انسان مختلف حالات و واقعات کے زیرِاثر زندگی
گزارتا ہے۔کچھ حالات اس کے لیے بہت ہی خوشگوار ثابت ہوتے ہیں اور کچھ نہایت ہی
کٹھن۔کٹھن حالات مختلف پریشانیوں اور مشکلات کی صورت میں ہوتے ہیں، مثلاً صحت کے
مسائل، جاب نہ ملنا،کاروبار میں بندش،رشتےاورشادی میں رکاوٹ یا گھریلو
ناچاقیاں وغیرہ۔انسان ان تمام مصائب سے
رہائی تو حاصل کرنا چاہتا ہے مگر عموماً ان کے اسباب کی طرف توجہ نہیں دیتا۔آئیے!
اس کے کچھ اسباب ملاحظہ کیجئے:
(1) رب کریم کی طرف سے آزمائش:
اللہ پاک انسان کو مختلف پریشانیوں اور
مسائل میں مبتلا فرما کر آزماتا ہے تاکہ کامل ایمان والوں اور فقط زبانی ایمان کے
دعویداروں میں فرق ظاہر ہو جائے، جیسا کہ ارشادِ باری ہے:وَ
لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ
الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵) (پ2،البقرۃ:155)ترجمۂ
کنز العرفان:اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور
بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے
والوں کو خوشخبری سنا دو۔
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ آزمائش میں اللہ پاک کے
فرمانبرداروں کی طرح صبر سے کام لیں۔
(2)درجات کی بلندی یا گناہوں کی بخشش:
مصائب آنے کا سبب مومنین کے درجات بلند
فرمانا بھی ہے۔اللہ پاک اپنے محبوب بندوں اور بندیوں پر مصیبت نازل فرما کر ان کے
درجات بلند فرماتا ہے یا گناہگاروں کے گناہ معاف فرماتا ہے۔جیسا کہ حدیثِ پاک میں
ہے:رسول اللہ ﷺنے فرمایا:مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف
نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس
کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔
(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)
انبیائےکرام گناہوں سے معصوم اور متقی و پرہیزگار گناہوں سے محفوظ ہوتے ہیں،ان پر جو مشکلات آئیں
اس کا سبب ان کے درجات کی بلندی ہے جبکہ
عام مسلمانوں کے یا تو گناہ مٹائے جاتے ہیں یا درجات بلند کیے جاتے ہیں۔
(3)غفلت سے بیداری:
بعض اوقات انسان دنیا کی رنگینیوں میں اس قدر گم ہو
جاتا ہے کہ اپنے اُخروی انجام کو بالکل فراموش کر بیٹھتا ہے۔چنانچہ اسے مختلف
مسائل میں مبتلا کر کے خبردار کیا جاتا ہے جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:وَ لَنُذِیْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ
الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(۲۱)
(پ21، السجدۃ: 21) ترجمہ کنز الایمان:اور
ضرور ہم انہیں چکھائیں گے کچھ نزدیک کا عذاب اس بڑے عذاب سے پہلے جسے دیکھنے والا امید
کرے کہ ابھی باز آئیں گے۔
ہمیں چاہئے
کہ گناہوں سے بچیں اور آخرت کی زیادہ سے زیادہ تیاری کریں۔
(4)اعمال کی سزا:
مصیبتیں آنے کا ایک اہم سبب انسان کے
اعمال ہیں۔جب کوئی حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی پروا نہیں کرتا، شریعت کے
اصولوں کی پاسداری نہیں کرتا یا اسلام سے ہی لاتعلق ہوجاتا ہے تو بعض اوقات اسے اس
کے اعمال کے سبب دنیا میں ہی مشکلات اور پریشانیوں میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔چنانچہ
ارشادِ باری ہے:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ
مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰) (پ25،الشوریٰ:30)ترجمۂ
کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ
تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ
سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔
ہمیں چاہئے کہ اللہ پاک کی نافرمانی سے بچیں اور
نیک اعمال کرتے ہوئے زندگی گزاریں۔اللہ پاک متقین کے صدقے ہمیں تمام
آزمائشوں،مشکلات،مصائب و آلام میں صبرِ جمیل اور صبرِ جمیل پر اجرِ عظیم عطا
فرمائے۔آمین یا رب العالمین