انسان کی زندگی خوشی وغم کا مجموعہ ہے۔ہر انسان کی زندگی میں جہاں خوشیوں سے بھر پور لمحات آتے ہیں وہی کچھ ایسے بھی لمحات آتے ہیں جو کٹھن ہوتے ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ میری زندگی میں کبھی کوئی غم،مشکل وقت یا تنگی نہیں آئی یا پھر کوئی خوشی یا آسانی نہیں آئی تو یہ حقیقت کے خلاف ہے،کیونکہ ہر انسان کی زندگی میں اچھا اور بُرا وقت آتا ہے۔خواہشات تو بادشاہوں کی بھی رہ جاتی ہیں۔لہٰذا ہمیں دل بڑا رکھنا چاہیے، اللہ پاک کا شکر کرنے کا کوئی نہ کوئی پہلو ڈھونڈ لینا چاہیے، یوں زندگی آسان ہو جائے گی۔اللہ پاک کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے بندے کو مختلف پہلوؤں سےآزماتا ہےلیکن یہ بات یاد رہے کہ بندے کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے رب کو آزمائے۔بندے کاکام ہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے۔وہ جس حال میں بھی رکھے اسی میں راضی رہے اور اس کا شکر ادا کرتارہے۔مصیبتیں آنے کے چند اسباب درج ذیل ہیں :

(1)بعض اوقات خوشی دے کر آزماتا ہے کہ میرا بندہ نعمتیں حاصل کرنے کے بعد بھی عاجزی اختیار کرتا ہے یا متکبر بنتا ہے۔

(2)بعض اوقات غم دے کر آزماتا ہے کہ غم میں بھی میرا بندہ شکر کرتا ہے جیسے خوشی میں شکرکرتا ہے یا نا شکری کرتا ہے۔

(3)بعض اوقات گناہ میں مبتلاانسان پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تاکہ اس کے گناہ کا کفارہ ہو جائے۔

(4)بعض اوقات گناہ گار کو خبردار کرنے کیلئے مصیبت نازل ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ گناہ سے باز آجاتا ہے۔

(5)مصیبت اس لئے بھی نازل ہوتی ہے تاکہ درجات بلند ہوں۔

(6)بعض اوقات چھوٹی آزمائش بہت بڑی مصیبت کی دوری کاسبب بنتی ہے۔

(7)انسان جب مشکل میں ہوتا ہے تو وہ اپنے رب کو پکارتا ہے۔آزمائش ومصیبت پر صبر کرنے پر اللہ پاک سے انعام واکرام اور اللہ پاک کا قرب پاتا ہے۔

بزرگانِ دین فرماتے ہیں:اگر کسی کو خوشیاں اورنعمتیں ہی نعمتیں مل رہی ہیں تو اس کو غور کرنا چاہیے کہ کہیں اس کی نیکیوں اور اچھے کاموں کا صلہ دنیا میں تو نہیں مل رہا!

بہر حال مسلمان خوشحال ہے تو اللہ پاک کا شکر ادا کرکے اور آزمائش و مصیبت میں مبتلا ہے تو اس پر صبر کر کے ثواب کماتا ہے۔اگر سمجھا جائے تو مسلمان کیلئے گھاٹے کا سودا ہے ہی نہیں۔اللہ پاک قرآنِ عظیم،فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵)(پ2،البقرۃ:155)ترجمۂ کنز العرفان:اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھا ہے:آزمائش سے فرمانبردار اور نافرمان کے حال کا ظاہر کرنا مراد ہے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول خوف سے اللہ پاک کا ڈر،بھوک سے رمضان کے روزے، مالوں کی کمی سے زکوٰۃ و صدقات دینا، جانوں کی کمی سے امراض کے ذریعہ اموات ہونا، پھلوں کی کمی سے اولاد کی موت مراد ہے کیونکہ اولاد دل کا پھل ہوتی ہے۔(تفسیر صراط الجنان،1/250)حدیث میں اولاد کو دل کا پھل کہا گیا ہے۔(ترمذی،2/313،حدیث:1023)اللہ پاک ہمیں تمام آلام ومصائب پر صبرو تحمل نصیب فرمائے۔آمینِ بجاہ النبی الامین ﷺ