دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثر ان کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں۔اللہ پاک ان تکلیفوں کو ان کے گناہوں کا کفارہ کر دیتا ہے اور کبھی مومن پر تکلیف اس کے درجات کی بلندی کے لیے آتی ہے۔ارشادِ باری ہے:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

اس آیت میں ان مُکَلَّف مومنین سے خطاب ہے جن سے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور مراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثراُن کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں ،اُن تکلیفوں کو اللہ اُن کے گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے درجات کی بلندی کے لئے ہوتی ہے۔(تفسیر صراط الجنان،9/67)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور ﷺنے ارشاد فرمایا:مسلمان کو پہنچنے والا کوئی دکھ،تکلیف،غم،ملال، تکلیف اور درد ایسا نہیں،خواہ اس کے پیر میں کانٹا ہی چبھے مگر اس کی وجہ سے اللہ پاک اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔(بخاری،4/3،حدیث:5641-5642)

فرمانِ آخری نبیﷺ:اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا فرما دیتا ہے۔

( بخاری 4/4، حدیث 5645)

وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَیْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّىۚ-فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ(۶۱)(پ14،النحل:61)ترجمۂ کنزُ العِرفان:جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کیلئے بری حالت ہے اور اللہ کی سب سے بلندشان ہے اور وہی عزت والا، حکمت والا ہے۔اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم کی بنا پر پکڑ لیتا تو زمین پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑتا لیکن وہ انہیں ایک مقررہ مدت تک مہلت دیتا ہے پھر جب ان کی مدت آجائے گی تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹیں گے اور نہ ہی آگے بڑھیں گے۔

تفسیر :اس سے پہلی آیتوں میں اللہ پاک نے کفارِ مکہ کے بہت بڑے کفر اور برے اَقوال کا بیان فرمایا جبکہ اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ اللہ پاک ان کافروں پر جلدی عذاب نازل نہ فرما کر انہیں ڈھیل دیتا ہے تاکہ اس کی رحمت اور اس کے فضل و کرم کا اظہار ہو۔( تفسیرکبیر، 7 /227) چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر اللہ پاک لوگوں کو ان کے گناہوں پر پکڑ لیتا اور عذاب میں جلدی فرماتا تو زمین پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑتا بلکہ سب کو ہلاک کردیتا۔ایک قول یہ ہے کہ زمین پر چلنے والے سے کافر مراد ہیں۔(تفسیر صراط الجنان،5/339)

یہ اس کا حلم اور حکمت و مصلحت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی نافرمانیاں دیکھتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی نعمتیں سلب کرتا ہے نہ فوری مؤاخذہ کرتا ہے حالانکہ ارتکابِ معصیت کے ساتھ ہی وہ مؤاخذہ کرنا شروع کر دے تو ظلم و معصیت اور کفر و شرک اتنا عام ہے کہ روح زمین پر کوئی جاندار باقی نہ رہے کیونکہ جب برائی عام ہو جائے تو پھر عذاب عام میں نیک لوگ بھی ہلاک کر دیے جاتے ہیں تاہم آخرت میں وہ سرخرو رہیں گے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:اے لوگوں!تمہارا رب ارشاد فرماتا ہے:اگر میرے بندے میری اطاعت کریں تو میں انہیں رات میں بارش سے سیراب کروں گا ،دن میں ان پر سورج طلوع کروں گا اور انہیں کڑک کی آواز نہ سناؤں گا۔(مسند امام احمد،3/281،حدیث:8716)اللہ پاک ہمیں اپنی اطاعت میں مصروف رہنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین