فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے :اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا فرما دیتا ہے۔( بخاری 4/4، حدیث 5645)ہر وہ ناپسندیدہ چیز جو انسان کو آزمائش میں ڈالے وہ مصیبت ہے۔مصیبت  سےاولاد،بیماریوں اورمال کی صورت میں پہنچنےوالی آزمائش بھی مراد ہے یعنی بندے کو کبھی بیماری،کبھی اولاد اور کبھی مال کے ذریعے آزمایا جاتا ہے،یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے اور بندہ اللہ پاک کی بارگاہ میں گناہوں سے پاک ہوکر حاضری دیتا ہےیہاں تک کہ قرب پا چُکا ہوتا ہے۔

نزول ِ مصائب کی پہلی وجہ مومن بندے کی آزمائش ہوتی ہے۔اللہ پاک کی ذات علام الغیوب ہے لیکن وہ اہلِ دنیا پر واضح کرنے کے لئے کہ اس کا بندہ مصیبت آنے پر صبر کرتا ہے یا بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے،مختلف طریقوں سے آزماتا رہتا ہے۔ارشادِ باری ہے :وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-(پ2،البقرۃ:155)ترجمۂ کنز العرفان:اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے۔

دوسرا سبب مسلمان کے گناہوں کا کفارہ ہے۔اللہ پاک مصیبت میں مبتلا فرماکر گناہوں کا بدلہ دنیا میں ہی دے کرآخرت کی سزا سے بچا لیتا ہے،چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:رسول اللہ ﷺنے فرمایا:مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی ِکریم ﷺ کا فرمان نقل کرتے ہیں:مومن کو کانٹاچبھےبلکہ اس سے بھی کم کوئی تکلیف پہنچے تو اللہ پاک اس کے گناہ ایسے جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔

( بخاری،4/5 ،حدیث:5648بتغیر قلیل)

تیسرا سبب نیک اور متقی لوگوں کے درجات کو بلند کرنا ہے۔انبیائے کرام علیہم السلام اور بزرگانِ دین کی سیرت پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں بڑے کٹھن حالات اور دشوار گزار مراحل آئے۔چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے نبیِ کریم ﷺ کا ارشاد منقول ہے:سب سے زیادہ مصیبتیں انبیائے کرام علیہم السلام پر آئیں،پھر ان کے بعد جولو گ بہتر ہیں پھر ان کے بعد جوبہتر ہیں۔

(ابن ماجہ،4/369، حدیث:4023)

ان جلیل القدر شخصیات کے اللہ پاک کے مقرب و محبوب ہونے کے باوجود ان پر تکالیف اس لئے آئیں تاکہ اللہ پاک انہیں اپنے ہاں مزید بلندیِ درجات سے نوازے۔

نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:جب اللہ پاک کی طرف سے کسی بندے کے لیے کوئی درجہ مقدر ہوچکا ہو جہاں تک یہ اپنے عمل سے نہیں پہنچ سکتاتو اللہ پاک اسے اس کے جسم یا مال یا اولاد کی آفت میں مبتلا کردیتا ہے، پھر اسے اس پر صبر بھی دیتا ہے حتی کہ وہ اس درجے تک پہنچ جاتا ہے جو اللہ پاک کی طرف سے اس کے لیے مقدر ہوچکا۔( ابوداؤد،3/246،حدیث:3090)

چوتھا سبب غافل انسان کو خبردار کرنا ہے۔اللہ پاک بندے سے غفلت کی چادر کو اتارنے اور اسے اپنی بندگی اور اطاعت کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اس پر مصائب اتارتا ہے۔چنانچہ فرمانِ باری ہے:وَ لَنُذِیْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(۲۱)(پ21،السجدۃ:21)ترجمۂ کنزُ العِرفان:اور ضرور ہم انہیں بڑے عذاب سے پہلے قریب کا عذاب چکھائیں گے(جسے دیکھنے والا کہے) امید ہے کہ یہ لوگ باز آجائیں گے۔

زندگی کی الجھنوں،مشقتوں اور مصیبتوں کا آخری اور عمومی سبب انسان کی بد عملی،فسق و فجور،خدا کی حکم عدولی اورشریعت کے احکام سے روگردانی ہے۔اللہ پاک جب گناہوں کی وجہ سے اپنے بندے پر ناراض ہوتاہے تو اس پر اپنی رحمت کے دروازے بند کر دیتا ہے اور اس کی زندگی سے راحت و سکون ختم کر دیتا ہے جس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ مسرت و شادمانی کے تمام اسباب و وسائل کے ہوتے ہوئے بھی دل بے چین رہتا ہے۔خلاق ِ عالم نے اپنے مقدس کلام میں بارہا اس حقیقت کو آشکار کیا ہے۔ارشادِ خداوندی ہے:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزالعرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

دوسری جگہ ارشاد ہے :وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰى(۱۲۴)(پ16،طہ:124)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جس نے میرے ذکر سے منہ پھیرا تو بیشک اس کے لیے تنگ زندگی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔

قرآن ِ کریم میں گزشتہ ہلاک شدہ اقوام و امم کا متعدد مقامات پر تذکرہ ہے،اس کا سبب بھی ان کی سرکشی، نافرمانی اور وقت کے نبی کی تعلیمات سے انحراف کو بیان کیا گیا ہے۔نبیِ کریم ﷺ نے بھی اپنے ارشادات میں مختلف گناہوں کو مختلف مصیبتوں کے نازل ہونے کا سبب بتایا ہے۔چنانچہ

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کا ارشاد ہے:اے مہاجرین کے گروہ! جب تم پانچ باتوں میں مبتلا کر دئیے جاؤ (تو اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی) اور میں اللہ پاک سے پناہ طلب کرتا ہوں کہ تم انہیں پاؤ۔(1)جب کسی قوم میں اعلانیہ فحاشی عام ہو جائے گی تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں ظاہر ہو جائیں گی جو ان سے پہلوں میں کبھی ظاہر نہ ہوئی تھیں(جیسے آج کل ایڈز، Aidsوغیرہ)(2) جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جائیں گے تو قحط سالی، شدید تنگی اور بادشاہ کے ظلم کا شکار ہوجائیں گے۔(3)جب زکوٰۃ کی ادائیگی چھوڑ دیں گے تو آسمان سے بارش روک دی جائے گی اور اگر چوپائے نہ ہوتے تو ان پر کبھی بارش نہ برستی۔(4)جب لوگ اللہ پاک اور اس کے رسول کا عہد توڑنے لگیں گے تو اللہ پاک ان پر دشمن مسلط کر دے گا جو ان کا مال وغیرہ سب کچھ چھین لے گا۔(5)جب حکمران اللہ پاک کے قانون کو چھوڑ کر دوسرا قانون اور اللہ پاک کے احکام میں سے کچھ لینے اور کچھ چھوڑنے لگ جائیں گے تو اللہ پاک ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ڈال دے گا۔(ابن ماجہ، 4 /367،حدیث:4019)

مسائل کے حل اوردورکرنے کے سلسلہ میں شریعت نے تین کام کرنے کی ترغیب دی ہے جو غم کو ہلکا کرنے اور دل کی تسلی میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں:(1)صبر کیا جائے(2)صلوۃ الحاجت ادا کی جائےاور (3)تمام آداب کی رعایت رکھتے ہوئے خوب عاجزی اور انکساری سے دعا مانگی جائے۔پھر بھی اگر مصیبت دور نہ ہو تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ پاک نے اس کا اجر آخرت کے لئے ذخیرہ کر لیا ہے یا چھوٹی مصیبت دے کر بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے۔چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو آرام و سکون والے تمنا کریں گے:کاش!دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کاٹ دی گئی ہوتیں۔(ترمذی،4 /180،حدیث:2410)

اللہ پاک ہمیں نفسِ امّارہ کے وار اور شیطان سے محفوظ رکھے،قربِ مصطفےٰ عطا کرے،ریاکاری سے بچائے، ہمارا خاتمہ ایمان پے ہو،رسول اللہ ﷺ کا دیدار کرتے ہوئے جان نکلے اور اللہ پاک ہم سب کو مدینے پاک کی با ادب حاضریاں نصیب فرمائے۔آمین 


انسان مختلف حالات و واقعات کے زیرِاثر زندگی گزارتا ہے۔کچھ حالات اس کے لیے بہت ہی خوشگوار ثابت ہوتے ہیں اور کچھ نہایت ہی کٹھن۔کٹھن حالات مختلف پریشانیوں اور مشکلات کی صورت میں ہوتے ہیں، مثلاً صحت کے مسائل، جاب نہ ملنا،کاروبار میں بندش،رشتےاورشادی میں رکاوٹ یا گھریلو ناچاقیاں وغیرہ۔انسان ان تمام مصائب سے رہائی تو حاصل کرنا چاہتا ہے مگر عموماً ان کے اسباب کی طرف توجہ نہیں دیتا۔آئیے! اس کے کچھ اسباب ملاحظہ کیجئے:

(1) رب کریم کی طرف سے آزمائش:

اللہ پاک انسان کو مختلف پریشانیوں اور مسائل میں مبتلا فرما کر آزماتا ہے تاکہ کامل ایمان والوں اور فقط زبانی ایمان کے دعویداروں میں فرق ظاہر ہو جائے، جیسا کہ ارشادِ باری ہے:وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵) (پ2،البقرۃ:155)ترجمۂ کنز العرفان:اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ آزمائش میں اللہ پاک کے فرمانبرداروں کی طرح صبر سے کام لیں۔

(2)درجات کی بلندی یا گناہوں کی بخشش:

مصائب آنے کا سبب مومنین کے درجات بلند فرمانا بھی ہے۔اللہ پاک اپنے محبوب بندوں اور بندیوں پر مصیبت نازل فرما کر ان کے درجات بلند فرماتا ہے یا گناہگاروں کے گناہ معاف فرماتا ہے۔جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے:رسول اللہ ﷺنے فرمایا:مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔

(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)

انبیائےکرام گناہوں سے معصوم اور متقی و پرہیزگار گناہوں سے محفوظ ہوتے ہیں،ان پر جو مشکلات آئیں اس کا سبب ان کے درجات کی بلندی ہے جبکہ عام مسلمانوں کے یا تو گناہ مٹائے جاتے ہیں یا درجات بلند کیے جاتے ہیں۔

(3)غفلت سے بیداری:

بعض اوقات انسان دنیا کی رنگینیوں میں اس قدر گم ہو جاتا ہے کہ اپنے اُخروی انجام کو بالکل فراموش کر بیٹھتا ہے۔چنانچہ اسے مختلف مسائل میں مبتلا کر کے خبردار کیا جاتا ہے جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:وَ لَنُذِیْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(۲۱) (پ21، السجدۃ: 21) ترجمہ کنز الایمان:اور ضرور ہم انہیں چکھائیں گے کچھ نزدیک کا عذاب اس بڑے عذاب سے پہلے جسے دیکھنے والا امید کرے کہ ابھی باز آئیں گے۔

ہمیں چاہئے کہ گناہوں سے بچیں اور آخرت کی زیادہ سے زیادہ تیاری کریں۔

(4)اعمال کی سزا:

مصیبتیں آنے کا ایک اہم سبب انسان کے اعمال ہیں۔جب کوئی حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی پروا نہیں کرتا، شریعت کے اصولوں کی پاسداری نہیں کرتا یا اسلام سے ہی لاتعلق ہوجاتا ہے تو بعض اوقات اسے اس کے اعمال کے سبب دنیا میں ہی مشکلات اور پریشانیوں میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰) 25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

ہمیں چاہئے کہ اللہ پاک کی نافرمانی سے بچیں اور نیک اعمال کرتے ہوئے زندگی گزاریں۔اللہ پاک متقین کے صدقے ہمیں تمام آزمائشوں،مشکلات،مصائب و آلام میں صبرِ جمیل اور صبرِ جمیل پر اجرِ عظیم عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین


دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثر ان کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں۔اللہ پاک ان تکلیفوں کو ان کے گناہوں کا کفارہ کر دیتا ہے اور کبھی مومن پر تکلیف اس کے درجات کی بلندی کے لیے آتی ہے۔ارشادِ باری ہے:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

اس آیت میں ان مُکَلَّف مومنین سے خطاب ہے جن سے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور مراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثراُن کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں ،اُن تکلیفوں کو اللہ اُن کے گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے درجات کی بلندی کے لئے ہوتی ہے۔(تفسیر صراط الجنان،9/67)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور ﷺنے ارشاد فرمایا:مسلمان کو پہنچنے والا کوئی دکھ،تکلیف،غم،ملال، تکلیف اور درد ایسا نہیں،خواہ اس کے پیر میں کانٹا ہی چبھے مگر اس کی وجہ سے اللہ پاک اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔(بخاری،4/3،حدیث:5641-5642)

فرمانِ آخری نبیﷺ:اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا فرما دیتا ہے۔

( بخاری 4/4، حدیث 5645)

وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَیْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّىۚ-فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ(۶۱)(پ14،النحل:61)ترجمۂ کنزُ العِرفان:جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کیلئے بری حالت ہے اور اللہ کی سب سے بلندشان ہے اور وہی عزت والا، حکمت والا ہے۔اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم کی بنا پر پکڑ لیتا تو زمین پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑتا لیکن وہ انہیں ایک مقررہ مدت تک مہلت دیتا ہے پھر جب ان کی مدت آجائے گی تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹیں گے اور نہ ہی آگے بڑھیں گے۔

تفسیر :اس سے پہلی آیتوں میں اللہ پاک نے کفارِ مکہ کے بہت بڑے کفر اور برے اَقوال کا بیان فرمایا جبکہ اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ اللہ پاک ان کافروں پر جلدی عذاب نازل نہ فرما کر انہیں ڈھیل دیتا ہے تاکہ اس کی رحمت اور اس کے فضل و کرم کا اظہار ہو۔( تفسیرکبیر، 7 /227) چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر اللہ پاک لوگوں کو ان کے گناہوں پر پکڑ لیتا اور عذاب میں جلدی فرماتا تو زمین پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑتا بلکہ سب کو ہلاک کردیتا۔ایک قول یہ ہے کہ زمین پر چلنے والے سے کافر مراد ہیں۔(تفسیر صراط الجنان،5/339)

یہ اس کا حلم اور حکمت و مصلحت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی نافرمانیاں دیکھتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی نعمتیں سلب کرتا ہے نہ فوری مؤاخذہ کرتا ہے حالانکہ ارتکابِ معصیت کے ساتھ ہی وہ مؤاخذہ کرنا شروع کر دے تو ظلم و معصیت اور کفر و شرک اتنا عام ہے کہ روح زمین پر کوئی جاندار باقی نہ رہے کیونکہ جب برائی عام ہو جائے تو پھر عذاب عام میں نیک لوگ بھی ہلاک کر دیے جاتے ہیں تاہم آخرت میں وہ سرخرو رہیں گے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:اے لوگوں!تمہارا رب ارشاد فرماتا ہے:اگر میرے بندے میری اطاعت کریں تو میں انہیں رات میں بارش سے سیراب کروں گا ،دن میں ان پر سورج طلوع کروں گا اور انہیں کڑک کی آواز نہ سناؤں گا۔(مسند امام احمد،3/281،حدیث:8716)اللہ پاک ہمیں اپنی اطاعت میں مصروف رہنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


انسان کی زندگی خوشی وغم کا مجموعہ ہے۔ہر انسان کی زندگی میں جہاں خوشیوں سے بھر پور لمحات آتے ہیں وہی کچھ ایسے بھی لمحات آتے ہیں جو کٹھن ہوتے ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ میری زندگی میں کبھی کوئی غم،مشکل وقت یا تنگی نہیں آئی یا پھر کوئی خوشی یا آسانی نہیں آئی تو یہ حقیقت کے خلاف ہے،کیونکہ ہر انسان کی زندگی میں اچھا اور بُرا وقت آتا ہے۔خواہشات تو بادشاہوں کی بھی رہ جاتی ہیں۔لہٰذا ہمیں دل بڑا رکھنا چاہیے، اللہ پاک کا شکر کرنے کا کوئی نہ کوئی پہلو ڈھونڈ لینا چاہیے، یوں زندگی آسان ہو جائے گی۔اللہ پاک کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے بندے کو مختلف پہلوؤں سےآزماتا ہےلیکن یہ بات یاد رہے کہ بندے کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے رب کو آزمائے۔بندے کاکام ہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے۔وہ جس حال میں بھی رکھے اسی میں راضی رہے اور اس کا شکر ادا کرتارہے۔مصیبتیں آنے کے چند اسباب درج ذیل ہیں :

(1)بعض اوقات خوشی دے کر آزماتا ہے کہ میرا بندہ نعمتیں حاصل کرنے کے بعد بھی عاجزی اختیار کرتا ہے یا متکبر بنتا ہے۔

(2)بعض اوقات غم دے کر آزماتا ہے کہ غم میں بھی میرا بندہ شکر کرتا ہے جیسے خوشی میں شکرکرتا ہے یا نا شکری کرتا ہے۔

(3)بعض اوقات گناہ میں مبتلاانسان پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تاکہ اس کے گناہ کا کفارہ ہو جائے۔

(4)بعض اوقات گناہ گار کو خبردار کرنے کیلئے مصیبت نازل ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ گناہ سے باز آجاتا ہے۔

(5)مصیبت اس لئے بھی نازل ہوتی ہے تاکہ درجات بلند ہوں۔

(6)بعض اوقات چھوٹی آزمائش بہت بڑی مصیبت کی دوری کاسبب بنتی ہے۔

(7)انسان جب مشکل میں ہوتا ہے تو وہ اپنے رب کو پکارتا ہے۔آزمائش ومصیبت پر صبر کرنے پر اللہ پاک سے انعام واکرام اور اللہ پاک کا قرب پاتا ہے۔

بزرگانِ دین فرماتے ہیں:اگر کسی کو خوشیاں اورنعمتیں ہی نعمتیں مل رہی ہیں تو اس کو غور کرنا چاہیے کہ کہیں اس کی نیکیوں اور اچھے کاموں کا صلہ دنیا میں تو نہیں مل رہا!

بہر حال مسلمان خوشحال ہے تو اللہ پاک کا شکر ادا کرکے اور آزمائش و مصیبت میں مبتلا ہے تو اس پر صبر کر کے ثواب کماتا ہے۔اگر سمجھا جائے تو مسلمان کیلئے گھاٹے کا سودا ہے ہی نہیں۔اللہ پاک قرآنِ عظیم،فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵)(پ2،البقرۃ:155)ترجمۂ کنز العرفان:اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھا ہے:آزمائش سے فرمانبردار اور نافرمان کے حال کا ظاہر کرنا مراد ہے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول خوف سے اللہ پاک کا ڈر،بھوک سے رمضان کے روزے، مالوں کی کمی سے زکوٰۃ و صدقات دینا، جانوں کی کمی سے امراض کے ذریعہ اموات ہونا، پھلوں کی کمی سے اولاد کی موت مراد ہے کیونکہ اولاد دل کا پھل ہوتی ہے۔(تفسیر صراط الجنان،1/250)حدیث میں اولاد کو دل کا پھل کہا گیا ہے۔(ترمذی،2/313،حدیث:1023)اللہ پاک ہمیں تمام آلام ومصائب پر صبرو تحمل نصیب فرمائے۔آمینِ بجاہ النبی الامین ﷺ