5۔ مؤلف: ثاقب ر ضا
عطاری ( درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان بخاری کراچی )
قرآن
مجید فرقانِ حمید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وَ
اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ
مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ- ترجمہ کنزالایمان :اور
ثمود کی طرف ان کی برادری سے صالح کو بھیجا کہا : اے میری قوم اللہ کو پوجوا س کے
سو اتمہارا کوئی معبود نہیں۔
(سورة
اعراف ، آیت : 73)
ثمود
عرب کا ایک قبیلہ تھا، یہ لوگ ثمود بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں
سے تھے اور حجاز و شام کے درمیان سرزمین حجر میں رہتے تھے حضرت صالح علیہ السلام
کے والد کا نام عبید بن آسف بن ماسخ بن عبید بن جاذر ابن ثمود ہے، قوم ثمود قوم
عاد کے بعد ہوئی اور حضرت صالح علیہ السلام حضرت ہود علیہ السلام کے بعد کے ہیں۔
(روح
البیان، الاعراف ، تحت الآیۃ : ۳،۷۳/۱۸۹،۱۹۰)
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم کی
طرف بھیجا (قوم ثمود کی طرف) بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا اے میری قوم تم
اللہ عزوجل کو ایک مانو اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ، اور صرف اسی کی
عبادت کر وکیونکہ اللہ کے سوا کوئی اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ عبادت کا مستحق ہو،
اللہ تعالیٰ ہی تمہارا معبود ہے۔
حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو (قوم ثمود کو) اللہ
تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلا کربھی سمجھایا کہ اے قوم ثمود تم اس وقت کو یاد کرو جب
اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوم عاد کے بعد ان کا جانشین بنایا قوم عاد کو ان کے گناہوں
کے سبب ہلاک کرکے تمہیں ان کی جگہ بسایا، اللہ تعالیٰ نے تمہیں زمین میں رہنے کو
جگہ عطا کی تمہارا حال یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم ( موسم) میں آرام کرنے کے لیے
ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور سردی کے موسم میں سردی سے بچنے کے لیے پہاڑوں کو
تراش کرمکانات بناتے ہو۔
تم اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں کفر اور گناہ
کرنے سے بچو کہ گناہ سرکشی اور کفر کی وجہ سے زمین میں فساد پھیلتا ہے، اور رب
عزوجل کے عذاب آتے ہیں۔ چنانچہ خداوند قدوس کا ارشاد ہے : ترجَمۂ کنزُالایمان: پس
ناقہ کی کوچیں کا ٹ دیں اورا پنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح ہم پر لے
آؤ جس کا تم وعدہ دے رہو ہو اگر تم رسول ہو۔ (اعراف : 77)
قوم ثمود کی اس سرکشی پر عذاب خداوندی کا ظہور اس طرح ہوا
کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آوازآئی، پھر شدید زلزلہ آیا جس سے پوری
آبادی چکنا چور ہوگئی، تمام عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس ہوگئیں اور قوم ثمود کا
ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مرگیا قرآن مجید نے فرمایا:
فَاَخَذَتْهُمُ
الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(۷۸)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو انہیں زلزلہ لے آلیا تو صبح کو اپنے گھر وں میں اوندھے رہ
گئے۔( سورہ الاعراف 78)
حضرت صالح علیہ السلام نے جب دیکھا کہ پوری بستی کو چھوڑ کر
دوسری جگہ تشریف لے گئے اور چلتے وقت مردہ لاشوں سے یہ فرما کر وانہ ہوگئے کہ ۔
یٰقَوْمِ
لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا
تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(۷۹) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اسے میری قومی بے شک میں نے تمہیں اپنے ربکی رسالت پہنچادی اور
تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہی کے غرضی (پسند کرنے والے)ہی نہیں۔
(الاعراف: 79 )
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قوم ثمود کی پوری بستی برباد
ویران ہو کر کھنڈر بن کر رہ گئی اور پوری
قوم فنا کے گھاٹ اتر گئی کہ آج ان کی نسل کا کوئی انسان روئے زمین پر باقی نہیں رہ
گیا۔
(تفسیر الصاوی ،ج ۲، ص ۶۸۸ ،پ ۸، الاعراف ملخصاً)
قوم ثمود کے سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح علیہ السلام
سے عرض کی اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی
ظاہر کریں اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے، حضرت صالح علیہ
ا لسلام نے ایمان کا وعدہ لے کر رب عزوجل سے دعا کی۔
سب کے سامنے وہ پتھر پٹھا اور اسی شکل و صورت کی پوری جوان
اونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے بر ابر بچہ جنا، یہ معجزہ دیکھ کر صندع
تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا جب کہ باقی لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور
کفر پر قائم رہے، حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں سے
کہنے لگے۔ کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح علیہا لسلام اپنے رب کے رسول
ہیں؟ اپنوں نے کہا، بیشک ہمارا یہی
عقیدہ ہے ہم انہیں اوران کی تعلیمات کو حق سمجھتے ہیں، سرداروں نے کہا جس پر ہم
ایمان رکھتے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں۔
اس بستی میں ایک تالاب تھا جس میں پہاڑوں کے چشموں سے پانی گر کر
جمع ہوتا تھا آپ نے فرمایا کہ اے لوگو، دیکھو یہ معجزے کی اونٹنی ہے ایک روز
تمہارے تالاب کا ساراپانی یہ پی ڈالے گی، اورایک روز تم لوگ پینا قوم نے اس کو مان
لیا چند دنوں تک قوم ثمود نے اس تکلیف کو برداشت کیا کہ ایک دن ان کو پانی نہیں
ملتی تھا، کیوں کہ اس دن تالاب کا سارا پانی اونٹنی پی جاتی تھی، اس لیے ان لوگوں
نے طے کرلیا، کہ اس اونٹنی کو قتل کر ڈالیں۔
چنانچہ اس قوم میں قدار بن سالق جو سرخ رنگ کا بھوری آنکھوں
والا اور پستہ قد آدم تھا اور ایک زنا کار عورت کا لڑکا تھا ساری قوم کے حکم سے اس
اونٹنی کو قتل کرنے کے لیے تیا ر ہوگیا، حضرت صالح علیہ ا لسلام منع کرتے رہے،
لیکن قدار بن سالف نے پہلے تو اونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا پھر اس کو ذبح
کردیا ، اور انتہائی سر کشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو
کرنے لگا۔