(پارہ:4، النساء،84) ترجمہ کنز الایمان: تو اے محبوب اللہ کی راہ میں لڑو تم تکلیف نہ دیئے جاؤ گے مگر اپنے دم کی اور مسلمانوں کو آمادہ کرو قریب ہے کہ اللہ کافروں کی سختی روک دے اور اللہ کی آنچ سب سے سخت تر ہے اور اس کا عذاب سب سے کرّا۔

سید المرسلین ﷺَ کی شجاعت: اس آیت سے ثابت ہوا کہ تاجدارِ مدینہ ﷺ شجاعت میں سب سے اعلیٰ ہیں کہ آپ کو تنہا کفار کے مقابل تشریف لے جانے کا حکم ہوا اور آپ آمادہ ہوگئے۔ اللہ پاک کے بعد مخلوق میں سب سے افضل و اعلیٰ ہمارے نبی ﷺ ہیں اور آپ ہر صفت کے جامع و کامل ہیں اور شجاعت و بہادری بھی ایک صفت ہے تو پھر کیوں نہ ہو کہ یہ صفت بھی سب سے زیادہ ہمارے نبیﷺ میں موجود ہو اور یہ صفت حضور کی اس بے مثال بہادری کی گواہی خود صحابہ کرام علیہم الرضوان نے دی ہے، آئیے اس کے متعلق صحابہ کرام کے چند اقوال پڑھیے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کی بہادری کا اندازہ لگائیے:

خادم رسول، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حبیبِ خدا ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ شُجاع اور بہادر تھے۔ (مسلم، ص 1242، حدیث: 2307)

جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم ﷺ سے زیادہ بہادر اور طاقتور، سخی اور پسندیدہ کسی کو نہیں دیکھا۔ (الشفا، ص 114)

حضور پرنور ﷺ کی بے مثل شجاعت و بہادری کا یہ عالم تھا کہ حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم جیسے بہادر صحابی کا یہ قول ہے: جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدّت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی آنکھیں پتھرا کر سرخ پڑ جایا کرتی تھیں اس وقت میں ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے اور آپ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے اور ہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں حضور سیدُ المُرسَلین ﷺ کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا تھا۔ (الشفا، ص114)

غزوۂ حنین کے دن جب ابتداء ًمسلمان کفار کے حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے میدانِ جنگ سے فرار ہوئے تو ایسے نازک وقت میں نبی کریم ﷺ ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار دشمنوں کی جانب پیش قدمی فرماتے رہے۔ (مسلم، ص 978، حدیث: 1775)

غزوۂ اَحزاب کے موقع پر خندق کھودتے ہوئے ایک ایسی چٹان ظاہر ہوئی جو کسی سے نہ ٹوٹ سکی، سرکارِ کائنات ﷺ کے وار سے وہ چٹان پارہ پارہ ہو گئی۔ (نسائی، ص 517، حدیث: 3173)

ایک رات اہلِ مدینہ ایک خوفناک آواز سن کر دہشت زدہ ہو گئے تو اس آواز کی سمت سب سے پہلے حضور اقدس ﷺ تشریف لے گئے۔

الغرض ہر جگہ ہر موقعہ پر ہمیں حضور پاک صاحب لولاک ﷺ کی بے مثال و با کمال شجاعت و بہادری کا جوہر ملتا ہے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

تم ہو حفیظ و مُغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروڑوں درود


حضور ﷺ کو اللہ پاک نے جس طرح جمالِ صورت میں اولین و آخرین سے ممتاز اور افضل و اعلی بنایا ہے۔ اسی طرح آپ  کو کمالِ سیرت میں بھی بےمثل و بےمثال پیدا فرمایا ۔ ہم اور آپ حضور اکرم ﷺ کی شانِ عظمت بے مثال کو بھلا کیا سمجھ سکتی ہیں ! حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو دن رات سفر و حضر میں فضل و کمال کی تجلیاں دیکھتے رہے انہوں نے محبوب خداﷺ کے فضل و کمال کی جو مصوری کی ہے اس کو سن اور پڑھ کر کسی مداح ِرسول نے کیا خوب کہا ہے کہ

لم يخلق الرحمنُ مثلَ محمد ابداً و علمى أنه لا يخلق

یعنی اللہ پاک نے حضرت محمد ﷺ کا مثل پیدا فرمایا ہی نہیں اور میں یہی جانتا ہوں کہ وہ کبھی نہ پیدا کرے گا۔( حیاۃ الحیوان، 1/42 )

حضور ﷺ محاسنِ اخلاق کے تمام گوشوں کے جامع تھے۔ یعنی حلم وعفو، رحم و کرم، عدل و انصاف، جو دو سخا ، ایثار و قربانی،مہمان نوازی ،حیاداری،منساری ،تواضع و انکساری، شجاعت و بہادری کی اتنی منزلوں پر آپ فائزو سرفراز ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک جملے میں اس کی تصویرکھینچتے ہوئے فرمایا:كان خُلْقهُ القُرآنیعنی تعلیمات ِقرآن پر پورا پورا عمل یہی آپ کے اخلاق تھے ۔( دلائل النبوة ،للبیہقی، 1/ 309 )

بہادری :

حضور ﷺ کے محاسنِ اخلاق سے ایک کمال خلق بہادری و شجاعت بھی تھا۔ حضور ﷺکی بہادری کے کیا کہنے!آپ کی بے مثال شجاعت و بہادری کا عالم یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسےبہادر صحابی کا قول ہے کہہ جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑےبڑے بہادروں کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں اس وقت ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے بچاؤ کی فکر کرتے اور آپ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کراور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کرجنگ فرماتے تھے اورہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں رسول اللہ ﷺ کے قریب رہ کر دشمنوں ں سے لڑتا تھا۔(الشفاء،1/116)

حضرت ابن ِعمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے بڑھ کر کسی کوبہادر ،صاحب حوصلہ سخی ،اورہر معاملے میں خوش نہ دیکھا۔( مقدمہ دار می، 1 /30)

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺجب کسی لشکرکے مقابل ہوتے تو مسلمانوں میں سے سب سے پہلے حملہ کرتے۔ (مکارم اخلاق ،ص54)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ کریمﷺ تمام لوگوں سے بہتر ،سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ایک رات مدینہ کے لوگ گھبر اگئے اور آواز کی جانب چل پڑے تو دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس جانب سےواپس آرہے ہیں۔گویا آپ اس آواز کی جانب پہلے ہی پہنچ گئے تھے اور خیر کی خبر لائے تھے۔آپ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر بغیر زین وکاٹھی سوار ہو کر تلوار گلے میں لٹکا کر تشریف لے گئے تھے۔آپﷺ فرماتے تھے:ڈرو مت!ڈرو مت!۔

(بخاری،4/108-109، حدیث:6033)

حضرت براء بن عازب اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےبیان فر مایا ہے کہ جنگِ حنین میں بارہ ہزار مسلمانوں کالشکر کفار کے حملوں کی تاب نہ لاکر بھاگ گیا تھا اور کفار کی طرف سے لگاتار تیروں کا مینہ برس رہا تھا اس وقت میں بھی رسول الله ﷺ ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔بلکہ ایک سفید خچر پر سوار تھے اور حضرت ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ آپ کی خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے اور آپ اکیلے دشمنوں کے دل بادل لشکروں کے ہجوم کی طرف بڑھتے چلےجا رہے تھے اور رجز کے یہ کلمات زبانِ اقدس پر جاری تھے:

اَنَا النَّبِيُّ لَا کَذِبْ         اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

یعنی میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے۔میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔

(بخاری ،3/111،حدیث:4317)(سیرتِ مصطفیٰ،ص620)(شرح زرقانی،3/517)

اللہ پاک ہمیں حضور ﷺ کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین


بہادری ایسی قابلِ ستائش اور لائقِ تعریف صفت ہے کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ اس صفت سے متصف ہو۔ یہ صفت ایک آدمی کے جسمانی طور پر قوی و طاقتور ہونے پر منحصر نہیں ہے بلکہ یہ صفت قلب وجگر کی مضبوطی پر موقوف ہے۔ نبیِ اکرم ﷺ کی شجاعت وبہادری  اور دلیری کے متعدد ایسے واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نہایت ہی بہادر ،شجاع اور دلیر ہیں ۔چنانچہ

جنگ و غزوات میں بہادری:

جنگ و غزوات میں جہاں بڑے بڑے دلاور و بہادر میدانِ جنگ چھوڑ کر بھاگ جایا کرتے تھے وہاں حضور ﷺ ثابت قدم رہا کرتے تھے۔جیسا کہ

جنگِ احد میں جب مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی تو یہ کوہِ استقامت اپنی جگہ پر قائم رہے اور دشمنوں پر تیر پھینکتے رہے، جب کمان پارہ پارہ ہوگئی تو سنگ اندازی شروع کردی۔(سیرتِ رسولِ عربی،ص354)

جب گھمسان کا معرکہ ہوا کرتا تو صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین حضور ﷺ کی آڑ میں پناہ لیا کرتے۔چنانچہ حضرت براء بن عازب رضی الله عنہ کا قول ہے: اللہ پاک کی قسم ! جب لڑائی شدت سے ہوا کرتی تھی تو ہم نبیِ کریم ﷺ کی پناہ ڈھونڈا کرتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ ہوتا جو آپ کے ساتھ جنگ میں دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہوتا۔(مسلم ،ص980، حدیث :1776)

تبلیغِ دین اور حق گوئی میں بہادری:

نبیِ کریم ﷺ تبلیغِ دین کرتے ہوئے بھی حق بیان کرنے سے پیچھے نہ ہٹے۔آپ کو جھٹلایا گیا، طرح طرح کی اذیتيں دی گئیں پھر بھی ڈٹ کر تبلیغِ دین کی یہاں تک کے جب ابو طالب نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑنے کا اردہ کیا تو آپ نے فرمایا:چچا جان ! الله کی قسم ! اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تاکہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تب بھی اس کام کو نہ چھوڑوں گا یہاں تک کے خدا اسے غالب کردے یا میں ہلاک ہوجاؤں۔(سیرت رسول عربی،ص 355)

یوں ہی سرکارِ دو عالمﷺ کی خدمت ِاقدس میں نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد حاضر ہوا جو ساٹھ افراد پر مشتمل تھا ،ان میں سے چوبیس معززین اور تین قوم کے مقتدا اور پیشوائے اعظم تھے۔آپ نے انہیں دعوتِ اسلام دی مگر وہ آمادہ نہ ہوئے۔الله پاک نے ان کے قائل نہ ہونے کی صورت میں ان سے مباہلہ کرنے کا ارشاد فرمایا ۔حکمِ الٰہی کے مطابق نبیِ کریم ﷺ نے ان سے مباہلہ کے لئے کہا۔انہوں نے مہلت مانگی۔اگلے روز نبیِ پاک ﷺ مباہلہ کے لیے امام حسن، امام حسین ، مولا علی اور فاطمہ الزہرہ رضی الله عنہم کو لیے روانہ ہوئے اور ان سے فرمایا کہ جب میں دعا کروں تو آمین کہنا۔پنجتن پاک کو دیکھ کر ابو حارثہ جو بڑا پادری تھا کہنے لگا:میں وه صورتیں دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے دعا کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ ٹل جائے تو بیشک ان کی دعا سے ٹل جائے گا، اس لئے تم مباہلہ نہ کرو ، ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور روئے زمین پر قیامت تک کوئی عیسائی نہ رہے گا۔ الله کی قسم ! تمہیں اس کی نبوت معلوم ہو چکی ہے اور تمہارے صاحب ( عیسی) کے بارے میں قول فیصل لایا ہے ۔ اللہ کی قسم ! جس قوم نے مباہلہ کیا وه ہلاک ہوگئی ۔یہ سن کر عیسائی ڈر گئے اور مباہلہ کی جرأت نہ کر سکے بلکہ صلح کر لی اور جزیہ دینا قبول کر لیا۔

(مواھب لدنیہ مع شرح زرقانی، 5/186۔190ملتقطًا)

نبیِ کریم ﷺکی جسمانی قوت:

آپ ﷺ کی قوتِ بدنی بھی سب سے زیادہ تھی ۔یہاں تک کے پہلوانوں کو بھی پچھاڑ دیا کرتے تھے۔رکانہ بن عبد العزیز جو قریش میں سب سے طاقتور تھا آپ ﷺ نے اسے کشتی میں دو بار پچھاڑ دیا یوں ہی ابو الاسود جحمی کو بھی پچھاڑ دیا تھا جو ایسا طاقتور تھا کہ گائے کی کھال پر کھڑا ہو جاتا ، دس جوان اس کھال کو اس کے پاؤں کے نیچے سے نکال لینے کی کوشش کرتے وه چمڑا پھٹ جاتا مگر اس کے نیچے سے نہ نکل سکتا تھا ۔ اس نے رسول اللہ ﷺ سے کہا:اگر آپ مجھے کشتی میں پچھاڑ دیں تو میں آپ پر ایمان لے آؤں گا ۔ نبیِ کریم ﷺ نے اسے پچھاڑ دیا مگر وه بد بخت ایمان نہ لیا۔(مواہب لدنیۃ مع شرح زرقانی،6/103،104)

مختصر یہ کہ نبیِ کریم ﷺ کے تمام اوصافِ کریمہ کے ساتھ ساتھ وصفِ بہادری میں بھی ہمارے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے ۔ اللہ کریم ہمیں نبیِ کریم ﷺ کی شجاعت و بہادری کا صدقہ نصیب فرمائے ۔امین

بہادری کی تعریف:

درد اور غم کی حالت میں ہمت رکھنا۔ نامنظوری کے خطرہ کے باوجود کسی کے اعتقادات پر درعمل ظاہر کرنے کی صلاحیت کو بھی بہادری کہتے ہیں۔بہادری واقعی ہماری ان افراد اور لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے میں مدد کرتی ہے جو ہمارے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہوں یا جن سے ہمیں خطرہ ہو ۔

نبیِ کریم ﷺ کی بہادری:

حضور ﷺ کی مبارک زندگی ہر طرح سے کامل و اکمل ہے۔جس طرح علم و حلم ،عفو و درگزر ، عدل و انصاف اور زہد و تقویٰ وغیرہ میں آپ کا کوئی مقابل نہیں اسی طرح بہادری اور شجاعت میں بھی آپ ﷺ اپنی مثال نہیں رکھتے۔

حضور ﷺ کی بہادری پر اقوال صحابہ

جنگوں میں بہادری کی کیفیت:

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی آنکھیں پتھرا کر سرخ پر جایا کرتی تھیں اس وقت میں ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے اور آپ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے اور ہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں آپ کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا تھا۔(الشفاء،1/116ملخصاً)

بہادری سے کفار پر تیر برسانا:

حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مشرکین نے قتل و غارت کر کے ہمیں نقصان پہنچایا مگر آپ اپنی جگہ پر ثابت قدم رہے،ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے بلکہ دشمنوں کے سامنے کھڑے اپنی کمان سے تیر برساتے رہے۔ایک بار آپ کے صحابہ کا ایک گروہ آپ کی طرف آیا، دوسری بار ( دشمن کے شدید حملے کی وجہ سے) آپ سے دور رہ جاتا۔لیکن میں نے جب بھی آپ کو دیکھا آپ اپنی جگہ پر شجاعت کے ساتھ اپنے کمان سے کفار پر تیر برسا رہے تھے حتی کہ مشرکین پیچھے ہٹ گئے۔ ( سبل الہدی و الرشاد ، 4/ 197)

بہادری میں بے مثال:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: حضور ﷺ سے زیادہ بہادر،طاقتور،سخی اور پسندیدہ میری آنکھوں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا ۔( سیرتِ مصطفیٰ،ص 220)

ان سب روایات اور اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بہادری اور شجاعت میں بھی بے مثال تھے۔آپ کی بہادری اور شجاعت کے بارے میں جتنا لکھا جائے اتنا کم ہے۔اللہ پاک نبیِ کریم ﷺ کی بہادری کے صدقے ہمیں بھی اسلام کے دشمنوں کے خلاف شجاعت و بہادری عطا فرمائے۔آمین


ہر خوبی و کمال جس کا تعلق جسم سے ہو یا روح سے، ظاہر سے ہو یا باطن سے،دنیا سے ہو یا آخرت سے، فکر سے ہو یا عمل سے،فردِ واحد سے ہو یا ساری قوم سے، زمانۂ ماضی سے ہو یا حال و مسقبل سے بعطائے الٰہی تمام تر معاملات میں سید الانبیاء،محمد مصطفےٰ  ﷺ اکمل ترین صورت میں پائے جاتے ہیں۔اسی طرح تاجدارِ مدینہ ﷺ بہادری و شجاعت میں بھی سب سے اعلیٰ ہیں۔حضورخاتم النبینﷺ کی شجاعت و بہادری اس مرتبہ تک تھی کہ اس سے ناواقف کوئی نہ تھا،آپ کو بہت سخت مواقع پیش آئے کہ بڑے بڑے نامور بہادر ٹھہر نہ سکے مگر آپ ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہے۔ حضور پرنورﷺ کی بے مثل شجاعت و بہادری کا عالم یہ تھا کہ

سب سے بڑھ کر بہادر:

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جیسے بہادر صحابی کا کہنا ہے کہ جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدّت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی آنکھیں پتھرا کر سرخ پڑ جایا کرتی تھیں اس وقت میں ہم لوگ نبی اکرمﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے اور آپ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے اور ہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں حضور سیدُ المرسلینﷺ کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا تھا۔(الشفاء،1/116)

تم ہو حفیظ و مُغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروروں درود

تمام لوگوں میں زیادہ بہادر:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حبیبِ خدا ﷺ تمام لوگوں سے زیادہ شُجاع اور بہادر تھے۔ (مسلم، ص1262،حدیث:2307)

وہ چقا چاق خنجر سے آتی ہے صدا مصطفیٰ تیری صورت پہ لاکھوں سلام

حملے میں پہل:

عمران بن حصین کہتے ہیں کہ سرورِ عالمﷺ جب کسی لشکر کے مقابل ہوتے تو مسلمانوں میں سب سے پہلے حملہ کرتے۔ (مکارم اخلاق، ص 54)

سچے کبھی باطل کی حمایت نہیں کرتے ہو موت بھی سر پر تو شکایت نہیں کرتے

چٹان کا ریزہ ریزہ ہوجانا:

غزوۂ خندق میں جب صحابہ کرام خندق کھود رہے تھے تو اتفاق سے ایک بہت بڑی چٹان نکل آئی، صحابہ کرام نے اپنی اجتماعی طاقت سے اس کو توڑنا چاہا مگر وہ نہ ٹوٹی تو لوگوں نے مجبور ہو کر بارگاہِ رسالت میں ماجرا عرض کیا تو خود اٹھ کر تشریف لائے اور پھاؤڑا ہاتھ میں لے کر ضرب لگائی تو وہ چٹان ریت کے بھربھرے ٹیلوں کی طرح ہو کر بکھر گئی۔(بخاری،3/51، حدیث:4101)

معلوم ہوا کہ حضور ﷺ بہت زیادہ بہادر اور طاقتور تھے لیکن کبھی بھی اپنی بہادری اپنے نفس کے لئے استعمال نہیں فرمائی ہمیشہ اللہ پاک اور دین کی سربلندی کے لئے ہی استعمال فرمائی ۔چنانچہ

آپ ﷺاپنے لئے غضب نہ فرماتے:

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے ہر گز نہیں دیکھا کہ حضور اکرمﷺ نے اپنے کسی کام کیلئے کسی پر غضب فرمایا ہو جب کوئی اللہ پاک کا حکم چھوڑتا تو حضور اکرمﷺ اس پر بہت ناراض ہوتے۔ ( کیمیائے سعادت ،ص 521)


حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ہر پہلو ہر طرح سے  کامل و اکمل ہے۔جس طرح آپ کے اوصاف میں کوئی آپ کا ثانی و مثل نہیں اسی طرح آپ کی شجاعت و بہادری میں کوئی آپ کے جیسا نہیں۔بہادری اردو زبان کا لفظ ہے ،اس کو عربی میں شجاعت کہتے ہیں۔حضور اکرمﷺ کی بے مثال شجاعت کا عالم یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے بہادر صحابی کا یہ قول ہے کہ جب لڑائی خوب گرم ہوجاتی تھی اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی آنکھیں پتھرا کر سرخ پڑجایا کرتی تھیں اس وقت میں ہم لوگ حضورﷺ کے پہلو میں اپنابچاوٴ کرتے تھے اور آپ سب سے زیادہ آگےبڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے۔(الشفاء،1/116)

آپﷺ اپنی شجاعت میں بھی سب پر فائق تھے۔چنانچہ ایک رات مدینہ منورہ کے لوگ ڈر گئے اور شور وغل برپا ہوگیاگویا کوئی چور یا دشمن آتا ہے ۔ آپ نے ابو طلحہ کا گھوڑا لیا جو سست رفتاراور سرکش تھا، اس کی پیٹھ پر بغیر زین کےسوارہوگئے اور تلوار لٹکائےہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے، جب لوگ اس آواز کی طرف گئے تورسول اللہﷺ ان کو راستے میں واپس آتے ہوئے ملے،آپ نے ان کو تسلی دی کہ ڈرو مت! ڈرو مت! اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریا کی مانند تیز رفتار پایا۔

(بخاری ،4/108-109، حدیث:6033)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ حضورﷺ سے زیادہ بہادر، طاقتور، سخی اور پسندیدہ میری آنکھوں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔(سیرت مصطفیٰ ، ص620)

اسی طرح غزوات میں جہاں بڑے بڑے دلاور و بہادر بھاگ جایا کرتےتھے آپ ثابت قدم رہا کرتے تھے۔ چنانچہ جنگِ احد میں جب مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی تو یہ کوہ ِاستقامت اپنی جگہ پر قائم رہے اور دشمنوں پر تیر پھنکتے رہے ،جب کمان پارہ پارہ ہوگئی تو سنگ اندازی شروع کی۔ جنگِ حنین میں چند جانباز آپ کے ساتھ رہ گئے تھے باقی سب بھاگ گئے تھے اس نازک حالت میں آپ نے اسی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنی جگہ پر قائم رہ کر دفاع فرمائیں بلکہ اپنے خچر کو بار بار ایڑ لگاکر دشمن کی طرف بڑھنا چاہتے مگر وہ جانباز مانع آرہے تھے۔

(سیرت رسول عربی، ص 217)

حضور ﷺ کی بہادری کے تو کیا کہنے کہ جب اعلانِ دعوت پر قریش نے آپ کی سخت مخالفت کی اور ابو طالب نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑنےکا ارادہ کیا تو آپ نے یوں فرمایا:چچا جان! اللہ کی قسم! اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تاکہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تب بھی میں اس کام کو نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ خدا اسے غالب کردے یا میں ہلاک ہوجاؤں۔

(سیرت رسول عربی ،ص 218)

اللہ کریم آقا کریمﷺ کے صدقے دینِ اسلام کے معاملے میں ہمیں بہادری اور ہمت سے کام کرنے کی توفیق عطا فرما ئے۔ آمین


بہادری یہ اردو زبان کا کلمہ ہے اور اس کو عربی میں شجاعت کہتے ہیں جو کہ ایک فضیلت ہے۔ شجاعت یہ ہے کہ غضب کی قوت ہوتے ہوئے اس کو عقل کے تابع کر دیا جائے۔حضور ﷺ کی شجاعت و بہادری اس مرتبے تک تھی کہ کوئی اس سے ناواقف نہ تھا یعنی مشہور تھی۔آپ کو بہت سے سخت مواقع پیش آئے کہ بڑے بڑے بہادر شجاع نہ ٹھہر سکے مگر آپ ثابت قدم رہے اور نہ ہٹے مقابلہ کیا مگر پیٹھ نہ دکھائی، نہ وہاں سے ایک انچ بھی ادھر ادھر ہوئے۔ کوئی شجاع ہو مگر وہ بھاگنے پر مجبور ہوتا وہ  دور شمار میں آتا ہے اور اس کے ٹل جانے کی یاد باقی رہتی ہے،لیکن حضور ﷺ ہر مقام پر ثابت قدم رہے،نیز رسول اللہ ﷺ دیگر اوصافِ حمیدہ کی طرح اس وصف میں بھی سب پر فائق تھے،چنانچہ روایت میں ہے کہ ایک رات مدینہ منورہ کے لوگ ڈر گئے اور شور و غل برپا ہوا گویا کوئی چور یا دشمن آیا ہے، آپ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لیا جو سست رفتار اور سرکش تھا، آپ اس کی پیٹھ پر بغیر زین کے سوار ہو گئے اور تلوار لٹکائے ہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے، جب لوگ اس آواز کی طرف گئے تو رسول اللہ ﷺ ان کو راستے میں واپس آتے ہوئے ملے،آپ نے ان کو تسلی دی کہ ڈرو مت! ڈرو مت!اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریا کی مانند تیز رفتار پایا ہے۔(بخاری،4/108،109،حدیث:6033)

غزوات میں جہاں بڑے بڑے دلاور بہادر بھاگ جایا کرتے تھے آپ ثابت قدم رہا کرتے تھے ۔چنانچہ

جنگِ احد میں جب مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی تو یہ کوہ ِاستقامت اپنی جگہ پر قائم رہے اور دشمنوں پر تیر پھینکتے رہے جب کمان پارہ پارہ ہو گئی تو سنگ اندازی شروع کی۔جنگِ حنین میں صرف چند جانباز آپ کے ساتھ رہ گئے تھے باقی سب بھاگ گئے تھے ،اس نازک حالت میں آپ نے اسی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنی جگہ پر قائم رہ کر دفاع فرمائیں بلکہ اپنے خنجر کو بار بار ایڑ لگا کر دشمن کی طرف بڑھانا چاہتے تھے مگر وہ جانباز مانع آ رہے تھے۔

(سیرتِ رسولِ عربی،ص354)

جب گھمسان کا معرکہ ہوا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضورﷺکی آڑ میں پناہ لیا کرتے تھے چنانچہ حضرت برا بن عازب رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اللہ پاک کی قسم! جب لڑائی شدت سے ہوا کرتی تھی تو ہم رسول اللہ ﷺ کی پناہ ڈھونڈا کرتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ ہوتا تھا جو آپ کے ساتھ دشمن کے مقابل کھڑا ہوتا تھا۔(مسلم،ص980،حدیث:1776)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب لڑائی شدت اختیار کر جاتی اور آنکھیں سرخ ہو جاتیں تو ہم رسول اللہ ﷺ کے بچاؤ کی فکر کرتے لیکن آپ سے زیادہ کوئی بھی دشمن کے قریب نہ ہوتا۔

(الشفاء،1/116)

اسی طرح ایک جنگ میں ابی بن خلف ملعون اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر آپ کو شہید کر دینے کی نیت سے آگے بڑھا۔ حضورِ اقدس ﷺ نے اپنے ایک جاں نثار صحابی حضرت حارث بن صمہ رضی اﷲ عنہ سے ایک چھوٹا سا نیزہ لے کر ابی بن خلف کی گردن پر ماراجس سے وہ تلملا گیا۔گردن پر بہت معمولی زخم آیا اور وہ بھاگ نکلامگر اپنے لشکر میں جا کر اپنی گردن کے زخم کے بارے میں لوگوں سے اپنی تکلیف اور پریشانی ظاہر کرنے لگااور بے پناہ ناقابلِ برداشت درد کی شکایت کرنے لگا۔اس پر اس کے ساتھیوں نے کہا:یہ تو معمولی خراش ہے!تم اس قدر پریشان کیوں ہو؟ اس نے کہا کہ تم لوگ نہیں جانتے کہ ایک مرتبہ مجھ سے محمد(ﷺ) نے کہا تھا کہ میں تم کو قتل کروں گا!اس لئے۔یہ توبہرحال زخم ہے میراتو اعتقادہے کہ اگر وہ میرے اوپر تھوک دیتے تو بھی میں سمجھ لیتا کہ میری موت یقینی ہے۔

(مدارج النبوت،2/127۔129ملتقطاً)

اسی طرح امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے قصیدے میں ایک شعر یہ بھی ذکر کیا ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ آپ ﷺ معرکہ میں کافروں کا مقابلہ کرتے رہے یہاں تک کہ دشمن نیزوں کے پےدر پے وار کے سبب تختہ قصاب پر رکھے ہوئے گوشت کے مشابہ ہو گئے تھے۔

تشریح: اس شعر میں حضور ﷺ کی شجاعت کا ذکر ہے کہ حضور ﷺ اعلاء کلمۃ اللہ یعنی اللہ پاک کا نام بلند کرنے کے لیے کفار سے برابر جنگ کرتے رہے اور پھر امام بوصیری نے فرمایا:ان کفار کی لاشیں صحابہ کے نیزوں پر ایسی لٹک رہی تھی جیسے قصاب کا گوشت سلاخوں پر لٹکتا ہے۔(قصیدہ بردہ شریف،ص145)

اے اللہ پاک اس قوم کو بھی حضور ﷺ کی بہادری کے صدقے بہادری عطا فرما،اسلام کو غلبہ عطا فرما اور اُمّت ِمسلمہ کوجہاد کے ذریعے فتحِ عظیم عطافرما۔آمین


حضور ﷺ  اس وصف پر بھی فائق تھے۔ رسولِ اکرم ﷺ کی بے مثال شجاعت کا یہ عالم تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے بہادر صحابی کا یہ قول ہے کہ جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی انکھیں پتھرا کر سرخ پڑجایا کرتی تھی اس وقت میں ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے اور آپ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے اور ہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں رسول اللہ ﷺ کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا تھا۔(سیرتِ مصطفیٰ، ص 619تا620)

جس کو بارِ دو عالم کی پرواہ نہیں ایسے بازو کی قوت پہ لاکھوں

غزوات میں جہاں بڑے بڑے دلارو بہادر بھاگ جایا کرتے تھے آپ ﷺ ثابت قدم رہا کرتے تھے چنانچہ جنگِ احد میں جب مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی تو یہ کوہِ استقامت اپنی جگہ پر قائم رہے اور دشمنوں پر تیر پھینکتے رہے۔جب کمان پارہ پارہ ہو گئی تو سنگ اندازی شروع کی۔جنگِ حنین میں صرف چند جانباز آپ کے ساتھ رہ گئے تھے باقی سب بھاگ گئے تھے اس نازک حالت میں آپ نے اسی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنی جگہ پر قائم رہ کر دفاع فرمائیں بلکہ اپنے خچر کو بار بار ایڑ لگا کر دشمن کی طرف بڑھانا چاہتے تھے مگر وہ جان باز مانع آرہے تھے۔ جب گھمسان کا معرکہ ہوا کرتا تھا تو صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور ﷺ کی آڑ میں پناہ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت براءبن عازب رضی اللہ عنہ کا قول ہے: اللہ پاک کی قسم!جب لڑائی شدت سے ہوا کرتی تھی تو ہم نبی ﷺ کی پناہ ڈھونڈا کرتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ ہوتا تھا جو آپ کے ساتھ دشمن کے مقابل کھڑا ہوتا تھا۔(مسلم، ص980، حدیث:1776)(سیرتِ رسولِ عربی،ص349)

ایک رات مدینۂ منورہ کے لوگ ڈر گئے اور شور وغل برپا ہوا گویا کوئی چور یا دشمن آیا ہے توآپ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لیا جو سست رفتار اور سرکش تھا،آپ اس کی پیٹھ پر بغیر زین کے سوار ہو گئے اور تلوار لٹکائے ہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے جب لوگ اس آواز کی طرف گئے تو رسول اللہ ﷺ راستے میں واپس آتے ہوئے ملے ،آپ نے ان کو تسلی دی کہ ڈرو مت! ڈرو مت!اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریا کی مانند تیز رفتار پایا۔(بخاری،4/108-109، حدیث:6033)

اعلانِ دعوت پر قریش نے آپ کی سخت مخالفت کی، جب ابو طالب نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑنے کا ارادہ کیا تو آپ نے یوں فرمایا:چچا جان!اللہ کی قسم!اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تاکہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تب بھی اس کام کو نہ چھوڑوں گا یہاں تک کہ خدا اسے غالب کر دے یا میں خود ہلاک ہو جاؤں۔(سیرۃ نبویۃ لابن ہشام،ص103،104ملخصاً)

ہجرت سے پہلے قریش نے مسلمانوں کو اس قدر ستایا کہ ان کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تنگ آکر انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کی کہ آپ ان پر بددعا فرمائیں،یہ سن کر آپ کا چہرۂ مبارک سرخ ہو گیا اور فرمایا:تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان پر لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتیں جس سے گوشت پوست سب علیحدہ ہو جاتا اور ان کے سروں پر آرے رکھے جاتے اور چیر کر دو ٹکڑے کر دیے جاتے مگر یہ اذیتیں ان کو دین سے پھیر نہ سکتی تھیں۔ اللہ پاک دینِ اسلام کو کمال تک پہنچائے گا یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سےحضر موت تک سفر کرے گا اور اسے خدا کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا۔(بخاری، 2/573،حدیث: 3802)

رہے گا روز افزوں آپ کا شہرہ قیامت میں بلاغت کا فصاحت کا شجاعت کا سخاوت کا

حضور ﷺ کی قوتِ بدنی بھی سب سے زیادہ تھی۔غزوۂ احزاب میں جب صحابہ کرام علیہم الرضوان خندق کھود رہے تھے تو ایک جگہ ایسی سخت زمین ظاہر ہوئی کہ سب عاجز آگئے اور آپ سے عرض کیا گیا تو آپ خندق میں اترے اور ایک کدال ایسا مارا کہ وہ سخت زمین ریگ رواں کا ایک ڈھیر بن گئی۔(سیرت رسول عربی ،ص،354 تا 355)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ حضور ﷺ سے زیادہ بہادر اور طاقتور، سخی اور پسندیدہ میری انکھوں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔(سیرتِ مصطفیٰ،ص620)

رکانہ پہلوان سے کشتی:

حضور اقدس ﷺ کی جسمانی طاقت بھی حد اعجاز کو پہنچی ہوئی تھی اور آپ نے اپنی اس معجزانہ طاقت و قوت سے ایسے ایسے محیرالعقول کار ناموں اور کمالات کا مظاہرہ فرمایا کہ عقلِ انسانی اس کے تصور سے حیران رہ جاتی ہے۔چنانچہ

عرب کا مشہور پہلوان رکانہ آپ کے سامنے سے گزرا ،آپ نے اس کو اسلام کی دعوت دی تو وہ کہنے لگا کہ اے محمد!اگر آپ مجھ سے کشتی لڑ کر مجھے پچھاڑ دیں تو میں آپ کی دعوت اسلام کو قبول کر لوں گا۔حضور اکرم ﷺ تیار ہو گئے اور اس سے کشتی لڑ کر اس کو پچھاڑ دیا، پھر اس نے دوبارہ کشتی لڑنے کی دعوت دی آپ نے دوسری مرتبہ بھی اپنی پیغمبر انہ طاقت سے اس کو اس زور کے ساتھ زمین پر پٹک دیا کہ وہ دیر تک اٹھ نہ سکا اور حیران ہو کر کہنے لگا کہ اے محمد! خدا کی قسم!اپ کی عجیب شان ہے کہ آج تک عرب کا کوئی پہلوان میری پیٹ زمین پر نہیں لگا سکا مگر آپ نے دم زدن مین مجھے دو مرتبہ زمین پر پچھاڑ دیا۔(سیرتِ مصطفیٰ،ص 621)

نہیں وہ میٹھی نگاہ والا خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما غضب سے اُن کے خدا بچائے جلال باری عتاب میں ہے

اے اللہ کریم !ہمیں بھی بہادری کے ساتھ دین کے کاموں میں دل جمعی کے ساتھ ہر وقت خوشاں رہنے کی توفیق اور اپنے پیارے حبیب اللہ ﷺ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین


بہادری کے لغوی معنی ہیں:جرأت،شجاعت ،دلیری،جوانمردی۔

بہادری اور طاقتوری کے بارے میں حدیثِ مبارکہ میں جو بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :طاقتور وہ نہیں جو پہلوان ہو دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔( بخاری ،4/130،حدیث: 6114)

بہرحال بہادری کی جو بھی تعریف کی جائے،آقا ﷺ جس طرح دوسری صفات میں کامل واکمل و بے مثال ہیں اسی طرح کریم آقا ﷺ اپنی بہادری میں بھی بے مثل وبے مثال تھے ۔

سب سے اعلیٰ عزت والے غلبہ و قہرو طاقت والے

حرمت والے کرامت والے تم پر لاکھوں سلام

ویسے تو آقا کریم ﷺ کی مبارک زندگی اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن اختصار کے پیشِ نظر کچھ واقعات پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گی۔

نبیِ کریم ﷺ اور عرب کے مشہور پہلوان:

مضافاتِ مکہ میں رکانہ نامی پہلوان رہتا تھا،اس کا نسبی تعلق خاندانِ بنو ہاشم سے تھا،وہ بڑا ہی طاقتور،شہ زور، زبردست رعب و دبدبے کا مالک اور مار دھاڑ کرنے والا شخص تھا۔کوہِ اضم کے دامن میں ایک شاداب وادی تھی جہاں وہ بکریاں چرایا کرتا تھا ،اس وادی میں کسی کو دم مارنے کی جرأت نہ ہوتی تھی،لوگ اس کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے،مشرکین اور دیگر دشمنانِ اسلام کے پروپیگنڈے کی وجہ سے وہ رسولِ اکرم ﷺ سے شدید نفرت کے جذبات رکھتا تھا، اس کی دشمنی اس حد تک تھی کہ معاذ اللہ وہ آپ کو شہید کرنے کےدرپے ہو گیا تھا۔امت پر مہربان،دو جہان کے سلطان ﷺ کسی قسم کے خطرے کو خاطر میں لائے بغیر ایک روز دینِ اسلام کی دعوت کے لئے رُکانہ کی وادی میں تنِ تنہا تشریف لے گئے،رُکانہ بھی ادھر آنکلا، آپ کو دیکھ کر بپھر گیا اور تکبر کے نشے میں بد مست ہو کر بولا: یامُحَمّدُ !اَنْتَ الّذِیْ تَشْتِمُ اٰلِھَتَنَا یعنی اے محمد! آپ ہی ہیں وہ جو ہمارے معبودوں کو بُرا کہتے ہیں؟ اس کے بعد وہ مزید تلخ کلامی پر اتر آیا اور کہنے لگا:اے محمد! آپ ہمارے معبودوں کو نیچا اور کمزورکہتے ہیں اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرتے ہیں۔ اگر میرا آپ کے ساتھ خاندانی رشتہ نہ ہوتا تو آج میں آپ کا کام تمام کر دیتا، لیکن میں آپ کو بغیر مقابلہ کئے جانے نہ دوں گا۔اس کے بعد رُکانہ نے آپ کو کُشتی لڑنے کی دعوت دی اور کہا:میں اپنے خداؤں کو پکاروں گا اور آپ اپنے خدا کو مدد کے لئے پکاریں،اگر آپ نے مجھے پچھاڑ دیا تو میں آپ کو دس بکریاں دوں گا۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا چیلنج قبول کر لیا اور اس سے کُشتی لڑنے پر آمادہ ہو گئے۔آپ نے رُکانہ کے ہاتھوں میں ہا تھ دیئے اور اس کا پنجہ مروڑ دیا ،رُکانہ کے ہوش اُڑ گئے اور وہ درد سے تڑپنے لگا،آپ نے اسے دھکا دیا تو وہ خشک پتے کی طرح زمین پرگر گیا۔رُکانہ کو اپنی قوتِ بازو پر ناز تھا، وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ صادق و امین ﷺ یوں چند لمحوں میں اسے اس طرح نیچا دکھا دیں گے، جو کچھ ہوا اس کی توقع کے برعکس تھا لیکِن رُکانہ نے اسے اتفاق سمجھتے ہوئے ہار نہ مانی، ہوش بحال ہوئے تو اس نے دوبارہ کُشتی لڑنے کی درخواست کی ،آپ ﷺ نے اس کی درخواست منظور فرما لی لیکن اس کا نتیجہ بھی پہلے سے مختلف نہ ہوا یعنی اس بار بھی وہ ایک لمحہ میں ہار گیا۔ رُکانہ تصویر ِحیرت بن گیا، اس کے وہم وگمان میں بھی نا تھا کہ اس جیسے ہٹے کٹے پہلوان کا ایسا حشر ہو گا لیکن اب بھی وہ شکست قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوا اورتیسری بار پھر کُشتی لڑنے کی درخواست کی جو آپ نے قبول فرما لی۔ تیسری بار پھر شکست اس کا مقدر بنی اور وہ آپ کے زورِ بازو کی تاب نہ لاکر گر گیا اور بولا:یہ سب آپ نے نہیں کیا بلکہ آپ کے غالب و وقادر معبود اللہ پاک نے کیا ہے، جبکہ میرے خداؤں نے مجھے رسوا کیا ہے۔(دلائل النبوۃ للاصبہانی ،2/235 ماخوذاً)

شہزادہ ٔاعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

بگڑی ناؤ کون سنبھالے ہائے بھنور سے کون نکالے

ہاں ہاں زور و طاقت والے تم پر لاکھوں سلام

تم پر لاکھوں سلام تم پر لاکھوں سلام

سبحان اللہ! ہمارے پیارے آقا ﷺ کس قدر بہادر تھے کہ آپ نے رُکانہ جیسے پہلوان کو ہر بار پچھاڑ کر رکھ دیا۔اس واقعہ میں آقا ﷺ کی ہر طرح بہادری موجود ہے یعنی جسمانی طاقت کے اعتبار سے بھی، نڈر ہونے کے اعتبار سے بھی اور غصے پر قابو کے اعتبار سے بھی۔تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔چنانچہ

ایک رات مدینہ منورہ کے لوگ ڈر گئے اور شور و غل برپا ہوا کہ کوئی چور یا دشمن آیا ہے۔آپ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لیا جو سست رفتار اور سرکش تھا۔آپ اس کی پیٹھ پر بغیر زین کے سوار ہو گئے اور تلوار آڑے لٹکائے ہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے۔جب لوگ اس آواز کی طرف گئے تو رسول اللہ ﷺ ان کو راستے میں واپس آتے ہوئے ملے۔آپ نے ان کو تسلی دی اور فرمایا: ڈرو مت! ڈرو مت ! اور گھوڑے کی نسبت فرمایا :ہم نے اسے دریا کی مانند تیز رفتار پایا۔

(بخاری،4/108-109، حدیث:6033)

غزوات میں جہاں بڑے بڑے بہادر و دلاور بھاگ جایا کرتے تھےآپ ثابت قدم رہا کرتے تھے جیسا کہ جنگ ِ اُحد میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی تو آپ پھر بھی ثابت قدم رہے اور دشمنوں پر تیر پھینکتے رہے۔جنگ حنین میں صرف چند جانباز آپ ﷺ کے ساتھ رہے باقی سب بھاگ گئے اس نازک وقت میں آپ نے اسی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنی جگہ پر قائم رہ کر مدافعت فرمائیں بلکہ اپنے خچر کو بار بار ایڑ لگا کر دشمن کی طرف بڑھانا چاہتے تھے مگر وہ جانباز مانع آ رہے تھے۔(سیرت رسولِ عربی،ص354)

آقا ﷺ کی قوتِ بدنی اس قدر زیادہ تھی کہ غزوۂ احزاب میں جب سب صحابہ کرام علیہم الرضوان خندق کھود رہے تھے تو ایک ایسی سخت چٹان ظاہر ہوئی کہ سب عاجز آ گئے آپ ﷺ سے عرض کیا گیا تو آپ ﷺ بذات خود تشریف لائے حالانکہ اس وقت بھوک کی وجہ سے شکمِ اطہر پر پتھر باندھا ہوا تھا، تو پیارے آقا ﷺ بھوک کی شدّت کے باوجود خود خندق میں اترے اور ایک کدال ایسا مارا کے وہ ریت کے بھر بھرے  ٹیلے کی طرح بکھر کر پاش پاش ہو گئی۔(بخاری،3/51،حدیث:4101ملخصاً)

اس سے معلوم ہوا کہ پیارے آقا ﷺ جیسا نہ کوئی ہے نہ ہو گا اور نہ ہی ہو سکتا ہے، اسی لئے تو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

یہی بولے سِدرہ والے چمنِ جہاں کے تھالے سبھی میں نے چھان ڈالے تِرے پایہ کا نہ پایا

تجھے یک نے یک بنایا

جب گھمسان کا معرکہ ہوا کرتا تھا تو صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور ﷺ کی آڑ میں پناہ لیا کرتے تھے چنانچہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اللہ پاک کی قسم! جب لڑائی شدت سے ہوا کرتی تھی تو ہم نبیِ کریم ﷺ کی پناہ ڈھونڈا کرتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ ہوا کرتا تھا جو آپ ﷺ کے ساتھ دشمن کے مقابل کھڑا ہوتا تھا۔(مسلم، ص980، حدیث:1776)

اللہ پاک ہمیں آقا ﷺ کی بہادری کے صدقے دین کے تمام معاملات میں بہادری دکھانے کی توفیق مرحمت فرمائے اور ہمیں بہادر بنائے۔آمین بجاہِ خاتم ِالنبیین ﷺ


جیسے ہمارے آقاﷺباقی صفات میں بے مثل و بے مثال تھے ویسے ہی آپ کی بہادری بھی بے مثال تھی۔ چنانچہ ایک رات مدینہ کے لوگ ڈر گئے اور شور و غل برپا ہو گیا گویا چور یا ڈاکو آگیا ہو،حضور ﷺ نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لیا جو کہ سست رفتار اور سرکش تھا،آپ ﷺ اس کی پیٹھ پر بغیر زین کے سوار ہو گئے اور تلوار آڑے لٹکائے ہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے۔ جب لوگ اس آواز کی طرف لوٹے تو حضور ﷺ ان کو راستے میں واپس آتے ہوئے ملے اور آپ نے ان کو تسلی دی کہ ڈرو مت ڈرو مت! اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریا کی مانند تیز رفتار پایا۔

(سیرتِ رسولِ عربی،ص 354)

قریش کی مخالفت اور حضور ﷺ کی بہادری:

اعلانِ دعوت پر قریش نے آپ کی سخت مخالفت کی، جب ابو طالب نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑنے کا ارادہ کیا تو آپ نے یوں فرمایا:چچا جان!اللہ کی قسم! اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تاکہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تب بھی میں اس کام کو نہ چھوڑوں گا یہاں تک کہ خدا اسے غالب کر دے یا میں خود ہلاک ہو جاؤں۔(سیرت رسول عربی،ص 355)

آقا ﷺ کی شجاعت کے متعلق صحابہ کرام کے اقوال:

حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے بہادر صحابی کا قول ہے کہ جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی انکھیں پتھرا کر سرخ پڑ جایا کرتی تھی اس وقت ہم آقا ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے۔آپ ﷺ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے اور ہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں رسول اللہ ﷺ کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا تھا۔(الشفاء،1/116)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ حضور ﷺ سے زیادہ بہادرو طاقتور، سخی اور پسندیدہ میری آنکھوں نے کبھی کسی اور کو نہیں دیکھا۔(دارمی،1/44، رقم:59)

حضرت براء بن عاذب رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اللہ کی قسم! جب لڑائی شدت سے ہوا کرتی تھی تو ہم نبیِ کریم ﷺ کی پناہ ڈھونڈا کرتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ ہوتا تھا جو آپ کے ساتھ دشمن کے مقابل کھڑا ہوتا تھا۔ (مسلم، ص980، حدیث:1776)

غزوۂ حنین کا معرکہ اور حضور ﷺ کی بہادری:

جنگِ حنین میں 12 ہزار کا لشکر کفار کے حملوں کی تاب نہ لا کر پسپا گیا تھا اور کفار کی طرف سے لگاتار تیروں کی بارش ہو رہی تھی ،اس وقت بھی رسول اللہ ﷺ ایک بھی قدم پیچھے نہ ہٹے۔ آپ ایک سفید خچر پر سوار تھے اور حضرت سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے اور آپ اکیلے دشمنوں کے لشکروں کے ہجوم کی طرف بڑھتے چلے جا رہے تھے اور یہ کلمات زبانِ اقدس پر جاری تھے:

اَنَا النَّبِيُّ لَا کَذِبْ          اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

(بخاری ،3/111،حدیث:4317)(سیرتِ مصطفیٰ،ص620)(شرح زرقانی،3/517)

جب تمام لشکر بھاگ گیا پھر بھی آپ ڈٹے رہے اور دشمنوں کا مقابلہ کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے آقا ﷺ شجاعت و بہادری میں مخلوق میں سب سے بلند تر اور بے مثال ہیں۔ آپ صرف شجاعت و قوت میں نہیں بلکہ تمام صفات میں بے مثل و بے مثال ہیں جیسا کہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

یہی بولے سِدرہ والے چمنِ جہاں کے تھالے

سبھی میں نے چھان ڈالے تِرے پایہ کا نہ پایا

تجھے یک نے یک بنایا


حضور ﷺ کی سیرتِ مبارکہ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔حضورِ اکرم ﷺ زندگی کے ہر ہر گوشے میں کامل و اکمل ہیں۔ دو جہاں کے سردار ﷺ  شجاعت و بہادری میں اپنی مثال آپ ہیں۔جس طرح علم و حلم ، عفو و درگزر، عدل و انصاف، زہد و تقویٰ، صبر و تحمل میں آپ کا کوئی ثانی نہیں بالکل اسی طرح شجاعت و بہادری میں بھی کوئی آپ کا ثانی نہیں ہے۔دو عالم کے مالک و مختار، باذنِ پروردگار ﷺ سب سے زیادہ دلیر وبہادر تھے۔

حضور ﷺ کی بہادری احادیث کی روشنی میں:

1صحابہ حضور ﷺ کی پناہ میں:

خلیفۂ چہارم و امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے بدر کے دن خود کو دیکھا کہ ہم حضور نبیِ کریم ﷺ کی پناہ لے رہے تھے اور آپ ہم سے زیادہ دشمن کے قریب تھے اور اس دن آپ ﷺ سب سے زیادہ بہادری کے ساتھ لڑنے والے تھے۔آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جب جنگ کا میدان گرم ہوتا اور ہماری دشمنوں کے ساتھ مڈ بھیڑ ہوتی تو ہم رسول اللہ ﷺ کی پناہ میں آجاتے، پس کوئی بھی آپ سے زیادہ دشمن کے قریب نہ ہوتا۔(شرح السنۃ،7/47،حدیث:3592)

2بہادری کا معیار حضور ﷺ کی قربت میں لڑنا ہے:

منقول ہے کہ تاجدارِ رسالت ﷺ کا کلام بہت کم ہوتا اور گفتگو بہت تھوڑی ہوتی۔ آپ ﷺ جب جہاد کا حکم فرماتے تو خود بھی اس کی تیاری فرماتے اور میدانِ جہاد میں آپ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ لڑتے تھے اور بہادر وہی ہوتا جو لڑائی آپ کے قریب رہتا کیونکہ آپ دشمن کے زیادہ قریب ہوتے تھے ۔

(مسلم،ص980، حدیث:1776)

3لڑائی میں سب سے پہلا وار:

حضرت عمر بن حصین رضی اللہ عنہ نے فرمایا:رسولِ بے مثال،صاحبِ جود و نوال ﷺ کفار کے جس لشکر سے بھی لڑتے سب سے پہلے آپ ہی وار فرماتے۔صحابہ کرام علیہم الرضوان کا بیان ہے کہ حضور نبیِ کریم ﷺ بہت سخت حملہ کرتے تھے۔ایک موقع پر جب مشرکین نے گھیرا تنگ کر لیا تو حضور نبیِ برحق ﷺ اپنے خچر سے نیچے اتر آئے اور ارشاد فرمانے لگے: اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِب اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب ترجمہ:میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔پس اس دن سے آپ سے زیادہ مضبوط شخص کوئی نہیں دیکھا گیا۔

(بخاری،3/111،حدیث:4317)(سیرتِ مصطفیٰ،ص620)(شرح زرقانی،3/517)

4شجاعتِ مصطفےٰ ﷺ:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ سے زیادہ بہادر، طاقتور،سخی اور پسندیدہ میری آنکھوں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا ۔(سیرتِ مصطفیٰ،ص620)

5حضور ﷺ کی طاقتِ نبوت:

غزوہ ٔاحزاب کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب خندق کھود رہے تھے ایک ایسی چٹان ظاہر ہو گئی جو کسی طرح کسی سے بھی نہ ٹوٹ سکی مگر جب آقا ﷺ نے اس پر پھاوڑا مارا تو وہ ریت کے بھر بھرے ٹیلے کی طرح بکھر کر پاش پاش ہوگئی۔(بخاری،3/51،حدیث:4011)

ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ آپ بہت شجاعت و بہادری والے تھے۔آپ کی مبارک زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔اللہ پاک ہمیں حضور ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے اور ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا سینہ آقا ﷺ کی محبت میں مدینہ بنائے۔آمین


بہادری ایک فضیلت ہے۔بہادری یہ ہےکہ غضب کی قوت ہوتے ہوئے اس کو عقل کے تابع کر دیا جائے۔ یہ خوف کی ضد ہے۔حضور ﷺ کی بہادری اس مرتبہ تک تھی کہ کوئی اس سے ناواقف نہ تھا،یعنی مشہور تھی۔آپ کو بہت سے سخت مواقع پیش آئے کہ بڑے بڑے بہادر شجاع نہ ٹھہر سکےمگرآپ ثابت قدم رہے اور نہ ہٹے، مقابلہ کیا مگر پیٹھ نہ دکھائی، نہ وہاں سے ایک اِنچ اِدھر اُدھر ہوئے۔ کوئی شجاع ہو مگر وہ بھاگنے پر مجبور ہوتا اور  دور شمار میں آتا ہے اور اس کے ٹل جانے کی یاد باقی رہتی ہے لیکن حضور ﷺ ہر مقام پر ثابت قدم ہی رہے۔

احادیث:

حضرت براء رضی اللہ عنہ سے بالاسناد مروی ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا:کیا غزوۂ حُنین کے دن تم لوگ حضورﷺ کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے،لیکن رسول اللہ ﷺ نہیں بھاگے تھے،پھرکہا کہ میں نے حضور ﷺ کو سفید دراز گوش پر دیکھا اور ابوسفیان رضی اللہ عنہ اس کی لگام پکڑے ہوئے تھے ، درآنحالیکہ حضور یہ زجز پڑھ رہے تھے:أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب یعنی میں وہ نبی ہوں جو جھوٹا نہیں اور میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔

پس اس دن حضورﷺسے بڑھ کر کوئی بہادر نہ دیکھا گیا۔ایک راوی کا کہنا ہے کہ آپ اپنےدراز گوش ( خچر ) سے اتر گئے تھے۔(بخاری،3/111،حدیث:4317)(سیرتِ مصطفیٰ،ص620)(شرح زرقانی،3/517)

حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب مسلمان اور کافر گتھم گتھا ہو گئے اور مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے تو حضورﷺ اپنے خچر کو کفار کی طرف دوڑا رہے تھے۔میں اس کی لگام پکڑ کر اسے تیز بھاگنے سے روک رہا تھا۔جبکہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ اس کی رکاب پکڑے ہوئے تھے۔ (مسلم، ص 757، حدیث: 4612)

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب غضب فرماتے، حالانکہ آپ کا غضب صرف اللہ پاک کے لیے ہوتا تھا، تو کوئی چیز آپ کے غضب کی تاب نہ لا سکتی تھی۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ سے بڑھ کر کسی کو بہادر ، صاحبِ حوصلہ،سخی اور ہر معاملہ میں خوش نہ دیکھا۔ (مقدمہ دارمی،1/30)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب لڑائی شدت اختیار کر جاتی اور آنکھیں سُرخ ہوجاتیں تو ہم رسول اللہ ﷺ کے بچاؤ کی فکر کرتے لیکن آپﷺ سے زیادہ کوئی بھی دشمن کے قریب نہ ہوتا۔بدر کے دن بیشک ہم رسول اللہ ﷺ کی پناہ میں تھے اور آپ ہم سے آگے دشمن کےقریب تھے اور اس دن سب سے بڑھ کر آپ لڑائی میں تھے اور کہتے ہیں کہ بہادر وہی گنا جاتا تھا جو دشمن کے قریب ہونے کے وقت رسول اللہ ﷺ سے زیادہ نزدیک ہوتا تھا کیونکہ آپﷺ دشمن کے قریب ہوتے تھے۔ (الشفاء، 1/116)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ کریمﷺ تمام لوگوں سے بہتر ، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ایک رات مدینہ کے لوگ گھبرا گئے اور لوگ آواز کی جانب چل پڑے تو دیکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اس جانب سے واپس آرہے ہیں ، گویا آپ اس آواز کی طرف پہلے ہی پہنچ گئے تھے اور خیر کی خبر لائے تھے ۔ آپﷺ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر بِلا زِین وکاٹھی سوار ہو کر تلوار گلے میں لٹکا کر تشریف لے گئے تھے۔آپﷺ فرماتے تھے: ہر گز خوفزدہ نہ ہو۔ (بخاری، 2/284، حدیث:2908)(ابن ماجہ،3/345،حدیث: 2772)

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ جب کسی لشکر کے مقابل ہوتے تومسلمانوں میں سے سب سے پہلے حملہ کرتے ۔ ( مکارم الاخلاق، ص54)