حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کو قومِ ثمود کہتے ہیں، قوم ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا، اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے قومِ ثمود کی طرف ان کے نسبی بھائی کو
بھیجا، جس کا نام صالح تھا۔
حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:اے میری قوم!
تم اللہ کو مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، صرف وہی عبادت کا مستحق ہے، جبکہ
تمہارے یہ بت عبادت کے لائق نہیں تو اللہ پاک سے معافی مانگو اور شرک سے کنارہ کشی کر کے اسی کی طرف رجوع
کرو، بیشک میرا ربّ ایمان والوں کے قریب
ہے اور ان کی سننے والا ہے۔"
جب حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے پیغامِ
توحید پیش کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اے صالح!اس تبلیغ سے پہلے تم ہمارے درمیان
ایسے تھے کہ ہمیں تم سے بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں اور ہم اُمید کرتے تھے کہ تم
ہمارے سربراہ بنو گے، لیکن جب تم نے توحید
کی دعوت دی اور بتوں کی برائیاں کیں، تو قوم کی اُمیدیں تم سے ختم ہوگئیں، پھر قومِ ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام سے
معجزہ طلب کیا، آپ نے اللہ پاک سے دعا کی
تو پتھروں سے بحکمِ الٰہی اُونٹنی پیدا
ہوگئی، یہ اُونٹنی ان کے لئے حضرت صالح
علیہ السلام کی صداقت پر روشنی اور حضرت صالح علیہ السلام کا معجزہ تھی، اس آیت میں اس اونٹنی کے متعلق احکام ارشاد
ہوا، فرمایا:"اسے زمین میں چرنے دو
اور کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ، ورنہ دنیا ہی
میں گرفتار ہو جاؤ گے۔"
قومِ ثمود نے اللہ پاک کے حکم کی مخالفت کی اور بدھ کے دن
انہوں نے اس اونٹنی کی ایڑیوں کی اور ٹانگوں کی رگیں کاٹ دیں، اس کے بعد حضرت صالح علیہ السلام نے
فرمایا:"اپنے گھروں میں تین دن یعنی جمعہ تک عیش کر لو، ہفتہ کے دن تم پر عذاب آ جائے گا اور اس کی علامت یہ
ہوگی کہ پہلے دن تمہارے چہرے زرد ہو جائیں گے اور دوسرے دن سُرخ اور تیسرے دن سیاہ
ہوجائیں گے، پھرہفتے کے دن عذاب نازل
ہوجائے گا ، یہ ایک وعدہ ہے جو جھوٹا نہ
ہوگا، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
پھر جب ہمارا حکم آیا تو ہم نے صالح اور اس کے ساتھ والے
مسلمانوں کو اپنی رحمت سے بچالیا، بیشک
تمہارا ربّ بڑی قوت و غلبہ والا ہے اور پھر ظالموں کو چنگھاڑ نے پکڑ لیا تو وہ صبح
کے وقت اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے، گویا وہ کبھی یہاں رہتے ہی نہیں تھے۔
" سن لو بیشک ثمود نے اپنے ربّ کا انکار کیا، خبردار! لعنت ہو ثمود پر۔
قوم ثمود کی نافرمانیاں
جب اللہ پاکٰ نے حضرت صالح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی قوم ثمود کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم سے
فرمایا :اے میری قوم! تم اللہ پاکٰ کوایک مانو، اس کے ساتھ کسی کو
بھی شریک نہ ٹھہراؤ اور صرف اسی کی عبادت کرو کیونکہ اللہ پاکٰ کے سوا
کوئی اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ عبادت کا مستحق ہو، اللہ پاکٰ ہی تمہارا
معبود ہے۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم ثمود
کو اللہ پاکٰ کی نعمتیں یاد دلا کر بھی سمجھایا کہ: اے قوم
ثمود! تم اس وقت کویاد کرو، جب اللہ پاک نے تمہیں قومِ عاد
کے بعد ان کا جانشین بنایا، قومِ عاد کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر کے
تمہیں ان کی جگہ بسایا، اللہ پاکٰ نے تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ عطا
کی، تمہارا حال یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم میں آرام کرنے کیلئے ہموار
زمین میں محلات بناتے ہو اور سردی کے موسم میں سردی سے بچنے کیلئے پہاڑوں کو
تراش کر مکانات بناتے ہو۔ تم اللہ پاکٰ کی ان نعمتوں کو یاد کرو اور
زمین میں کفر ا ور گناہ کرنے سے بچو کہ گناہ، سرکشی اور کفرکی وجہ سے زمین میں
فساد پھیلتا ہے اور ربِّ قہار پاک کے عذاب آتے ہیں۔قومِ ثمود کے سردار
جندع بن عمرو نے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام سے عرض کی: ’’ اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں
فلاں صفات کی اونٹنی ظاہر کریں ، اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر
ایمان لے آئیں گے۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے
ایمان کا وعدہ لے کر رب پاک سے دعا کی ۔ سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اسی شکل و
صورت کی پوری جوان اونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے برابر بچہ جنا۔ یہ
معجزہ دیکھ کر جندع تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا جبکہ باقی لوگ اپنے
وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں سے کہنے لگے: کیا تم یہ
عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَالسَّلَام اپنے رب کے رسول ہیں ؟ انہوں نے کہا: بیشک
ہمارا یہی عقیدہ ہے، (صراطُ الجنان فی تفسیرِ القرآن)