قومِ ثمود انہیں ثمود اس لئے کہا جاتا ہے،  اس قوم کے جد ِّاعلیٰ کا نام ثمود تھا، اس قوم کا دوسرا نام عادِثانی بھی ہے، اسے صالح کی قوم بھی کہا جاتا ہے، یہ اس وجہ سے ہے کہ ان کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا، ان کے بارے میں قرآن پاک کی کئیں آیات ہیں، جن میں ان کی نافرمانیوں اور عذابات کا ذکر ہے: قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا بِالَّذِيْۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ (پ8، الاعراف، 76)

ترجمۂ کنز الایمان:" متکبر بولے جس پر تم ایمان لائے ہمیں اس سے انکار ہے۔

یہ قومِ عاد کے چچا زاد بھائی تھے، حجاز اور شام کے درمیان آباد تھے، حجر سے وادی قریٰ تک بڑے بڑے شہر آباد کئے، سنگ تراشی میں استاد تھے، بہت قد آور اور مالدار تھے۔(الفجر، صفحہ 89، آیت9۔10)

حضرت صالح علیہ السلام جب ان کی طرف نبی بن کر تشریف لائے، اس قوم نے آپ کی مخالفت کی اور ہلاک ہوگئے، حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں دعوت دی کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، انہیں اللہ کی نعمتیں یاد دلائیں، سمجھایا کہ اللہ پاک نے تمہیں قومِ عاد کا جانشین بنایا، ان کو ہلاک کر کے تم کو ان کی جگہ بسایا، تمہیں رہنے کے لئے جگہ دی، تم گرمی میں آرام کے لئے ہموار زمین میں محلات بناتے ہو، سردی سے بچنے کے لئے پہاڑوں کو تراش کر مکانات بناتے ہو، اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور کفر گناہ کرنے سے بچو، اللہ کی نافرمانی سے ان کا عذاب نازل ہوتا ہے۔

اس قوم نے حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا، ان کی نافرمانی کی، حضرت صالح علیہ السلام کے معجزے سے جو اونٹنی ظاہر ہوئی تھی، پھر سے حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا:اس اونٹنی کو تم لوگ تنگ نہ کرنا، اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تاکہ اللہ کی زمین سے کھائے اور اسے برائی کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا، نہ مارنا، نہ ہنکانا، نہ قتل کرنا، اگر تم نے ایسا کیا تو تم پر عذاب آ جائے گا۔

اس قوم کے دو شخصوں نے مل کر اسے ذبح کر دیا اور وہ کہنے لگے:لے آؤ وہ عذاب، جس کی وعید سناتے ہو، ان نافرمانیوں کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔

حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے کہا: پہلے دن تمہارے چہرے زرد ہوں گے، دوسرے دن سُرخ، تیسرے دن سیاہ ہو جائیں گے، ایسا ہی ہوا اور وہ لوگ اتوار کے دن دوپہر کے قریب اوّلاً ہولناک آواز میں گرفتار ہوئے، جن سے ان کے جگر پھٹ گئے، ہلاک ہوگئے، پھر سخت زلزلہ آیا، ان کی ہلاکت سے حضرت صالح علیہ السلام مؤمنوں کے ساتھ اس بستی سے نکل کر جنگل میں چلے گئے، پھر ان کی ہلاکت کے بعد مکہ روانہ ہوگئے۔(صراط الجنان، پارہ 8، سورہ اعراف، آیت 73۔79 کی تفسیر)

قومِ ثمود کی نافرمانیاں ازبنت عبدالمجید (فیضان اصحابِ صفہ، کراچی)

ثمود عرب کےایک قبیلے کا نام ہے، ایک قوم کے مطابق یہ نام ان کے جدِّ اعلٰی ثمود بن عاد بن عوس بن ارم بن سام بن حضرت نوح علیہ السلام کی نسبت سے رکھا گیا تھا ، قومِ ثمود کا دوسرا نام عادِ ثانیہ بھی کہا جاتا ہے۔

چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتاہے:

وَ اَنَّهٗۤ اَهْلَكَ عَادَا ا۟لْاُوْلٰى ۙ۵۰وَ ثَمُوْدَا فَمَاۤ اَبْقٰى ۙ۵۱

ترجمۂ کنز الایمان:" اسی نے پہلی عاد کو ہلاک فرمایا اور ثمود کو تو کوئی باقی نہ چھوڑا۔(پ27، النجم: 51-50)

لیکن یہ قومِ ثمود اور آلِ ثمود کے نام سے زیادہ معروف ہیں، رشتے میں یہ لوگ قومِ عاد کے چچازاد تھے۔

قومِ ثمود کو اللہ پاک کی طرف سے حیرت انگیز ہنرعطا کیا گیا، اللہ پاک نے اس قوم کو انتہائی زرخیز زمین عطا کی تھی، جس کی وجہ سے ان کی فصلیں خوب ہوتیں اور باغات سر سبزو شاداب اور میووں سے بھرے ہوتے تھے، فنِ تعمیر میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا، سنگلاخ پہاڑوں اور پتھریلی چٹانوں کو تراش کر نہایت خوبصورت، روشن، ہوادار، مضبوط اور بلند و بالا مکانات بنا لینا ان کے تعمیراتی ہنرو کمال کامنہ بولتا ثبوت تھا، آج بھی عرب شریف میں ان کی ہستیوں اور تعمیر کردہ مکانات کے آثار موجود ہیں، جنہیں"مدائن صالح" کہا جاتا ہے۔

حضرت صالح علیہ السلام کا عظیم معجزہ:

حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کو اللہ پاک کی وحدانیت پر ایمان لانے اور بت پرستی چھوڑنے کی تبلیغ ونصیحت میں مصروف عمل رہتے تھے، آپ علیہ السلام کے بار بار اصرار و تبلیغ و نصیحت سے تنگ آکر قوم کے سردار لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کا کوئی ایسا مطالبہ کیا جائے، جسے یہ پورا نہ کرسکیں، چنانچہ ایک دن قبیلے کے لوگ اپنی مجلس میں جمع تھے، اسی دوران آپ علیہ السلام بھی وہاں تشریف لے آئے تو آپ کی قوم نے یہ مطالبہ کر دیا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو اس پہاڑ کی چٹان سے ایک ایسی اونٹنی نکال دیجئے، جو دس ماہ کی حاملہ ہو اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو اور نکلتے ہی بچّہ جنے۔

آپ علیہ السلام نے سوال کیا قوم سے:اگر میں تمہارا سوال پورا کر دوں تو ضرور تم سب اللہ پاک کی وحدانیت اور رسالت پر ایمان لے آؤ گے؟ تو آپ کی قوم نے عرض کی: ضرور ہم ایمان لے آئیں گے اور بت پرستی چھوڑ دیں گے، پھر حضرت صالح علیہ السلام نے دو رکعت نماز پڑھ کے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی اور اس چٹان کی طرف اشارہ فرمایا تو اُسی وقت چٹان پھٹی اور اس میں ایک انتہائی خوبصورت ، تندرست، اونچے قد والی اُونٹنی نکل آئی، جو حاملہ تھی اور نکل کر ایک بچہ بھی جنا، آپ کی قوم یہ معجزہ دیکھ کر حیرت میں پڑگئی اور قوم کا ایک سردار ایمان لایا، باقی قوم وعدے سے پھر گئی۔

پھر اس قوم نے حضرت صالح علیہ السلام کی اُونٹنی سے بدسلوکی کی اور اس کو قتل کر دیا، پھر آپ نے اپنی قوم سے فرمایا:تین دن تک اپنے گھروں میں عیش کرو، ہفتے کے دن تم عذاب میں آ جاؤ گے۔

قر آن پاک میں اِرشاد ہے۔

فَعَقَرُوْهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِيْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ١ؕ ذٰلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوْبٍ۶۵

ترجمۂ کنز الایمان:" تو انہوں نے اس کی کوچیں کاٹیں(پاؤں کاٹ دئیے) تو صالح نے کہا اپنے گھرو ں میں تین دن اور برت لو(فائدہ اٹھا لو)یہ وعدہ ہے کہ جھوٹا نہ ہوگا۔(پ12، ھود، 65)


تعارف:

ترجمہ کنزالایمان:"ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا، جبکہ ان سے ان کے ہم قوم صالح نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں۔"( پ 19، الشعراء، 142)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کا نام قومِ ثمود تھا اور قومِ ثمود ایک نافرمان قوم تھی۔

قومِ ثمود کی نافرمانیاں:

قومِ ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کو اس وقت جھٹلایا، جب انہوں یعنی قومِ ثمود سے فرمایا: کیا تم شرک کرنے پر اللہ پاک کے عذاب سے نہیں ڈرتے۔( روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ 141۔142، 6/297)

قومِ ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام جو کہ ان کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے، ان کی نصیحتوں کے جواب میں کیا کہا:

ترجمۂ کنزالایمان:"بولے تم پر تو جادو ہوا ہے، تم تو ہمیں جیسے آدمی ہو تو کوئی نشانی لاؤ، اگر سچے ہو۔"( پ19، الشعراء:154)

چنانچہ پارہ 19، سورۃالشعراء، آیت نمبر 156، 157 میں اِرشاد ہے:

ترجمہ کنزالایمان:" اور اسے برائی کے ساتھ نہ چھوؤ کہ تمہیں بڑے دن کا عذاب آلے گا۔"156 "اس پر انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں، پھر صبح کو پچھتاتے رہ گئے۔" 157

مدارک، سورۃالشعراء ، تحت الآیۃ 156,157 کا خلاصہ:

" حضرت صالح علیہ السلام نے اس اُونٹنی کے بارے میں اپنی قوم کو فرمایا: کہ تم اس اونٹنی کو برائی کے ساتھ نہ چھونا، نہ اس کو مارنا اور نہ اس کے پاؤں کی رگیں کاٹنا، ورنہ تمہیں بڑے دن کا عذاب پکڑ لے گا۔"

لیکن قومِ ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کے سمجھانے کے باوجود اونٹنی کے پاؤں کی رگیں کاٹ دیں، تو صبح کو پچھتاتے رہ گئے۔

ترجمہ کنزالایمان:"تو انہیں عذاب نے آلیا ہے، بے شک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان میں بہت مسلمان نہ تھے۔"(پ19، الشعرا: 158)

جس عذاب کی انہیں خبر دی گئی تھی، اس نے انہیں پکڑ لیا۔

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قومِ ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کی نصیحتوں کے جواب میں کہا:تم ان میں ہو، جن پر بار بار بکثرت جادو ہوا ہے، جس کی وجہ سے عقل و حواس قائم نہیں ہیں۔( معاذ اللہ پاک)

تم تو ہم جیسے ہی آدمی ہو کہ جیسے ہم کھاتے ہیں، پیتے ہیں، اسی طرح تم بھی کھاتے پیتے ہو، اگر تم رسالت کے دعوے میں سچے ہو تو اپنی نشانی لاؤ۔(خازن، سورۃالشعراء، آیت نمبر153/154)

آیتِ قرآنی:قالَ ھٰذِہ نَاقَۃٌلَّھَاشِرْبٌ وَّ لَکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْم۔(پ19،الشعراء: 155)

ترجمہ کنزالایمان:"فرمایا یہ ناقہ ہے، ایک دن اس کے پینے کی باری اور ایک معین دن تمہاری باری۔"

آیت مبارکہ میں جس اُونٹنی کا ذکر ہے، یہ اونٹنی قوم کے معجزہ طلب کرنے پر ان کی خواہش کے مطابق حضرت صالح علیہ السلام کی دعا سے پتھر سے نکلی تھی، اس کا سینہ ساٹھ گز کا تھا، جب اس کے پینے کا دن ہوتا تو وہ وہاں کا تمام پانی پی جاتی اور جب لوگوں کے پینے کا دن ہوتا تو اس دن نہ پیتی۔( بحوالہ سورہ الشعراء، آیت نمبر155، صفحہ نمبر828)


قوم ثمود کا تعارف: ثمود عرب کے ایک قبیلہ کا نام ہے۔ ایک قول کے مطابق یہ نام ان کے جد اعلی ثمود بن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن حضرت نوح علیہ السلام کی نسبت سے رکھا گیا تھا۔ انہیں عاد ثانیہ بھی کہا جاتا ہے۔

قرآن مجید میں ہے: وَ اَنَّهٗۤ اَهْلَكَ عَادَا ا۟لْاُوْلٰى ۙ۵۰وَ ثَمُوْدَاۡ فَمَاۤ اَبْقٰى ۙ۵۱

ترجمہ كنز الايمان: اور یہ کہ اسی نے پہلی عاد کو ہلاک فرمایا- اور ثمود کو تو اس نے (کسی کو) باقی نہ چھوڑا(پ27،النجم:50،51)از سیرت الانبیاء

لیکن یہ قوم ثمود اور آل ثمود کے نام سے زیادہ معروف ہیں- رشتے میں یہ لوگ قوم عاد کے چچازاد تھے

حضرت صالح علیہ السلام کا تعارف: ایک عرصہ تک کا قوم ثمود سرکشی اور گمراہی کے دلدل میں دھنستی رہی، پھر اللہ رب العزت نے انہیں اس سے نجات دلانے اور راہ ہدایت پر گامزن کرنے کے لیے ایک عظیم ہستی حضرت صالح علیہ السلام کو رسول بنا کر ان کی طرف بھیجا۔ آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے ارم کی اولاد میں سے تھے،جیسا کہ ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ آپ علیہ السلام کا نسب نامہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں، صالح جن عبید بن آسف بن کاشح بن عبید بن حاذر بن ثمود بن عاد (بن عوص) بن ارم بن سام بن حضرت نوح علیہ السلام، مزید لکھتے ہیں: حضرت صالح علیہ السلام حسب و نسب دونوں اعتبار سے اپنی قوم میں سب سے بہتر اور افضل تھے

آپ علیہ السلام کا معجزہ اور قوم کا اراده نافرمانی: آپ نے جب قوم کو خدا پاک کا فرمان سنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سرکش قوم نے آپ علیہ السلام سے یہ معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن اونٹنی نکالیے جو خوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ فرمایا یا تو وہ فورا ہی پھٹ گئی اور اس سے ایک نہایت ہی خوبصورت اور تندرست اور خوب بلند قامت اونٹنی نکل پڑی جو گابھن تھی اور نکل کر اس نے ایک بچہ بھی جنا اور یہ اپنے بچے کے ساتھ میدانوں میں چلتی پھرتی رہی۔

اس بستی میں ایک ہی تالاب تھا جس میں پہاڑوں کے چشموں سے پانی گر کر جمع ہوتا تھا آپ نے فرمایا کہ: اے لوگو! دیکھو یہ معجزہ کی اونٹنی ہے ایک روز تمہارے تالاب کا سارا پانی یہ پی ڈالے گی اور ایک روز تم لوگ پینا قوم نے اس کو مان لیا پھر آپ نے قوم ثمود کے سامنے یہ تقریر فرمائی کہ

يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ١ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ؕ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰيَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِيْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۷۳

ترجمہ کنز الایمان: اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی یہ اللہ کا ناقہ ہے تمہارے لئے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی سے ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں دردناک عذاب آئے گا(پ8،الاعراف:73)از عجائب القرآن

چند دن تو قوم ثمود نے اس تکلیف کو برداشت کیا کہ ایک دن ان کو پانی نہیں ملتا تھا کیونکہ اس دن تالاب کا سارا پانی اونٹنی جاتی تھی اس لئے ان لوگوں نے طے کر لیا کہ اس اونٹنی کو قتل کر ڈالیں۔

قوم کی سرکشی اور نا فرمانی: چناچہ اس قوم میں قدار بن سالف جو سرخ رنگ کا بھوری آنکھوں والا اور پستہ قد آدمی تھا اور ایک زنا کار عورت کا لڑکا تھا ساری قوم کے حکم سے اس اونٹنی کو قتل کرنے کے لیے تیار ہو گیا حضرت صالح علیہ السلام منع ہی کرتے رہے لیکن قدار بن سالف نے پہلے تو اونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا پھر اس کو ذبح کر دیا اور انتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو کرنے لگا چناچہ خداوند قدوس کا ارشاد ہے:

فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا يٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۷۷

ترجمۂ کنز الایمان: پس ناقہ کی کوچیں کاٹ دیں اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے ہو اگر تم رسول ہو۔ (پ8، الاعراف:77)از عجائب القرآن

حدیث مبارکہ میں قوم ثمود کی نافرمانی اور اس کے انجام کا تذکرہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ پاکٰ عنہ فرماتے ہیں:جب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقام حجر سے گزرے تو ارشاد فرمایا:اے لوگو! معجزات کا مطالبہ نہ کرو، کیونکہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے معجزے کا مطالبہ کیا (تو اللہ پاکٰ نے ان کے لیے اونٹنی بھیجی)جو اس گھاٹی سے باہر آتی اور اسی کے اندر چلی جاتی تھی وہ اونٹنی ایک دن لوگوں کے حصے کا پانی پی جاتی اور لوگ اس دن اس اونٹنی کا دودھ پی لیتے تھے۔پھر انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں تو انہیں ایک ہولناک چیخ نے پکڑ لیا اور اللہ پاکٰ نے آسمان کے نیچے موجود ان کے ہر فرد کو ہلاک کر دیا سواۓ ایک شخص کے جو کہ حرم پاک میں موجود تھا۔ عرض کی گئی: یا رسول اللّٰہ!صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وہ کون تھا؟ ارشاد فرمایا: ابو رغال، جب وہ حرم پاک سے نکلا تو اسے بھی وہی عذاب پہنچ گیا جو اس کی قوم پر آیا تھا (مسند امام احمد، مسند جابر بن عبد اللہ،14/5،حدیث:14162،) از سیرت الانبیاء

اونٹنی کی کونچیں کاٹنے والے کا ذکر: حضرت عبد اللّٰہ بن زمعہ رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کا ذکر کیا جس نے(حضرت صالح علیہ السلام کی) اونٹنی کی کونچیں کاٹی تھیں اور ارشاد فرمایا: اس اونٹنی کے درپے ہونے والا شخص (ظاہراً) بہت عزت و شوکت والا تھا جیسے ابو زمعہ ہے (بخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب قول الله پاک:والی ثمود اخاھم صلحا،432/2،حدیث:3377)از سیرت الانبیاء


حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کا نام قومِ ثمود تھا، آپ نے قومِ ثمود کو جب ایمان کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کو ایک معجزہ دکھانے کا کہا کہ آپ اس پہاڑ سے ایک گابھن  اُونٹنی نکالیں، جو صحت مند ہونے کے ساتھ ساتھ ہر عیب سے بھی پاک ہو، چنانچہ آپ نے چٹان کو اشارہ کیا تو وہ فوراً پھٹ گئی اور اس میں سے ایک بہت ہی خوبصورت اُونٹنی کا ظُہور ہوا، جس نے نکل کر ایک بچہ بھی جنا اور وہ دونوں ایک ساتھ میدانوں چرتی پھرتی رہیں۔

اس بستی میں ایک ہی تالاب تھا، جس میں کئیں چشموں کا پانی جمع ہوتا تھا، آپ نے اپنی قوم سے فرمایا: کہ اے قوم !یہ معجزہ والی اونٹنی ہے، ایک دن یہ تالاب کا پانی پئے گی اور ایک دن تم، قومِ ثمود اس پر راضی ہو گئی، کُچھ دنوں تک ہی اِس قوم نے اس تکلیف کو برداشت کیا اور ان لوگوں نے اُونٹنی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

چنانچہ اس قوم کا ایک بہت ہی خوبصورت آدمی سناری قوم کے حکم سے اس اُونٹنی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا، حضرت صالح علیہ السلام منع کرتے رہے، لیکن اس نوجوان نے پہلے اُونٹنی کے چاروں پاؤں کاٹ ڈالے اور آخرکار اسے ذبح کر دیا اور حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو بھی کرتا رہا، قومِ ثمود کی اس نافرمانی پر عذابِ الٰہی نازل ہوا اور وہ یوں کہ پہلے ایک چنگھاڑ کی آواز آئی ، پھر زوردار زلزلہ آیا، جس سے پوری قوم اتھل پتھل ہو گئی اور ساری عمارتیں تہس نہس ہو گئی، ایک بھی آدمی نہ بچا، جب حضرت صالح علیہ السلام نے یہ دیکھا تو انہیں اس قوم سے شدید نفرت ہو گئی اور آپ اس بستی کو چھوڑ کر دوسری جگہ تشریف لے گئے، چلتے وقت اپنی قوم سے یہ فرما کر روانہ ہوئے:کہ اے میری قوم! بے شک میں نے تمہیں اپنے ربّ کی رسالت پہنچا دی اور تمہارا بھلا چاہا، مگر تم خیر خواہی کے غرضی ہی نہیں۔"


جب سے یہ کائنات ظہور میں آئی ہے، اللہ پاک اپنے بندوں کو صراط مستقیم پر چلانے کے لیے اور ان کی اصلاح کے لیے مختلف زمانوں میں، مختلف علاقوں میں اور مختلف قوموں میں انبیائےکرام کو بھیجتا رہا ہے۔ انسان جب گردش حالات اور اپنی فطری کمزوریوں کے باعث سیدھے رستے سے بھٹک جاتے، خدائے یکتا کی عبادت کے بجائے طرح طرح کے معبودوں کی پرستش کرنے لگتے اور شرک و کفر میں حد سے بڑھ جاتے تو اللہ پاک ان میں اپنا کوئی نبی بھیج دیتا۔ جو اپنی قوم کو سیدھی راہ پر چلنے کی تلقین کرتا۔ نتیجتا کچھ لوگ پیغمبروں پر ایمان لے آتے اور کچھ سرکشی میں اس قدر بڑھ جاتے کہ اللہ کا عذاب انھیں نیست و نابود کردیتا۔

ایسی ہی ایک بدبخت قوم، حضرت صالح علیہ اسلام کی قوم تھی۔ جسے قوم ثمود کہا جاتا ہے۔یہ لوگ ثمود بن رام بن سام بن نوح  کی اولاد میں تھے اور حجاز و شام کے درمیان سرزمین حِجْر میں رہتے تھے۔ یہ قوم، قوم عاد کے بعد ان کی جانشین ہوئی۔ مال، اولاد اور مویشیوں کی کثرت تھی۔ جس کے زعم میں مبتلا ہوکر خدائے واحد کے سوا طرح طرح کے معبود بنا رکھے تھے۔ گرمیوں میں زمین ہموار کرکے مکان بناتے اور سردیوں میں پہاڑوں کو تراش کر جائے مسکن بناتے۔ اس قوم کی ہدایت کی خاطر اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ اسلام کو مبعوث فرمایا۔

"وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا" (پ8 ،الاعراف:73)

ترجمہ کنز العرفان: "اور قومِ ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا ۔"

حضرت صالح علیہ السلام نے قوم کو خدائے واحد کی عبادت کا پیغام دیا۔ قومِ ثمود کے سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح  سے عرض کی: ’’ اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ کے اس پتھر سے ایک اونٹنی ظاہر کریں جو حاملہ ہو، اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ حضرت صالح  نے رب پاک سے دعا کی ۔ سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور ایک جوان اور انتہائی خوبصورت اونٹنی نمودار ہوئی اور ایک ساعت بعد بچہ جنا۔ یہ معجزہ دیکھ کر جندع تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا جبکہ باقی لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے۔

حضرت صالح نے فرمایا۔ "اللہ پاک کے حکم سے اس اونٹنی کی پانی پینے کی باری ایک دن اور ایک دن تمہاری باری ہے۔ خبردار اس کو نقصان نہ پہنچانا ورنہ ایک سخت دن کی آفت تمھیں گھیر لے گی۔"

اس نصیحت پر قوم نے کچھ عرصہ من و عن عمل کیا۔ اور اس کے دودھ سے بے بہا فائدہ اٹھایا۔ مگر جلد ہی اپنے منہ مانگے معجزے سے قوم بے زار ہوگئی۔

قومِ ثمود میں ایک صدوق نامی عورت تھی، جو حسین اور مالدار تھی، اس کی لڑکیاں بہت خوبصورت تھیں۔ چونکہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اونٹنی سے اس کے جانوروں کو دشواری ہوتی تھی اس لئے اس نے مصدع ابن دہر اور قیدار کو بلا کر کہا کہ’’ اگر تو اونٹنی کو ذبح کر دے تو میری جس لڑکی سے چاہے نکاح کر لینا۔ یہ دونوں اونٹنی کی تلاش میں نکلے اور ایک جگہ پا کر دونوں نے اسے قتل کر دیا اور اس کی کونچیں کاٹ دی۔ اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سرکشی کرتے ہوئے کہنے لگے: اے صالح! اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے رہتے ہو۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا کہ تم تین دن کے بعد ہلاک ہو جاؤ گے۔ پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ، تیسرے دن سیاہ ہو جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، تین دن بعد ایک خوفناک چنگھاڑ سے ان کے جگر پھٹ گئے اور ہلاک ہو گئے۔

ان کی ہلاکت سے پہلے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مومنوں کے ساتھ اس بستی سے نکل کر جنگل میں چلے گئے۔ پھر ان کی ہلاکت کے بعد وہاں سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے۔ روانگی کے وقت ان کی لاشوں پر گزرے تو ان کی لاشوں سے خطاب کر کے بولے: " اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب پاک کا پیغام پہنچا دیا اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔"یوں قوم ثمود اپنی نافرمانیوں کے باعث صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی۔


ثمود بھی عرب کا ہی ایک قبیلہ تھا،  یہ لوگ ثمود بن رام بن سام بن نوح علیہ الصلاۃ والسلام کی اولاد میں تھے اور حجاز و شام کے درمیان سرزمین حجر میں رہتے تھے، قومِ ثمود قومِ عاد کے بعد ہوئی اور حضرت صالح علیہ الصلوۃ والسلام حضرت ہود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد ہیں۔(روح البیان، اعراف،تحت الآیۃ73، 30/189۔190)

جب اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کی قوم ثمود کی طرف بھیجا، تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا:

ترجمہ کنزالایمان:"اے میری قوم!اللہ کو پوجو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔"(پ 12، ہود، 61)

حضرت صالح علیہ الصلوۃ و السلام نے قومِ ثمود کو اللہ پاک کی نعمتیں یاد دلاکر بھی سمجھایا، فرمایا:

ترجمہ کنزالایمان:" اور یاد کرو جب تم کو عاد کا جانشین کیا اور ملک میں جگہ دی کہ نرم زمین میں محل بناتے ہو اور پہاڑوں میں مکان تراشتے ہو تواللہ کی نعمتیں یاد کرو اور زمین میں فسادمچاتےنہ پھرو ۔"(پ8، اعراف: 74)

اللہ پاک نےقومِ ثمود کو بہت سی نعمتیں عطا فرمائی تھیں، لیکن قومِ ثمود کی عمریں تین سو برس سے ایک ہزار سال تک ہوتیں، لیکن انہوں نے اس لمبی عمر سے لمبے گناہ کئے اور ربّ پاکٰ کی نافرمانی کی اور اس کی نعمتوں کی ناشکری کی۔

ان کی قوم کے لوگ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے سمجھانے پر آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی تحقیر کرنے لگے اور کہنے لگے:

ترجمہ کنزالایمان:"اے صالح!اس سے پہلے تو تم ہم میں ہونہار معلوم ہوتے تھے، کیا تم ہمیں اس سے منع کرتے ہو کہ اپنے باپ دادا کے معبودوں کو پوجیں اور بے شک جس بات کی طرف ہمیں بلاتے ہو، ہم اس سے ایک بڑے دھوکا ڈالنے والے شک میں ہیں۔"(پ 12، ہود، 62)

قومِ ثمود کے سردار جندہ بن عمرو نے حضرت صالح علیہ السلام سے عرض کی"اگر آپ سچے نبی ہیں، تو پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں فلاں صفات کی اُونٹنی ظاہر کریں، اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے، حضرت صالح نے اپنے ربّ سے دعا کی، سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اسی شکل و صورت کی پوری جوان اُونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے برابر بچہ جنا، یہ معجزہ دیکھ کر جندہ تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا، جبکہ لوگ کفر پر قائم رہے۔

حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے متکبرسردار کمزور مسلمانوں سے کہنے لگے:کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح علیہ السلام اپنے ربّ کے رسول ہیں؟انہوں نے کہا:بے شک ہمارا ایساہی عقیدہ ہے، ہم انہیں اور ان کی تعلیمات کو حق سمجھتے ہیں، سرداروں نے کہا :جس پر تم ایمان رکھتے ہو، ہم تو ان کا انکار کرتے ہیں۔

حضرت صالح علیہ السلام نے اس معجزے والی اُونٹنی کے بارے میں فرمایا تھا کہ تم اس اونٹنی کو تنگ نہ کرنا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، تاکہ اللہ کی زمین پر کھائے اور اسے بُرائی کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا، نہ مارنا، نہ ہنکانا اور نہ قتل کرنا، اگر تم نے ایسا کیا تو نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہیں عذاب پکڑ لے گا۔

انہوں نے اُونٹنی کی کونچیں کاٹیں، اسے ذبح کر دیا اور سرکشی کرتے ہوئے کہنے لگے:

"اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ، جس کی تم وعیدیں سناتے رہتے۔"(تفسیر صراط الجنان، سورہ اعراف، آیت72 تا76)

الغرض انہوں نے اپنے نبی کی بات نہ مانی اور ان کی نافرمانی کی اور رسول کی نافرمانی، ربّ کی نافرمانی ہی ہوتی ہے، اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور ان کی سُنتیں اپنائیں۔اللہ توفیق عطا فرمائے۔آمین


ثمود عَرب کے ایک قبیلے کا نام ہے،  اس قوم کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجا، حضرت صالح علیہ السلام کی تبلیغِ دین کو سُن کر ایک گروہ جو غریبوں پر مشتمل تھا، وہ تو آپ پر ایمان لے آیا، جبکہ دوسرا گروہ جو قوم کے سرداروں پر مشتمل تھا، وہ اپنے کُفر و شرک اور نافرمانی اور سرکشی پر ڈَٹا رہا۔

قومِ ثمود کو اللہ پاک نے بے شمار نعمتوں اور حیرت انگیز تعمیراتی صلاحیتوں سے نوازا تھا، لیکن اتنی نعمتوں کے باوجود اس قوم نے سرکشی اور نافرمانی کو اپنا شعار بنائے رکھا، قومِ ثمود کی جن نافرمانیوں کا ذِکر قرآن پاک میں ہے، ان میں سے چند یہ ہیں:

(1) حضرت صالح علیہ السلام پر ایمان لانے سے انکار۔(پ8، الاعراف، 75، 76)

(2) حضرت صالح علیہ السلام کی تکذیب اور عذاب کا مطالبہ۔(پ19، الشعراء، 141،142)

(3)نصیحتوں پر عمل کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ اور معجزے کا مطالبہ۔

قوم نے حضرت صالح علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ اللہ کے رسول ہیں، تو اس چٹان سے ایک ایسی اُونٹنی نکالئے، جو حاملہ ہو اور ہرقسم کے عُیوب سے پاک ہو اور نکلتے ہیں بچہ بھی جنے، اللہ پاک نے ان کا یہ مطالبہ پورا کردیا، لیکن سرکش لوگ پھر بھی ایمان نہ لائے۔(پ19، الشعراء، 153، 154)

(4 )معجزے کی اونٹنی کا قتل:

حضرت صالح علیہ السلام کے منع فرمانے اور عذابِ الٰہی سے ڈرانے کے باوجود قوم کے کچھ لوگوں نے اُونٹنی کی ٹانگوں کی رَگیں کاٹ کر اسے قتل کر دیا۔(پ8، الاعراف:77، پ27، القمر:29)

(5) حضرت صالح علیہ السلام کو قتل کرنے کی سازش :

شہر کے نو فسادی لوگوں نے آپ علیہ السلام کو قتل کرنے کی سازش کی، لیکن یہ سب لوگ عذابِ الٰہی کے پتھروں کے ذریعے ہلاک کر دیئے گئے۔(پ19، النمل، 48۔51)

قوم کے بقیہ نافرمانوں پر جو عذاب آیا، اس کا ذکر قرآن پاک میں یوں کیا گیا ہے:

ترجمہ کنز الایمان:توانہیں زلزلے نے پکڑ لیا تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔"(پ8، الاعراف:78)

ترجمہ کنز الایمان:" بےشک ہم نے اُن پر ایک چنگھاڑ بھیجی (ف۴۹) جبھی وہ ہوگئے جیسے گھیرا بنانے والے کی بچی ہوئی گھاس سوکھی روندی ہوئی ۔"(پ27، القمر:31)


حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کو قومِ ثمود کہتے ہیں،  قوم ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا، اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے قومِ ثمود کی طرف ان کے نسبی بھائی کو بھیجا، جس کا نام صالح تھا۔

حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:اے میری قوم! تم اللہ کو مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، صرف وہی عبادت کا مستحق ہے، جبکہ تمہارے یہ بت عبادت کے لائق نہیں تو اللہ پاک سے معافی مانگو اور شرک سے کنارہ کشی کر کے اسی کی طرف رجوع کرو، بیشک میرا ربّ ایمان والوں کے قریب ہے اور ان کی سننے والا ہے۔"

جب حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے پیغامِ توحید پیش کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اے صالح!اس تبلیغ سے پہلے تم ہمارے درمیان ایسے تھے کہ ہمیں تم سے بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں اور ہم اُمید کرتے تھے کہ تم ہمارے سربراہ بنو گے، لیکن جب تم نے توحید کی دعوت دی اور بتوں کی برائیاں کیں، تو قوم کی اُمیدیں تم سے ختم ہوگئیں، پھر قومِ ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام سے معجزہ طلب کیا، آپ نے اللہ پاک سے دعا کی تو پتھروں سے بحکمِ الٰہی اُونٹنی پیدا ہوگئی، یہ اُونٹنی ان کے لئے حضرت صالح علیہ السلام کی صداقت پر روشنی اور حضرت صالح علیہ السلام کا معجزہ تھی، اس آیت میں اس اونٹنی کے متعلق احکام ارشاد ہوا، فرمایا:"اسے زمین میں چرنے دو اور کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ، ورنہ دنیا ہی میں گرفتار ہو جاؤ گے۔"

قومِ ثمود نے اللہ پاک کے حکم کی مخالفت کی اور بدھ کے دن انہوں نے اس اونٹنی کی ایڑیوں کی اور ٹانگوں کی رگیں کاٹ دیں، اس کے بعد حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا:"اپنے گھروں میں تین دن یعنی جمعہ تک عیش کر لو، ہفتہ کے دن تم پر عذاب آ جائے گا اور اس کی علامت یہ ہوگی کہ پہلے دن تمہارے چہرے زرد ہو جائیں گے اور دوسرے دن سُرخ اور تیسرے دن سیاہ ہوجائیں گے، پھرہفتے کے دن عذاب نازل ہوجائے گا ، یہ ایک وعدہ ہے جو جھوٹا نہ ہوگا، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

پھر جب ہمارا حکم آیا تو ہم نے صالح اور اس کے ساتھ والے مسلمانوں کو اپنی رحمت سے بچالیا، بیشک تمہارا ربّ بڑی قوت و غلبہ والا ہے اور پھر ظالموں کو چنگھاڑ نے پکڑ لیا تو وہ صبح کے وقت اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے، گویا وہ کبھی یہاں رہتے ہی نہیں تھے۔

" سن لو بیشک ثمود نے اپنے ربّ کا انکار کیا، خبردار! لعنت ہو ثمود پر۔

قوم ثمود کی نافرمانیاں

   جب اللہ پاکٰ نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی قوم ثمود کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا :اے میری قوم! تم اللہ پاکٰ کوایک مانو، اس  کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ اور صرف اسی کی عبادت کرو کیونکہ اللہ  پاکٰ کے سوا کوئی اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ عبادت کا مستحق ہو، اللہ  پاکٰ ہی تمہارا معبود ہے۔ حضرت صالح  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  نے قوم ثمود کو اللہ پاکٰ کی نعمتیں یاد دلا کر بھی سمجھایا کہ: اے قوم ثمود!   تم اس وقت کویاد کرو، جب اللہ پاک  نے تمہیں قومِ عاد کے بعد ان کا جانشین بنایا، قومِ عاد کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر کے تمہیں ان کی جگہ بسایا،  اللہ  پاکٰ نے تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ عطا کی، تمہارا حال یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم  میں آرام کرنے کیلئے ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور سردی کے موسم میں سردی سے بچنے کیلئے پہاڑوں کو تراش کر مکانات بناتے ہو۔ تم  اللہ پاکٰ کی ان نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں کفر ا ور گناہ کرنے سے بچو کہ گناہ، سرکشی اور کفرکی وجہ سے زمین میں فساد پھیلتا ہے اور ربِّ قہار پاک کے عذاب آتے ہیں۔قومِ ثمود کے سردار جندع  بن عمرو نے حضرت صالح  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  سے عرض کی: ’’ اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی ظاہر کریں ، اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ حضرت صالح  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  نے ایمان کا وعدہ لے کر رب پاک سے دعا کی ۔ سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اسی شکل و صورت کی پوری جوان اونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے برابر بچہ جنا۔ یہ معجزہ دیکھ کر جندع تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا جبکہ باقی لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کی قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں سے کہنے لگے: کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح  عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَالسَّلَام اپنے رب کے رسول ہیں ؟ انہوں نے کہا: بیشک ہمارا یہی  عقیدہ ہے، (صراطُ الجنان فی تفسیرِ القرآن)


 ثمود کس نبی کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک قوم کا نام ہے، اللہ پاک نے اِس قوم کی طرف اپنے جلیلُ القدر نبی حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجا۔مدینۂ منورہ سے کم و بیش چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر یہ علاقہ موجود ہے، جسے اب مدائن صالح کہا جاتا ہے، جبکہ اس علاقے کا اصل نام حجر ہے۔

قرآن کریم میں ذکر ہے:ولقد کذب اصحب الحجر المرسلین۔ "اور حجر والوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔"(پ14، حجر:80)

اس قوم کو ثمود کہنے کی وجہ:

ثمود نامی ایک بڑا آدمی تھا، اس کی نسل اس علاقے میں آ کر آباد ہو گئی تو اس نسل کو قومِ ثمود کہا جانے لگا اور قرآن کریم میں بھی قومِ ثمود سے ہی ذکر کیا گیا ہے، بعض مفسرین نے کہا کہ اس قوم کو عادِ ثانیہ بھی کہا جاتا ہے۔

قومِ ثمود کا تعارف:

قومِ ثمود عرب میں آباد تھی، یہ لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے اور ان کے پاس حیران کُن ہنر پہاڑوں کو تراشنا تھا، یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر اِس میں مکان بنا ڈالتے تھے، کہتے ہیں کہ اِن کے ہاتھوں میں پتھر موم کر دیا گیا تھا، ان کے مکانات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم زیادہ قدآور نہ تھی، بہت خوشحال اور طاقتور تھی اور اسی گھمنڈ نے ان کو مغرور اور ظالم بنا دیا تھا، یہ قوم بت پرست اور مُشرک تھی۔

قومِ ثمود کی نافرمانیاں:

1۔ایمان کی دعوت قبول نہ کی:

حضرت صالح علیہ السلام نے اِس قوم کو اللہ پاک کے فرمان سُنا کر ایمان کی دعوت دی، تو اس سرکش قوم نے اس دعوت کو قبول نہ کیا، بلکہ آپ سے معجزہ طلب کیا۔

معجزہ:

کہ آپ علیہ السلام اس چٹان میں سے ایک گابھن اُونٹنی نکالئے، جو خوب فربہ اور نقص سے پاک ہو، آپ علیہ السلام نے اشارہ کیا، تو ایک اُونٹنی نکل پڑی اور نکل کر اس نے بچہ بھی جنا۔ 2۔آپ علیہ السلام کی بات مان کر پھر گئے:

آپ علیہ السلام نے فرمایا:" کہ یہ معجزہ کی اُونٹنی ہے، ایک روز یہ سارے تالاب کا پانی پی جائے گی اور ایک روز تم لوگ پینا، قوم یہ بات مان گئی، پھر آپ نے قومِ ثمود کے سامنے تقریر فرمائی: "اے میری قوم!اللہ کو پُوجو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بے شک تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے روشن دلیل آئی ہے، یہ اللہ کا ناقہ ہے، تمہارے لئے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے بُرائی سے ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں دردناک عذاب آئے گا۔"(اعراف"73)

چنددن قومِ ثمود نے برداشت کیا کہ ایک دن اِن کو پانی ملتا تھا، پھر وہ اپنی بات سے پھر ے اور اپنے نبی کی نافرمانی کرتے ہوئے اس اُونٹنی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

3۔آپ کے منع کرنے کے باوجود اُونٹنی کو قتل کر دیا:

قدار بن سالف اس اُونٹنی کے قتل کرنے کو راضی ہوگیا، آپ علیہ السلام منع کرتے رہے، لیکن اس سُرخ رنگ کے پستہ قد آدمی نے بڑی بے رحمی سے اُونٹنی کے چاروں پاؤں کاٹ دئیے، پھر انتہائی سرکشی کے ساتھ اس کو ذبح کردیا اور حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبا نہ گفتگو کرنے لگا۔(القرآن، سورہ اعراف:77)

"پس ناقہ کی کونچیں کاٹ دیں اور اپنے ربّ کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح! ہم پر لے آؤ، جس کا تم وعدہ دے رہے ہو، اگر تم رسول ہو۔"

4۔نافرمانی کا انجام:

قومِ ثمود کی سرکشی اور نافرمانی کا بھیانک انجام ایک خوفناک چنگھاڑ کی آواز کے بعد شدید ترین زلزلہ سے ہوا، قومِ ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مر گیا۔(القرآن، سورہ اعراف، آیت نمبر 78)

تو انہیں زلزلہ نے آ لیا، تو صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے۔

خلاصہ کلام:

قومِ ثمود کی بستی برباد و ویران ہو کر کھنڈر بن گئی اور پوری قوم فنا کے گھاٹ اُتر گئی، کی آج ان کی نسل کا کوئی اِنسان روئے زمین پر باقی نہیں رہ گیا۔(حوالہ جات:عجائب القران مع غرائب، ص106 تا 103، ترجمہ کنزالایمان، کچھ معلومات مدنی چینل کے سلسلہ مقاماتِ عبرت سے حاصل کی ہے۔)


مختصر تعارف:ثمود بھی  عرب کا ہی ایک قبیلہ تھا، یہ لوگ ثمود بن رام بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور حجاز و شام کے درمیان سرزمینِ حِجر میں رہتے تھے، حضرت صالح علیہ السلام کے والد کا نام عبید اللہ بن آسف بن ماسح بن عبید حاذر ابنِ ثمود ہے اور اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجا، پتھروں اور پہاڑوں کو کھود کر گھر بنانا اس قوم کی بارز ترین صفات میں شامل تھا۔

قومِ ثمود کی نافرمانیاں:

حضرت صالح علیہ السلام نے جب قومِ ثمود کو خداپاک کا فرمان سُنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سرکش قوم نے آپ سے معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن اُونٹنی نکالئے، جو خُوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو، چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ فرمایا تو وہ فوراً ہی چٹان پھٹ گئی اور اس میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت اور تندرست اُونٹنی نکل پڑی، جو گابھن تھی اور اس نے ایک بچہ جنا، اس بستی میں ایک ہی تالاب تھا، جس میں پہاڑوں کے چشموں سے پانی گر کر جمع ہوتا تھا۔

حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا" اے لوگو! دیکھو یہ معجزے کی اونٹنی ہے، ایک روز تمہارے تالاب کا سارا پانی پی ڈالے گی اور ایک روز تم لوگ پینا "، قوم نے اس کو مان لیا، چند دن تو قوم نے تکلیف کو برداشت کیا، مگر پھر ان لوگوں نے یہ طے کیا کہ اُونٹنی کو قتل کر ڈالیں۔

قدار بن سلف:اس قوم میں قدار بن سلف جو سُرخ رنگ کا بھوری آنکھوں والا پستہ قد آدمی تھا اور ایک زنا کار عورت کا لڑکا تھا، ساری قوم کے حکم سے اس اونٹنی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا، حضرت صالح علیہ السلام منع ہی کرتے رہے، لیکن قدار بن سلف نے پہلے اُونٹنی کے چاروں پاؤں کاٹ ڈالے، پھر اس کو ذبح کیا اور اِنتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو کرنے لگا۔

زلزلہ کا عذاب:قومِ ثمود کی اِس سرکشی پر عذابِ خُداوندی کا ظہور اس طرح ہوا کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آواز آئی، پھر شدید زلزلہ آیا، جس سے پوری آبادی چکنا چور ہو گئی، تمام عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس ہو گئیں اور قومِ ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مر گیا۔

حضرت صالح علیہ السلام نے جب دیکھا کہ پوری بستی زلزلوں کے جھٹکوں سے تباہ و برباد ہو کر اینٹ پتھروں کا ڈھیر بن گئی اور پوری قوم ہلاک ہو گئی تو آپ کو بڑا صدمہ ہوا اور آپ کو قوم اور ان کی بستی کے ویرانوں سے اس قدر نفرت ہوگئی کہ آپ نے ان لوگوں کی طرف سے مُنہ پھیر لیا۔

اس واقعے کا ذکر اللہ پاک نے قرآن پاک کی سورۃ الاعراف میں فرمایا ہے۔


حضرت صالح علیہ السلام قومِ ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے،  آپ نے جب قومِ ثمود کو خدا پاک کا فرمان سُنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سرکش قوم نے آپ سے یہ معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن اُونٹنی نکالئے، جو خوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو ، چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ فرمایا تو وہ فوراً ہی پھٹ گئی اور اس میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت و تندرست اور خُوب بلند قامت اُونٹنی نکل پڑی، جو گابھن تھی اور نکل کر اس نے ایک بچہ بھی جنا اور یہ اپنے بچے کے ساتھ میدانوں میں چرتی پھرتی رہی۔

اس بستی میں ایک ہی تالاب تھا، جس میں پہاڑوں کے چشموں سے پانی گر کر جمع ہوتا تھا، آپ نے فرمایا: کہ اے لوگو! دیکھو یہ معجزہ کی اُونٹنی ہے، ایک روز تمہارے تالاب کا سارا پانی یہ پی ڈالے گی اور ایک روز تم لوگ پینا، قوم نے اس کو مان لیا، پھر آپ نے قومِ ثمود کے سامنے یہ تقریر فرمائی: کہ

ترجمہ کنزالایمان:"اے میری قوم اللہ کو پُوجو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بے شک تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے روشن دلیل آئی ہے، یہ اللہ کا ناقہ ہے، تمہارے لئے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اُسے برائی سے ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں دردناک عذاب آئے گا۔"(پ8، الاعراف:73)

چند دن تو قومِ ثمود نے اس تکلیف کو برداشت کیا کہ ایک دن اُن کا پانی نہیں ملتا تھا، کیونکہ اس دن تالاب کا سارا پانی اُونٹنی پی جاتی تھی، اس لئے ان لوگوں نے طے کر لیا کہ اس اُونٹنی کو قتل کر ڈالیں۔

چنانچہ قوم میں قدار بن سالف جو سُرخ رنگ کا بھوری آنکھوں والا اور پستہ قد آدمی تھا اور ایک زنا کار عورت کا لڑکا تھا، ساری قوم کے حکم سے اس اُونٹنی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا، حضرت صالح علیہ السلام منع کرتے رہے، لیکن قدار بن سالف نے پہلے تو اُونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا، پھر اس کو ذبح کردیا اور اِنتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو کرنے لگا، چنانچہ خداوند قدوس کا ارشاد ہے کہ

ترجمہ کنزالایمان:"پس ناقہ کی کوچیں کاٹ دیں اور اپنے ربّ کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اےصالح!ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے ہو، اگر تم رسول ہو۔"(پ8، الاعراف: 77)

زلزلہ کا عذاب:

قومِ ثمود کی اس سرکشی پہ عذابِ خُداوندی کا ظُہور اس طرح ہوا کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آواز آئی، پھر شدید زلزلہ آیا، جس سے پوری آبادی اَتھل پَتھل ہو کر چکنا چور ہو گئی، تمام عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس ہو گئیں اور قومِ ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مر گیا، قرآن مجید نے فرمایا کہ

ترجمہ کنزالایمان:"تو اُنہیں زلزلہ نے آلیا تو صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے ۔"(پ8، الاعراف:78)

حضرت صالح علیہ السلام نے جب دیکھا کہ پوری بستی زلزلوں کے جھٹکوں سے تباہ و برباد ہو کر اینٹ پتھروں کا ڈھیر بن گئی اور پوری قوم ہلاک ہوگئی تو آپ کو بڑا صدمہ اور قلق ہوا اور آپ کو قومِ ثمود اور ان کی بستی کے ویرانوں سے اس قدر نفرت ہوگئی کہ آپ نے اُن لوگوں کی طرف سے منہ پھیر لیا اور اُس بستی کو چھوڑ کر دوسری جگہ تشریف لے گئے اور چلتے وقت مُردہ لاشوں سے یہ فرما کر روانہ ہوگئے کہ

ترجمہ کنزالایمان:"اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے ربّ کی رسالت پہنچا دی اور تمہارا بھلا چاہا، مگر تم خیر خوا ہوں کے غرضی (پسند کرنے والے) ہی نہیں۔"(پ8، الاعراف:79)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قومِ ثمود کی پوری بستی بربادو ویران ہوکر کھنڈر بن گئی اور پوری قوم فنا کے گھاٹ اُتر گئی، کہ آج ان کی نسل کا کوئی انسان روئے زمین پر باقی نہیں رہ گیا۔(تفسیر الصاوی، ج2، ص688، پ8، الاعراف:77۔83 تا 79ملخصاً)


اللہ پاک نے ہر قوم کی ہدایت کے لئے اپنے نبیوں اور رسولوں کو مبعوث فرمایا،  قومِ ثمود کی ہدایت کے لئے اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، آپ نے جب قومِ ثمود کو خدا کا فرمان سنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سرکش قوم نے آپ سے معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن اُونٹنی نکالئے، جو خوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو، چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ فرمایا تو وہ فوراً ہی پھٹ گئی اور اس میں سے ایک نہایت خوبصورت و تندرست اور خوب بلند قامت اونٹنی نکل پڑی، جو گابھن تھی اور نکل کر اس نے ایک بچہ جنا اور یہ اپنے بچے کے ساتھ میدانوں میں چرتی پھرتی رہی۔

اس بستی میں ایک ہی تالاب تھا، آپ نے فرمایا: اے لوگو! دیکھو یہ معجزہ کی اونٹنی ہے، ایک روز تمہارے تالاب کا سارا پانی یہ پی ڈالے گی اور ایک روز تم لوگ پینا، قوم نے اس کو مان لیا، پھر آپ نے قوم، ثمود کے سامنے تقریر فرمائی کہ

ترجمہ کنزالایمان:"اے میری قوم!اللہ کو پوجو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بے شک تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے روشن دلیل آئی، یہ اللہ کا ناقہ ہے، تمہارے لئے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی سے ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں دردناک عذاب آلے گا۔"(پ8،اعراف: 73)

چند دن تو قوم نے اس تکلیف کو برداشت کیا کہ ایک دن ان کو پانی نہیں ملتا تھا، کیونکہ اسے دن تالاب کا سارا پانی اونٹنی پی جاتی تھی، اس لئے ان لوگوں نے طے کرلیا کہ اس اونٹنی کو قتل کر ڈالیں۔

چنانچہ اس قوم میں قدار بن سالف جو سرخ رنگ کا بھوری آنکھوں والا اور پستہ قد آدمی تھا اور ایک زنا کار عورت کا لڑکا تھا، ساری قوم کے حکم سے اس اُونٹنی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا، حضرت صالح علیہ السلام انہیں منع ہی کرتے رہے، لیکن قدار بن سالف نے پہلے تو اونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا، پھر اس کو ذبح کردیا اور انتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو کرنے لگا، چنانچہ خداوند قدوس کا ارشاد ہے کہ

ترجمہ کنزالایمان:پس ناقہ کی کونچیں کاٹ دیں اور اپنے ربّ کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح! ہم پر لے آؤ، جس کا تم وعدہ دے رہے ہو، اگر تم رسول ہو۔"(پ8،اعراف: 77)

عذاب:

قومِ ثمود کی اس سرکشی پر عذابِ خداوندی کا ظہور اس طرح ہوا کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آواز آئی، پھر شدید زلزلہ آیا، جس سے پوری آبادی اتھل پتھل ہو کر چکنا چور ہو گئی، تمام عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس ہوگئیں اور قومِ ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مر گیا، قرآن مجید نے فرمایا کہ

ترجمہ کنزالایمان:"تو انہیں زلزلہ نے آ لیا تو صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے۔ (پ8،اعراف: 78)