اللہ پاک نے ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ہمیں جمعہ  عطا فرمایا ہے اس کے بے شمار فضائل ہیں چند احادیث پیش خدمت ہیں: (1) حدیث پاک میں ہے جو جمعہ کو ناخن ترشوائے وہ اگلے جمعے تک بلاؤں سے محفوظ رہے گا ۔(بہار شریعت حصہ 16 ص 226(

آخری نبی حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جمعہ مساکین کا حج ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ جمعہ غریبوں کا حج ہے۔(جمع الجوامع للسیوطی ،4/ 84)

حضور نے ارشاد فرمایا: بلا شبہ تمہارے لئے جمعہ میں حج اور عمرہ ہے، جمعہ کیلئے جلدی جانا حج ہے اور عصر کی نماز کا انتظار کرنا عمرہ ہے۔(احیاءالعلوم ،1/ 249)

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جمعہ تمام دنوں کا سردار ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے اور وہ اللہ کے نزدیک عید الاضحیٰ اور عید الفطر سے بڑا ہے اس میں پانچ خصلتیں ہیں: (1) اللہ پاک نے اس میں حضرت آدم کو پیدا کیا (2)اسی میں انہیں زمین پر اتارا (3) اسی میں انہیں وفات دی(4)اسی میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ جو مانگے اللہ پاک دے گا جب تک کہ بندہ حرام کا سوال نہ کرے (5) اور اسی میں قیامت قائم ہو گی۔) سنن ابن ماجہ ،2/ 8)

سردار مکہ مکرمہ تاجدار مدینہ منورہ آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جمعہ میں ایک ایسی گھڑی ہے جو مسلمان اس میں کچھ مانگے تو اللہ پاک ضرور عطا کرے گا اور وہ گھڑی مختصر ہے۔(صحیح مسلم، ص 424)


جمعہ   کا لغوی معنیٰ کیا ہے؟: روزِ جمعہ اس دن کا نام عربی زبان میں عروبہ تھا جمعہ اس کو اس لئے کہا جاتا ہے کہ نماز کے لئے جماعتوں کا اجتماع ہوتا ہے۔

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پہلا جمعہ کب ادا فرمایا؟: پہلا جمعہ جو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اصحاب کے ساتھ پڑھا اصحابِ سیَر کا بیان ہے کہ حضور علیہ السلام جب ہجرت کرکے مدینہ طیّبہ تشریف لائے تو بارہویں ربیع الاوّل روزِ دوشنبہ کو چاشت کے وقت مقامِ قباء میں اقامت فرمائی دو شنبہ ، سہ شنبہ ، چہار شنبہ ، پنج شنبہ یہاں قیام فرمایا اور مسجد کی بنیاد رکھی روزِ جمعہ مدینہ طیّبہ کا عزم فرمایا بنی سالم بن عوف کے بطنِ وادی میں جمعہ کا وقت آیا اس جگہ کو لوگوں نے مسجد بنایا سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہاں جمعہ پڑھایا اور خطبہ فرمایا۔ جمعہ کا دن سیّدُ الایام ہے جو مؤمن اس روز مرے حدیث شریف میں ہے کہ اللہ پاک اس کو شہید کا ثواب عطا فرماتا ہے اور فتنۂِ قبر سے محفوظ رکھتا ہے ۔

جمعہ کی فضیلت و اہمیت پر بےشمار احادیث مبارکہ ہیں جن میں سے پانچ ملاحظہ کیجئے۔

حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میں نے قصد کیا کہ ایک شخص کو نماز پڑھانے کا حکم دوں اور جو لوگ جمعہ سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کے گھروں کو جلا دو۔)بہار شریعت ، 1/758(

حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اللہ پاک کسی مسلمان کو جمعہ کے دن بے مغفرت کیے نہ چھوڑے گا۔(بہار شریعت،1/755(

ابو یعلیٰ نے انھیں سے روایت کیا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : جمعہ کے دن اور رات میں چوبیس گھنٹے ہیں کوئی گھنٹہ ایسا نہیں جس میں اللہ پاک جہنم سے چھ لاکھ آزاد نہ کرتا ہو جن پر جہنم واجب ہو گیا تھا۔)بہار شریعت ،1/755(

حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ میرے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بہتر دن یہ کہ آفتاب نے اس پر طلوع کیا جمعہ کا دن ہے کہ اسی دن حضرت سیدنا آدم علیہ السّلام پیدا کیے گئے اور اسی دن جنّت میں داخل کیے گئے اور اسی دن انھیں جنّت سے اترنے کا حکم ہوا۔ اور جمعہ ہی کہ دن قیامت واقع ہوگی۔)بہار شریعت ،1/753(

حضرت سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جمعہ کفارہ ہے ان گناہوں کے لیے جو اس کے بعد والے جمعہ کے درمیان ہیں اور تین دن زیادہ اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ پاک فرماتا ہے جو ایک نیکی کرے اس کے لیے دس مثل ہے۔)بہار شریعت ،1/757(

اللہ پاک ہمیں جمعہ کے دن کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس دن خوب اپنے رب کی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔(پ28،الجمعۃ:09)

جمعہ کی وجہِ تَسمِیَہ :عربی زبان میں اس دن کا نام عروبہ تھا بعد میں جمعہ رکھا گیا اور سب سے پہلے جس شخص نے اس دن کا نام جمعہ رکھا وہ کعب بن لُوی ہیں ۔اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف اَقوال ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے جمعہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس دن نماز کیلئے جماعتوں کا اجتماع ہوتا ہے ۔( خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: 9، 4 / 265)

اسلام میں جمعۃ المبارک کے دن کو بڑی فضیلت حاصل ہے، یہاں تک کہ قراٰن پاک کی ایک پوری سورت’’سورۂ جمعہ “ کے نام سے نازل ہوئی ہے، جس میں نمازِ جمعہ کی فرضیت اور دیگر احکام بیان کئے گئے ہیں۔ جمعۃ المبارک کے چند فضائل ملاحظہ کیجئے: جمعہ غریبوں کا حج ہے سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اَلْجمعۃُ حَجُّ الْمَسَاکِیْن یعنی جمعہ مساکین کا حج ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ اَلْجمعۃُحَجُّ الْفُقَرَاء یعنی جمعہ غریبوں کا حج ہے۔ (کنزالعمال، جز:7 ،4/290، حدیث: 21027،21028)جو شخص حج کے لئے جانے سے عاجِز ہو اس کا جمعہ کے دن مسجد کی طرف جانا حج کی طرح ہے۔( حدیث:3636)

ستّر گُنا ثواب: حکیمُ الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ اللہ المنان کے فرمان کے مطابق، جمعہ کو حج ہو تو اس کا ثواب ستَّر حج کے برابر ہے، جمعہ کی ایک نیکی کا ثواب ستّرگنا ہے۔ (چونکہ جمعہ کا شرف بہت زیادہ ہے لہٰذا) جمعہ کے روز گناہ کاعذاب بھی ستّرگناہے۔ (مراٰۃالمناجیح،2/ 325،323، 336)

جمعہ کے دن کی جانے والی چند نیکیاں: جمعہ کے دن نمازِ جمعہ سے قبل اور بعد کئی ایسی نیکیاں ہیں جنہیں بجا لا کر ہم ثواب کا عظیم خزانہ حاصل کرسکتے ہیں، نمازِ جمعہ کی تیاری سے متعلق چند نیکیاں ملاحظہ کیجئے:

(1) ناخن تراشئے: جمعہ کے دن ناخن تراشنا اور مونچھوں کو کتروانا ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک عادت تھی۔ (شعب الایمان،3/24، حدیث: 2763) جمعہ کے دن ناخن کاٹنا حصولِ شفا کا سبب ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن ناخن کاٹتا ہے اللہ پاک اس سے بیماری نکال کر شِفا داخل کردیتا ہے۔ (حدیث: 5325) جمعہ کے دن ناخن تَرَشْوانا مستحب ہے، ہاں اگر زیادہ بڑھ گئے ہوں تو جمعہ کا انتظار نہ کرے کہ ناخن بڑا ہونا اچھا نہیں کیونکہ ناخنوں کا بڑا ہونا تنگیٔ رزق کا سبب ہے۔ (بہارشریعت،3/582)

(2)غسل کیجئے، خوشبو لگائیے اور اچھے کپڑے پہنئے: فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور اچھے کپڑے پہنے پھر اگر اس کے پاس خوشبو تھی تو اسے لگایا، پھر جمعہ کے لئے سکون و وقار کے ساتھ چلا اور کسی کی گردن نہ پھلانگی ( اس طرح کہ نہ تو لوگوں کی گردنیں پھلانگے اور نہ ساتھیوں کو چیر کر ان کے درمیان بیٹھے بلکہ جہاں جگہ ملے وہاں بیٹھ جائے) اور نہ کسی کو تکلیف پہنچائی، پھر نماز ادا کی اور امام کے لوٹنے تک انتظار کیا تو اس کے دو جمعوں کے درمیان کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (مجمع الزوائد، 2/385، حدیث:3039،مراٰۃ المناجیح، 2/334) معجمِ اوسط میں ہے کہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے جمعہ کے دن پہننے کے لئے مخصوص لباس تھا۔ (معجم اوسط، 2/352، حدیث:3516) (3)نیا لباس جمعہ کے دن پہنیں جب کبھی نيا لباس سلوائیں تو جمعہ کے دن سے پہننا شروع کریں کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عام طور پر نیا لباس جمعہ کے دن زیبِ تن فرمایا کرتے تھے۔ (جامع صغیر، ص408، حدیث:6563)

تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم َکا پہلا جمعہ :سیرت بیان کرنے والے علما کا بیان ہے کہ جب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو 12 ربیع الاوّل ،پیر کے دن، چاشت کے وقت قباء کے مقام پر ٹھہرے، پیر سے لے کر جمعرات تک یہاں قیام فرمایا اور مسجد کی بنیاد رکھی ، جمعہ کے دن مدینہ طیبہ جانے کا عزم فرمایا، بنی سالم بن عوف کی وادی کے درمیان جمعہ کا وقت آیا، اس جگہ کو لوگوں نے مسجد بنایا اور سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہاں جمعہ پڑھایا اور خطبہ فرمایا۔ یہ پہلا جمعہ ہے جو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اَصحاب رضی اللہُ عنہمْ کے ساتھ پڑھا۔( خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: 9، 4 / 266)

اَحادیث میں جمعہ کے دن کے فضائل:

(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بہتر دن جس پر سورج نے طلوع کیا، جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم علیہ السّلام پیدا کیے گئے ، اسی میں جنّت میں داخل کیے گئے اور اسی میں انہیں جنّت سے اترنے کا حکم ہوا اور قیامت جمعہ ہی کے دن قائم ہوگی۔(مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص425، حدیث: 854)

(2)حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن مجھ پر درُود کی کثرت کرو کہ یہ دن مشہود ہے، اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور مجھ پر جو درُود پڑھے گا پیش کیا جائے گا۔ حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ کہتے ہیں : میں نے عرض کی اور موت کے بعد؟ ارشاد فرمایا: بے شک! اللہ پاک نے زمین پر انبیاء ِکرام علیہمُ السّلام کے جسم کھانا حرام کر دیا ہے، اللہ پاک کا نبی زندہ ہے، روزی دیا جاتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، 2 / 291، حدیث: 1637)

جمعہ کے دن دعا قبول ہونے کی گھڑی:جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہے جس میں اللہ پاک خاص طور پر دعا قبول فرماتا ہے ،جیسا کہ اوپر حدیث میں بیان ہو ا اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جمعہ کے دن کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اس میں ایک ساعت ہے، جو مسلمان بندہ اسے پائے اور وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو تو اللہ پاک سے جو چیز مانگے گا وہی عطا فرما دی جائے گی ،اور ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ وقت بہت تھوڑا ہے۔( بخاری، کتاب الجمعۃ، باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ، 1 / 321، حدیث: 935)

یاد رہے کہ وہ کون سا وقت ہے اس بارے میں روایتیں بہت ہیں ،ان میں سے دو قوی ہیں : (1) وہ وقت امام کے خطبہ کے لیے بیٹھنے سے نماز ختم تک ہے۔(2)وہ جمعہ کی آخری ساعت ہے۔( بہار شریعت، حصہ چہارم، جمعہ کا بیان، 1 / 754، ملخصاً)

جمعہ کی نماز چھوڑنے کی وعیدیں: اَحادیث میں جہاں نمازِ جمعہ کے فضائل بیان کئے گئے ہیں وہیں جمعہ کی نماز چھوڑنے پر وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آئیں گے یا اللہ پاک ان کے دلوں پر مہر کر دے گا، پھر وہ غافلین میں سے ہو جائیں گے۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب التغلیظ فی ترک الجمعۃ، ص430، حدیث:865)


انفاق فی سبیل اللہ کے متعلق مختصر تمہیدی گفتگو: ہر مسلمان کو چاہئے کہ انفاق فی سبیل اللہ کرتے رہے تاکہ اللہ اور اس کے رسول کا قرب حاصل کر سکے۔ راہِ خدا میں انفاق کرکے وہ مقام و مرتبہ حاصل کر سکتے ہیں جو ہر کوئی نہیں کر سکتا ہے۔ اگر اللہ نے آپ کو مال دیا ہے تو ضرور نیک کاموں میں خرچ کرے۔ حشر کے میدان میں کوئی بھی چیز فائدہ نہیں دے گی۔ دنیوی دوستی بھی بیکار ہو گی بلکہ ماں باپ بھی اپنی اولاد سے جان چھڑا رہے ہونگے۔ ہر عزیر و اقرباء ایک دوسرے سے بھاگ رہے ہوں گے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ آخرت کا فکر کرتے ہوئے نیک و جائز کاموں میں اپنا مال انفاق کرے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے حکم بھی دیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌؕ-وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۲۵۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اللہ کی راہ میں ہمارے دئیے میں سے خرچ کرو وہ دن آنے سے پہلے جس میں نہ خریدفروخت ہے نہ کافروں کے لیے دوستی اور نہ شفاعت اور کافر خود ہی ظالم ہیں ۔(پ3،البقرۃ:254)

فکرآخرت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ قیامت کے آنے سے پہلے پہلے راہِ خدا میں اللہ پاک کا دیا ہوا مال خر چ کرلو۔ قیامت کا دن بڑی ہیبت والا ہے، اس دن مال کسی کو بھی فائدہ نہ دے گا اور دنیوی دوستیاں بھی بیکار ہوں گی بلکہ باپ بیٹے بھی ایک دوسرے سے جان چھڑا رہے ہوں گے اور کافروں کو کسی کی سفارش کام نہ دے گی اور نہ دنیوی انداز میں کوئی کسی کی سفارش کرسکے گا۔ صرف اِذنِ الٰہی سے اللہ پاک کے مقبول بندے شفاعت کریں گے جیسا کہ اگلی آیت یعنی آیتُ الکرسی میں آرہا ہے اور مال کا فائدہ بھی آخرت میں اسی صورت میں ہے جب دنیا میں اسے نیک کاموں میں خرچ کیا ہو اور دوستیوں میں سے بھی نیک لوگوں کی دوستیاں کام آئیں گی۔ (صراط الجنان)

جو راہ خدا میں انفاق کرتے ہیں اسے اللہ رب العزت ایک مثال کے ذریعے بیان کر رہا ہے۔چنانچہ ارشاد فرمایا: مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)ترجمہ کنز الایمان: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔(پ3،البقرۃ:261)

راہِ خدا میں خرچ کرنے والوں کی فضیلت ایک مثال کے ذریعے بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو گنا زیادہ حاصل کرتا ہے ، اسی طرح جو شخص راہِ خدامیں خرچ کرتا ہے اللہ پاک اسے اس کے اخلاص کے اعتبار سے سات سو گنا زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں بلکہ اللہ پاک کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور وہ کریم و جواد ہے جس کیلئے چاہے اسے اس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرما دے چنانچہ کئی جگہ پر اس سے بھی زیادہ نیکیوں کی بشارت ہے جیسے پیدل حج کرنے پر بعض روایتوں کی رو سے ہر قدم پر سات کروڑ نیکیاں ملتی ہیں۔(مسند البزار، مسند ابن عباس رضی اللہ عنہما، طاوس عن ابن عباس، 11 / 52، حدیث: 4745)

اس آیت میں خرچ کرنے کا مُطْلَقاً فرمایا گیا ہے خواہ خرچ کرنا واجب ہو یا نفل، نیکی کی تمام صورتوں میں خرچ کرنا شامل ہے خواہ وہ کسی غریب کو کھانا کھلانا ہو یا کسی کو کپڑے پہنانا، کسی غریب کو دوائی وغیرہ لے کر دینا ہو یا راشن دلانا، کسی طالب علم کو کتاب خرید کر دینا ہو یا کوئی شِفا خانہ بنانا یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے فُقراء و مساکین کو تیجے، چالیسویں وغیرہ پر کھلادیا جائے۔(صراط الجنان)

اللہ پاک ہمیں انفاق فی سبیل اللہ کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انفاق کرے تو کہاں کرے۔ تو اس بارے میں بھی اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے : لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ٘-یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِۚ-تَعْرِفُهُمْ بِسِیْمٰىهُمْۚ-لَا یَسْــٴَـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًاؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۠(۲۷۳)ترجمہ کنز الایمان: ان فقیروں کے لیے جو راہ خدا میں روکے گئے زمین میں چل نہیں سکتے نادان انہیں تونگر سمجھے بچنے کے سبب تو انہیں ان کی صورت سے پہچان لے گا لوگوں سے سوال نہیں کرتے کہ گڑگڑانا پڑے اور تم جو خیرات کرو اللہ اسے جانتا ہے۔(پ3،البقرۃ:273)

اللہ پاک ہمیں علمائے کرام کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ دین کا کام تیزی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کر سکے۔ اٰمین یا رب العالمین۔

انفاق فی سبیل اللہ میں معاشرے کا کردار: لیکن آج جب ہم معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ لوگ اس طرف بالکل ہی توجہ نہیں دیتے ہیں۔ سستی کا شکار ہے۔ وہ سوچتے ہیں ہمارا مال ختم ہو جائے گا ۔ ہم مفلس ہو جائیں گے۔ لوگ ہم سے زیادہ مالدار ہو جائے گا۔ اس طرح کے وسوسے انسانوں کو شیطان دلاتا ہے جسے اللہ پاک نے قرآن میں بیان کیا ہے: اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِۚ-وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًاؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۖۙ(۲۶۸) ترجمۂ کنز الایمان : شیطان تمہیں اندیشہ دلاتا ہے محتاجی کا اور حکم دیتا ہے بے حیائی کا اور اللہ تم سے وعدہ فرماتا ہے بخشش اور فضل کا اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (پ3 ،البقرۃ : 268 )

بغیر کسی دنیاوی مفاد کے رضائے الٰہی کیلئے خرچ کرنے کے فضائل کے بیان کے بعد اِس راہ میں پیش آنے والے سب سے بڑے وسوسے کا بیان کیا جا رہا ہے کہ شیطان طرح طرح سے وسوسے دلاتا ہے کہ اگرتم خرچ کرو گے ،صدقہ دو گے تو خود فقیر و نادا رہوجاؤ گے لہٰذا خرچ نہ کرو۔ یہ شیطان کی بہت بڑی چال ہے کہ اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرتے وقت اس طرح کے اندیشے دلاتا ہے حالانکہ جن لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالا جارہا ہوتا ہے وہی لوگ شادی بیاہ میں جائز و ناجائز رسومات پر اور عام زندگی میں بے دریغ خرچ کررہے ہوتے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ شیطان تو تمہیں بخل و کنجوسی کی طرف بلاتا ہے لیکن اللہ پاک تم سے وعدہ فرماتا ہے کہ اگر تم اس کی راہ میں خرچ کرو گے تو وہ تمہیں اپنے فضل اور مغفرت سے نوازے گا اور یہ بھی یاد رکھو کہ وہ پاک پروردگار بڑی وسعت والا ہے، وہ صدقہ سے تمہارے مال کو گھٹنے نہ دے گا بلکہ اس میں اور برکت پیدا کردے گا۔(صراط الجنان)

لہذا مسلمانوں کو شیطانی وسوسے سے بچنا چاہئے اور فضائل کو ذہن نشین رکھے کہ صدقہ غضبِ الٰہی کو بجھاتا اور بری موت دور کرتا ہے۔ گناہ مٹاتا ہے۔ برائی کے ستر دروازے بند کرتا ہے اور بری قضا ٹال دیتا ہے۔ صدقہ دینے سے روزی اور مدد ملتی ہے۔ عمر بڑھتی ہے۔ آفتیں دور ہوتی ہیں، نیز بلا صدقے سے آگے قدم نہیں بڑھاتی۔ (فتاوی رضویہ، 23 / 137تا 140، ملخصاً)


اللہ پاک جب کسی بندے کو پیدا فرماتا ہے۔ تو اس کے رزق کا ذمہ کرم اپنے اوپر لے لیتا ہے۔ زمانہ حال میں لوگ اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے سے کتراتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کے انفاق فی سبیل اللہ سے ہمارے مال میں کمی آ جائے گی اور اسی مال کو مختلف پارٹیوں اور فنکشنز میں اڑاتے وقت ان کو مال کے کم ہونے کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ جبکہ قراٰن پاک میں جگہ جگہ اللہ پاک کی راہ میں خرچ نہ کرنے کے نقصانات بیان کئے گئے ہیں۔ آئیے ان میں سے چند سن کر انفاق فی سبیل اللہ کا ذہن بناتے ہیں۔

(1)اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴)ترجمہ کنزالایمان:اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خوشخبری سناؤ درد ناک عذاب کی۔ (پ 10، التوبۃ: 34)

کَنز کی وَعید میں کون سا مال داخل ہے؟حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ دی گئی وہ کنز نہیں(یعنی وہ اس آیت کی وعید میں داخل نہیں)خواہ دفینہ (زمین میں دفن شدہ خزانہ) ہی ہو اور جس کی زکوٰۃ نہ دی گئی وہ کنز ہے جس کا ذکر قراٰن میں ہوا کہ اس کے مالک کو اس سے داغ دیا جائے گا۔(تفسیر طبری،التوبۃ،تحت الآیۃ:34، 6/357)

(2) ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ- ترجمہ کنز الایمان: اور تمہیں کیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو حالانکہ آسمانوں اور زمین سب کا وارث اللہ ہی ہے۔(پ27،الحدید:10) صراطُ الجنان میں ہے: یعنی تم کس وجہ سے اللہ پاک کی راہ میں خرچ نہیں کر رہے حالانکہ آسمانوں اور زمین سب کا مالک اللہ پاک ہی ہے وہی ہمیشہ رہنے والا ہے جبکہ تم ہلاک ہو جاؤ گے اور تمہارے مال اسی کی ملکیت میں رہ جائیں گے اور تمہیں خرچ نہ کرنے کی صورت میں ثواب بھی نہ ملے گا، تمہارے لئے بہتر یہ ہے کہ تم اپنا مال اللہ پاک کی راہ میں خرچ کر دو تاکہ ا س کے بدلے ثواب تو پا سکو۔(صراطُ الجنان،10/721)

(3) اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﳝ- وَ اَحْسِنُوْاۚۛ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ(۱۹۵)ترجمہ کنزالایمان: اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور بھلائی والے ہو جاؤ بیشک بھلائی والے اللہ کے محبوب ہیں۔(پ2، البقرة: 195 )خود کو ہلاکت میں ڈالنے کی بہت سی صورتیں ہیں: بخاری شریف میں ہے:یہ آیت خرچ کرنے سے متعلق نازل ہوئی۔ (بخاری،3 / 178،حدیث: 4516) یعنی راہ ِ خدا میں خرچ کرنا بند کرکے یا کم کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (صراطُ الجنان،1/309)

پیارے اسلامی بھائیو!اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے انسان پاک ہو جاتا ہے، اس کا دل بھی پاک ہو جاتا ہے اور مال بھی، اور آفات سے بھی محفوظ رہتا ہے اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے سے مال میں کمی نہیں آتی بلکہ اللہ پاک اس کے مال میں اضافہ فرما دیتا ہے۔

ربِ کریم فرماتا ہے: اے ابنِ آدم! اپنے خزانے میں سے میرے پاس کچھ جمع کر دے، نہ جلے گا، نہ ڈوبے گا، نہ چوری کیا جائے گا۔ میں اُس وقت تجھے پورا بدلہ دوں گا، جب تو اُس کا زیادہ ضرورت مند ہوگا۔(شعب الایمان، 3/211، حدیث: 3342)

تو پیارے اسلامی بھائیو ہم سب کو اللہ پاک کی راہ میں اپنے نفیس مال میں سے خرچ کرتے رہنا چاہئے تاکہ آخرت میں ہمیں اس کا بدلہ مل سکے۔


راہِ خدا میں خرچ کرنا  ایک محمود صفت ہے جس کے سبب اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا ، دوزخ سے نجات اور جنّت میں داخلہ نصیب ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غریب لوگوں کو معاشی سکون حاصل ہوتا ہے، معاشرے سے غربت کا خاتمہ ہوتا ہے اور معیشت ترقی کی جانب سفر کرتی ہے۔جبکہ اس کے بر عکس راہِ خدا میں خرچ نہ کرنا ایک مذموم صفت ہے جو اللہ اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضی، جہنم میں داخلے اور جنت سے محرومی کا سبب ہو سکتا ہے۔ اس سے معاشرے پر بھی بُرے اثرات پڑتے ہیں اور معاشرہ چوری ،ڈکیتی، بدامنی اور بے سکونی والا بن جاتا ہے۔ قراٰنِ پاک میں کئی مقامات پر راہِ خدا میں خرچ کرنے کی اہمیت اور افادیت کو بیان کیا اور کئی مقامات پر راہِ خدا میں خرچ نہ کرنےکے متعلق آیات نازل فرماکر مسلمانوں کو اس کی وعید اور اس کے نقصانات سے آگاہ کیا۔

خود کو ہلاکت میں ڈالنے کا سبب: وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﳝ- ترجمۂ کنزالایمان : اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔ (پ2، البقرة: 195) بخاری شریف میں ہے:یہ آیت خرچ کرنے سے متعلق نازل ہوئی۔ (بخاری،3/178،حدیث:4516) یعنی راہ ِ خدا میں خرچ کرنا بند کر کے یا کم کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔(صراطُ الجنان،1/309)

اپنے آپ سے بخل کرنا: وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان پر بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ۔(پ26 ،محمد:38)

تفسیر صراطُ الجنان میں ہے: جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے کیونکہ وہ خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہو جائے گا اور بخل کرنے کا نقصان اٹھائے گا۔ بخل کرنے والا راہِ خدا میں خرچ کرنے کے ثواب سے محروم رہتا اور حرص جیسی خطرناک باطنی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے ۔ (صراطُ الجنان، 9/333 ملتقطاً)

درد ناک عذاب کی خوشخبری: وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان : اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خوش خبری سناؤ دردناک عذاب کی۔ (پ10 ،التوبۃ:34)

کَنز کی وَعید میں کون سا مال داخل ہے؟:حضرت عبدُاللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ دی گئی وہ کنز نہیں(یعنی وہ اس آیت کی وعید میں داخل نہیں)خواہ دفینہ (زمین میں دفن شدہ خزانہ) ہی ہو اور جس کی زکوٰۃ نہ دی گئی وہ کنز ہے جس کا ذکر قراٰن میں ہوا کہ اس کے مالک کو اس سے داغ دیا جائے گا۔(تفسیر طبری،التوبۃ،تحت الآیۃ:34، 6/357)

اللہ پاک ہمیں بخل کی آفت سے بچائے اور دل کھول کر اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مختصر تمہید: اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو انفاق فی سبیل اللہ کہا جاتا ہے۔ یقیناً اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بہت سارے فضائل ہیں مگر اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کے بھی نقصانات ہیں خصوصاً اس صورت میں جب زکوٰۃ فرض ہو پھر تو زیادہ ہی نقصانات ہیں۔

انفاق فی سبیل اللہ معاشرے میں: انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا نہ صرف آپ کو فائدہ پہنچتا ہے بلکہ معاشرے میں جو لوگ غریب ہیں ان کو بھی اس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔

انفاق نہ کرنے کے قراٰنی آیات سے نقصانات: وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴): ترجمۂ کنز العرفان: اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔(پ10،التوبۃ: 34) اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بخل کرتے ہیں ، مال کے حقوق ادا نہیں کرتے اور زکوٰۃ نہیں دیتے۔ جب اللہ پاک نے یہودی و عیسائی علما و پادریوں کی حرصِ مال کا ذکر فرمایا، تو مسلمانوں کو مال جمع کرنے اور اس کے حقوق ادا نہ کرنے سے خوف دلاتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اسے اللہ پاک کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔(صراط الجنان تحت الآیہ (

تنگدلی سے راہِ خدا میں مال خرچ کرنا: وَ لَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَ هُمْ كٰرِهُوْنَ(۵۴) ترجمہ کنز العرفان: اور ناگواری سے ہی مال خرچ کرتے ہیں۔ (پ10،التوبۃ : 54 (منافقین کا راہ خدا میں خرچ کرنا مردود ہے اس لئے کہ جو کچھ وہ خیرات کرتے ہیں وہ بھی ناگواری سے کرتے ہیں کیونکہ اس میں بھی وہ ثواب کے قائل نہیں ، صرف اپنے نفاق کو چھپانے کے لئے خیرات کرتے ہیں۔( صراط الجنان سورہ توبہ تحت الآیہ) اس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ راہ ِ خدا میں خرچ کرنے سے د ل تنگ ہونا منافقوں کا طریقہ ہے۔ لہٰذا اللہ پاک کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کیا جائے اور وہ بھی خوش دلی سے خرچ کیا جائے۔

انفاق فی سبیل اللہ کا درس: تو جیسا کہ آپ نے سنا اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کے کتنے نقصانات ہیں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ منافقوں کی علامت ہے۔ اللہ پاک ہمیں اس سے بچائے اور ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کریں اور غریبوں ، فقیروں کا خیال ضرور رکھیں۔


اللہ پاک کے دیئے ہوئے مال میں سےاسکی خوشنودی و رضا کو حاصل کرنے کے لیے اسکے حاجت مند بندوں پر اور راہِ خدا میں خرچ کرنا ”انفاق فی سبیل  اللہ“ کہلاتا ہے۔ راہ خدا میں خرچ کرنے کا حکم قراٰن مجید میں جابجا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے: وَ الَّذِیْنَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌﭪ(۲۴) لِّلسَّآىٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِﭪ(۲۵) ترجمۂ کنزالایمان : اور وہ جن کے مال میں ایک معلوم حق ہے۔ اس کے لیے جو مانگے اور جو مانگ بھی نہ سکے تو محروم رہے۔(پ29، المعارج:25،24) معلوم حق سے مراد زکوٰۃ ہے جس کی مقدار معلوم ہے یا اس سے وہ صدقہ مراد ہے جو آدمی اپنے آپ پر مُعَیَّن کرلے اور اس ے مُعَیَّن اوقات میں  ادا کیا کرے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مُستحب صدقات کیلئے اپنی طرف سے وقت مُعَیَّن کرنا شریعت میں  جائز اور قابلِ تعریف ہے۔ سائل سے مراد وہ شخص ہے جو حاجت کے وقت سوال کرے اور محروم سے مراد وہ شخص ہے جو حاجت کے باوجود شرم و حیا کی وجہ سے نہیں  مانگتا اور اس کی محتاجی ظاہر نہیں  ہوتی۔( تفسیر کبیر، المعارج، تحت الآیۃ: 24-25، 10 / 645، خازن، المعارج، تحت الآیۃ: 24-25، 4 / 310، ملتقطاً)اس سے معلوم ہوا کہ ہر صاحبِ استطاعت شخص کے مال میں فقیروں مسکینوں اور محتاجوں کا بھی حق ہوتا ہے، لہٰذا اسے راہِ خدا میں حسبِ توفیق خرچ کرتے رہنا چاہیے۔

اللہ پاک کی راہ میں  مال خرچ کرنے سے بخل کرنے والوں کے متعلق قراٰن و حدیث میں سخت وعیدات موجود ہیں۔ چند وعیدیں  ملاحظہ ہوں، اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُۚ-وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ- ترجمۂ کنزُالایمان: ہاں ہاں یہ جو تم ہو بلائے جاتے ہو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان پر بخل کرتا ہے ۔(پ26،محمد:38) یہاں اپنی جان سے بخل کرنے سے مراد یہ ہے کہ راہِ خدا میں خرچ کرنے میں کنجوسی کرنے سے ثواب سے محرومی ہے اور ثواب کی کمی بروزِ حشر مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔ اور ارشاد فرمایا:

وَ  لَا  یَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  یَبْخَلُوْنَ  بِمَاۤ  اٰتٰىهُمُ  اللّٰهُ  مِنْ  فَضْلِهٖ  هُوَ  خَیْرًا  لَّهُمْؕ-بَلْ  هُوَ  شَرٌّ  لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ  مَا  بَخِلُوْا  بِهٖ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-ترجمۂ کنزُالایمان: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا۔(پ4،آل عمرٰن:180)

مال جمع کرنا بذاتِ خود برا عمل نہیں ہے لیکن اس کے حقوق یعنی زکوٰة اور صدقاتِ واجبہ ادا نہ کرنا انتہائی برا عمل ہے اور دردناک عذاب کی طرف لے جانے والا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے: وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴) یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْؕ-هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ(۳۵)ترجمۂ کنز الایمان : اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خوش خبری سناؤ دردناک عذاب کی جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لیے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزا اس جوڑنے کا۔(پ10،التوبۃ:35،34)

اور فرماتا ہے:وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﳝ- ترجمۂ کنزالایمان : اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔(پ2، البقرة:195) یہاں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے مراد راہِ خدا میں خرچ نہ کرنا بھی ہے ۔

جب بھی خرچ کرنے کا ذہن ہو تو کوشش کرنی چاہیے ہمیشہ اپنی محبوب ترین شے کو راہِ خدا میں خرچ کیا جائے ورنہ اعلٰی تقوٰی کو پانے میں ناکامی ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ  ترجمۂ کنز الایمان : تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو ۔(پ4، اٰل عمرٰن:92) اس آیت میں بھلائی سے مراد تقویٰ اور فرمانبرداری ہے ۔ (صراط الجنان،2/10)

مال اللہ پاک کی نعمت ہے اور یہ بندے پر ہے کہ وہ اس نعمت کا درست استعمال کر کے اپنے لیے منافع بخش بناتا ہے یا غلط استعمال اور بخل کر کے اپنی ہلاکت کا سامان بناتا ہے ۔ اللہ پاک نے ہر انسان کو اس دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا ہے ۔ کسی کو امیر بنایا اور کسی کو غریب ۔ غریب کا امتحان یہ ہے کہ وہ صبر و شکر کرے اور جس حال میں اللہ پاک نے رکھا ہے اس پر رضا مند رہے اور امیر کا امتحان یہ ہے کہ وہ راہِ خدا میں اپنا مال خرچ کرے اور مال کو سنبھال کر نہ رکھے ورنہ یہی مال تباہی کا سبب بن سکتا ہے ۔جیسا کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:فقیر ہرگز ننگے بھوکے ہونے کی تکلیف نہ اٹھائیں  گے مگر مال داروں  کے ہاتھوں ، سن لو! ایسے مالداروں  سے اللہ پاک سخت حساب لے گا اور انہیں  دردناک عذاب دے گا۔( معجم الاوسط، باب الدال، من اسمہ: دلیل، 2/ 374، حدیث: 3579)

اسی لیے رضا الٰہی حاصل کرنے اور ثواب کمانے کی نیت سے راہِ خدا میں خوب اپنا مال خرچ کرنا چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


تفصیلات کے مطابق دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں 15 اگست 2022ء کو  عشاء کی نماز کے بعد نعت خوان اسلامی بھائیوں کا مدنی مذاکرہ منعقد ہوا جس میں معروف نعت خوان حضرات اور نقیب و محفل آرگنائزرز نے شرکت کی۔

مدنی مذاکرے میں امیرِ اہلِ سنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے شرکا کو مدنی پھول ارشاد فرمائے۔ مدنی مذاکرے میں معروف نعتیہ شاعر علامہ نثار علی اجاگر اور معروف ثناخوانوں ”علامہ بلال اویسی قادری،محمد صدیق اسماعیل قادری،حافظ طاہر قادری، حافظ احسن قادری،حافظ غلام مصطفیٰ قادری، سید ریحان قادری،قاری محسن قادری، محمد اسد عطاری مدنی، محمد فرحان قادری، محمد شاہ رخ قادری، عبداللہ خلیل قادری، محمد ذیشان قادری، شبیرابوطالب قادری، حافظ ارسلان قادری، غلام مصطفی عطاری،سید حسان اللہ حسینی اور محمدحسان قادری سمیت بڑی تعداد میں عاشقانِ رسول نے شرکت کی۔

امیرِ اہلِ سنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے مذاکرے میں شریک عاشقانِ رسول کو اخلاص کے ساتھ دین کا کام کرنے، نعتیہ کلاموں کو پڑھنے میں احتیاطوں کو اپنانے اور سادگی اپنانے سمیت دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں میں حصہ ملانے کاذہن دیا۔

واضح رہے کہ دعوتِ اسلامی کی جانب سے کراچی کے علاوہ فیصل آباد ، لاہور اور اسلام آباد سمیت متعدد مقامات پر یہ مدنی مذاکرہ اجتماعی طور پر جمع ہوکر دیکھا گیا جن میں مقامی نعت خوان اور عاشقانِ رسول شریک تھے۔


نیکی کی دعوت کو عام کرنے کے جذبے کے تحت سینٹرل افریقہ  کی اسلامی بہنوں کے جولائی2022ء کے دینی کاموں کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیے۔۔۔

اس ماہ انفرادی کوشش کے ذریعے دینی ماحول سے منسلک ہونے والی اسلامی بہنوں کی تعداد: 2

روزانہ گھر درس دینے والوں کی تعداد: 59

مدرسۃ المدینہ بالغات کی تعداد: 16

مدرسۃ المدینہ بالغات میں پڑھنے والی اسلامی بہنوں کی تعداد: 101

ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کی تعداد: 19

ان میں شرکت کرنے والی اسلامی بہنوں کی تعداد : 242

ہفتہ وار مدنی مذاکرہ سننے والی اسلامی بہنوں کی تعداد : 85

ہفتہ وار علاقائی دورے کرنے والی اسلامی بہنوں کی تعداد :37

ہفتہ وار رسالہ پڑھنے/ سننے والی اسلامی بہنوں کی تعداد: 167

وصول ہونے والے نیک اعمال کے رسائل کی تعداد: 79

دنیا بھر میں دین اسلام کی تعلیمات کو منظم انداز میں فروغ دینے والی عاشقان رسول کی عالمگیر تحریک دعوت اسلامی کے زیر اہتمام ہر جمعرات کو بعد نماز مغرب ملک و بیرونِ ملک علمی، فکری و تربیتی نشست پر مشتمل ”ہفتہ وار اجتماع“ کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں مبلغین دعوت اسلامی اور اراکین شوریٰ سنتوں بھرے بیانات فرماتے ہیں۔ان اجتماعات میں نعت رسول مقبول، ذِکرُ اللہ اور رقت انگیز دعاؤں کا سلسلہ بھی ہوتا ہے۔

اس پروگرام کو برقرار رکھتے ہوئے 18 اگست 2022ء کو دنیا بھر میں ہفتہ وار اجتماع کا انعقاد کیا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق مدنی مرکز فیضان مدینہ جی 11 اسلام آباد سےرات 8:00 مدنی چینل پر براہ راست نشر ہونے والے ہفتہ وار اجتماع میں مرکزی مجلس شوریٰ دعوت اسلامی کے نگران مولانا حاجی محمد عمران عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی سنتوں بھرابیان فرمائیں گے۔

اس کے علاوہ مدنی مرکز فیضان مدینہ پنڈی گھیپ نزد ندی والی چونگی میں رکن شوریٰ حاجی مولانا محمد اسد عطاری مدنی، جامع مسجد حنفیہ محمدیہ سوڈیوال کالونی ملتان روڈ لاہور میں رکن شوریٰ حاجی محمد اظہر عطاری اور قرآن سینٹر H165 بلاک مارکیٹ فیز1، DHA لاہور میں موٹیویشنل اسپیکر محمد ثوبان عطاری سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔

تمام عاشقان رسول سے اپنے اپنے علاقے میں ہونے والے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے کی درخواست ہے۔


دعوتِ اسلامی کےتحت    12اگست 2022ء بروز جمعہ صوبہ پنجاب کی لاہور ڈویژن و ڈسٹرکٹ نگران اسلامی بہنوں کا بذریعہ آن لائن مدنی مشورہ ہوا ۔

نگران پاکستان مجلس مشاورت اسلامی بہن نے ماہانہ مدنی مشورے کے مدنی پھول بیان کئے اور ماہانہ آٹھ دینی کام کارکردگی کا جائزہ لیا نیز مزید بہتری لانے کے حوالے سے نکات بتاتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دلائی اور مختلف سافٹ ویئر کارکردگی انٹریز سمیت سابقہ ا ہداف کا فالو اپ کیا ۔