پیارے اسلامی بھائیو! الحمد للہ ہم مسلمان ہیں۔ دینِ اسلام
کے ماننے والے ہیں اور اسلام چونکہ دینِ فطرت بھی ہے اسی لیے جہاں ہمیں یہ عبادت
کا ڈھنگ سکھاتا ہے وہیں معاملات میں بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ انسانی زندگی کا
ایک اہم پہلو کاروبار بھی ہے اور اسلام کی اس بارے میں تربیت یہ ہے کہ ہم حلال
کمائیں، کھائیں اور حرام کمانے کھانے سے بچے۔ اسی وجہ سے حلال و حرام کو بھی بیان
کر دیا۔ حرام کاروبار میں سے ایک سود کا لین دین بھی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک سود کی
حرمت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا
سُود۔ (پ3،البقرة : 275) فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃُ اللہ علیہ اپنی
کتاب انوار الحدیث میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ کی کتاب اشعت
اللمعات کے حوالے سے سود کی تعریف لکھتے ہیں کہ : ہر قرضے کہ بکشد سودے را پس آں
ربوا است - یعنی ہر وہ قرض کہ جس سے نفع حاصل ہو سود ہے ۔ (انوار الحدیث، ص 301 ) قراٰن
مجید سے سود کی مذمت کو جاننے اور سود کی تعریف کو سمجھنے کے بعد احادیث مبارکہ سے
سود کی مذمت و قباحت کو پڑھیں اور سود کھانے کمانے سے بچنے کا ذہن بنائیں۔
(1) عن جابر لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲ اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاھِدَیْہِ، وَقَالَ: ھُمْ سَوَاءٌ یعنی رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود
کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا
کہ یہ تمام لوگ برابر ہیں۔(مسلم ،ص663،حدیث:4093) (2) عن
عبدالله بن حنظلة غسيل الملائكة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم درهم الربا
يأكله الرجل وهو يعلم أشد من ستة و ثلاثين زنية - عبد اللہ بن حنظلہ غسیل الملائكۃ رضی اللہُ عنہ نے کہا کہ حضور علیہ الصلوۃ
والسّلام نے فرمایا: سود کا ایک درہم جسے آدمی جان بوجھ کر کھائے اس کا گناہ چھتیس
بار زنا کرنے سے زیادہ ہے ۔( ايضاً )
(3) عَنْ
أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
الرِّبَا سَبْعُونَ جُزْئً أَیْسَرُہَا أَنْ یَنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّہُ‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ نے کہا کہ رسول کریم
علیہ الصلوۃ والتسلیم نے فرمایا کہ سود ( کا گناہ) ایسے ستر گناہوں کے برابر ہے جن
میں سب سے کم درجے کا گناہ یہ ہے کہ مرد اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے ۔ (ايضا با
حوالہ ابن ماجہ و بیہقی )
پیارے محترم اسلامی بھائیو! ان تمام احادیث سے بھی سود کی
حرمت مذمت و قباحت ثابت ہوتی ہے سود لینا دینا سودی دستاویز لکھنا اس پر گواہ
بنانا یہ سب کام استحقاق لعنت کا سبب ہیں یاد رکھئے سود حرام قطعی ہے۔ اس کی حرمت
کا منکر کافر ہے حرام سمجھ کر سود لینے والا فاسق مردود الشھادۃ ہے لہذا سود سے بچئے
۔(انوار الحدیث،ص 301 )
محمد کامران رضا عطّاری (درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ
عطاء عطار جوہا پورا احمدآباد ہند)
پیارے بھائیو! فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں
میں مبتلا ہے وہی ایک مذموم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پھیل
رہی ہے اور وہ سود ہے ۔
آئیے سود کی نحوست اور اس کی دنیا و آخرت کی تباہ کاریاں
جانتے ہیں کیونکہ اب سودی ادارے گھر گھر ،دفتر دفتر جاکر سود پر رقم دینے کے لئے
عملہ (staff) رکھ رہے ہیں۔
سود قطعی حرام ہے اور اس کی حرمت کا منکر کافر ہے اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری
میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادۃ ہے ۔اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں اس کی بھر
پور مذمت فرمائی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے۔ : اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ
اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ
بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ- ترجمۂ کنز الایمان: وہ جو سُود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ
کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیاہویہ اس لیے
کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سُود ہی کے مانند ہے ۔(پ3،البقرة : 275)
سود کو حرام فرمانے میں بہت سی حکمتیں ہیں ان میں سے بعض یہ
ہیں کہ سود میں جو زیادتی لی جاتی ہے وہ مالی معاوضے والی چیزوں میں بغیر کسی عوض
کے مال لیا جاتا ہے اور یہ صریح ناانصافی ہے ۔دوسری حکمت یہ ہے کہ سود کا رواج
تجارتوں کو خراب کرتا ہے کہ سود خور کو بے محنت مال کا حاصل ہونا ،تجارت کی مشقتوں
اور خطروں سے کہیں زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے۔ تیسری حکمت یہ ہے کہ سود کے رواج سے
باہمی محبت کے سلوک کو نقصان پہنچتا ہے کہ جب آدمی سود کا عادی ہو جاتا ہے تو وہ
کسی کو قرضِ حَسن سے امداد پہنچانا گوارا نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ بھی سود میں اور
بڑے بڑے نقصان ہیں اور شریعت کی سود سے ممانعت عین حکمت ہے۔
احادیث میں بھر پور سود کی مذمت کی گئی ہے آئیے چار حدیث
سنتے ہیں :۔ (1)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس
کے36 بار زنا کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔(شعب الایمان، الثامن و الثلاثون من شعب الایمان،
4 / 395، حدیث: 5523)(2)حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری
نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اس کی
تحریر لکھنے والے، سود کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ
میں برابر ہیں ۔(صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربوا… الخ،ص862، حدیث: 1598)
(3) حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ
شبِ معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا، جن کے پیٹ
کمروں کی طرح(بڑے بڑے) تھے، جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے، میں
نے جبرائیل علیہ السّلام سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سود خور
ہیں۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب التغلیظ فی الربا،3/71، حدیث: 2273) (4) حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ نے کہا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ سود( کا گناہ)ایسے
ستر گناہوں کے برابر ہے جن میں سب سے کم درجہ کا گناہ یہ ہے کہ اپنی ماں سے زنا
کرے ۔( انوار الحدیث، ص 232، مکتبہ فقیہ ملت دہلی)
ان حدیثوں کے علاوہ بھی بہت ساری حدیثیں موجود ہے سود کی مذمت
پر اب ہم فرمان فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سنتے ہیں:۔(5) حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے کہ
ہمارے بازار میں وہی شخص آئے جو فقیہ یعنی عالم ہو اور سود خور نہ ہو۔ (الجامع
الاحکام القراٰن للقرطبی،القبرۃ،تحت الایۃ 279،جلد 2، الجزء الثالث،ص267)
ہمارے اسلاف سود کے شبہات سے بھی بچتے تھے چنانچہ۔ امامِ
اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہ علیہ ایک جنازہ پڑھنے تشریف لے گئے، دھوپ کی بڑی شدت تھی
اور وہاں کوئی سایہ نہ تھا، ساتھ ہی ایک شخص کا مکان تھا، لوگوں نے امام اعظم رحمۃُ
اللہ علیہ سے عرض کی کہ حضور! اس مکان کے سایہ میں کھڑے ہو جائے۔ امام اعظم رحمۃُ اللہ
علیہ نے ارشاد فرمایا کہ اس مکان کا مالک میرا مقروض ہے اور اگر میں نے اس کی
دیوار سے کچھ نفع حاصل کیا تو میں ڈرتا ہوں کہ اللہ کے نزدیک کہیں سود لینے والوں
میں شمار نہ ہو جاؤں۔ کیونکہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان
ہے:جس قرض سے کچھ نفع لیا جائے وہ سود ہے ۔ چنانچہ ، آپ دھوپ ہی میں کھڑے رہے ۔
(تذکرۃ الاولیاء،ص188)
دیکھا آپ نے ہمارے اسلاف احادیث پر کتنی سختی کے ساتھ عمل
کرتے تھے اور سود کے شبہات سے بھی بچتے تھے لیکن افسوس آج مسلمان بے باکی کے ساتھ
سود اور دیگر گناہوں میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے اور دنیا کی زیب و زینت میں اس قدر
منہمک ہوتا جا رہا ہے اور اس کو اس بات کا بھی ہوش نہیں رہتا کہ وہ جو قرض (loan) لیے رہا ہے وہ
سود (interest) پر مل رہا ہے
یا بغیر سود کے۔ جیسے شادی رسومات کے مطابق کرنے کے لیے اور کاروبار میں مزید ترقی
کے لیے نئی گاڑی کے لیے وغیرہ کاموں کے لئے مسلمان سود لیتے ہیں۔ سود لینا بھی
حرام ہے اور سود دینا بھی حرام ہے۔ سود کے متعلق مزید معلومات کے لئے سود اور اس
کا علاج رسالے کا مطالعہ کریں۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم سب کو گناہوں
سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! علماء کرام فرماتے ہیں دو مجرم
ایسے ہیں جن کے لیے اللہ پاک کی طرف سے اعلان جنگ ہے اور ان دو مجرموں کے علاوہ
اللہ پاک نے کسی کے ساتھ اعلان جنگ نہیں فرمایا ۔ایک اولیاء اللہ سے عداوت رکھنے
والا دوسرا سود لینے والا۔ اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو دوسرا گناہ یعنی
سود لینا اتنا عام ہے کہ اگر ہر شخص اپنے خاندان پر غور کرے تو کوئی نہ کوئی اس
گناہ میں ملوث نظر آتا ہے۔
آئیے پیارے اسلامی بھائیو ! ہم سود کی مذمت پر فرامینِ
مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں تاکہ لوگ سن کر ان کاموں سے توبہ
کریں اور اللہ پاک کے عذاب سے بچ سکیں۔(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے،
کھلانے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا سب برابر ہیں۔(مسلم، 2/27)یعنی
اصل گناہ میں سب برابر ہیں سب سود خور کے معاون ہیں اور گناہ پر مدد کرنا بھی گناہ
ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 4، حدیث:2829 ) (2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: ہم شبِ معراج ایسی قوم پر پہنچے جن کے پیٹ کمروں کی طرح تھے جن
میں سانپ تھے جو پیٹوں کے باہر دیکھے جا رہے تھے۔ ہم نے کہا اے جبرائیل یہ کون ہیں؟
انہوں نے عرض کی سود خور۔(سنن ابن ماجہ ، ص 164)
(3) رسولُ الله صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا ایک درہم جو انسان کھائے جانتے ہو وہ چھتیس
بار زنا سے سخت تر ہے ۔(مشکوٰۃ المصابیح ، حدیث : 2825) ایک سود کے چھتیس زنا سے
بدتر ہونے کی چند وجہیں ہیں زنا حقُّ اللہ ہے سود حقُّ
العباد جو توبہ سے معاف نہیں ہوتا، سود خور کو اللہ و رسول سے جنگ کا اعلان ہے
زانی کو یہ اعلان نہیں، سود خور کو برے خاتمہ کا اندیشہ ہے زانی کے متعلق یہ
اندیشہ نہیں ، سود خور مقروض اور اس کے بال بچوں کو تباہ کرتا ہے اسی لیے سود خور پر
زیادہ سختی ہے نیز عمومًا مسلمان زنا سے تو نفرت کرتے ہیں مگر سود سے نہیں، حکومتیں
اور گناہوں کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں مگر سود کو رواج دیتی ہیں اس سے بچنا مشکل
ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 4، حدیث: 2825 )
(4) حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ
جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی
اجازت دے دیتا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذھبی،الکبیرة الثانیہ عشرہ، ص102)(5) حضورِ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن
پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذھبی الکبیرۃ الثانیۃ عشر، ص 103 )
پیارے اسلامی بھائیو ! آپ نے سنا کہ سود خور پر اللہ پاک کی
لعنت ہے اور ان کے پیٹ قیامت کے دن کمروں کی طرح بڑے ہو جائیں گے اور ان میں
سانپوں کو بھر دیا جائے گا۔ آہ اگر ہمارے پیٹ میں معمولی سا کیڑا چلا جائے تو
طبیعت میں بھونچال آ جاتی ہے۔ تو قیامت کا یہ درد ناک عذاب ہم سے کیسے برداشت ہوگا۔
آہ پیٹ میں سانپ اور بچھو کا ہونا کتنا بھیانک عذاب ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ سود
کے لین دین سے توبہ کرے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو سود کی آفات سے
محفوظ رکھے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
پیارے اسلامی بھائیو ! آج کل ہمارے معاشرے میں سود ( interest ) جیسا برا گناہ
عام ہو چکا ہے اور سود کا لین دین کرنا بہت عام سی بات ہو چکی ہے ۔تو ہمیں جاننا
چاہیے کہ سود کا لین دین کرنا ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے سود
کی مذمت قراٰن احادیث میں جا بجا وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک قراٰن مجید میں
ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا
مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو سود دونا دون نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اُس امید
پر کہ تمہیں فلاح ملے۔ (پ4،اٰل عمران : 130)
پیارے اسلامی بھائیو آئیے احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں سود
کی مذمت پر فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کرتے ہیں ۔(1) سمرہ بن جندب رضی اللہُ
عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کہ ميں نے شبِ
معراج ديکھا کہ دو شخص مجھے ارضِ مقدس (یعنی بیت المقدس)لے گئے، پھر ہم آگے چل
دئيے يہاں تک کہ خون کے ایک دریا پر پہنچے جس میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور دریا
کے کنارے پر دوسرا شخص کھڑا تھا جس کے سامنے پتھر رکھے ہوئے تھے، دریا میں موجود
شخص جب بھی باہر نکلنے کا ارادہ کرتا تو کنارے پر کھڑا شخص ایک پتھر اس کے منہ پر
مار کر اسے اس کی جگہ لوٹا ديتا، اسی طرح ہوتا رہا کہ جب بھی وہ (دریا والا)شخص
کنارے پر آنے کا ارادہ کرتا تو دوسرا شخص اس کے منہ پر پتھر مار کر اسے واپس لوٹا
ديتا، ميں نے پوچھا: یہ دریا میں کون ہے؟ جواب ملا: یہ سود کھانے والا ہے۔ (صحیح
بخاری، کتاب البیوع،باب اکل ربا و شاھدہ وکاتبہ ،2/14،حدیث: 2085)
(2) صحیح مسلم شریف میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود
کا کاغذ لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اوریہ فرمایا: کہ وہ سب
برابر ہیں۔( صحیح مسلم،کتاب المساقاۃ، باب لعن آ کل الربا ومؤکلہ،ص862،حدیث: 106)(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے راوی، کہ حضور (صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ سود کھانے سے
کوئی نہیں بچے گا اور اگر سود نہ کھائے گا تو اس کے بخارات پہنچیں گے (سنن ابی داؤد،
کتاب البیوع،باب فی اجتناب الشبھات،2/331،حدیث: 3331)
(4) عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہُ عنہما سے راوی،
کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو
جان کر کوئی کھائے، وہ چھتیس مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔( المسند للامام أحمد بن
حنبل،حدیث عبداللہ بن حنظلۃ،8/223،حدیث: 22016)(5)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا
جس کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی
دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا، اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا، یہ سود خور
ہیں۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب التجارات،باب التغلیظ في الربا،3/72،حدیث: 2273)
ان ذکر کردہ روایات سے معلوم ہوا کہ سود بدترین مرض ہے اور
جہنم میں دخول کا سبب ہے ہمیں چاہیے کہ حضور الٰہی میں دل سے توبہ کریں اور کوئی
بھی اسلامی بھائی سود کا لین دین نہ کریں اللہ پاک ہم سب کو سود جیسے مذموم گناہ
سے اپنی حفاظت میں رکھے آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
دورِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ایک ایسا بھی
وقت آیا کہ کفار بدکار و مشرکین نے سود (interest) کے حلال ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اور سود اور خرید و فروخت (Buying and selling) کے درمیان
برابری کرتے ہوئے کہا کہ سود خرید و فروخت کی طرح ہے۔ جس کو اللہ پاک نے قراٰن
مجید میں یوں بیان فرمایا ہے : اَلَّذِیْنَ
یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ
یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا
الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ- ترجمۂ کنز الایمان: وہ جو سُود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے
کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع
بھی تو سُود ہی کے مانند ہے ۔(پ3،البقرة : 275) تو اللہ پاک نے
ان کے دعوے کا رد کرنے کے لئے اور بیع و سود کے درمیان فرق کرنے کے لئے آیت کریمہ
نازل فرمائی: اَحَلَّ اللّٰهُ
الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- ترجمۂ کنز
الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود۔
اور اِس دور میں
بھی کافی تعداد اس حرام شدہ کام سے بچنے کے بجائے اس کو ذریعۂ معاش (A source of income ) سمجھتی ہے
بلکہ موجودہ دور میں تو زیادہ تر لوگ اسی گناہ کے شکار ہیں جو کہ بالکل قابل مذمت
ہے ۔سود کی مذمت صرف قراٰن کریم میں ہی نہیں بلکہ بارہا جگہ نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی اس حرام کام کی مذمت کرتے ہوئے اس کام سے روکا ہے آئیے
کچھ احادیث میں اس کی مذمت میں ملاحظہ کرتے ہیں :
(1) صحیح مسلم شریف میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود
کا کاغذ لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اوریہ فرمایا: کہ وہ سب
برابر ہیں۔( صحیح مسلم،کتاب المساقاۃ، باب لعن آ کل الربا ومؤکلہ،ص862،حدیث: 106)
(2) ابن ماجہ و بیہقی ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے راوی، کہ رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود (کا گناہ) ستر حصہ ہے، ان میں سب
سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔ (سنن ابن ماجہ ،کتاب
التجارات،باب التغلیظ في الربا،3/72،حدیث: 2274) (3) عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہُ
عنہما سے راوی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا
ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے، وہ چھتیس مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔( المسند للامام
احمد بن حنبل،حدیث عبداللہ بن حنظلۃ،8/223،حدیث: 22016)
(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے راوی، کہ حضور (صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ سود کھانے سے
کوئی نہیں بچے گا اور اگر سود نہ کھائے گا تو اس کے بخارات پہنچیں گے (سنن ابی داؤد،
کتاب البیوع،باب فی اجتناب الشبھات،2/331، حدیث: 3331)
آج کل ہمارے معاشرے (Society) میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے کہ
کوئی بھی الا ما شاء اللہ سود دینے لینے سے نہیں بچ رہا ہے اگر سود نہیں دیتا لیتا
ہے تو سود کے لئے گواہی دیتا پھرتا ہے یا پھر سود کی رقم کھانے کھلانے کے لئے
دستاویزات لکھتا ہے اور سود کی لذت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ سود کے لئے اس کے علاوہ
اور بھی بہت کچھ کرتے ہوئے ہمارے معاشرے کے افراد نظر آتے ہیں پیارے اسلامی بھائیو
ہمیں ہر اس کام سے بچنا چاہیے جس سے اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے منع فرمایا اسی میں ہمارے بھلائی ہے ورنہ دنیا میں بھی ہم ذلیل
ہوتے رہیں گے اور آخرت میں بھی ہمیں رسوہ ہونا پڑے گا اللہ پاک ہم سب اس برے کام
اور دیگر حرام کاموں سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین
حافظ غلام حسن ( ناظم مدرسۃُ المدینہ فیضان غوث اعظم
ہزاری باغ جھارکھنڈ ہند)
دینِ اسلام ہمیں حسن معاشرت و رحم دلی کا درس دیتا ہے حضرتِ
سیّدنا تَمِیم داری رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: دین خیر خواہی ہے، ہم نے عرض کی: کس کی؟ فرمایا: ااشفاللہ
کی، اُس کی کتاب، اُس کے رسول اور مسلمانوں کے اماموں اور عوام کی۔ (مسلم،ص51،
حدیث:196)
ہمارے معاشرے میں چند ایسے عیوب پائے جاتے ہیں جو اس رحم
دلی محبت و اخلاص کو ختم کرتے جا رہے ہیں جہاں ہمیں لوگوں کی خلوص دل سے مدد کرنی
تھی آج وہاں بھی اپنا مفاد تلاش کیا جا رہا ہے۔ اسی میں سے ایک بہت ہی خبیث گناہ سود
ہے ، فتاویٰ رضویہ شریف میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ قرض پر نفع لینے کے متعلق فرماتے ہیں قرض دینے والے
کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود اور نرا حرام ہے ۔ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ
مَنْفَعَۃً فَھُوَ رِبًا۔ قرض سے جو فائدہ
حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔ ( فتاویٰ رضویہ ،17/703)
سود قطعی حرام اور معاشرے کو برباد کرنے والا کام ہے اس کی
حرمت کا منکر کافر ہے اور جو اسے حرام جانتے ہوئے کرے وہ فاسق اور مردود الشہادة
ہے۔ ( یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی) اللہ پاک اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا
الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمۂ
کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید
پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے ۔ (پ4،اٰل عمران : 130) اس آیت میں سود
کھانے سے منع کیا گیا اور اسے حرام قرار دیا گیا۔ زمانۂ جاہلیت میں سود کی ایک
صورت یہ بھی رائج تھی کہ جب سود کی ادائیگی کی مدت آتی، اگر اس وقت مقروض ادا نہ
کرپاتا تو قرضخواہ سود کی مقدار میں اضافہ کر دیتا اور یہ عمل مسلسل کیا جاتا
رہتا۔ اسے دُگنا دَر دُگنا کہا جا رہا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی
قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر
آ رہے تھے، میں نے حضرت جبرئیل علیہ السّلام سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت
فرمایا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔ (ابن ماجہ، کتاب
التجارات، باب التغلیظ فی الربا، 3 / 71، حدیث: 2273)
حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ
جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی
اجازت دے دیتا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذھبی،الکبیرة الثانیہ عشرہ، ص69)اسی طرح کثیر
احادیثِ مبارکہ میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے ۔ جس چیز سے خالق کائنات نے
روکا ہو ہمارے لئے اسی میں بہتری ہے کہ اس کے حکم کے آگے سرِ بندگی خم کریں قناعت
اختیار کریں حساب کے دن کو یاد رکھیں جس دن مالِ حلال کا بھی حساب دینا ہوگا تو
حرام مال تو وبالِ جان بن جائے گا ۔
یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ(۸۸) اِلَّا مَنْ
اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ(۸۹) ترجمۂ
کنزالایمان: جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا
سلامت دل لے کر ۔( پ19، الشعراء : 89،88)
اللہ کریم ہیں سود جیسے خبیث گناہ سے بچائے، قناعت پسند اور
حسنِ اخلاق کا پیکر بنائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اللہ پاک نے ایک انسان کو دوسرے انسان سے مربوط کیا ہے ہر
ایک کو دوسرے کی حاجت ہوتی ہی رہتی ہے۔ کبھی لین دین کا معاملہ ہوتا ہے تو کبھی
کچھ اور ۔اس میں کبھی بندہ سود میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ دو
مجرموں کے سوا کسی کو اللہ پاک کی طرف سے اعلان جنگ نہیں کیا گیا۔ ایک سود لینا
دوسرا اولیا اللہ سے عداوت رکھنا۔ سود کی مذمت احادیث مبارکہ میں بھی وارد ہیں ۔چنانچہ
(1) نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ میں نے شبِ
معراج ديکھا کہ دو شخص مجھے ارضِ مقدس (یعنی بیت المقدس)لے گئے، پھر ہم آگے چل
دئيے يہاں تک کہ خون کے ایک دریا پر پہنچے جس میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور دریا
کے کنارے پر دوسرا شخص کھڑا تھا جس کے سامنے پتھر رکھے ہوئے تھے، دریا میں موجود
شخص جب بھی باہر نکلنے کا ارادہ کرتا تو کنارے پر کھڑا شخص ایک پتھر اس کے منہ پر
مار کر اسے اس کی جگہ لوٹا ديتا، اسی طرح ہوتا رہا کہ جب بھی وہ (دریا والا)شخص
کنارے پر آنے کا ارادہ کرتا تو دوسرا شخص اس کے منہ پر پتھر مار کر اسے واپس لوٹا
ديتا، ميں نے پوچھا: یہ دریا میں کون ہے؟ جواب ملا: یہ سود کھانے والا ہے۔(صحیح
بخاری، کتاب البیوع،باب اکل ربا و شاھدہ وکاتبہ ،2/14،حدیث: 2085)
(2) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے آقا
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں کہ شب معراج میں ایک ایسی قوم کے
پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح بڑے بڑے تھے جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے
دیکھے جا رہے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی یہ
سود خور ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات،باب التغلیظ فی الرابا،3/72،حدیث :2273) (3) حضرت جابر رضی اللہ عنہ
سے مروی ہے کہ اللہ کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے،
کھلانے والے، اس کے تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ
یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔ (مسلم،کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربا و موکلہ، حدیث:
1598)
(4)نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: سود کے ستر (۷۰ )دروازے ہیں ان
میں سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔ (شعب الایمان، 4/394،
حدیث: 5520)اعلی حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو شخص سود کا پیسہ لینا چاہے
اگر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان
میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسے کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر ستر
بار زنا کرنا سود لینا حرام قطعی اور گناہ کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح
رواں نہیں۔(فتاوی رضویہ،17/307)
پیارے اسلامی بھائیو! آئیے اس سود کے گناہ کبیرہ سے اپنے آپ
کو روکتے ہیں اور یہ عزم کریں کہ اب ان شاء اللہ سود کی طرف نہیں جائیں گے۔ اور اب
تک جن سے سودی کاروبار کیا ہے ان کو ان کی رقم بھی واپس کر دیں اور توبہ بھی کریں۔
اللہ پاک ہم سب کو سود کی نحوست سے محفوظ فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد رمضان علی عطّاری (درجۂ ثالثہ جامعۃُ
المدینہ فیضانِ فاروق اعظم مالیگاؤں ہند)
محترم قارئین! فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں
میں مبتلا ہے ، وہیں ایک بد ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پروان
چڑھ رہی ہے ، وہ یہ ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے قرض ملنا مشکل ہو گیا
ہے۔ لہذا آئیے اس بھیانک بیماری کے بارے میں جانتے ہیں جو ایک وبا کی طرح ہمارے
معاشرے میں پھیلتی چلی جا رہی ہے۔
کثیر احادیث مبارکہ میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے
جن میں سے چند احادیث ملاحظہ ہوں۔ چنانچہ حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ
سے مروی ہے کہ رسولِ اعظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ شبِ معراج
میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا ، جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے) تھے ، جن میں
سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا : یہ کون لوگ
ہیں؟ انہوں نے عرض کی : یہ سود خور ہیں۔ (سود اور اس کا علاج ،ص16)
محترم قارئین! ذرا غور فرمائیں آج ہمارے پیٹ میں اگر معمولی
سا کیڑا چلا جائے، تو ہم بے چین و بیقرار ہو جاتے ہیں۔ تو سود کھانے والے قیامت کا
یہ سخت عذاب کیسے برداشت کریں گے؟ سود خوروں کے پیٹ اتنے بڑے ہوں گے کہ جیسا کہ
کسی مکان کے کمرے ہو۔ ان میں سانپ اور بچھو وغیرہ ہوں گے۔ ذرا سوچیں کہ یہ کس قدر
بھیانک عذاب ہے۔
حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مصطفیٰ جانِ
رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی تحریر
لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔
(ایضاً، ص17)
مکی مدنی آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: بے شک سود کے 72 دروازے ہیں، ان
میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔
ایک روایت میں
پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : سود کے 70
دروازے ہیں ، ان میں سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔ (ایضاً ،ص17
) میرے آقا اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنت ، مجددِ دین و ملت علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ
ج 17، ص 307 پر اس حدیثِ پاک کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : تو جو شخص سود کا ایک
پیسہ لینا چاہے اگر رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد مانتا ہے تو
ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں
سے ستر ستر(70)بار زنا کرنا۔ سود لینا حرام قطعی و کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا
کسی طرح روا نہیں۔
امام احمد و دارقطنی عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی
اللہُ عنہما سے راوی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود
کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے، وہ چھتیس مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔ (بہار
شریعت، سود کا بیان)
نبیوں کے سلطان ، سرورِ ذیشان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے : جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن
پھیلتا ہے۔ (ایضاً، ص16)شہنشاہِ مدینہ ، سرورِقلب وسینہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے : سات چیزوں سے بچو جو کہ
تباہ وبرباد کرنے والی ہیں۔ “ صحابہ کرام رضی
اللہُ عنہم نے عرض کی : یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!وہ سات
چیزیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا : (1)شرک کرنا(2)جادو کرنا (3)اسے ناحق قتل کرنا کہ
جس کا قتل کرنا اللہ پاک نے حرام کیا (4)سود کھانا (5)یتیم کا مال کھانا (6) جنگ
کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا (7)اور پاکدامن ، شادی شدہ ، مؤمنہ
عورتوں پر تہمت لگانا۔
محترم قارئین! آپ نے سود کی وعیدیں ملاحظہ فرمائی کیا اب
بھی سود اور رشوت کے لین دین سے باز نہیں آئیں گے؟ ہمیں ہر حال میں سود سے اجتناب
کرنا چاہیے، اور جہاں تک ممکن ہوسکے سودی کاروبار سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھنے
کی کوشش کیجئے۔ اور جو لوگ اس سے پہلے اس فعل بد میں گرفتار ہے وہ اپنے رب سے سچی
پکی توبہ کرلیں۔ اللہ پاک ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو سود سے پاک و صاف رکھے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کرلے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی
قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی
پیارے اسلامی بھائیو! آج اگر ہم ہمارے معاشرے کی طرف نظر
گھمائیں تو معاشرے میں مسلمان تنگدست و مفلس نظر آتے ہیں ہمارے مسلمان آفت قرض میں
مبتلا نظر آتے ہیں مسلمانوں کے مالوں سے برکتیں زائل ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اگر
ہم اس کے اسباب کی طرف نظر کرے تو اس کے بہت سے اسباب ہیں مگر جو زیادہ قوی لگتا
ہے وہ سود لگ رہا ہے۔ تو پیارے بھائیو! ہم آپ کو سود کی تعریف اور اس کی مذمت پر
چند احادیث پیش کرتے ہیں ۔ آپ اس میں غور کر کے اس سے بچنے کی کوشش کریں۔
سود کی تعریف: عقدِ معاوضہ میں جب دونوں طر ف مال ہو اور ایک طرف زیادتی
ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو، یہ سود ہے۔(بہار شریعت)
(1) عن جابر، لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲ اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاھِدَیْہِ، وَقَالَ: ھُمْ سَوَاءٌ یعنی رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود
کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا
کہ یہ تمام لوگ برابر ہیں۔( مسلم ،ص663،حدیث:4093) یعنی اصل گناہ میں سب برابر ہیں
کہ سود خور کے ممدومعاون ہیں،گناہ پر مددکرنا بھی گناہ
ہے رب نے صرف سود خور کو اعلان جنگ دیا،معلوم ہوا کہ بڑا مجرم یہ ہی ہے۔(مرآۃ
المناجیح، جلد 4 ، حدیث :2807)(2)
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود (کا گناہ) ستر
حصہ ہے، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔ (سنن ابن
ماجہ کتاب التجارات باب التغلیظ في الربا ،حدیث: 2274)
(3)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شبِ
معراج میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں
میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں؟
اُنھوں نے کہا یہ سود خور ہیں۔ (سنن ابن ماجہ کتاب التجارات باب التغلیظ في الربا،
حدیث: 2273) (4) رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بیشک ایک درہم کہ آدمی سود سے پائے
اللہ پاک کے نزدیک سخت تر ہے تینتیس زنا سے کہ آدمی اسلام میں کرے۔(فتاوی رضویہ، 17/293)
(5)عَنْ
أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہُ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
قَالَ: اِجْتَنِبُوا السَّبْعَ المُوبِقَاتِ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا
هُنَّ؟ قَالَ: الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ،
وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا،
وَأَكْلُ مَالِ اليَتِيمِ، وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ
المُحْصَنَاتِ المُؤْمِنَاتِ الغَافِلاَتِ یعنی: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ہلاک کرنے
والی سات گناہوں سے بچو! صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے استفسار کیا کہ یا رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شرک کرنا، جادو کرنا، اللہ نے جس جان کو قتل کرنا حرام
ٹھہرایا ہے اسے ناحق قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، میدانِ جنگ سے راہِ
فرار اختیار کرنا اور پاک دامن شادی شدہ مؤمنہ عورتوں پر بہتان لگانا۔ (صحیح البخاری
کتاب الوصایا باب ان الذین یاکلون اموال الیتیم الخ، حدیث :2766)
پیارے بھائیو ! ہم نے سود کی مذمت سُنی کہ اللہ نے سود خور
پر لعنت فرمائی سود خور کا گناہ تینتیس بار زنا کرنے سے بھی بدتر ہے۔ لہذا تمام
میرے بھائی سود سے بچ کر اپنے مال پاک کرے اور اس میں برکتوں کا رب سے سوال کرتے
رہیے۔
یومِ صدیق اکبر کے موقع پر مدنی مذاکرے کا انعقاد، امیر
اہل سنت کے عاشقانِ رسول کو مدنی پھول
افضلُ
البشر بعد الانبیاء، خلیفۃ الرسول حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہُ عنہ کے عرس شریف کے موقع پر 14 جنوری 2023ء کو عالمی
مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں مدنی مذاکرے کا انعقاد کیا گیا جس میں شہر بھر سے
کثیر تعداد میں عاشقان رسول نے شرکت کی۔
شیخ
طریقت امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہنے” سیرتِ
صدیق اکبر رضی اللہُ عنہ“ پر
گفتگو فرمائی اور عاشقان رسول کی جانب سے ہونے والے سوالات کے جوابات ارشاد
فرمائے۔
مدنی مذاکرے کے چند مدنی پھول ملاحظہ کیجئے:
سوال: سمجھانے والے کااندازکیساہوناچاہئے؟
جواب:سمجھانے والے کا اندازانتہائی نرم اوراس کامقصدسامنے
والےکی اصلاح ہوناچاہئے ،محض کسی کو نیچادکھانا نہ ہو،ورنہ جس کو سمجھایا جا رہاہے، اُ س میں
ضدپیداہوسکتی ہے۔
سوال: ایسی
سوچ رکھنا کیساکہ"
فُلاں کی بے عزتی ہوگی تو میری عزت ہوگی "۔؟
جواب: یہ
بہت خطرناک جذبہ ہے ،اس طرح سے ہرگز نہیں
سوچنا چاہئے ،عزت دینے والی ذات تو اللہ پاک کی ہے ،اگرکسی کوسوال میں بیان کی گئی
سوچ کے ساتھ عزت مل بھی گئی تو اس کی مدت بہت کم ہوگی ،کوئی اچھا اورعزت والا ہےتو
اسے بُراکہہ کراپنی آخرت داؤ پر نہیں لگانی چاہئے۔
سوال : صدیقِ اکبرکا کیا معنی ہے؟
جواب : صدیق کا معنیٰ ہے بہت
سچا،اکبر کا معنی ہے بہت بڑا،صدیق ِاکبر کا معنی ہوا،بہت
ہی بڑے سچے ،بہت زیادہ سچائی والے۔
سوال: حضرت
صدیقِ اکبر رضی اللہ
عنہ کا اورآپ کے والدصاحب کا نام کیا تھا ؟
جواب: حضرت
صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہاورآپ کے
والدصاحب کا نام عثمان تھا مگریہ(حضرت) ابوقُحافہ(رضی اللہ
عنہ) کی کنیت سے مشہورتھے ۔
سوال: کیا آپ کبھی غارِ ثورمیں حاضرہوئے ہیں؟
جواب:جبلِ ثورکی
زیارت تو کی ہے مگرغارِ ثورمیں حاضری نہیں ہوئی کیونکہ اس کی بلندی بہت زیادہ ہےَ
سوال:جب نبیِ
کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اورحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ
عنہ سفرہجرت میں جب غارِ ثور میں ٹھہرے تھےتو کھا ناکون لے کرآتاتھا؟
جواب:ہجرت کے
ایام میں کھانا حضرت اسماءبنتِ ابوبکرصدیق رضی اللہ
عنہا لے کرآتیں اورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت عامربن فہیرہ رضی اللہ
عنہ دودھ کے لیے بکریاں یہاں لایاکرتے
تھے۔
سوال: حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی محبتِ اہلِ بیت کے بارے
میں کچھ مدنی پھول عنایت فرمائیں۔
جواب: حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سچے مُحبِ اہلِ بیت
تھے ،ایک مرتبہ آپ کے سامنے اہلِ بیت کا ذکر ہواتو
آپ نے فرمایا کہ مجھے قسم ہے! اُس ذات کی
جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! رسولِ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قرابت داروں یعنی رشتہ داروں کے ساتھ حُسن
ِسلوک کرنا مجھے اپنے رشتے داروں سے صلۂ رحمی (حُسنِ سلوک)کرنے سے زیادہ پیارااورپسندیدہ ہے ،آپ کا ایک قول ہے کہ نبیِ
کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اِکرام کی وجہ سے اہلِ بیت کا اِکرام کرو۔
سوال: "اَفْضلُ الْبَشربعدَالانبِیَاء"کا کیا معنی ہے ؟
جواب: اس کا معنی
ہے کہ تمام نبیوں کے بعد تمام انسانوں میں
افضل اوریہ الفاظ حضرت صدیق ِاکبررضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہیں ۔
سوال: پیارے
آقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ
عنہ کی مؤاخات(یعنی بھائی چارگی) کس سے فرمائی؟
جواب: مؤاخات کا معنی ہے بھائی بنانا ، حضرت
ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی مؤاخات مہاجرین میں حضرت عمرفاروق ِاعظم رضی اللہ
عنہ کے ساتھ اورانصارمیں حضرت خارجہ بن زید رضی اللہ
عنہ کے سا تھ تھی۔
سوال
: بیمارِمدینہ سے کیا
مرادہے؟
جواب : جو مدینہ شریف کے
عشق میں مست ہووہ بیمارِ مدینہ ہے ،نہ اس
میں سردُکھتاہے نہ ہی پیٹ میں دردہوتاہے، مریضِ مصطفیٰ کا تو معاملہ ہی کچھ
اورہے،عشق ِرسول کی بیماری وہ بیماری ہے جسے مل جائے اس کا بیڑاپارہوجائے ،اللہ
پاک ہمیں دنیا کی بیماریوں اورغموں سے بچالے اوربیمارِمدینہ
بنادے۔
سوال: اِس ہفتے کارِسالہ ” دُعا مانگنے کے 17 مدنی پھول “ پڑھنے یاسُننے والوں کو امیرِاہلِ ِسُنّت دامت برکاتہم العالیہ نے کیا دُعا دی ؟
جواب: یارَبَّ المصطفےٰ! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ” دُعا مانگنے کے 17 مدنی پھول “ پڑھ یا سُن لے اُس کی نیک و جائز دعائیں مقبول ہوا کریں
اور اُس کی بے حساب مغفرت ہوجائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتم النَّبیّن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔
فیضان مدینہ کراچی میں شانِ صدیق اکبر رضی اللہُ عنہ پر
نگران شوریٰ کا بیان
14
جنوری 2023ء کو دعوت اسلامی کے شعبہ جامعۃ المدینہ کے
زیر اہتمام اسلام کے پہلے خلیفہ ، افضل البشر، یارِ غار مصطفےٰصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، ام المؤمنین سیدتنا عائشہ کے بابا
امیر المؤمنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہُ عنہ کے عرس
شریف کے موقع پرعالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں عظیم الشان سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد کیا
گیا جس میں اراکین مجلس اور مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ کراچی کے طلبہ و
اساتذۂ کرام براہ راست جبکہ دیگر جامعات المدینہ (بوائز اینڈ
گرلز) کے
طلبہ و طالبات اور اساتذۂ کرام بذریعہ
مدنی چینل شریک ہوئے۔
دعوت
اسلامی کی مرکزی مجلس کے نگران حاجی مولانا محمد عمران عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی نے ”شان صدیق اکبر“ کے موضوع پر سنتوں
بھرا بیان کیا اور طلبہ کو اپنے اسلاف کی سیرت کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے کا
ذہن دیا۔
پچھلے دنوں دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے
رکن حاجی مولانا محمد اسد عطاری مدنی دینی کاموں کے سلسلے میں پاکستان سے ترکی
پہنچے جہاں انہوں نے استنبول میں قائم مدنی مرکز فیضان مدینہ کا دورہ کیا۔ نگران سینٹرل
ایشین و افریقن عرب ریجنز شہاب الدین عطاری نے دیگر ذمہ داران کے ہمراہ رکن شوریٰ
کو فیضان مدینہ میں قائم مختلف شعبہ جات
کا وزٹ کروایا اور وہاں ہونے والے دینی کاموں کے بارے میں بریفنگ دی۔ رکن شوری کو عربی زبان میں شائع ہونے والے
ماہنامہ فیضان مدینہ کے بارے میں رپورٹ پیش کی گئی اور وہاں موجود شعبہ مدنی چینل (عربی اور ترکش) میں ہونے والی ریکارڈنگ، لائیو سٹریمنگ اور دیگر کاموں
کے بارے میں اپڈیٹ دی گئی۔
بعد ازاں فیضان مدینہ میں ترکش زبان میں مدنی
حلقے کا سلسلہ ہوا جس میں رکن شوریٰ اور دیگر اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔ اور آخر
میں رکن شوریٰ نے مقامی ذمہ داران اور اسلامی بھائیوں سے ملاقاتیں کیں۔
Dawateislami