قوم ثمود کا تعارف: ثمود عرب کے ایک قبیلہ کا نام ہے۔ ایک
قول کے مطابق یہ نام ان کے جد اعلی ثمود بن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن حضرت نوح
علیہ السلام کی نسبت سے رکھا گیا تھا۔ انہیں عاد ثانیہ بھی کہا جاتا ہے۔
قرآن مجید میں ہے: وَ
اَنَّهٗۤ اَهْلَكَ عَادَا ا۟لْاُوْلٰى ۙ۵۰وَ
ثَمُوْدَاۡ فَمَاۤ اَبْقٰى ۙ۵۱
ترجمہ كنز الايمان: اور یہ کہ اسی نے پہلی عاد کو ہلاک
فرمایا- اور ثمود کو تو اس نے (کسی کو) باقی نہ چھوڑا(پ27،النجم:50،51)از سیرت الانبیاء
لیکن یہ قوم ثمود اور آل ثمود کے نام سے زیادہ معروف ہیں-
رشتے میں یہ لوگ قوم عاد کے چچازاد تھے
حضرت صالح علیہ السلام کا تعارف: ایک عرصہ تک کا قوم ثمود
سرکشی اور گمراہی کے دلدل میں دھنستی رہی، پھر اللہ رب العزت نے انہیں اس سے نجات
دلانے اور راہ ہدایت پر گامزن کرنے کے لیے ایک عظیم ہستی حضرت صالح علیہ السلام کو
رسول بنا کر ان کی طرف بھیجا۔ آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے ارم کی
اولاد میں سے تھے،جیسا کہ ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ آپ علیہ
السلام کا نسب نامہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں، صالح جن عبید بن آسف بن کاشح بن
عبید بن حاذر بن ثمود بن عاد (بن عوص) بن ارم بن سام بن حضرت نوح علیہ السلام،
مزید لکھتے ہیں: حضرت صالح علیہ السلام حسب و نسب دونوں اعتبار سے اپنی قوم میں سب
سے بہتر اور افضل تھے
آپ علیہ السلام کا معجزہ اور قوم کا اراده نافرمانی: آپ نے
جب قوم کو خدا پاک کا فرمان سنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سرکش قوم نے آپ علیہ
السلام سے یہ معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن اونٹنی نکالیے جو
خوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ
فرمایا یا تو وہ فورا ہی پھٹ گئی اور اس سے ایک نہایت ہی خوبصورت اور تندرست اور
خوب بلند قامت اونٹنی نکل پڑی جو گابھن تھی اور نکل کر اس نے ایک بچہ بھی جنا اور
یہ اپنے بچے کے ساتھ میدانوں میں چلتی پھرتی رہی۔
اس بستی میں ایک ہی تالاب تھا جس میں پہاڑوں کے چشموں سے
پانی گر کر جمع ہوتا تھا آپ نے فرمایا کہ: اے لوگو! دیکھو یہ معجزہ کی اونٹنی ہے
ایک روز تمہارے تالاب کا سارا پانی یہ پی ڈالے گی اور ایک روز تم لوگ پینا قوم نے
اس کو مان لیا پھر آپ نے قوم ثمود کے سامنے یہ تقریر فرمائی کہ
يٰقَوْمِ
اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ١ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ
بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ؕ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰيَةً فَذَرُوْهَا
تَاْكُلْ فِيْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَيَاْخُذَكُمْ
عَذَابٌ اَلِيْمٌ۷۳
ترجمہ کنز الایمان: اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی یہ
اللہ کا ناقہ ہے تمہارے لئے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور
اسے برائی سے ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں دردناک عذاب آئے گا(پ8،الاعراف:73)از عجائب القرآن
چند دن تو قوم ثمود نے اس تکلیف کو برداشت کیا کہ ایک دن
ان کو پانی نہیں ملتا تھا کیونکہ اس دن تالاب کا سارا پانی اونٹنی جاتی تھی اس لئے
ان لوگوں نے طے کر لیا کہ اس اونٹنی کو قتل کر ڈالیں۔
قوم کی سرکشی اور نا فرمانی: چناچہ اس قوم میں قدار بن
سالف جو سرخ رنگ کا بھوری آنکھوں والا اور پستہ قد آدمی تھا اور ایک زنا کار عورت
کا لڑکا تھا ساری قوم کے حکم سے اس اونٹنی کو قتل کرنے کے لیے تیار ہو گیا حضرت
صالح علیہ السلام منع ہی کرتے رہے لیکن قدار بن سالف نے پہلے تو اونٹنی کے چاروں
پاؤں کو کاٹ ڈالا پھر اس کو ذبح کر دیا اور انتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ
السلام سے بے ادبانہ گفتگو کرنے لگا چناچہ خداوند قدوس کا ارشاد ہے:
فَعَقَرُوا
النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا يٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا
تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۷۷
ترجمۂ کنز الایمان: پس ناقہ کی کوچیں کاٹ دیں اور اپنے رب
کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے ہو اگر تم
رسول ہو۔ (پ8، الاعراف:77)از عجائب القرآن
حدیث مبارکہ میں قوم ثمود کی نافرمانی اور اس کے انجام کا
تذکرہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ پاکٰ عنہ فرماتے ہیں:جب رسول اللّٰہ صلی
اللّٰہ علیہ وسلم مقام حجر سے گزرے تو ارشاد فرمایا:اے لوگو! معجزات کا مطالبہ نہ
کرو، کیونکہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے معجزے کا مطالبہ کیا (تو اللہ پاکٰ
نے ان کے لیے اونٹنی بھیجی)جو اس گھاٹی سے باہر آتی اور اسی کے اندر چلی جاتی تھی
وہ اونٹنی ایک دن لوگوں کے حصے کا پانی پی جاتی اور لوگ اس دن اس اونٹنی کا دودھ
پی لیتے تھے۔پھر انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں تو انہیں ایک ہولناک چیخ نے
پکڑ لیا اور اللہ پاکٰ نے آسمان کے نیچے موجود ان کے ہر فرد کو ہلاک کر دیا سواۓ ایک شخص کے جو
کہ حرم پاک میں موجود تھا۔ عرض کی گئی: یا رسول اللّٰہ!صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وہ
کون تھا؟ ارشاد فرمایا: ابو رغال، جب وہ حرم پاک سے نکلا تو اسے بھی وہی عذاب پہنچ
گیا جو اس کی قوم پر آیا تھا (مسند امام
احمد، مسند جابر بن عبد اللہ،14/5،حدیث:14162،) از سیرت الانبیاء
اونٹنی کی کونچیں کاٹنے والے کا ذکر: حضرت عبد اللّٰہ بن
زمعہ رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے
سنا، آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کا ذکر کیا جس نے(حضرت صالح علیہ
السلام کی) اونٹنی کی کونچیں کاٹی تھیں اور ارشاد فرمایا: اس اونٹنی کے درپے ہونے
والا شخص (ظاہراً) بہت عزت و شوکت والا تھا جیسے ابو زمعہ ہے (بخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب قول الله پاک:والی ثمود
اخاھم صلحا،432/2،حدیث:3377)از سیرت الانبیاء