فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے :اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا فرما دیتا ہے۔( بخاری 4/4، حدیث 5645)ہر وہ ناپسندیدہ چیز جو انسان کو آزمائش میں ڈالے وہ مصیبت ہے۔مصیبت  سےاولاد،بیماریوں اورمال کی صورت میں پہنچنےوالی آزمائش بھی مراد ہے یعنی بندے کو کبھی بیماری،کبھی اولاد اور کبھی مال کے ذریعے آزمایا جاتا ہے،یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے اور بندہ اللہ پاک کی بارگاہ میں گناہوں سے پاک ہوکر حاضری دیتا ہےیہاں تک کہ قرب پا چُکا ہوتا ہے۔

نزول ِ مصائب کی پہلی وجہ مومن بندے کی آزمائش ہوتی ہے۔اللہ پاک کی ذات علام الغیوب ہے لیکن وہ اہلِ دنیا پر واضح کرنے کے لئے کہ اس کا بندہ مصیبت آنے پر صبر کرتا ہے یا بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے،مختلف طریقوں سے آزماتا رہتا ہے۔ارشادِ باری ہے :وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-(پ2،البقرۃ:155)ترجمۂ کنز العرفان:اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے۔

دوسرا سبب مسلمان کے گناہوں کا کفارہ ہے۔اللہ پاک مصیبت میں مبتلا فرماکر گناہوں کا بدلہ دنیا میں ہی دے کرآخرت کی سزا سے بچا لیتا ہے،چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:رسول اللہ ﷺنے فرمایا:مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی ِکریم ﷺ کا فرمان نقل کرتے ہیں:مومن کو کانٹاچبھےبلکہ اس سے بھی کم کوئی تکلیف پہنچے تو اللہ پاک اس کے گناہ ایسے جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔

( بخاری،4/5 ،حدیث:5648بتغیر قلیل)

تیسرا سبب نیک اور متقی لوگوں کے درجات کو بلند کرنا ہے۔انبیائے کرام علیہم السلام اور بزرگانِ دین کی سیرت پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں بڑے کٹھن حالات اور دشوار گزار مراحل آئے۔چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے نبیِ کریم ﷺ کا ارشاد منقول ہے:سب سے زیادہ مصیبتیں انبیائے کرام علیہم السلام پر آئیں،پھر ان کے بعد جولو گ بہتر ہیں پھر ان کے بعد جوبہتر ہیں۔

(ابن ماجہ،4/369، حدیث:4023)

ان جلیل القدر شخصیات کے اللہ پاک کے مقرب و محبوب ہونے کے باوجود ان پر تکالیف اس لئے آئیں تاکہ اللہ پاک انہیں اپنے ہاں مزید بلندیِ درجات سے نوازے۔

نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:جب اللہ پاک کی طرف سے کسی بندے کے لیے کوئی درجہ مقدر ہوچکا ہو جہاں تک یہ اپنے عمل سے نہیں پہنچ سکتاتو اللہ پاک اسے اس کے جسم یا مال یا اولاد کی آفت میں مبتلا کردیتا ہے، پھر اسے اس پر صبر بھی دیتا ہے حتی کہ وہ اس درجے تک پہنچ جاتا ہے جو اللہ پاک کی طرف سے اس کے لیے مقدر ہوچکا۔( ابوداؤد،3/246،حدیث:3090)

چوتھا سبب غافل انسان کو خبردار کرنا ہے۔اللہ پاک بندے سے غفلت کی چادر کو اتارنے اور اسے اپنی بندگی اور اطاعت کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اس پر مصائب اتارتا ہے۔چنانچہ فرمانِ باری ہے:وَ لَنُذِیْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(۲۱)(پ21،السجدۃ:21)ترجمۂ کنزُ العِرفان:اور ضرور ہم انہیں بڑے عذاب سے پہلے قریب کا عذاب چکھائیں گے(جسے دیکھنے والا کہے) امید ہے کہ یہ لوگ باز آجائیں گے۔

زندگی کی الجھنوں،مشقتوں اور مصیبتوں کا آخری اور عمومی سبب انسان کی بد عملی،فسق و فجور،خدا کی حکم عدولی اورشریعت کے احکام سے روگردانی ہے۔اللہ پاک جب گناہوں کی وجہ سے اپنے بندے پر ناراض ہوتاہے تو اس پر اپنی رحمت کے دروازے بند کر دیتا ہے اور اس کی زندگی سے راحت و سکون ختم کر دیتا ہے جس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ مسرت و شادمانی کے تمام اسباب و وسائل کے ہوتے ہوئے بھی دل بے چین رہتا ہے۔خلاق ِ عالم نے اپنے مقدس کلام میں بارہا اس حقیقت کو آشکار کیا ہے۔ارشادِ خداوندی ہے:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزالعرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

دوسری جگہ ارشاد ہے :وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰى(۱۲۴)(پ16،طہ:124)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جس نے میرے ذکر سے منہ پھیرا تو بیشک اس کے لیے تنگ زندگی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔

قرآن ِ کریم میں گزشتہ ہلاک شدہ اقوام و امم کا متعدد مقامات پر تذکرہ ہے،اس کا سبب بھی ان کی سرکشی، نافرمانی اور وقت کے نبی کی تعلیمات سے انحراف کو بیان کیا گیا ہے۔نبیِ کریم ﷺ نے بھی اپنے ارشادات میں مختلف گناہوں کو مختلف مصیبتوں کے نازل ہونے کا سبب بتایا ہے۔چنانچہ

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کا ارشاد ہے:اے مہاجرین کے گروہ! جب تم پانچ باتوں میں مبتلا کر دئیے جاؤ (تو اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی) اور میں اللہ پاک سے پناہ طلب کرتا ہوں کہ تم انہیں پاؤ۔(1)جب کسی قوم میں اعلانیہ فحاشی عام ہو جائے گی تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں ظاہر ہو جائیں گی جو ان سے پہلوں میں کبھی ظاہر نہ ہوئی تھیں(جیسے آج کل ایڈز، Aidsوغیرہ)(2) جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جائیں گے تو قحط سالی، شدید تنگی اور بادشاہ کے ظلم کا شکار ہوجائیں گے۔(3)جب زکوٰۃ کی ادائیگی چھوڑ دیں گے تو آسمان سے بارش روک دی جائے گی اور اگر چوپائے نہ ہوتے تو ان پر کبھی بارش نہ برستی۔(4)جب لوگ اللہ پاک اور اس کے رسول کا عہد توڑنے لگیں گے تو اللہ پاک ان پر دشمن مسلط کر دے گا جو ان کا مال وغیرہ سب کچھ چھین لے گا۔(5)جب حکمران اللہ پاک کے قانون کو چھوڑ کر دوسرا قانون اور اللہ پاک کے احکام میں سے کچھ لینے اور کچھ چھوڑنے لگ جائیں گے تو اللہ پاک ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ڈال دے گا۔(ابن ماجہ، 4 /367،حدیث:4019)

مسائل کے حل اوردورکرنے کے سلسلہ میں شریعت نے تین کام کرنے کی ترغیب دی ہے جو غم کو ہلکا کرنے اور دل کی تسلی میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں:(1)صبر کیا جائے(2)صلوۃ الحاجت ادا کی جائےاور (3)تمام آداب کی رعایت رکھتے ہوئے خوب عاجزی اور انکساری سے دعا مانگی جائے۔پھر بھی اگر مصیبت دور نہ ہو تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ پاک نے اس کا اجر آخرت کے لئے ذخیرہ کر لیا ہے یا چھوٹی مصیبت دے کر بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے۔چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو آرام و سکون والے تمنا کریں گے:کاش!دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کاٹ دی گئی ہوتیں۔(ترمذی،4 /180،حدیث:2410)

اللہ پاک ہمیں نفسِ امّارہ کے وار اور شیطان سے محفوظ رکھے،قربِ مصطفےٰ عطا کرے،ریاکاری سے بچائے، ہمارا خاتمہ ایمان پے ہو،رسول اللہ ﷺ کا دیدار کرتے ہوئے جان نکلے اور اللہ پاک ہم سب کو مدینے پاک کی با ادب حاضریاں نصیب فرمائے۔آمین