز سیاہ، چوتھے روز عذاب آئے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یکشنبہ(یعنی اتوار) کو دوپہر کے قریب آسمان سے ایک ہولناک آواز آئی، جس سے ان لوگوں کے دل پھٹ گئے اور سب ہلاک ہوگئے۔(تفسیر خزائن العرفان، الاعراف، تحت الآ یۃ:79)


حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے۔ آپ نے جب قوم ثمود کو خدا (پاک)کا فرمان سنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سرکش قوم نے آپ سے یہ معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن اونٹنی نکالیے جو خوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو۔ چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ فرمایا تو وہ فوراً ہی پھٹ گئی اور اس میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت و تندرست اور خوب بلند قامت اونٹنی نکل پڑی جو گابھن تھی اور نکل کر اس نے ایک بچہ بھی جنا اور یہ اپنے بچے کے ساتھ میدانوں میں چرتی پھرتی رہی۔

اس بستی میں ایک ہی تالاب تھا ۔ آپ نے فرمایا کہ اے لوگو! دیکھو یہ معجزہ کی اونٹنی ہے۔ ایک روز تالاب کا سارا پانی یہ پیئے گی اور ایک روز تم لوگ پینا۔ قوم نے اس کو مان لیا پھر آپ نے قوم ثمود کے سامنے یہ تقریر فرمائی کہ:۔

ترجمۂ کنزالایمان:۔اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی یہ اللہ کا ناقہ ہے تمہارے لئے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی سے ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں دردناک عذاب آئے گا۔ (پ8، اعراف:73)

چند دن تو قوم ثمود نے اس تکلیف کو برداشت کیا (پھر)ان لوگوں نے طے کرلیا کہ اس اونٹنی کو قتل کرڈالیں۔

چنانچہ اس قوم میں قدار بن سالف ساری قوم کے حکم سے اس اونٹنی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ حضرت صالح علیہ السلام منع ہی کرتے رہے، لیکن قدار بن سالف نے پہلے تو اونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا۔ پھر اس کو ذبح کردیا اور انتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو کرنے لگا۔ چنانچہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

ترجمہ کنزالایمان:۔ پس ناقہ کی کوچیں کاٹ دیں اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے ہو اگر تم رسول ہو۔ (پ8، اعراف:77)

قوم ثمود کی اس سرکشی پر عذابِ خداوندی کا ظہور اس طرح ہوا کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آواز آئی۔ پھر شدید زلزلہ آیا جس سے پوری آبادی چکنا چور ہو گئی۔ تمام عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس ہو گئیں اور قوم ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مر گیا۔ قرآن مجید نے فرمایا کہ:۔

ترجمہ کنزالایمان:۔ تو انہیں زلزلہ نے آلیا تو صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے تو صالح نے ان سے منہ پھیرا۔(پ8،اعراف:78-79)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قوم ثمود کی پوری بستی برباد و ویران ہو کر کھنڈر بن گئی اور پوری قوم فنا کے گھاٹ اتر گئی کہ آج اُن کی نسل کا کوئی انسان روئے زمین پر باقی نہیں رہ گیا۔(تفسیر الصاوی،ج۲،ص۶۸۸، پ۸، الاعراف: ۷۳۔۷۷تا ۷۹ ملخصاً)


قوم ثمود کی نافرمانیاں

Mon, 5 Jul , 2021
2 years ago

1۔ محمد اریب   ( درجہ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضانِ کنزالایمان، گرومندر کراچی )

ثمود بھی عرب کا ہی ایک قبیلہ تھا یہ لوگ ثمود بن ارم بن سام بن نوح علیہ السّلام اولاد میں سے تھے ، حجاز و شام کے درمیاں سر زمین حجر میں رہتے تھے، قوم ثمود ، قوم عادکے بعد ہوئی ۔

اس قوم کی طرف اللہ نے حضرت صالح علیہ السّلام کو بھیجا، جب آپ نے اللہ پرایمان لانے کو کہا تو قوم نے ایمان لانے سے صاف انکار کردیا، قوم کفرو شرک ، تکبر اور خود پسندی، جیسی برائیوں میں مبتلا بھی پھر ایک شخص نے آپ علیہ السّلام سے معجزہ طلب کیا کہ فلاں فلاں صفات کی اونٹنی ظاہر کریں تو جب حضرت صالح علیہ السّلام نے اونٹنی ظاہر کردی تو چند اشخاص ایمان لے آئے باقی قوم نے انکار کردیا ، پھر آپ علیہ السّلام نے اپنی قوم کو آگاہ کردیا کہ اگر تم نے اس اونٹنی کو مارا یا قتل کیا تو پھر اللہ کا عذاب تمہیں پکڑ لےگا۔

اونٹنی جب بھی پانی پیتی تو قوم کے جانوروں کو پانی پینے کو نہیں ملتا، ایک عورت صدوق جو حسین و جمیل اور مالدار تھی اس نے مصدع ابن دہر اور قیدار کو بلا کر کہا کہ اگر تم دونوں اس اونٹنی کو قتل کرو گے تو تم جس سے چاہو شادی کرلینا تو وہ لالچ میں آگئے اور انہوں نے اس اونٹنی کو قتل کردیا، اور اتراتے ہوئے کہنے لگے کہ اے صالح ! اگر تم رسول ہو تو تم عذاب لے آؤ، جس کی تم وعیدیں سناتے تھے ۔ پھر حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ تین دن کے بعد ہلاک ہوجاؤ گے، ایسا ہی ہوا کہ پہلے یہ ہولناک آواز میں گرفتار ہوئے جس سے ان کے جگر پھٹ گئے اور سخت زلزلہ قائم کیا گیا۔

پیارے قارئین دیکھا آپ نے خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی باعث ہلاکت ہے، دوسری بات جن لوگوں نے لالچ میں قتل کیا تو وہ آخرت کو برباد کرچکے تھے لیکن وہ دنیا سے بھی محروم رہے ۔

ایسا آج بھی ہوتا ہے کہ لوگ لالچ میں آکر غیر شرعی اور غیر قانونی کام کر تے ہیں، اور جب قانون کے شکنجےمیں آتے ہیں تو وہ نہ دنیا کے رہتے ہیں اور نہ آخرت کے۔


قوم ثمود کی نافرمانیاں

Mon, 5 Jul , 2021
2 years ago

2۔  مؤلف: محمد اسماعیل عطاری ( درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان بخاری موسی لین کراچی )

جب اللہتعالی نے حضرت صالح علیہ السّلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا: اے میری قوم تم اللہ تعالی کو ایک مانو،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور صرف اسی کی عبادت کرو کیونکہ اللہ تعالی کے سوا کوئی اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ عبادت کا مستحق ہو، اللہ تعالی ہی تمہارا معبود ہے ۔

حضرت صالح علیہ السلام نے قوم ثمود کو اللہ تعالی کی نعمتیں یاد دلاکر بھی سمجھایا کہ: اے قوم ثمود ! تم اس وقت کو یاد کرو،جب اللہ تعالی نے تمہیں قوم عاد کے بعد ان کا جانشین بنایا،قوم عاد کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کرکے تمہیں ان کی جگہ بسایا، اللہ تعالی نے تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ عطا کی، تمہارا حال یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم میں آرام کرنے کے لئے ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور سردی کے موسم میں سردی سے بچنے کے لئے پہاڑوں کو تراش کر مکانات بناتے ہوتم اللہ تعالی کی ان نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں کفر اور گناہ کرنے سے بچو کہ گناہ، سرکشی اور کفر کی وجہ سے زمین میں فساد پھیلتا ہے اور رب قہار عزوجل کے عذاب آتے ہیں قوم ثمود کے

سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح علیہ السلام سے عرض کی:"اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی ظاہر کریں،اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گےحضرت صالح علیہ السلام نے ایمان کا وعدہ لے کر رب عزوجل سے دعا کی سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اس کی شکل و صورت کی پوری جوان اونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے برابر بچہ جنا یہ معجزہ دیکھ کر جندع تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا جبکہ باقی لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں سے کہنے لگے:

کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح علیہ السلام اپنے رب کے رسول ہیں؟انہوں نے کہا: بے شک ہمارا یہی عقیدہ ہے، ہم انہیں اور ان کی تعلیمات کو حق سمجھتے ہیں سرداروں نے کہا: جس پر تم ایمان رکھتے ہو،ہم تو اس کا انکار کرتے ہیں حضرت صالح علیہ السلام نے اس معجزے والی اونٹنی کے بارے میں فرمایا تھا کہ"تم اس اونٹنی کو تنگ نہ کرنا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تاکہ اللہ عزوجل کی زمین میں کھائے اور اسے برائی کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا نہ مارنا، نہ ہانکنا اور نہ قتل کرنااگر تم نے ایسا کیا تو نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہیں دردناک عذاب پکڑ لے گا۔

قوم ثمود میں ایک صدوق نامی عورت تھی،جو بڑی حسین و جمیل اور مالدار تھی،اس کی لڑکیاں بھی بہت خوبصورت تھیں چونکہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی سے اس کے جانوروں کو دشواری ہوتی تھی اس لئے اس نے مصدع ابن دہر اور قیدار کو بلا کر کہا کہ"اگر تو اونٹنی کو ذبح کر دے تو میری جس لڑکی سے چاہے نکاح کر لینایہ دونوں اونٹنی کی تلاش میں نکلے اور ایک جگہ آکر دونوں نے اسے ذبح کر دیا مگر قیدار نے ذبح کیا اور مصدع نے ذبح پر مدد کی

اور حضرت صالح علیہ السلام سے سرکشی کرتے ہوئے کہنے لگے: اے صالح! اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے رہتے ہوانہوں نے بدھ کے دن اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھی،حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ تم تین دن کے بعد ہلاک ہوجاؤ گےپہلے دن تمہارے چہرے زرد،دوسرے دن سرخ، تیسرے دن سیاہ ہوجائیں گےچنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ لوگ اتوار کے دن دوپہر کے قریب اولاً ہولناک آواز میں گرفتار ہوئے جس سے ان کے جگر پھٹ گئے اور ہلاک ہوگئےپھر سخت زلزلہ قائم کیا گیاان کی ہلاکت سے پہلے اولاً حضرت صالح علیہ السلام مومنوں کے ساتھ اس بستی سے نکل کر جنگل میں چلے گئےپھر ان کی ہلاکت کے بعد وہاں سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے، روانگی کے وقت ان کی لاشوں پر گزرے تو ان کی لاشوں سے خطاب کر کے بولے: اے میری قوم! بے شک میں نے تمہیں اپنے رب عزوجل کا پیغام پہنچا دیا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیرخواہوں کو پسند نہیں کرتے۔


قوم ثمود کی نافرمانیاں

Mon, 5 Jul , 2021
2 years ago

3۔ مؤلف:  اویس افضل عطاری ( درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضانِ امام غزالی فیصل آباد)

قومِ ثمودکی طرف حضرت صالح علیہ السلام نبی بنا کر بھیجے گئے ، ثمود بھی عرب کا ہی ایک قبیلہ تھا، یہ لوگ ثمود بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں تھے اور حجازو شام کے درمیان سر زمین حجر میں رہتے تھے، حضرت صالح علیہ السّلام کے والد کا نام عبید بن آسف بن ماسح بن عبید بن حاذرابن ثمود ہے، قوم ثمود قوم عاد کے بعد ہوتی اور حضرت صالح علیہ السّلام حضرت ہود علیہ السلام کے بعد ہیں۔(تفسیر صراط الجنان جلد۳، صفحہ۳۶۹)

قوم ثمود کا واقعہ :

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم ثمود کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم فرمایا : اے میری قوم ! تم اللہ تعالی کو ایک مانو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ اور صرف اسی کی عبادت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس قابل نہیں ہے کہ وہ عبادت کا مستحق ہو، اللہ تعالیٰ ہی تمہارا معبود ہے، حضرت صالح علیہ السلام نے قوم ثمود کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلا کر بھی سمجھایا کہ ، اے قوم ثمود! تم اس وقت کو یاد کرو، جب اللہ عزوجل نے تمہیں قومِ عاد کے بعد ان کا جانشین بنایا، قوم عاد کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کیا اور تمہیں ان کی جگہ بسایا، اللہ تعالی نے تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ عطا کی، تمہارا حال یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم میں آرام کرنے کے لیے ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور سردی کے موسم سے بچنے کے لیے پہاڑوں کو تراشتے ہو اور مکان بناتے ہو، تم اللہ کی ان نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں کفر اور گناہ کرنے سے بچو کہ، گناہ سرکشی اور کفر کی وجہ سے زمین میں فساد پھیلتا اور رب قہار (عزوجل) کے عذاب آتے ہیں۔

قومِ ثمود کے سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح علیہ السلام سے عرض کی : اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی ظاہر کریںْ( ان صفات کے بارے میں مکتبہ المدینہ کی کتاب عجائب القرآن میں لکھا ہے کہ ایک گابھن ( یعنی بعد میں بچہ بھی دے) اونٹنی نکالیے جو خوب فربہ ( یعنی موٹی تازی بھی ہو) اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو)

اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے، حضرت صالح علیہ السّلام نے ایمان کا وعدہ لے کر رب عزوجل سے دعا کی، سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اسی شکل و صورت کی پوری اونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے برابر بچہ جنا، یہ معجزہ دیکھ کر جندع تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا جب کہ باقی اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے۔حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں سے کہنے لگے: کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح علیہ السلام اپنے رب کے رسول ہیں ؟ انہوں نے کہا : بے شک ہمارا یہی عقیدہ ہے، ہم انہیں اور ان کی تعلیمات کو حق سمجھتے ہیں، سرداروں نے کہا، جس پر تم ایمان رکھتے ہو، ہم تو اس کا انکار کرتے ہیں۔

حضرت صالح علیہ السلام نے اس معجزے والی اونٹنی کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’تم اس اونٹنی کو تنگ نہ کرنا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تاکہ اللہ کی زمین میں کھاتے اور برائی کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا، نہ مارنا، نہ ہاکنا، اور نہ قتل کرنا، اگر ایسا کیا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہیں دردناک عذاب پکڑلے گا۔

قوم ثمود میں ایک صدوق نامی عورت تھی جو بڑی حسین و جمیل تھی اس کی لڑکیاں بھی بہت خوبصورت تھیں۔ چونکہ صالح علیہ السلام کی اونٹنی سے اس کے جانوروں کو دشواری ہوتی تھی اس لیے اس نے مصدع ابن دہر اور قیدار کو بلا کر کہا، اگر تو اونٹنی کو ذبح کردے تو میری جس لڑکی سے چاہے نکاح کر لینا، یہ دونوں اونٹنی کی تلاش میں نکلے اور ایک جگہ پا کر دونوں نے اسے ذبح کردیا مگر قیدار نے ذبح کیا اور مصدع نے ذبح پر مدد دی، اورحضرت صالح علیہ السلام سے سرکشی کرتے ہوئے کہنے لگے، اے صالح اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے رہتے ہو، انہوں نے بدھ کے دن اونٹنی کی کوچیں(ٹانگیں ) کاٹیں تھیں، حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ تم تین دن بعد ہلاک ہوجاؤ گے۔ پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ، تیسرے دن سیاہ ہوجائیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ لوگ اتوار کے دن دوپہر کے قریب اولاً ہولناک آواز میں گرفتار ہوتے جس سے ان کے جگر پھٹ گئے اور ہلاک ہوگئے۔ پھر سخت زلزلہ قائم کیا گیا، ان کی ہلاکت سے پہلے اولاً حضر تِ صالح علیہ السلام مومنوں کے ساتھ اس بستی سے نکل کر جنگل میں چلے گئے، پھر ان کی ہلاکت کے بعد وہاں سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے، روانگی کے وقت ان کی لاشوں پرگزرے تو ان کی لاشوں سے خطاب کرکے بولے : اے میری قوم ! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچادیا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔(یہ واقعہ تفسیر صراط الجنان جلد 3، پارہ 8 سورة الاعراف کی آیت نمبر 73 تا79 کے تحت ، صفحہ 360 تا 361 پر ہے۔ )

درس ہدایت :

اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب ایک نبی کی ایک اونٹنی کو قتل کردینے والی قوم عذابِ الہی کی تباہ کاریوں سے اس طرح فنا ہوگئی کہ ان کی نسل کا کوئی انسان بھی روئے زمین پر باقی نہ رہا تو جو قوم اپنے نبی کی آل و اولاد کو قتل کر ڈالے گی بھلا وہ عذاب الہی کے قہر سے کب اور کیسے محفوظ رہ سکتی ہے، چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ کربلا میں اہل بیت نبوت کو شہید کرنے والے یزیدی کو فیوں اور شامیوں کا یہی حشر ہوا کہ مختار بن عبید کے دور حکومت میں یزیدیوں کا بچہ بچہ قتل کردیا گیا اور ان کے گھروں کو تخت و تاراج کرکے ان پر گدھوں کے ہل چلائے گئے اور آج روئے زمین پر ان یزیدیوں کی نسل کا کوئی ایک بچہ بھی باقی نہیں رہ گیا۔

( کتاب عجائب القرآن صفحہ ، 105 تا 106 مکتبۃ المدینہ )قومِ ثمودکی طرف حضرت صالح علیہ السلام نبی بنا کر بھیجے گئے ، ثمود بھی عرب کا ہی ایک قبیلہ تھا، یہ لوگ ثمود بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں تھے اور حجازو                               شام کے                               درمیان سر زمین حجر                               میں رہتے تھے، حضرت صالح علیہ السّلام                               کے والد کا نام عبید بن آسف بن ماسح بن عبید بن حاذرابن ثمود ہے، قوم ثمود قوم عاد کے بعد ہوتی اور حضرت صالح علیہ السّلام حضرت ہود علیہ السلام کے بعد ہیں۔(تفسیر صراط الجنان جلد۳، صفحہ۳۶۹)

قوم ثمود کا واقعہ :

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم ثمود کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم فرمایا : اے میری قوم ! تم اللہ تعالی کو ایک مانو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ اور صرف اسی کی عبادت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس قابل نہیں ہے کہ وہ عبادت کا مستحق ہو، اللہ تعالیٰ ہی تمہارا معبود ہے، حضرت صالح علیہ السلام نے قوم ثمود کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلا کر بھی سمجھایا کہ ، اے قوم ثمود! تم اس وقت کو یاد کرو، جب اللہ عزوجل نے تمہیں قومِ عاد کے بعد ان کا جانشین بنایا، قوم عاد کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کیا اور تمہیں ان کی جگہ بسایا، اللہ تعالی نے تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ عطا کی، تمہارا حال یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم میں آرام کرنے کے لیے ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور سردی کے موسم سے بچنے کے لیے پہاڑوں کو تراشتے ہو اور مکان بناتے ہو، تم اللہ کی ان نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں کفر اور گناہ کرنے سے بچو کہ، گناہ سرکشی اور کفر کی وجہ سے زمین میں فساد پھیلتا اور رب قہار (عزوجل) کے عذاب آتے ہیں۔

قومِ ثمود کے سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح علیہ السلام سے عرض کی : اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی ظاہر کریںْ( ان صفات کے بارے میں مکتبہ المدینہ کی کتاب عجائب القرآن میں لکھا ہے کہ ایک گابھن ( یعنی بعد میں بچہ بھی دے) اونٹنی نکالیے جو خوب فربہ ( یعنی موٹی تازی بھی ہو) اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو)

اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے، حضرت صالح علیہ السّلام نے ایمان کا وعدہ لے کر رب عزوجل سے دعا کی، سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اسی شکل و صورت کی پوری اونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے برابر بچہ جنا، یہ معجزہ دیکھ کر جندع تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا جب کہ باقی اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے۔حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں سے کہنے لگے: کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح علیہ السلام اپنے رب کے رسول ہیں ؟ انہوں نے کہا : بے شک ہمارا یہی عقیدہ ہے، ہم انہیں اور ان کی تعلیمات کو حق سمجھتے ہیں، سرداروں نے کہا، جس پر تم ایمان رکھتے ہو، ہم تو اس کا انکار کرتے ہیں۔

حضرت صالح علیہ السلام نے اس معجزے والی اونٹنی کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’تم اس اونٹنی کو تنگ نہ کرنا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تاکہ اللہ کی زمین میں کھاتے اور برائی کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا، نہ مارنا، نہ ہاکنا، اور نہ قتل کرنا، اگر ایسا کیا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہیں دردناک عذاب پکڑلے گا۔

قوم ثمود میں ایک صدوق نامی عورت تھی جو بڑی حسین و جمیل تھی اس کی لڑکیاں بھی بہت خوبصورت تھیں۔ چونکہ صالح علیہ السلام کی اونٹنی سے اس کے جانوروں کو دشواری ہوتی تھی اس لیے اس نے مصدع ابن دہر اور قیدار کو بلا کر کہا، اگر تو اونٹنی کو ذبح کردے تو میری جس لڑکی سے چاہے نکاح کر لینا، یہ دونوں اونٹنی کی تلاش میں نکلے اور ایک جگہ پا کر دونوں نے اسے ذبح کردیا مگر قیدار نے ذبح کیا اور مصدع نے ذبح پر مدد دی، اورحضرت صالح علیہ السلام سے سرکشی کرتے ہوئے کہنے لگے، اے صالح اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے رہتے ہو، انہوں نے بدھ کے دن اونٹنی کی کوچیں(ٹانگیں ) کاٹیں تھیں، حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ تم تین دن بعد ہلاک ہوجاؤ گے۔ پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ، تیسرے دن سیاہ ہوجائیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ لوگ اتوار کے دن دوپہر کے قریب اولاً ہولناک آواز میں گرفتار ہوتے جس سے ان کے جگر پھٹ گئے اور ہلاک ہوگئے۔ پھر سخت زلزلہ قائم کیا گیا، ان کی ہلاکت سے پہلے اولاً حضر تِ صالح علیہ السلام مومنوں کے ساتھ اس بستی سے نکل کر جنگل میں چلے گئے، پھر ان کی ہلاکت کے بعد وہاں سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے، روانگی کے وقت ان کی لاشوں پرگزرے تو ان کی لاشوں سے خطاب کرکے بولے : اے میری قوم ! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچادیا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔(یہ واقعہ تفسیر صراط الجنان جلد 3، پارہ 8 سورة الاعراف کی آیت نمبر 73 تا79 کے تحت ، صفحہ 360 تا 361 پر ہے۔ )


قوم ثمود کی نافرمانیاں

Mon, 5 Jul , 2021
2 years ago

4۔ مؤلف:  توصیف احمد عطاری ( جامعۃ المدینہ فیضانِ بغداد )

حضرت صالح علیہ السلام قومِ ثمود کی طرف آئے آپ علیہ السلام بھی ثمود قوم سے ہی ہیں ثمود ایک شخص کا نام تھا۔ آل ثمود اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان رکھتے اور اسی کے عبادت گزار بندے تھے، لیکن گزرتے وقت اور نعمتوں کے کے بہتات کے ساتھ جہاں ان میں غفلت و جہالت بڑھی وہیں یہ لوگ شرک و کفر کی نحوست کا بھی شکار ہونے ، چنانچہ ایک عرصے بعد کچھ لوگوں نے پتھروں کی تراش خراش کرکے عجیب و غریب شکلوں کے بت بنائے پھر مختلف نام ر کھ کر انہیں خدا کا شریک ٹھہرایا۔ اور عبادتِ الہی چھوڑ کر ان بتوں کی پوجا میں مشغول ہوگئے، رفتہ رفتہ انہی کی پیروی میں چند افراد کے علاوہ پوری قوم نے اس دلدل میں چھلانگ لگادی۔

قوم کے سرداروں نے آپ علیہ السّلام سے مطالبہ کردیا کہ آپ واقعی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو اس پہاڑ کی چٹان سے ایک ایسی اونٹنی نکال دیجئے جو دس ماہ کی حاملہ ہو اور نکلتے ہی بچہ جنے، آپ علیہ السلام نے دو رکعت نماز پڑھ کے بارگاہِ الہی میں دعا کی اور اس چٹان کی طرف اشار ہ فرمایا تو اسی وقت چٹان پھٹی اور اس میں سے ایک اونچی قد والی حاملہ اونٹنی نکلی اور نکل کر اس نے بچہ بھی جنا ، آپ علیہ السلام نے قوم کو اس اونٹنی کے بارے میں چند ہدایات دیں، قومِ ثمود حضرت صالح علیہ السلام کے دیئے احکام پرایک عرصہ تک عمل پیرا رہی پھر پانی کی تنگی کی وجہ سے اونٹنی کو قتل کرنے پرمتفق ہوگئے ، اور قداد بن سالف نے اونٹنی کو پکڑ کر تیز تلوار سے اس کی کونچیں کاٹ کر قتل کرڈالا۔


قوم ثمود کی نافرمانیاں

Mon, 5 Jul , 2021
2 years ago

5۔ مؤلف: ثاقب ر ضا عطاری ( درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان بخاری کراچی )

قرآن مجید فرقانِ حمید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ- ترجمہ کنزالایمان :اور ثمود کی طرف ان کی برادری سے صالح کو بھیجا کہا : اے میری قوم اللہ کو پوجوا س کے سو اتمہارا کوئی معبود نہیں۔

(سورة اعراف ، آیت : 73)

ثمود عرب کا ایک قبیلہ تھا، یہ لوگ ثمود بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور حجاز و شام کے درمیان سرزمین حجر میں رہتے تھے حضرت صالح علیہ السلام کے والد کا نام عبید بن آسف بن ماسخ بن عبید بن جاذر ابن ثمود ہے، قوم ثمود قوم عاد کے بعد ہوئی اور حضرت صالح علیہ السلام حضرت ہود علیہ السلام کے بعد کے ہیں۔

(روح البیان، الاعراف ، تحت الآیۃ : ۳،۷۳/۱۸۹،۱۹۰)

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا (قوم ثمود کی طرف) بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا اے میری قوم تم اللہ عزوجل کو ایک مانو اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ، اور صرف اسی کی عبادت کر وکیونکہ اللہ کے سوا کوئی اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ عبادت کا مستحق ہو، اللہ تعالیٰ ہی تمہارا معبود ہے۔

حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو (قوم ثمود کو) اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلا کربھی سمجھایا کہ اے قوم ثمود تم اس وقت کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوم عاد کے بعد ان کا جانشین بنایا قوم عاد کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کرکے تمہیں ان کی جگہ بسایا، اللہ تعالیٰ نے تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ عطا کی تمہارا حال یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم ( موسم) میں آرام کرنے کے لیے ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور سردی کے موسم میں سردی سے بچنے کے لیے پہاڑوں کو تراش کرمکانات بناتے ہو۔

تم اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں کفر اور گناہ کرنے سے بچو کہ گناہ سرکشی اور کفر کی وجہ سے زمین میں فساد پھیلتا ہے، اور رب عزوجل کے عذاب آتے ہیں۔ چنانچہ خداوند قدوس کا ارشاد ہے : ترجَمۂ کنزُالایمان: پس ناقہ کی کوچیں کا ٹ دیں اورا پنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہو ہو اگر تم رسول ہو۔ (اعراف : 77)

قوم ثمود کی اس سرکشی پر عذاب خداوندی کا ظہور اس طرح ہوا کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آوازآئی، پھر شدید زلزلہ آیا جس سے پوری آبادی چکنا چور ہوگئی، تمام عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس ہوگئیں اور قوم ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مرگیا قرآن مجید نے فرمایا:

فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(۷۸)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو انہیں زلزلہ لے آلیا تو صبح کو اپنے گھر وں میں اوندھے رہ گئے۔( سورہ الاعراف 78)

حضرت صالح علیہ السلام نے جب دیکھا کہ پوری بستی کو چھوڑ کر دوسری جگہ تشریف لے گئے اور چلتے وقت مردہ لاشوں سے یہ فرما کر وانہ ہوگئے کہ ۔

یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(۷۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: اسے میری قومی بے شک میں نے تمہیں اپنے ربکی رسالت پہنچادی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہی کے غرضی (پسند کرنے والے)ہی نہیں۔

(الاعراف: 79 )

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قوم ثمود کی پوری بستی برباد ویران ہو کر کھنڈر بن کر رہ گئی اور پوری قوم فنا کے گھاٹ اتر گئی کہ آج ان کی نسل کا کوئی انسان روئے زمین پر باقی نہیں رہ گیا۔

(تفسیر الصاوی ،ج ۲، ص ۶۸۸ ،پ ۸، الاعراف ملخصاً)

قوم ثمود کے سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح علیہ السلام سے عرض کی اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی ظاہر کریں اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے، حضرت صالح علیہ ا لسلام نے ایمان کا وعدہ لے کر رب عزوجل سے دعا کی۔

سب کے سامنے وہ پتھر پٹھا اور اسی شکل و صورت کی پوری جوان اونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے بر ابر بچہ جنا، یہ معجزہ دیکھ کر صندع تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا جب کہ باقی لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے، حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں سے کہنے لگے۔ کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح علیہا لسلام اپنے رب کے رسول ہیں؟ اپنوں نے کہا، بیشک ہمارا یہی عقیدہ ہے ہم انہیں اوران کی تعلیمات کو حق سمجھتے ہیں، سرداروں نے کہا جس پر ہم ایمان رکھتے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں۔

اس بستی میں ایک تالاب تھا جس میں پہاڑوں کے چشموں سے پانی گر کر جمع ہوتا تھا آپ نے فرمایا کہ اے لوگو، دیکھو یہ معجزے کی اونٹنی ہے ایک روز تمہارے تالاب کا ساراپانی یہ پی ڈالے گی، اورایک روز تم لوگ پینا قوم نے اس کو مان لیا چند دنوں تک قوم ثمود نے اس تکلیف کو برداشت کیا کہ ایک دن ان کو پانی نہیں ملتی تھا، کیوں کہ اس دن تالاب کا سارا پانی اونٹنی پی جاتی تھی، اس لیے ان لوگوں نے طے کرلیا، کہ اس اونٹنی کو قتل کر ڈالیں۔

چنانچہ اس قوم میں قدار بن سالق جو سرخ رنگ کا بھوری آنکھوں والا اور پستہ قد آدم تھا اور ایک زنا کار عورت کا لڑکا تھا ساری قوم کے حکم سے اس اونٹنی کو قتل کرنے کے لیے تیا ر ہوگیا، حضرت صالح علیہ ا لسلام منع کرتے رہے، لیکن قدار بن سالف نے پہلے تو اونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا پھر اس کو ذبح کردیا ، اور انتہائی سر کشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو کرنے لگا۔


قوم ثمود کی نافرمانیاں

Mon, 5 Jul , 2021
2 years ago

6۔ مؤلف: طلحٰہ خان عطاری  (درجہ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان خلفائے راشدین بحریہ ٹاؤن راولپنڈی)

ثمود عرب کا ایک قبیلہ تھا ۔ یہ لوگ ثمود بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور حجاز و شام کے درمیان سر زمین ِ حجر میں رہتے تھے۔

(روح البیان ، الاعراف ، تحت الآیۃ : ٧٤ ، ٣/ ١٨٩- ١٩٠)

قومِ ثمود بھی نافرمان قوموں میں سے ایک نافرمان قوم تھی ۔ جب اللہ تعالٰی نے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو اس قوم نے انہیں جھٹلایا اور ان کے پہچائے ہوئے پیغام باری تعالٰی کو قبول نہ کیا ۔ حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا کہ، اے میری قوم ! تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ وہی تمہارا خالق ہے اور عبادت صرف اسی کے لائق ہے۔اور اپنی قوم کو نعمتِ خداوندی بھی یاد دلائی کہ ۔

یاد کرو کہ اللہ پاک نے تمھیں قومِ عاد کے بعد زمین میں جانشین بنایا اور تم نرم زمین میں محلّات اور پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے ہو اور اللہ تعالٰی نے تمھیں بے انتہا نعمتوں سے نوازہ ، لہذا گناہوں ، سرکشی اور ظلم سے بچو اور کفر کو چھوڑ کر اللہ تعالٰی کو ایک خدا مانو اور اسی کی عبادت کرو ۔ لیکن اتنا سمجھانے کے بعد بھی قوم نہ مانی ۔

آخرکار ایک سردار جندع بن عمرو کی اس شرط پر کہ حضرت صالح علیہ السلام پتھر میں سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی نکالیں گے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے ۔چنانچہ حضرت صالح علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے دعا کی تو پتھر سے ایک اونٹنی نکلی اور اپنے جتنا ایک بچہ بھی جنا۔ جندع اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا لیکن باقی قوم نے وعدہ خلافی کی اور ایمان نہ لائی ، پھر اس قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں سے پوچھتے کہ تم حضرت صالح علیہ السلام پر ایمان لاتے ہو؟ تو وہ کہتے کہ ہاں ہم ایمان لاتے ہیں ۔ وہ سردار کہتے کہ جس پر تم ایمان لاتے ہو ہم اسکا انکار کرتے ہیں ۔ اور سب سے بڑی نافرمانی اس قوم کی جس کے سبب ان پر عذاب الٰہی نازل ہوا یہ تھی کہ حضرت صالح علیہ السلام نے اس اونٹنی کے قریب برےارادے سے جانے سے منع کا تھا لیکن یہ قوم باز نہ آئی اور ان میں سے دو مرد نکلے اور انہوں نے مل کر اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں ۔

حضرت صالح علیہ السلام اس واقعہ کے بعد فوری طور پر اپنی قوم کے مسلمانوں کو لے کر جنگل کی طرف چلے گئے اور اس قوم پر ایسا عذاب الٰہی اترا کی آج تک قومِ ثمود کی بستی عبرت کا مقام بنی ہوئی ہے ۔ 


قوم ثمود کی نافرمانیاں

Mon, 5 Jul , 2021
2 years ago

7۔ مؤلف: عبد اللہ  فراز عطاری ( درجہ ثالثہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور)

حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ابھی تک بہت سے لوگ اس زمین پر آباد ہوئے جن کا تعلق مختلف قوموں سے تھا۔ اللہ تعالی نے ان کی ہدایت کے لئے کئی پیغمبر بھی بھیجے۔ ان قوموں میں سے کچھ کا ذکر قران مجید میں بھی ہے۔ قرآن مجید میں مذکور ان قوموں میں قوم نوح جو طوفان سے ہلاک کی گئی، قوم عاد جو ہوا سے ہلاک کی گئی، قوم ابراہیم جو سلب نعمت سے ہلاک کی گئی، قوم شعیب جو بادل والے دن کے عذاب سے ہلاک کی گئی اور قوم ثمود جو زلزلے سے ہلاک کی گئی بھی ہیں۔

ثمود بھی عرب کا ہی ایک قبیلہ تھا ۔ یہ لوگ ثمود بن ارم بن سام بن نوح علیہ السّلامکی اولاد میں سے تھے اور حجاز و شام کے درمیان سرزمین حِجْرمیں رہتے تھے۔ حضرت صالح علیہ السّلام کے والد کا نام عبید بن آسف بن ماسح بن عبید بن حاذر ابن ثمود ہے۔ قومِ ثمود قومِ عاد کے بعد ہوئی اور حضرت صالح علیہ السّلام حضرت ہود علیہ السّلام کے بعد ہیں۔ اللہتعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السّلام کو ان کی قوم ثمود کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا :اے میری قوم! تم اللہ تعالیٰ کوایک مانو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ اور صرف اسی کی عبادت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ عبادت کا مستحق ہو، اللہ تعالیٰ ہی تمہارا معبود ہے۔

حضرت صالح علیہ السّلام نے قوم ثمود کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلا کر بھی سمجھایا کہ: اے قوم ثمود! تم اس وقت کویاد کرو، جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہیں قومِ عاد کے بعد ان کا جانشین بنایا، قومِ عاد کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر کے تمہیں ان کی جگہ بسایا، اللہ تعالیٰ نے تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ عطا کی، تمہا را حال یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم میں آرام کرنے کیلئے ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور سردی کے موسم میں سردی سے بچنے کیلئے پہاڑوں کو تراش کر مکانات بناتے ہو۔ تم اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں کفر ا ور گناہ کرنے سے بچو کہ گناہ، سرکشی اور کفرکی وجہ سے زمین میں فساد پھیلتا ہے اور ربِّ قہار عَزَّوَجَلَّ کے عذاب آتے ہیں۔ تو قوم نے ان نصیحتوں پر عمل نہ کیا جو بڑی نافرمانیوں میں سے ایک تھی۔

قومِ ثمود کے سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: ’’ اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی ظاہر کریں ، اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ایمان کا وعدہ لے کر رب عَزَّوَجَلَّ سے دعا کی ۔ سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اسی شکل و صورت کی پوری جوان اونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے برابر بچہ جنا۔ یہ معجزہ دیکھ کر جندع تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا جبکہ باقی لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں سے کہنے لگے: کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے رب کے رسول ہیں ؟ انہوں نے کہا: بیشک ہمارا یہی عقیدہ ہے، ہم انہیں اور ان کی تعلیمات کو حق سمجھتے ہیں۔ سرداروں نے کہا :جس پر تم ایمان رکھتے ہو ،ہم تواُس کا انکار کرتے ہیں۔

حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس معجزے والی اونٹنی کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’تم اس اونٹنی کو تنگ نہ کرنا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا ، نہ مارنا، نہ ہنکانا اور نہ قتل کرنا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہیں درد ناک عذاب پکڑ لے گا۔ قومِ ثمود میں ایک صدوق نامی عورت تھی، جو بڑی حسین و جمیل اور مالدار تھی، اس کی لڑکیاں بھی بہت خوبصورت تھیں۔ چونکہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اونٹنی سے اس کے جانوروں کو دشواری ہوتی تھی اس لئے اس نے مصدع ابن دہر اور قیدار کو بلا کر کہا کہ’’ اگر تو اونٹنی کو ذبح کر دے تو میری جس لڑکی سے چاہے نکاح کر لینا۔ یہ دونوں اونٹنی کی تلاش میں نکلے اور ایک جگہ پا کر دونوں نے اسے ذبح کر دیا مگر قیدار نے ذبح کیا اور مصدع نے ذبح پر مدد دی۔ قوم عاد نے جو نافرمانیاں کیں ان میں سے ایک بڑی نافرمانی یہ بھی تھی۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سرکشی کرتے ہوئے کہنے لگے: اے صالح! اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے رہتے ہو۔ انہوں نے بدھ کے دن اونٹنی کی کوچیں کاٹیں تھیں ، حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا کہ تم تین دن کے بعد ہلاک ہو جاؤ گے۔ پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ، تیسرے دن سیاہ ہو جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ لوگ اتوار کے دن دوپہر کے قریب اولاً ہولناک آواز میں گرفتار ہوئے جس سے ان کے جگر پھٹ گئے اور ہلاک ہو گئے۔

قران مجید میں گزشتہ قوموں کے واقعات ذکر کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم ان سے عبرت حاصل کریں اور ان کاموں سے باز رہیں جن کی وجہ سے گزشتہ قوموں کو عذاب دیا گیا۔ ان برے کاموں سے بچنا تبھی ممکن ہے جب ان کا علم ہو اور یہ علم حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ، ابو صالح مفتی محمد قاسم عطاری کی تصانیف "صراط جنان" اور "سیرت الانبیاء" کا مطالعہ کرنا ہے۔ (صراط الجنان ماخوذاً)


قوم ثمود کی نافرمانیاں

Mon, 5 Jul , 2021
2 years ago

8۔ مؤلف: مزمل علی عطاری (   درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ گلزار مدینہ قبولہ روڈ عارف والا )

قومِ ثمود ایک تباہ و برباد ہونے والی قوم تھی، اس قوم کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا، جب حضرت صالح علیہ السلام نے قوم ثمود کو اللہ تعالی کا فرمان سنایا اور ایمان کی دعوت دی، تو اس سرکش قوم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان کو جھٹلایا اور یہ کہا کہ اگر آپ علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں تو اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن اونٹنی کا ہے، جو ہر قسم کے عیب سے پاک ہو، چنانچہ آپ علیہ السلام نے چٹان کی طرف اشارہ کیا تو وہ فوراً پھٹ گئی او ر اس میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت اونٹنی نکلی اور اس نے نکل کرایک بچہ بھی جنا اور یہ اپنے بچے کے ساتھ میدانوں میں پھرتی رہتی۔

حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا کہ اے لوگو! یہ معجزہ کی اونٹنی ہے، اسے برائی کے ساتھ ہاتھ مت لگانا ورنہ تمہیں دردناک عذاب ملے گا۔

چند دن کے بعد اس قوم میں قدار نامی آدمی ساری قوم کے حکم سے قتل کرنے کے لیے تیار ہوگیا اس نے پہلے تو اونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا اور پھر اس کو ذبح کردیا، اور پھر حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو کرنے لگا اور کہا کہ اے صالح ، ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے ہو اگر تم رسول ہو تو

پھر اللہ تعالیٰ نے ان پرعذاب نازل کیا اس طرح کہ ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آواز آئی پھر شدید زلزلہ آیا اور پوری قوم چکنا چور ہوگئی اور قوم ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مر گیا۔


قوم ثمود کی نافرمانیاں

Mon, 5 Jul , 2021
2 years ago

9۔ مؤلف:  محمد میزاب رضا عطاری (فیصل آباد)

اللہ پاک نے قومِ ثمود کی ہدایت کے لیے اپنے نبی حضرت سیدنا صالح علیہ الصلوة والسلام کو بھیجا، قومِ ثمود کو اللہ کریم نے اتنی طاقت عطا فرمائی تھی کہ وہ پہاڑوں (Mount ains) كو تراش کر گھر بنالیا کرتے تھے، حضرت سیدنا صالح علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو کفرو شرک سے بچنے کا فرمایا اور ایمان لانے کی دعوت دی تو انہوں نے آپ سے کہا، ایک معجزہ دکھائیں وہ یہ تھا کہ آپ ہمارے سامنے پہاڑ کی اس چٹان سے ایک ایسی اونٹنی (Camel) نكالىئے جس میں فلاں فلاں صفات ہوں چنانچہ آپ علیہ السلام نے دعا مانگی اور چٹان سے ویسی ہی اونٹنی نکل آئی جیسی وہ چاہتے تھے، اونٹنی نے باہر آکر ایک بچہ بھی پیدا کیا، یہ معجزہ دیکھ کر کچھ لوگ ایمان لے آئے مگر باقی نہ لائے، اس بستی میں ایک ہی تالاب تھا آپ علیہ ا لسلام نے قوم سے فرمایا کہ ایک دن تالاب سے اونٹنی پانی پئے گی اور دوسرے دن قوم پیا کرے گی، اس کے علاوہ تم لوگ اونٹنی کو نہ مارنا اور نہ ہی قتل کرنا، ورنہ عذاب آجائے گا، چند دن تو یہ معاملہ چلتا رہا مگر اس کے بعد قیدار نام کے ایک آدمی نے بستی والوں کے کہنے پر بدھ کے دن اونٹنی کو قتل کردیا

آپ علیہ السلام نے قوم سے فرمایا : تم سب تین دن بعد ہلاک ہوجاؤ گے، پہلے دن تمہارے چہرے پیلے دوسرے دن لال اور تیسرے دن کالے ہوجائیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اتوار کے دن دوپہر کے قریب ایک خوفناک آواز آئی جس سے بستی والوں کے دل پھٹ گئے، اس کے بعد شدید زلزلہ (Earth Quake)آیا اور پوری آبادی تباہ ہوگئی اور سب ہلاک ہوگئے، حضرت صالح علیہ الصلوة والسلام ایمان لانے والے چند افراد کے ساتھ پہلے ہی بستی سے روانہ ہو کر جنگل کی طرف جاچکے تھے، اس لیے یہ حضرات محفوظ رہے، اس بستی کے آثار آج بھی مدائن صالح ( عرب شریف) میں موجود ہیں۔


قوم ثمود کی نافرمانیاں

Mon, 5 Jul , 2021
2 years ago

10  ۔ مؤلف: محمد نجم الدین ثاقب ( جامعۃ المدینہ فیضانِ کنزلایمان کراچی )

قومِ ثمود کا تعارف :

ثمود عرب کا ایک قبیلہ تھا اور یہ لوگ ثمود بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور حجاز و شام کے درمیان سرزمین حجر میں رہتے تھے۔

(رو ح البیان ، الاعراف، تحت الایۃ : ۷۳)

اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کی ہدایت و ر ہنمائی کے لیے اپنے برگزیدہ نبی حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجا ( مبعوث فرمایا) قوم ثمود بہت طاقت ور تھے ان کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگائے کہ یہ پہاڑوں (Mountains) كو تراش کر گھر بنالیا کرتے تھے۔(صراط الجنان ج ۳،ص ۳۶۰)

قوم ثمود کی نافرمانیاں :

۱۔شرک

جب اللہ نے قوم ثمود کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجاتو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا تم اللہ کو ایک مانو اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو کیونکہ اللہ ہی ا س بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے لیکن وہ نہ مانے اور بتوں کی پوجا کرتے کرتے رہے۔

۲۔ ناشکری :

حضرت صالح علیہ السلام نے قوم ثمود کو اللہ کی نعمتیں یاد دلا کر بھی سمجھایا کہ اے قوم ثمود تم اس وقت کو یاد کرو جب اللہ نے تمہیں قوم عاد کے بعد ان کا جانشین بنایا، اللہ نے تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ عطا کی تمہارا حال یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم میں آرام کرنے کے لیے ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور سردی کے موسم میں سردی سے بچنے کے لیے پہاڑوں میں گھر بناتے ہو لیکن انہوں نے انکار کیا اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی ناشکری کی۔

۳۔ اونٹنی کا قتل :

جب حضرت صالح علیہ السلام نے قومِ ثمود کو اللہ قہار کے عذابات سے ڈرایا تو قومِ ثمود کے جندع بن عمر نے حضرت صالح علیہ السلام سے عرض کی اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ کے درمیان سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی ظاہر ہو اور پیدا ہوتے ہی بچہ جنے چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔

یہ معجزہ دیکھ کر جندع سردار تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا جب کہ باقی لوگ منکر ہوگئے اور ایمان نہ لائے۔ اس بستی میں ایک ہی تالاب تھا آپ نے فرمایا ایک دن تالاب سے اونٹنی پانی پیے گی اور ایک دن قوم پیے گی چند دن یہ معاملہ چلتا مگر اس کے بعد قیدار نامی ا یک آدمی نے بستی والوں کے کہنے پراونٹنی کو قتل کردیا۔

قوم ثمود پر اللہ کا عذاب :

جب قوم ثمود نے نافرمانیوں کی حدیں پار کردیں اور اونٹنی کو قتل کیا تو اتوار کے دن دوپہر کے قریب ایک خوفناک آواز آئی جس سے بستی والوں کے دل پھٹ گئے اس کے بعد شدید زلزلہ آیا اور پوری آبادی تباہ ہوگئی اور سب ہلاک ہوگئے۔

عرض :

ہم بھی اپنے اعمال پر غور و فکر کریں، کہیں ہم بھی اللہ کی نافرمانی تو نہیں کررہے اگر ایسا ہے تو فورا ً اللہ کے حضور توبہ کرلے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی اللہ کے عذاب کا شکار ہوجائیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا اطاعت گزار بنائے اور نافرمانیوں سے محفوظ رکھے۔ امین بجاہ طہ یسین