نگران شوریٰ مولانا عمران عطاری کا اسلام آباد میں طلبہ
کے درمیان سنتوں بھرا بیان

مرکزی
مجلس شوریٰ دعوت اسلامی کے نگران مولانا حاجی محمد عمران عطاری مُدَّ
ظِلُّہُ العالی 17
اگست 2022ء کو اپنے تنظیمی دورے پر عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی سے پاکستان
کے صوبہ پنجاب روانہ ہوگئے۔
پنجاب
پہنچ کر نگران شوریٰ حاجی مولانا محمد عمران عطاری مُدَّ
ظِلُّہُ العالی نے پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد میں قائم
مدنی مرکز فیضان مدینہ میں منعقد کردہ سنتوں بھرے اجتماع میں بیان فرمایا۔ اجتماع
میں اسلام آباد، راولپنڈی، کشمیر اور خیبر پختونخواہ میں قائم جامعات المدینہ کے
طلبہ ، اساتذہ کرام اور ناظمین شریک تھے۔
نگران
شوریٰ نے شرکا کی تربیت کرتے ہوئے انہیں اپنا زیادہ سے زیادہ وقت تعلیم میں خرچ
کرنے، دینی کاموں میں شریک ہونے اور محنت و شوق کے ساتھ علم دین حاصل کرنے کی
ترغیب دلائی۔
اس
موقع پر نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری، اراکین شوریٰ حاجی محمد اسلم عطاری، حاجی
مولانا محمدجنید عطاری مدنی، حاجی مولانا محمد اسد عطاری مدنی اور حاجی محمد رفیع
عطاری بھی موجود تھے۔
.jpeg)
عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے
زیرِ اہتمام پچھلے دنوں مٹیاری حیدرآباد سندھ میں شعبہ مزارات اولیاء کے ذمہ دار
اسلامی بھائیوں نے پاکستان مشائخ بورڈ کے ممبر پیر اکبر علی قادری صاحب سے ملاقات کی۔
اس دوران صوبائی ذمہ دار عاصم عطاری نے انہیں
دنیا بھر میں اسلامی تعلیمات عام کرنےوالے دعوتِ اسلامی کے مختلف شعبہ جات کا
تعارف کروایا جس پر انہوں نے دعوتِ اسلامی کی کاشوں کو سراہا۔بعدازاں صوبائی ذمہ
دار نے پیر اکبر علی قادری صاحب کو مکتبۃ
المدینہ دعوتِ اسلامی کے کُتُب تحفے میں پیش کیں۔(رپورٹ:دانیال ذمہ دار پاکستان آفس، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

دعوتِ اسلامی کے تحت 16 اگست 2022ء بروز منگل بذریعہ انٹر نیٹ مدنی مشورہ منعقد ہوا جس میں شعبہ کفن دفن کےکراچی سٹی ذمہ داران، ڈسٹرکٹ ذمہ داران اور
ٹاؤن ذمہ داران کی شرکت ہوئی۔
مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی منصور عطاری نے
شعبے کے دینی کاموں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف موضوعات پر کلام کیا
اور ذمہ دار اسلامی بھائیوں کو مدنی
پھولوں سے نوازا۔
مزید رکنِ شوریٰ نے مدنی مشورے میں شریک ذمہ
داران کو زیادہ سے زیادہ تدفین کورس کروانے کے اہداف دیئے جس پر انہوں نے اچھی
اچھی نیتوں کا اظہا رکیا۔(رپورٹ:عزیر عطاری رکن شعبہ کفن
دفن ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

شعبہ روحانی علاج دعوتِ اسلامی کے تحت پنجاب پاکستان کے شہر ڈیرہ غازی خان میں مدنی مشورے کا انعقاد
ہوا جس میں ڈسٹرکٹ، تحصیل اور استخارہ کے ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔
ڈویژن ذمہ دار مولانا محمدانیس عطاری مدنی نے اس مدنی مشورے میں ستمبر 2022ء کو ڈیرہ غازی
خان میں 30 مقامات پر ہونے والے دعائے شفاء اجتماع کے حوالے سے گفتگو کی نیز ڈیرہ
غازی خان کے ہر یوسی میں روحانی علاج کے بستے مکمل کرنے کے بارے میں مشاورت ہوئی
جس پر ذمہ داران نے اپنی اپنی رائے کا اظہارکیا۔
آخر میں دعوتِ اسلامی کے 12 دینی کاموں کے سلسلے
میں اہم نکات پر تبادلۂ خیال کیا گیا جس پر ذمہ داران نے اچھی اچھی نیتوں کا
اظہار کیا۔
(رپورٹ:سمیر علی عطاری آفس ذمہ دار، کانٹینٹ:غیاث الدین
عطاری)

دعوتِ اسلامی کے شعبہ جات کے ذریعے دنیا بھر میں
دینی کام عام کرنے والے ذمہ دار اسلامی بھائیوں کے لئے وقتاً فوقتاً مختلف کورسز
کا اہتمام کیا جاتا جس میں اُن کی دینی، اخلاقی اور تنظیمی اعتبار سے تربیت کی
جاتی ہے۔
اسی سلسلے میں پچھلے دنوں شعبہ کفن دفن دعوتِ
اسلامی کے تحت تدفین کورس کا انعقاد کیا گیا جس میں مدرسۃ المدینہ بوائز ڈسٹرکٹ
اوکاڑہ کے ناظمین سمیت دیگر اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔
ڈویژن ذمہ دار لیاقت عطاری نے کورس میں شریک
ناظمین کو غسلِ میت دینے، کفن کاٹنے اور پہنانے کا طریقہ سکھایا نیز کورس مکمل کرنے کے بعد دیگر عاشقانِ رسول کو
بھی اس طرح کے کورسز میں داخلہ دلوانے کا ذہن دیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں
کا اظہار کیا۔(رپورٹ:احمد ندیم عطاری شعبہ تعلیم،
کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
میر پور آزاد جموں و کشمیر میں فیضان آن لائن اکیڈمی
کے شفٹ ذمہ داران کا مدنی مشورہ

دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام میر پور آزاد جموں و کشمیر میں قائم شعبہ فیضان آن لائن
اکیڈمی میں مدنی مشورے کا انعقاد ہوا جس میں شفٹ ذمہ دار اسلامی بھائیوں کی شرکت
رہی۔
رکنِ شعبہ فیضان آن لائن اکیڈمی وحید اعظم عطاری مدنی اور برانچ ناظم سیّد بلال شاہ عطاری
نے اس مدنی مشورے میں ذمہ داران سے شعبے کے دینی کاموں کی سابقہ کارکردگی کا جائزہ لیا۔
اس کے علاوہ رکنِ شعبہ نے ذمہ داران کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے دینی
کاموں میں مزیدبہتری لانے کے حوالے سے ذمہ داران کی ذہن سازی کی۔(رپورٹ:محمد وقار یعقوب مدنی برانچ ناظم فیضان آن لائن
اکیڈمی، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
مفتی ِ دعوتِ اسلامی مفتی محمد فاروق عطاری مدنی
کے ایصالِ ثواب کے لئے سنتوں بھرا اجتماع
.jpg)
دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام عالمی مدنی مرکز
فیضانِ مدینہ کراچی میں مفتیِ دعوتِ اسلامی مفتی محمد فاروق
عطاری مدنی کے ایصالِ ثواب کے لئے سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے عاشقانِ رسول نے شرکت کی۔
دورانِ اجتماع رکنِ مرکزی مجلسِ شوریٰ حاجی محمد
امین عطاری نے سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے مفتی صاحب کےحالاتِ زندگی کے چند واقعات
بیان کئےاوراجتماع میں شریک اسلامی بھائیوں کو مفتی صاحب کی طرح دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں
میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا ذہن دیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔بعدازاں
رکنِ شوریٰ حاجی محمد امین عطاری نے دعا کروائی۔(کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے
عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں 16 اگست 2022ء بروز منگل ایک میٹنگ ہوئی
جس میں کراچی سطح کے شعبہ مدنی قافلہ ذمہ دار اسلامی
بھائیوں کی شرکت رہی۔
اس میٹنگ میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی
محمد امین عطاری نے اسلامی بھائیوں کی دینی، اخلاقی اور تنظیمی اعتبار سے تربیت کی
اور شعبے کے دینی کاموں کا فالو اپ لیا جس پر ذمہ داران نے انہیں شعبے کی سابقہ
کارکردگی کے حوالے سے بریفنگ دی۔
رکنِ شوریٰ حاجی محمد امین عطاری نے ذمہ دار
اسلامی بھائیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں مزید اسی طرح اخلاص کے ساتھ دعوتِ
اسلامی کے دینی کاموں کو کرنے اور دینی ماحول سے ہر دم وابستہ رہنے کا ذہن دیا۔(کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

یومِ
آزادی کے موقع پر دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام پنجاب پاکستان کے شہر لاہور میں
سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں UVAS (یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز) کے اسٹوڈنٹس سمیت کثیر عاشقانِ رسول نے شرکت
کی۔
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی
یعفور رضا عطاری نے ”Philosophy
of Independence “ کے موضوع پر سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے آزادی
کے مقاصد بیان کئے اور ملکِ پاکستان کی
ترقی کے لئے مدنی پھول دیئے۔
بعدازاں رکنِ شوریٰ نے اجتماع میں شریک اسٹوڈنٹس
کو دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے ہر دم وابستہ رہتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے مطابق
زندگی گزارنے کی ترغیب دلائی جس پر انہوں
نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہا رکیا۔(رپورٹ:محمد
ابوبکر عطاری معاون رکن شوری حاجی یعفور رضا عطاری، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

اکثر
والدین کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ بہت ضدی ہو گیا ہے،
بات نہیں مانتا، بد تمیزی کرتا ہے، اپنی من مانی کرتا ہے وغیرہ۔ یاد رہے! بچے
کا ضدی ہونا کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کا حل ممکن نہ ہو۔ کیونکہ یہ کوئی پیدائشی
بیماری نہیں کہ بچے پیدا ہوتے ہی ضدی ہوں، بلکہ ان کے ضدی ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔
بچوں کی تربیت چونکہ کسی مہارت سے کم نہیں لہٰذا والدین پر لازم ہے کہ
ان تمام عوامل پر گہری نظر رکھیں جو بچے کو ضدی بناتے ہیں۔ چنانچہ والدین کی خیر
خواہی کی نیت سے ذیل میں ایسی ہی چند باتوں کا ذکر جا رہا ہے، امید ہے انہیں پیش
نظر رکھنے سے وہ بچوں کے ضدی ہونے کی وجوہات کے علاوہ ان کے حل بھی جان لیں گے۔
بچے کے غصے میں ہونے
کی علامات
بچے
عموماً غصے کی حالت میں ضد کرتے ہیں، لہٰذا
سب سے پہلے وہ علامات جاننا ضروری ہیں جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ بچہ اس وقت
غصے میں ہے۔ چنانچہ جب بچہ غصے کی حالت میں ہو تو ٭اکثر بلند آواز سے روتا ہے تا
کہ اس کی طرف توجہ دی جائے ٭پیروں کو زمین
پر مارتا ہے ٭سر اور ہاتھوں کو دیوار پر مارتا ہے ٭آس پاس کی چیزوں کو لاتیں مارتا
ہے ٭بڑوں سے بد تمیزی کرتا ہے٭بغیر کسی وجہ کے دانتوں
سے کاٹنے لگتا ہے ٭کھلونے وغیرہ توڑنے لگتا ہے ٭ہاتھ میں جو بھی چیز آئے اٹھا کر
پھینک دیتا ہے۔
ضدی پن کے اسباب و وجوہات اور ان کا علاج
بے جا روک ٹوک: بچوں کو ہر
وقت کسی نہ کسی کام یا بات سے روکتے رہنا انہیں ضدی و ڈھیٹ بنا دیتا ہے۔
علاج: بچوں کو ہر
وقت ٹوکنے و منع کرنے کے بجائے انہیں جس کام سے منع کر رہے ہیں اس کے نقصان دہ
ہونے کے متعلق سمجھائیں۔ مثلاً بچہ بار بار گرم برتن کو چھونے کی کوشش کرے تو اسے
بار بار نہ ٹوکیں، بلکہ یہ سمجھائیں اور احساس دلائیں کہ گرم چیزوں کو چھونا کس
قدر نقصان دہ ہے! آپ کا یہ احساس بیدار کرنا اسے ہمیشہ کے لئے ہر گرم شے کو چھوتے
ہوئے احتیاط کا دامن تھامنا سکھا دے گا۔ ان شاء اللہ
بے جا تفتیش: بچے جب بھی کوئی
کام کریں تو ان کی پوچھ گچھ شروع کر دی جائے کہ انہوں نے یہ کام کیوں کیا! یا انہیں ڈانٹا
ڈپٹا جائے تو بسا اوقات ان میں ضد کی
کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
علاج:
بچوں کو ہر وقت بے جا تفتیش کے کٹہرے میں کھڑا رکھیں نہ ان سے سختی سے پیش آئیں کہ
بلا وجہ سختی برداشت کرنے والے بچے بڑے ہو کر احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں، ان
میں خود اعتمادی نہیں رہتی اور انہیں ہر وقت یہی خوف رہتا ہے کہ وہ کچھ غلط کر رہے
ہیں۔ چنانچہ اگر ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو نرمی
سے اس غلطی کا ازالہ کریں اور اپنے اور بچوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم کرنے
کوشش کریں تاکہ وہ اپنی ہر بات آپ کے ساتھ شئیر کر سکیں۔
بے جا لاڈ پیارخواہشات کی تکمیل: اکثر
والدین بچوں سے بے جا لاڈ پیار کرتے ہیں اور بچہ بھی فطری طور پر والدین کے ساتھ
اٹیچ ہوتا ہے، مگر جب وہ کسی موقع پر اس وہم کا شکار ہو جائے کہ اس کے والدین کی
توجہ کا مرکز کوئی اور ہے یعنی وہ کسی اور بچے سے لاڈ پیار کریں تو یہ برداشت نہیں
کر پاتا اور لاشعوری طور پر ضد کرنے لگتا ہے۔اسی طرح بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے
والے والدین اگر کبھی کوئی خواہش پوری نہ کر پائیں یعنی بچے ایسی خواہش کا اظہار
کر دیں جو بر وقت پوری نہ ہو سکتی ہو یا ان کے لئے نقصان دہ ہو تو وہ یوں بھی ضدی
ہونے لگتے ہیں۔ مثلاً ایک حکایت میں ہے کہ
ایک بادشاہ کے یہاں بیٹا نہیں تھا۔ اس نے اپنے وزیر سے کہا: بھئی کبھی اپنے بیٹے
کولے آنا۔ اگلے دن وزیر اپنے بیٹے کو لے کر آیا، بادشاہ نے اسے دیکھا اور پیار
کرنے لگا، پھر بادشاہ نے کہا: اچھا بچے کو آج کے بعد رونے مت دینا۔ اس نے عرض کی: بادشاہ
سلامت! اس کی ہر بات کیسے پوری کی جائے؟ بادشاہ نے کہا: اس میں کون سی بات ہے؟ میں
سب کو کہہ دیتا ہوں کہ بچے کو جس چیز کی ضرورت ہو اسے پورا کر دیا جائے اور اسے
رونے نہ دیا جائے۔ وزیر نے کہا: ٹھیک ہے۔ پھر بچے کی خواہش پر ایک ہاتھی لایا گیا،
جس سے وہ تھوڑی دیر کھیلتا رہا لیکن بعد میں رونا شروع کر دیا، بادشاہ نے پوچھا:
اب کیوں رو رہے ہو؟ اس نے سوئی کے ساتھ کھیلنے کی خواہش ظاہر کی، سوئی پیش کر دی
گئی، مگر تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر رونا
شروع کر دیا، بادشاہ نے کہا: ارے! اب کیوں رو رہا ہے؟ تو وہ کہنے لگا: جی! اس
ہاتھی کو سوئی کے سوراخ میں سے گزار دیں۔
علاج: والدین اگرچہ بچوں
سے حد درجہ مخلص ہوتے ہیں، مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس انمول رشتے کو مزید با اعتماد
بنانے کے لیے بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کیا جائے، فی زمانہ سوشل میڈیا کی
زبان میں یہ رویہ فرینڈلی ہو فرینکلی نہ ہو یعنی رویہ دوستانہ ہو مگر اس میں بے تکلفی نہ ہو۔ چنانچہ بچے کی ہر جائز
خواہش اور مطالبہ ضرور پورا کریں۔ لیکن اگر بچہ کسی کوئی نقصان دہ چیز مانگے یا وہ مہنگی ہو یا اس کے لیے موزوں نہ ہو تو بچے
کو اس شے کے متبادل پر راضی کرنے کی کوشش کریں، اس سے بچے کی ضد ختم کرنے میں بہت
مدد ملے گی۔
باہمی موازنہ کرنا یا یکساں سلوک کا نہ ہونا:بچے کا اپنے
بہن بھائی یا دوسرے بچوں سے موازنہ کرتے رہنا یا بچوں میں یکساں سلوک نہ
رکھنا اور ان میں سے بعض کو بعض پر
ترجیح دینا بھی ان کو ضدی بنا دیتا ہے۔
علاج:جو
بچے یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے انصاف نہیں کیا جا رہا وہ احساسِ کمتری کا شکار ہو کر
اندر ہی اندر ہی کڑھتے رہتے ہیں یا پھر احتجاج کا راستہ اپناتے ہوئے غصے کا اظہار
کرنے لگتے ہیں، چنانچہ والدین کو چاہئے کہ ان امور کا خیال رکھیں اور بچوں کو کبھی
بھی احساسِ کمتری کا شکار نہ ہونے دیں۔
بچے دوسروں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں: بسا
اوقات گھر میں کوئی ایسا فرد بھی ہوتا ہے کہ جس کے رویہ کا بچے پہ اثر پڑتا ہے جیسے
کوئی غصے کا تیز ہے یا پھر ضدی ہے تو اس کے دیکھا دیکھی بچہ بھی اس رویہ کو اپنا
لیتا ہے۔
علاج:ماحول
کا بچے پہ گہرا اثر پڑتا ہے، ایک اچھا ماحول ہی بچے کی مثالی تربیت میں معاون ثابت
ہو سکتا ہے۔
محسوسات کا اظہار نہ کر پانا: بسا اوقات بچوں کو ایسے معاملات کا سامنا ہوتا
ہے جن کا وہ مناسب انداز میں اظہار نہیں کر پاتے تو ان میں چڑ چڑا پن اور ضد کی
کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، مثلاً نیند آنا، بھوک محسوس کرنا یا سردی و گرمی لگنا
وغیرہ۔ گرمی کی وجہ سے بچوں میں یہ کیفیت اکثر دیکھی گئی ہے۔
علاج:3بچے کو اٹھا کر
سینے سے لگا لیں اور یونہی کچھ دیر مضبوطی سے تھامے رکھیں یا پھر اس سے بات چیت کریں۔
مگر اس حالت میں بچے کو بالکل نظر انداز نہ کریں۔ 3اس
حالت میں بچے کی تعریف کریں، اس کی اچھائیاں بیان کریں۔ 3ایسی
حالت میں بچے کا پہلے سکون سے جائزہ لیں اور اس کی ضد کی وجہ جاننے کی کوشش کریں
مگر اس کے ساتھ کوئی سختی مت برتیں۔ 3
بچے کی بوریت دور کرنے کے لئے ہر وقت اس کا ایک آدھ پسندیدہ کھلونا اپنے پاس یا
قریب ہی رکھیں۔
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)

یقیناًآزادی
ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اللہ پاک نے بھی نعمت ملنے پر خوشی منانے کا حکم دیا ہے، لہٰذا 14 اگست 1947ء بمطابق 27 رمضان المبارک 1366ہجری
کے جس مبارک دن ہمارا پیارا وطن پاکستان آزاد ہوا ہمیں اِس دن خوشیاں مناتے ہوئے اس بات کا بھی
احساس رہنا چاہئے کہ جس مالکِ حقیقی نے ہمیں اس عظیم الشان نعمت سے نوازا ہے اس کی
اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے اس کا شکر بھی بجا لایا جائے۔ مگر افسوس! ہمیں اسلامی
تعلیمات یاد ہیں نہ قیامِ پاکستان کے مقاصد۔ حالانکہ یہ ملک مذہب کے نام پر بنا
اور ایک آزاد ملک کی فضاؤں میں سانس لینے کی آرزو میں ہزاروں لاکھوں مسلمانوں نے
مال و جان وغیرہ کی قربانیاں دیں، مگر افسوس! ہمیں کچھ بھی یاد نہیں۔
بحیثیت
قوم ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس دن ہم اپنے محسنوں کو یاد کر کے کم از کم انہیں
خراجِ عقیدت ہی پیش کر دیتے مگر افسوس! ہماری حالت یہ ہے کہ 13 اگست کو سرشام ہی
یہ انتظار کرنے لگتے ہیں کہ کب رات کے 12 بجیں اور جشنِ آزادی کے نام پر کان پھاڑ دینے
والے جدید ترین ساؤنڈ سسٹم کے ذریعے بے ہنگم موسیقی بجانے، ہوائی
فائرنگ و آتش بازی کرنے اور بم پٹاخے پھوڑنے جیسی خرافات کا سلسلہ شروع ہو۔
حالانکہ ان خرافات کے سبب نزدیک رہنے والے مریضوں، بوڑھوں اور گھریلو خواتین کو
رات بھر سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چھوٹے بچے خوف سے کانپ جاتے ہیں، شیر
خوار بچے ہڑ بڑا کر اُٹھ جاتے اور رو رو
کر بُرا حال کر لیتے ہیں۔
پھر
اسی پر بس نہیں ہوتی بلکہ سڑکوں پر ہلڑ بازی کی جاتی ہے، موٹر سائیکل یا کار کے سائلنسر نکال دئیے جاتے ہیں جن سے نکلنے
والی مکروہ آواز سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، تفریحی مقامات پر رش بڑھ جاتا
ہے جہاں مردوں اور عورتوں کے بدن آپس میں
ٹکرا رہے ہوتے ہیں، بد نگاہیاں اور بے حیائیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں، اجنبی لڑکے لڑکیوں میں میل ملاپ اور تحفے تحائف کا لین دین کا سلسلہ ہوتا ہے، اپنے تئیں جدید
تہذیب کی کئی خواتین تنگ اور نیم عریاں لباس پہن کر مردوں کے شانہ بشانہ اس گناہ
میں خود بھی شریک ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ
سال جشنِ آزادی کے موقع پر مینارِ پاکستان پر ایسا ہی ایک نہایت دلخراش واقعہ سوشل
میڈیا پر بہت زیادہ وائرل بھی ہوا تھا۔ اس واقعے سے پوری دنیا میں جہاں ہمارے پاک
وطن کی جگ ہنسائی ہوئی وہیں ہمارے اسلاف کی ارواح کو بھی تکلیف ہوئی ہو گی کہ جس
وطن کی خاطر انہوں نے قربانیاں دی تھیں آج اسی وطن کی بہو بیٹیاں یوں سر عام لوگوں
کو دعوتِ نظارہ دیتی پھر رہی ہیں۔ ان اشعار میں شاید آج ہی کے معاشرے کی عکاسی کی
گئی ہے:
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تنِ آسانی ہے
تم مسلماں ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے
حیدری فقر ہے،نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو کیا اسلاف سے نسبت روحانی ہے
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
جشن آزادی کی خوشی میں کیا کرنا چاہئے؟٭اس دن اللہ
پاک کے حضور سجدہ ریز ہوا جائے اور اس کا شکر بجا لایا جائے کہ اس نے ہمیں غلامی
سے نجات اور آزادی کی نعمت عطا فرمائی ٭تحریکِ آزادی میں شامل علمائے اہلِ سنت اور
شہدائے کرام کے ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کا اہتمام کیا جائے ٭ شکرانے کے نفل ادا کئے جائیں ٭صدقہ و
خیرات کیا جائے ٭قرآن خوانی کا
اہتمام کیا جائے ٭محارم رشتے داروں، سہیلیوں اور پڑوسنوں کو مبارک باد اور تحائف
پیش کئے جائیں ٭قیامِ پاکستان کے مقاصد کو اجاگر کیا جائے ٭اپنے گھر، مدرسے اور جامعہ پر
سبز ہلالی پرچم لہرایا جائے اور دوسرے دن اتار لیا جائے تاکہ اس کا تقدس برقرار
رہے ٭ملکِ پاکستان کی بقا و خوش حالی کے
لئے خصوصی دعائیں کی جائیں Pوطن
کی حفاظت کے لئے اپنے تن، من، دھن کی قربانی دینے کے جذبے کا اظہار کیا جائےPصرف
ایسی نظمیں پڑھی اور سنی جائیں جو موسیقی اور غیر شرعی الفاظ سے پاک ہوں ٭اس
دن ہونے والی خرافات سے خود بھی بچا جائے اور اپنی اولاد کو بھی بچایا جائے٭ٹی وی
اور سوشل میڈیا جشنِ آزادی کی خرافات کو پھیلانے کا بھی ذریعہ ہے اور بچنے کا بھی،
لہٰذا جشنِ آزادی کی خرافات سے بچنے کیلئے
اس دن صرف اور صرف مدنی چینل ہی دیکھئے٭دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net
کا وزٹ کیجئے یا سوشل میڈیا پر بنے دعوتِ
اسلامی کے مختلف آفیشل یوٹیوب چینلز اور معلوماتی پیجز کا وزٹ کیجئے۔
یاد
رکھئے! معاشرتی برائیوں کو روکنا جس طرح مردوں پر لازم ہے اسی طرح خواتین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے
اپنے منصب و حیثیت کے مطابق معاشرے میں رائج برائیوں کا خاتمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جس طرح پاکستان بنانے میں
خواتین نے بھر پور کردار ادا کیا تھا اسی طرح پاکستان بچانے میں بھی خواتین کو
کردار ادا کرنا ہو گا۔
اپنے
بچوں کی اچھی تربیت کر کے تقریباتِ جشنِ آزادی کی خرافات کی روک تھام کے لئے
خواتین اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، لہٰذا خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی اس
حسین انداز میں تربیت کریں کہ آگے چل کر
وہ دیگر معاشرتی برائیوں سمیت جشنِ آزادی
پر ہونے والی خرافات سے دور رہے۔ اس ضمن میں چند معاون گزارشات پیشِ خدمت ہیں:
(1)بچپن سے ہی اپنے بچوں کی تربیت
اسلامی اصولوں کے مطابق کیجئے تا کہ بڑے ہوں تو یہ اسلام کے شیدائی بن کر معاشرتی
برائیوں کا سد ِّباب کر سکیں۔
(2)بچوں کو اپنے اسلاف کی قربانیوں کے
بارے میں بتائیے تاکہ ان میں ملک کی خدمت کرنے کا جذبہ صحیح معنوں میں پیدا ہو
سکے۔
(3)گھر میں دینی ماحول بنائیے، کیونکہ
جب گھر کا ماحول دینی ہو گا تو ہمارا معاشرہ بہتری کی جانب گامزن ہو سکتا ہے، اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ روزانہ گھر میں کم سے کم ایک گھنٹہ 20منٹ مدنی چینل چلائیے تا کہ آپ کے بچوں کا رحجان
دین کی طرف بڑھے۔
(4)بچوں کو قیامِ پاکستان کا اصل مقصد
بتائیے۔
(5)بچیوں کو پردہ کرنے کی ترغیب دینے
سے پہلے خود پر پردہ نافذ کیجئے، کیونکہ بچے اپنے بڑوں کو جو کرتا دیکھتے ہیں وہ
بھی ویسا ہی کرتے ہیں۔
(6)اپنے بچوں کو ایسی چیزیں خرید کر ہی
نہ دیجئے جن سے جشنِ آزادی میں ہونے والی خرافات جنم لیں مثلاً باجے وغیرہ۔
(7)بچوں کو ایسے کاموں کی بھی ہر گز
اجازت مت دیجئے جن سے دوسروں کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ جیسے موٹر سائیکل سے سائلنسر
نکالنا۔
اللہ
پاک ہمارے حالوں پر رحم فرمائے، ہمیں اپنے وطن کی قدر کرنے کی توفیق عطا کرے اور
ہمارے وطن کو صبحِ قیامت تک سلامت رکھے اور اسے اسلام کا قلعہ بنائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)

جب تک انسان صحت مند رہتا ہے یا اس کے پاس طرح طرح کی نعمتیں ہوتی ہیں تو کیا
اپنے اور کیا غیر سبھی اس کے گن گاتے اور اس کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں، لیکن جیسے ہی اس پر کوئی مصیبت
و آزمائش آ جاتی ہے یا وہ کسی موذی مرض کا
شکار ہوتا ہے تو وہی لوگ اسے بے یار و مدد گار چھوڑ کر کسی بھولی بِسری چیز کی طرح
بھلا دیتے ہیں، حتی کہ وہ بیوی جس کی ہر
فرمائش اس نے پوری کی تھی اور اس کے ناز نخرے برداشت کئے تھے، وہ بھی
اپنا ساز و سامان اُٹھا کر ہمیشہ کے لئے اسے داغِ مفارقت دے جاتی ہے۔ لیکن
قربان جائیے! حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ محترمہ پر! جو تاریخ ِ انسانی کی وہ
عظیم ترین خاتون ہیں جنہوں نے وفا شعاری
کی اعلیٰ مثال قائم کی، یوں کہ مال و اولاد کی محرومی پر صبر کیا، شوہر پر آنے
والی مصیبتوں کو بڑے صبر اور ہمت و حوصلے سے برداشت کیا، مصیبت کی اس گھڑی میں
انہیں تنہا چھوڑنے کے بجائے 18 سال کا طویل عرصہ ان کا ساتھ نبھایا اور ہر دکھ درد
میں اپنے شوہر کے شانہ بشانہ رہیں، جس کے صلے میں ربِّ کریم نے انہیں اپنی نعمتوں
اور خاص رحمت سے سرفراز فرمایا۔
مختصر تعارف: اللہ پاک کے صابر و شاکر پیغمبر حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ
محترمہ کے نام میں مورخین و مفسرین کا اختلاف ہے، البتہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے
کہ آپ حضرت یوسف علیہ السلام کی پوتی تھیں ([1])جو
شکل و صورت میں حضرت یوسف علیہ السلام سے بہت زیادہ مشابہ تھیں۔(2)
اِزدواجی زندگی:حضرت ایوب علیہ السلام نے 30 سال کی عمر
میں آپ سے شادی فرمائی۔(3)اللہ پاک نے آپ کو 7 بیٹوں اور7 بیٹیوں سے
نوازا تھا جو حضرت ایوب علیہ السلام پر آنے والی آزمائش کے دوران وفات پاگئے
تھے،جب ان کی آزمائش ختم ہوئی تو اللہ پاک
نے انہیں دوبارہ اتنے ہی بیٹے اور بیٹیاں عطا فرمائیں(یعنی آپ کو ٹوٹل 28 بیٹے
بیٹیاں عطا ہوئے تھے۔)(4)
اوصاف:آپ
حضرت ایوب علیہ السلام کو پہنچنے والی
آزمائش میں ان کے ساتھ صبر و شکر کے ساتھ رہیں، ان کے لئے کھانا تیار کرتیں اور ربِّ کریم کی حمد و ثنا بجا لاتی تھیں۔(5)نیز آپ
نہایت عبادت گزار خاتون تھیں۔(6)
فضلِ خداوندی: حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ
اللہِ علیہ
فرماتے ہیں: حضرت ایوب علیہ السّلام کی بیماری کے
بعد ربِّ کریم نے آپ کی بیوی صاحبہ رحمت کو جوانی و صحت بخشی، اولاد بہت عطا کی، مال
اندازے سے بھی زیادہ عطا فرمایا۔(7)
شرعی مسئلے کا ثبوت: مفسرینِ کرام
فرماتے ہیں:بیماری کے زمانے میں حضرت ایوب علیہ
السلام کی زوجہ ایک بار کہیں کام سے گئیں تو دیر سے خدمت میں حاضر ہوئیں، چونکہ آپ تکلیف و
کمزوری کی وجہ سے بہت سے کام خود نہ کر پاتے تھے اور زوجہ ہی مدد گار تھیں
تو زوجہ کی غیر موجودگی میں غالباً سخت آزمائش کا معاملہ آیا جس سے بے قرار ہو کر آپ نے قسم کھائی کہ میں تندرست ہو کر تمہیں سو
کوڑے ماروں گا۔ جب حضرت ایوب علیہ
السلام صحت یاب ہوئے تو اللہ پاک نے
حکم دیا کہ آپ انہیں جھاڑو مار دیں اور اپنی قسم نہ توڑیں، لہٰذا انہوں نے
سو تیلیوں والا ایک جھاڑو لے کر اپنی زوجہ کو ایک ہی بار مار دیا۔(8)اس کا
ذکر قرآنِ کریم میں یوں ہوا ہے: وَ خُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْ١ؕ(پ23،صٓ:44)ترجمہ:اور(فرمایا)اپنے
ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار دو اور قسم نہ توڑو۔ جبکہ ایک روایت میں حضرت
سعید بن مسیّب رحمۃُ
اللہِ علیہ
فرماتے ہیں: مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنی بیوی کو سو
چھڑی مارنے کی قسم کھائی کہ بیوی محنت سے روٹی مہیا کرتی تھیں، ایک روز اس نے زائد
روٹی آپ کی خدمت میں پیش کی جس پر آپ کو خطرہ محسوس ہوا کہ ہو سکتا ہے یہ زائد
خوراک کسی کے مال میں خیانت کر کے لائی ہیں، تو جب اﷲ پاک کی طرف سے آپ پر خاص
رحمت کے ذریعے تکلیف کی شدت ختم ہوئی اور بیوی کے متعلق جو آپ کو شبہ تھا اس کی
برأت معلوم ہوئی تو اﷲ پاک نے فرمایا: آپ ایک مُٹّھا(گُچھا) لے کر اپنے ہاتھ سے اس
کو مار دیں اور قسم نہ توڑیں۔ (پ23،صٓ:44)تو آپ نے شاخوں کا ایک مُٹّھا (گُچھا)جو
سو چھڑیوں کا مجموعہ تھا، لے کر اللہ پاک کے حکم کے مطابق بیوی کو مارا۔ (9)
اس
واقعے سے علمائے کرام نے حیلہ شرعی کا جواز ثابت کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ جو حیلہ کسی کا حق مارنے یا اس میں شبہ پیدا
کرنے یا باطل سے فریب دینے کے لئے کیا جائے وہ مکروہ ہے اور جو حیلہ اس لئے کیا جائے
کہ آدمی حرام سے بچ جائے يا حلال کو حاصل کر لے وہ اچھا ہے۔ اس قسم کے حیلوں کے
جائز ہونے کی دلیل مذکورہ واقعہ ہی ہے۔ (10)
حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ پر رحمت اورتخفیف کا سبب: مفسرِ
قرآن ابو سعود محمد آفندی رحمۃُ اللہِ علیہ کے
مطابق حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ پر اس رحمت اورتخفیف کا سبب یہ ہے کہ بیماری
کے زمانے میں انہوں نے اپنے شوہر کی بہت اچھی طرح خدمت کی اور آپ کے شوہر آپ سے
راضی ہوئے تو اس کی برکت سے اللہ کریم نے آپ پر یہ آسانی فرمائی۔(11)
وصال: آپ
حضرت ایوب علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ میں ہی انتقال کر گئی تھیں، جبکہ ایک قول کے مطابق آپ حضرت ایوب علیہ
السلام کے وصال کے بعد کچھ عرصہ حیات رہیں اور بعدِ وصال ملکِ شام میں آپ کو دفن
کیا گیا۔(12)
زوجۂ ایوب کی سیرت سے حاصل ہونے والے نکات:
· اللہ
پاک کی نیک بندیاں مصیبتوں اور تکلیفوں سے گھبراتی نہیں بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرتی
ہیں۔
· اپنے
کسی عمل سے بے صبری کا اظہار نہیں کرتیں۔
· لمبا
عرصہ آزمائش میں گھرے رہنے کے باوجود بھی ان کی زبانیں شکوہ شکایات کی آلودگی سے
آلودہ نہیں ہوتیں۔
· یہ
خوش حالی اور آزمائش ہر حال میں اپنے رب کی رضا پر راضی رہتیں اور صبر و شکر کا
دامن نہیں چھوڑتیں۔
· ان
کے شوہر کیسی ہی سخت ترین بیماری میں
مبتلا ہو جائیں، ان کا اللہ پاک کی ذات پر بھروسا کمزور نہیں ہوتا۔
· وہ
شوہر کی خدمت گزاری میں کمی بھی نہیں آنے دیتیں بلکہ اپنے اس عظیم محسن کا مضبوط
سہارا بن کر آخری دم تک ان کا ساتھ نبھاتی
ہیں۔
· اللہ
پاک شوہر کی اطاعت و خدمت گزار بیوی سے راضی ہو کر اسے دنیا کے اندر ہی بے پناہ
نعمتوں اور خاص فضل و کرم سے نوازتا ہے۔
اللہ
کریم تمام عورتوں خصوصاً شادی شدہ خواتین کو ان پاکیزہ ہستیوں کا صدقہ نصیب
فرمائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1] عجائب القرآن مع غرائب القرآن،ص181 2 نہایۃ
الارب،13/135 3
نہایۃ الارب،13/135 4 تفسیر قرطبی،6/188 5 تفسیر کبیر،8/ 173 6 نہایۃ
الارب،13/135 7 مراۃ المناجیح،7/575 8 تفسیر بیضاوی،5/49 9 تفسیر در منثور،7/195 0 فتاویٰ ہندیۃ،6/390 A تفسیرابو سعود،4/444ملخصاً B الروضۃ الفیحاء،ص71