قومِ ثمود انہیں ثمود اس لئے کہا جاتا ہے،  اس قوم کے جد ِّاعلیٰ کا نام ثمود تھا، اس قوم کا دوسرا نام عادِثانی بھی ہے، اسے صالح کی قوم بھی کہا جاتا ہے، یہ اس وجہ سے ہے کہ ان کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا، ان کے بارے میں قرآن پاک کی کئیں آیات ہیں، جن میں ان کی نافرمانیوں اور عذابات کا ذکر ہے: قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا بِالَّذِيْۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ (پ8، الاعراف، 76)

ترجمۂ کنز الایمان:" متکبر بولے جس پر تم ایمان لائے ہمیں اس سے انکار ہے۔

یہ قومِ عاد کے چچا زاد بھائی تھے، حجاز اور شام کے درمیان آباد تھے، حجر سے وادی قریٰ تک بڑے بڑے شہر آباد کئے، سنگ تراشی میں استاد تھے، بہت قد آور اور مالدار تھے۔(الفجر، صفحہ 89، آیت9۔10)

حضرت صالح علیہ السلام جب ان کی طرف نبی بن کر تشریف لائے، اس قوم نے آپ کی مخالفت کی اور ہلاک ہوگئے، حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں دعوت دی کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، انہیں اللہ کی نعمتیں یاد دلائیں، سمجھایا کہ اللہ پاک نے تمہیں قومِ عاد کا جانشین بنایا، ان کو ہلاک کر کے تم کو ان کی جگہ بسایا، تمہیں رہنے کے لئے جگہ دی، تم گرمی میں آرام کے لئے ہموار زمین میں محلات بناتے ہو، سردی سے بچنے کے لئے پہاڑوں کو تراش کر مکانات بناتے ہو، اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور کفر گناہ کرنے سے بچو، اللہ کی نافرمانی سے ان کا عذاب نازل ہوتا ہے۔

اس قوم نے حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا، ان کی نافرمانی کی، حضرت صالح علیہ السلام کے معجزے سے جو اونٹنی ظاہر ہوئی تھی، پھر سے حضرت صالح علیہ السلام نے فرمایا:اس اونٹنی کو تم لوگ تنگ نہ کرنا، اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تاکہ اللہ کی زمین سے کھائے اور اسے برائی کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا، نہ مارنا، نہ ہنکانا، نہ قتل کرنا، اگر تم نے ایسا کیا تو تم پر عذاب آ جائے گا۔

اس قوم کے دو شخصوں نے مل کر اسے ذبح کر دیا اور وہ کہنے لگے:لے آؤ وہ عذاب، جس کی وعید سناتے ہو، ان نافرمانیوں کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔

حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے کہا: پہلے دن تمہارے چہرے زرد ہوں گے، دوسرے دن سُرخ، تیسرے دن سیاہ ہو جائیں گے، ایسا ہی ہوا اور وہ لوگ اتوار کے دن دوپہر کے قریب اوّلاً ہولناک آواز میں گرفتار ہوئے، جن سے ان کے جگر پھٹ گئے، ہلاک ہوگئے، پھر سخت زلزلہ آیا، ان کی ہلاکت سے حضرت صالح علیہ السلام مؤمنوں کے ساتھ اس بستی سے نکل کر جنگل میں چلے گئے، پھر ان کی ہلاکت کے بعد مکہ روانہ ہوگئے۔(صراط الجنان، پارہ 8، سورہ اعراف، آیت 73۔79 کی تفسیر)

قومِ ثمود کی نافرمانیاں ازبنت عبدالمجید (فیضان اصحابِ صفہ، کراچی)

ثمود عرب کےایک قبیلے کا نام ہے، ایک قوم کے مطابق یہ نام ان کے جدِّ اعلٰی ثمود بن عاد بن عوس بن ارم بن سام بن حضرت نوح علیہ السلام کی نسبت سے رکھا گیا تھا ، قومِ ثمود کا دوسرا نام عادِ ثانیہ بھی کہا جاتا ہے۔

چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتاہے:

وَ اَنَّهٗۤ اَهْلَكَ عَادَا ا۟لْاُوْلٰى ۙ۵۰وَ ثَمُوْدَا فَمَاۤ اَبْقٰى ۙ۵۱

ترجمۂ کنز الایمان:" اسی نے پہلی عاد کو ہلاک فرمایا اور ثمود کو تو کوئی باقی نہ چھوڑا۔(پ27، النجم: 51-50)

لیکن یہ قومِ ثمود اور آلِ ثمود کے نام سے زیادہ معروف ہیں، رشتے میں یہ لوگ قومِ عاد کے چچازاد تھے۔

قومِ ثمود کو اللہ پاک کی طرف سے حیرت انگیز ہنرعطا کیا گیا، اللہ پاک نے اس قوم کو انتہائی زرخیز زمین عطا کی تھی، جس کی وجہ سے ان کی فصلیں خوب ہوتیں اور باغات سر سبزو شاداب اور میووں سے بھرے ہوتے تھے، فنِ تعمیر میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا، سنگلاخ پہاڑوں اور پتھریلی چٹانوں کو تراش کر نہایت خوبصورت، روشن، ہوادار، مضبوط اور بلند و بالا مکانات بنا لینا ان کے تعمیراتی ہنرو کمال کامنہ بولتا ثبوت تھا، آج بھی عرب شریف میں ان کی ہستیوں اور تعمیر کردہ مکانات کے آثار موجود ہیں، جنہیں"مدائن صالح" کہا جاتا ہے۔

حضرت صالح علیہ السلام کا عظیم معجزہ:

حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کو اللہ پاک کی وحدانیت پر ایمان لانے اور بت پرستی چھوڑنے کی تبلیغ ونصیحت میں مصروف عمل رہتے تھے، آپ علیہ السلام کے بار بار اصرار و تبلیغ و نصیحت سے تنگ آکر قوم کے سردار لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کا کوئی ایسا مطالبہ کیا جائے، جسے یہ پورا نہ کرسکیں، چنانچہ ایک دن قبیلے کے لوگ اپنی مجلس میں جمع تھے، اسی دوران آپ علیہ السلام بھی وہاں تشریف لے آئے تو آپ کی قوم نے یہ مطالبہ کر دیا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو اس پہاڑ کی چٹان سے ایک ایسی اونٹنی نکال دیجئے، جو دس ماہ کی حاملہ ہو اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو اور نکلتے ہی بچّہ جنے۔

آپ علیہ السلام نے سوال کیا قوم سے:اگر میں تمہارا سوال پورا کر دوں تو ضرور تم سب اللہ پاک کی وحدانیت اور رسالت پر ایمان لے آؤ گے؟ تو آپ کی قوم نے عرض کی: ضرور ہم ایمان لے آئیں گے اور بت پرستی چھوڑ دیں گے، پھر حضرت صالح علیہ السلام نے دو رکعت نماز پڑھ کے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی اور اس چٹان کی طرف اشارہ فرمایا تو اُسی وقت چٹان پھٹی اور اس میں ایک انتہائی خوبصورت ، تندرست، اونچے قد والی اُونٹنی نکل آئی، جو حاملہ تھی اور نکل کر ایک بچہ بھی جنا، آپ کی قوم یہ معجزہ دیکھ کر حیرت میں پڑگئی اور قوم کا ایک سردار ایمان لایا، باقی قوم وعدے سے پھر گئی۔

پھر اس قوم نے حضرت صالح علیہ السلام کی اُونٹنی سے بدسلوکی کی اور اس کو قتل کر دیا، پھر آپ نے اپنی قوم سے فرمایا:تین دن تک اپنے گھروں میں عیش کرو، ہفتے کے دن تم عذاب میں آ جاؤ گے۔

قر آن پاک میں اِرشاد ہے۔

فَعَقَرُوْهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِيْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ١ؕ ذٰلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوْبٍ۶۵

ترجمۂ کنز الایمان:" تو انہوں نے اس کی کوچیں کاٹیں(پاؤں کاٹ دئیے) تو صالح نے کہا اپنے گھرو ں میں تین دن اور برت لو(فائدہ اٹھا لو)یہ وعدہ ہے کہ جھوٹا نہ ہوگا۔(پ12، ھود، 65)