ثمود بھی عرب کا ہی ایک قبیلہ تھا،  یہ لوگ ثمود بن رام بن سام بن نوح علیہ الصلاۃ والسلام کی اولاد میں تھے اور حجاز و شام کے درمیان سرزمین حجر میں رہتے تھے، قومِ ثمود قومِ عاد کے بعد ہوئی اور حضرت صالح علیہ الصلوۃ والسلام حضرت ہود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد ہیں۔(روح البیان، اعراف،تحت الآیۃ73، 30/189۔190)

جب اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کی قوم ثمود کی طرف بھیجا، تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا:

ترجمہ کنزالایمان:"اے میری قوم!اللہ کو پوجو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔"(پ 12، ہود، 61)

حضرت صالح علیہ الصلوۃ و السلام نے قومِ ثمود کو اللہ پاک کی نعمتیں یاد دلاکر بھی سمجھایا، فرمایا:

ترجمہ کنزالایمان:" اور یاد کرو جب تم کو عاد کا جانشین کیا اور ملک میں جگہ دی کہ نرم زمین میں محل بناتے ہو اور پہاڑوں میں مکان تراشتے ہو تواللہ کی نعمتیں یاد کرو اور زمین میں فسادمچاتےنہ پھرو ۔"(پ8، اعراف: 74)

اللہ پاک نےقومِ ثمود کو بہت سی نعمتیں عطا فرمائی تھیں، لیکن قومِ ثمود کی عمریں تین سو برس سے ایک ہزار سال تک ہوتیں، لیکن انہوں نے اس لمبی عمر سے لمبے گناہ کئے اور ربّ پاکٰ کی نافرمانی کی اور اس کی نعمتوں کی ناشکری کی۔

ان کی قوم کے لوگ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے سمجھانے پر آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی تحقیر کرنے لگے اور کہنے لگے:

ترجمہ کنزالایمان:"اے صالح!اس سے پہلے تو تم ہم میں ہونہار معلوم ہوتے تھے، کیا تم ہمیں اس سے منع کرتے ہو کہ اپنے باپ دادا کے معبودوں کو پوجیں اور بے شک جس بات کی طرف ہمیں بلاتے ہو، ہم اس سے ایک بڑے دھوکا ڈالنے والے شک میں ہیں۔"(پ 12، ہود، 62)

قومِ ثمود کے سردار جندہ بن عمرو نے حضرت صالح علیہ السلام سے عرض کی"اگر آپ سچے نبی ہیں، تو پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں فلاں صفات کی اُونٹنی ظاہر کریں، اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے، حضرت صالح نے اپنے ربّ سے دعا کی، سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اسی شکل و صورت کی پوری جوان اُونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے برابر بچہ جنا، یہ معجزہ دیکھ کر جندہ تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا، جبکہ لوگ کفر پر قائم رہے۔

حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے متکبرسردار کمزور مسلمانوں سے کہنے لگے:کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح علیہ السلام اپنے ربّ کے رسول ہیں؟انہوں نے کہا:بے شک ہمارا ایساہی عقیدہ ہے، ہم انہیں اور ان کی تعلیمات کو حق سمجھتے ہیں، سرداروں نے کہا :جس پر تم ایمان رکھتے ہو، ہم تو ان کا انکار کرتے ہیں۔

حضرت صالح علیہ السلام نے اس معجزے والی اُونٹنی کے بارے میں فرمایا تھا کہ تم اس اونٹنی کو تنگ نہ کرنا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، تاکہ اللہ کی زمین پر کھائے اور اسے بُرائی کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا، نہ مارنا، نہ ہنکانا اور نہ قتل کرنا، اگر تم نے ایسا کیا تو نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہیں عذاب پکڑ لے گا۔

انہوں نے اُونٹنی کی کونچیں کاٹیں، اسے ذبح کر دیا اور سرکشی کرتے ہوئے کہنے لگے:

"اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ، جس کی تم وعیدیں سناتے رہتے۔"(تفسیر صراط الجنان، سورہ اعراف، آیت72 تا76)

الغرض انہوں نے اپنے نبی کی بات نہ مانی اور ان کی نافرمانی کی اور رسول کی نافرمانی، ربّ کی نافرمانی ہی ہوتی ہے، اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور ان کی سُنتیں اپنائیں۔اللہ توفیق عطا فرمائے۔آمین