اللہ تبارک و تعالی نے ہمیں اور آپ کو نماز کا حکم دیا کہ نماز پڑھو،  یہ نماز کیا ہے؟ عبادت ہے، ماہِ رمضان آ جائے تو روزے کا حکم دیا، کیونکہ یہ بھی عبادت ہے، اگر انسان صاحبِ استطاعت ہو تو اُسے بیت اللہ کے حج کا حکم دیا گیا، کیونکہ یہ بھی عبادت ہے، اسی طرح صاحبِ استطاعت ہونے پر زکوٰۃ کا حکم دیا گیا، کیونکہ یہ بھی عبادت، یوں سمجھئے کہ نماز عبادت ہے، روزہ عبادت، زکوۃ اور حج بھی عبادت ہیں، لیکن شہادت پر غور کریں تو شہادت عبادت بھی ہے اور عبودیت بھی، شہادت میں اللہ تبارک و تعالی نے دو خوبیاں رکھی ہیں، اب ہم جانتے ہیں شہید کسے کہتے ہیں؟

شہید وہ ہے جس کو جنگ لڑنے والوں، باغیوں، ڈاکوؤں اور چوروں نے قتل کر دیا، اگرچہ کسی وزنی چیز سے مارا ہو یا وہ میدانِ جنگ میں پایا گیا ہو یا اسے کسی مسلمان نے جان بوجھ کر کسی تیز دھار آلے سے قتل کیا ہو۔(نورالایضاح، شہید کے احکام)

اسی طرح اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:

ترجمہ:"اور جو اپنے گھر سے نکلا اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کرتا پھر اسے موت نے آ لیا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ پر ہوگیا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔"(سورۃ النساء، آیت نمبر 100) اسی طرح اور احادیث مبارکہ میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے:

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"بے شک شہید کے لئے چھ انعامات ہیں:

٭اس کے بدن سے خون نکلتے ہی اس کی بخشش کر دی جاتی ہے۔

٭جنت میں وہ اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے اور اسے ایمان کے زیور سے آراستہ کر دیا جاتا ہے۔

٭حوروں سے اس کا نکاح کرا دیا جاتا ہے۔

٭عذابِ قبر سے محفوظ رہتا ہے، قیامت کی ہولناکی سے مامون رکھا جاتا ہے۔

٭اس کے سر پر یاقوت کا تاجِ عزت پہنایا جاتا ہے، جو دنیا و مافیہا سے بہتر ہوتا ہے۔

٭72 حوروں سے نکاح کرا دیا جاتا ہے۔

٭اور یہ کہ اس کے اقرباء سے بہتّر کے حق میں اسے شفیع بنایا جائے گا۔(بحوالہ سنن ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب فی ثواب شہید برقم، 1443/4، 544)

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ہے:

شہداء زندہ ہیں، ان کی حیات عقل نہیں، بلکہ وحی سے جانی جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جنت میں جانے کے بعد کوئی دنیا میں لوٹنا اور اس کی اشیاء کو پانا پسند نہیں کرے گا، سوائے شہید کے، وہ تمنا کرے گا کہ دنیا میں دس بار لوٹایا جائے، پھر مار دیا جائے، اس اکرام کی وجہ سے جو وہ وقتِ شہادت دیکھتا ہے۔( بحوالہ ابواب السعادۃ فی اسباب الشہادۃ، ص18) پس اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو شہادت کی عظمت پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


دنیا کی بے شمار نعمتوں سے انسان لطف اندوز  ہوتا ہے، کسی نعمت کو کھاتا ہے، کسی کو پیتا ہے، کسی کو سونگھتا ہے، کسی کو دیکھتا ہے اور ان کے علاوہ مختلف طریقوں سے تمام نعمتوں کا استعمال کرتا ہے اور ان سے مسرور ومحفوظ ہوتا ہے، لیکن مردِ مؤمن کو شہادت سے جو لذّت حاصل ہوتی ہے، اس کے مقابل دنیا کی ساری لذّتیں ہیچ ہیں، یہاں تک کہ شہید جنت کی تمام نعمتوں سے فائدہ اٹھائے گا اور ان سے لُطف اندوز ہو گا، مگر جب اس کو اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سر کٹانے کا مزہ یاد آئے گا تو وہ جنت کی ساری نعمتیں اور ان کا مزہ بھول جائے گا اور تمنا کرے گا کہ اے کاش !میں دنیا میں واپس کیا جاؤں اور بار بار شہید کیا جاؤں۔

حدیث شریف میں ہے کہ سرکار اقدس صلی اللہ وعلیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد پھر کوئی جنتی وہاں کی راحتوں اور نعمتوں کو چھوڑ کر دنیا میں آنا پسند نہ کرے گا، مگر شہید آرزو کرے گا کہ وہ پھر دنیا کی طرف واپس ہو کر اللہ عزوجل کی راہ میں دس مرتبہ قتل کیا جائے۔(بخاری، مسلم شریف، مشکوۃ شریف، صفحہ 330)

خدائے عزوجل شہدائے کرام کی فضیلت بیان کرتے ہوئے قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۔

ترجمہ کنزالعرفان:"اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں۔"(سورہ بقرہ، آیت154)

اس آیت میں شہداء کو مردہ کہنے سے منع فرمایا گیا، نہ زبان سے مردہ کہنے کی اجازت ہے، جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ عزوجل نے حکم ارشاد فرمایا:وَ لَا  تَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  قُتِلُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ  اللّٰهِ  اَمْوَاتًا ؕ بَلْ  اَحْیَآءٌ  عِنْدَ  رَبِّهِمْ  یُرْزَقُوْنَۙ۔

ترجمہ کنزالعرفان:"اور اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہرگز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے ربّ کے پاس زندہ ہیں، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔"(آل عمران، آیت169)

شہداء کو موت کے بعد ربّ عزوجل زندگی عطا فرماتا ہے، ان کی ارواح پر رزق پیش کیا جاتا ہے، انہیں راحتیں دی جاتی ہیں، ان کے عمل جاری رہتے ہیں، ان کا اجر وثواب بڑھتا رہتا ہے۔ سبحان اللہ عزوجل

حدیث شریف میں ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنت کی سیر کرتیں اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں۔(شعب الایمان،السبعون من شعب الایمان،7/115،الحدیث 9686)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اہلِ جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہ تعالی اس سے فرمائے گا، اے ابنِ آدم!تو نے اپنی منزل و مقام کو کیسا پایا؟ وہ عرض کرے گا:اے میرے ربّ عزوجل!بہت اچھی منزل ہے، اللہ تعالی فرمائے گا، تو مانگ اور کوئی تمنّا کر، وہ عرض کرے گا:میں تجھ سے اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاؤں، (وہ یہ سوال اس لئے کرے گا)کہ اس نے شہادت کی فضیلت ملاحظہ کر لی ہوگی۔(سنن نسائی، کتاب الجھاد، مایمتنی اہل الجنۃ، صفحہ 54، الحدیث 3157)

شہادت آخری منزل ہے انسانی سعادت کی

وہ خوش قسمت ہیں جنہیں مل جائے دولت شہادت کی

شہادت پاکے ہستی زندہ جاوید ہوتی ہے

یہ رنگین شام صبحِ عید کی تمہید ہوتی ہے

سرکارِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم شہدائے اِسلام کی عظمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ شہید کے لئے خدائے تعالی کے نزدیک چھ خوبیاں ہیں:

1۔خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اسے بخش دیا جاتا ہے اور وہ نکلتے وقت ہی اس کو جنت میں اس کا ٹھکانہ دکھادیا جاتا ہے۔

2۔قبر کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے۔

3۔اسے جہنم کے عذاب کا خوف نہیں رہتا۔

4۔اس کے سر پر عزت و وقار کا ایسا تاج رکھا جائے گا کہ جس کا بیش بہا یاقوت دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہوگا۔

5۔اس کے نکاح میں بڑی بڑی آنکھوں والی بہتّر حوریں دی جائیں گی۔

6۔اور اس کے عزیزوں میں سے ستّر آدمیوں کے لئے اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔(ترمذی، مشکوۃ، صفحہ 333)

اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کی بقا کے لئے بے شمار شہداء نے شہادت کا جام نوش کیا، مگر ان تمام شہداء میں سیّد الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بے مثل ہے کہ آپ جیسی مصیبتیں کسی دوسرے شہید نے نہیں اُٹھائیں، تین دن کے بھوکے پیاسے اس حال میں کہ آپ کے رفقاء عزیز و اقارب و اہل و عیال اور چھوٹے بچے پانی کے لئے تڑپ رہے تھے، جب کہ پانی موجود تھا، یہاں تک کہ جانور بھی اس سے سیراب ہو رہے تھے۔ اللہ! اللہ!

اللہ کریم ہمیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور تمام شہدائے اِسلام کا صدقہ عطا فرمائے، ہمیں بھی راہِ خدا اور عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں شہادت والی موت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


موت کے بعد اللہ تعالی شہداء کو زندگی عطا فرماتا ہے،  ان کی ارواح پر رزق پیش کیا جاتا ہے، انہیں راحتیں دی جاتی ہیں، ان کے عمل جاری رہتے ہیں، ان کا اجر و ثواب بڑھتا رہتا ہے اور شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنت کی سیر کرتیں اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں۔ (صراط الجنان، جلد 1، صفحہ 262، مطبوعہ مکتبہ المدینہ)

شہید کی تعریف:

اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے جان دینے کو شہادتِ حقیقیہ سے موسوم کیا جاتا ہے، جبکہ اس کے علاوہ شہادت کو حکمیہ کہتے ہیں۔(مرقاۃ المفاتیح، 4/39 تحت الحدیث:1561 ماخوذاً)

قرآن و حدیث دونوں میں شہادت کے فضائل وارد ہوئے ہیں، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

1۔شہداء کا مرتبہ:

سب سے بلند مرتبہ انبیاء کرام علیہم السلام کا، پھر صدیقین کا اور پھر شہداء کا ہے، قرآن مجید میں اِرشادِ باری تعالٰی ہے:

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ۚوَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا ؕ(۶۹)۔

"اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔(پ5، النساء:69، صراط الجنان، جلد 2، صفحہ 271، مطبوعہ مکتبہ المدینہ)

2۔شہداء کا اپنے ربّ کے پاس زندہ ہونا:

وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ(۱۶۹)۔

ترجمہ کنزالعرفان:"اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہرگز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں۔ "(آل عمران، آیت169)

3۔شہید کو ملنے والے چھ انعام:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بے شک اللہ عزوجل شہید کو چھ انعام عطا فرماتا ہے۔"

٭اس کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی مغفرت فرما دیتا ہے اور جنت میں اسے اس کا ٹھکانہ دکھا دیتا ہے۔

٭اسے عذابِ قبر سے محفوظ رکھتا ہے۔

٭قیامت کے دن اسے بڑی گھبراہٹ سےامن عطا فرمائے گا۔

٭اس کے سر پر وقار کا تاج رکھے گا جس کا یاقوت دنیا اور اس کی ہر چیز سے بہتر ہوگا۔

٭اس کا حوروں میں سے بہتّر حوروں کے ساتھ نکاح فرمائے گا۔

٭اس کی ستّررشتہ داروں کے حق میں شفاعت قبول فرمائے گا۔(ابنِ ماجہ، کتاب الجہاد، باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللہ، الحدیث2799، جلد 3، صفحہ 360، فیضان چہل احادیث، صفحہ 26، مطبوعہ مکتبہ المدینہ پبلشر المدینہ العلمیہ)

4۔شہداء کا گھر:

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گزشتہ رات میں نے دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور مجھے ساتھ لے کر ایک درخت کے اوپر چڑھ گئے اور مجھے ایک بہت خوبصورت اور فضیلت والے گھر میں داخل کر دیا، میں نے اس جیسا گھر کبھی نہیں دیکھا تھا، پھر انہوں نے مجھ سے کہا کہ "یہ شہداء کا گھر ہے ۔"(بخاری، کتاب الجہاد، باب درجات المجاہد ین فی سبیل اللہ، جلد 2، صفحہ 2791، فیضان ریاض الصالحین، جلد 1، صفحہ 214)

5۔دوبارہ شہید ہونے کی تمنا:

شہید ہونے والا شہادت کی فضیلت دیکھ لینے کی وجہ سے یہ تمنا کرے گا کہ اسے دوبارہ دنیا میں لوٹا دیا جائے، تاکہ اسے دوبارہ اللہ کی راہ میں شہید کیا جائے۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب حورالعین وا مفتھن۔۔ الخ، صراط الجنان، جلد 6، صفحہ ، مطبوعہ مکتبہ المدینہ)


اس دنیائے  فانی میں آنے والے ہر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہی ہے، لیکن جس مسلمان کی موت شہادت کی صورت میں ہو، اس کی شان ہی نرالی ہوتی ہے۔

قضا حق ہے مگر اس شوق کا اللہ والی ہے

جو ان کی راہ میں جائے وہ جان اللہ والی ہے

قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ(۱۶۹)۔

ترجمہ کنزالعرفان:"اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہرگز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے ربّ کے پاس زندہ ہیں، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔

تفسیر صراط الجنان: وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ؕ(اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے، ہرگز انہیں مردہ خیال نہ کرنا)

شانِ نزول:

اکثر مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت شہدائے اُحد کے حق میں نازل ہوئی، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب تمہارے بھائی اُحد میں شہید ہوئے تو اللہ تعالی نے ان کی اَرواح کو سبز پرندوں کے جسم عطا فرمائے اور جنتی نہروں پر سیر کرتے پھرتے ہیں، جنتی میوے کھاتے ہیں، سونے کی اُن قندیلوں میں رہتے ہیں، جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں، جب ان شہدائے کرام نے کھانے، پینے اور رہنے کے پاکیزہ عیش پائے تو کہا کہ پیچھے دنیا میں رہ جانے والے ہمارے بھائیوں کو کون خبر دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں، تاکہ وہ جہاد سے بے رغبتی نہ کریں اور جنگ سے بیٹھے نہ رہیں، اللہ تعالی نے فرمایا:میں انہیں تمہاری خبر پہنچاؤں گا، پس یہ آیت نازل فرمائی۔(ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی فضل الشہادۃ، 3/22، الحدیث2520)

شہداء کی شان:اس سے ثابت ہوا کہ اَرواح باقی ہیں، جسم کے فنا ہونے کے ساتھ فنا نہیں ہوتیں، یہاں آیت میں شہداء کی شانیں بیان ہوئی ہیں، فرمایا:کہ وہ کامل زندگی والے ہیں، وہ اللہ عزوجل کے پاس ہیں، انہیں ربّ کریم کی طرف سے روزی ملتی رہتی ہے، وہ بہت خوش باش ہیں، شہداءِ کرام زندوں کی طرح کھاتے پیتے اور عیش کرتے ہیں، آیتِ مبارکہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ شہیدوں کے روح اور جسم دونوں زندہ ہیں، علماء نے فرمایا: کہ شہداء کے جسم قبروں میں محفوظ رہتے ہیں، مٹی ان کو نقصان نہیں پہنچاتی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اور اس کے بعد اس بات کا بکثرت معائنہ ہوا ہے کہ اگر کبھی شہداء کی قبریں کھل گئیں تو ان کے جسم تروتازہ پائے گئے۔(خازن، آلِ عمران، تحت الآیۃ 169، 1/323)

سبحان اللہ عزوجل!راہِ خدا میں شہید ہونے والوں کے فضائل کے بھی کیا کہنے!ان پر اللہ پاک کس قدر انعام و اکرام فرماتا ہے، بلکہ محض صدقِ دل سے شہادت کا سوال کرنے پر بھی ربُّ العزت کیسی رحمت فرماتا ہے، اس کا اندازہ اس حدیث پاک سے لگائیے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو سچے دل سے اللہ سے شہادت مانگے تو اللہ اسے شہیدوں کے درجوں پر پہنچا دے گا ، اگرچہ وہ اپنے بستر پر مرے۔"(مرآۃ المناجیح، جلد 5، جہاد کا بیان)

اللہ کریم ہمیں مدینہ منورہ میں جلوہ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم میں ایمان و عافیت کے ساتھ شہادت کی موت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


شہادت اللہ عزوجل کے قُرب کی منزلوں میں سے ایک عظیم منزل ہے،  جو فقط خوش نصیبوں کو عطا ہوتی ہے، اس آیت مبارکہ سے شہداء کی عظمت کا پتہ چلتا ہے:

ترجمہ کنزالایمان:"اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے ربّ کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں۔"(آل عمران:169)تفسیر صاوی میں اس آیت کے تحت ہے:شہداء کی یہ زندگی دنیا کی زندگی کی طرح نہیں ہے، بلکہ دنیاوی زندگی سے اعلیٰ و ارفع ہے، کیونکہ جہاں ان کی روحیں چاہتی ہیں، سیر کے لئے جاتے ہیں۔" (تفسیر صاوی، جلد 1، صفحہ 252، مکتبہ DKI بیروت)

شہید کو شہید کہنے کی وجہ:

٭اس کی موت کے وقت مخصوص ملائکہ رحمت حاضر ہوتے ہیں۔

٭یا اس وجہ سے کہ اس کے لئے جنت کی گواہی دی جاتی ہے۔

٭یا اس لئے کہ یہ زندہ ہے اور بارگاہِ قُدس میں حاضر ہے۔(نُزھۃ القاری، جلد 2، صفحہ 274، فرید بک سٹال، ملتقطاً)

شہداء کے فضائل میں وارد ہونے والے فرامینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:

1۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے اُحد کے لئے فرمایا:اللہ پاک نے ان کی روحوں کو سبز پرندوں کے جسم عطا فرمائے، وہ جنتی نہروں پر سیر کرتے پھرتے ہیں، جنتی میوے کھاتے ہیں، سونے کی اُن قندیلوں میں رہتے ہیں، جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں۔"(تفسیر صراط الجنان، جلد 2، صفحہ 21، ملتقطاً)

شہداء کی روحوں کو پرندوں کے جسم میں اس طرح رکھا گیا، جیسے موتی اور جواہرات صندوقوں میں رکھے جاتے ہیں اور یہ انہیں جنت میں لانے کے لئے تعظیم و اعزاز کا ایک طریقہ ہے۔"(اشعۃ اللمعات، جلد 5، جہاد کا بیان، فصل 1، صفحہ 89، مترجم)

2۔کوئی شخص اللہ عزوجل کی راہ میں زخمی نہیں کیا جائے گا اور اللہ عزوجل بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں زخمی کیا گیا، مگر وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا زخم خُون اُگل رہا ہوگا، جس کا رنگ خون جیسا اور خوشبو کستوری جیسی ہو گی۔"(مشکوۃ المصابیح، کتاب الجہاد، حدیث3626)

3۔جنت میں جانے والا کوئی شخص اس بات کو پسند نہیں کرے گا کہ وہ دنیا میں واپس چلا جائے اور زمین کی تمام چیزیں اس کی ہوں، سوائے شہید کے، وہ دنیا کی طرف واپسی اور دس مرتبہ قتل کئے جانے کی آرزو کرے گا، اس عزت و ثواب کی بنا پر جسے وہ دیکھے گا۔"( مشکوۃ المصابیح، کتاب الجہاد، حدیث3627)

4۔اللہ کی راہ میں قتل کیا جانا ، قرض کے علاوہ ہر چیز کا کفارہ بن جاتا ہے۔(مشکوۃ المصابیح، کتاب الجہاد، حدیث3630)

5۔جو شخص اس حال میں مر گیا کہ نہ تو اس نے جہاد کیا اور نہ ہی اس کے بارے میں اپنے دل میں سوچا، وہ منافقت کی ایک قسم پر مرے گا۔(مشکوۃ المصابیح، کتاب الجہاد، حدیث3637)

6۔شہید، قتل کی اتنی ہی تکلیف پاتا ہے، جتنی کہ تم میں سے ایک شخص چیونٹی کے کاٹنے کی محسوس کرتا ہے۔(مشکوۃ المصابیح، کتاب الجہاد، حدیث3658)

شہید کے لئے اللہ تعالی کے پاس چھ فضیلتیں ہیں:

1۔ اسے پہلی دفعہ میں ہی بخش دیا جاتا ہے ، اسے جنت میں اس کا مقام دکھادیا جاتا ہے۔2۔اسے عذابِ قبر سے پناہ دی جاتی ہے۔3۔بڑے خوف سے پناہ میں رہتا ہے۔4۔اس کے سر پر عزت کا ایسا تاج رکھا جائے گا کہ اس کا ایک یاقوت دنیا وما فیھا(دنیا اور جو اس میں ہے)سے بہتر ہے۔5۔بہتّر جنتی حوروں سے اس کا نکاح کیا جائے گا۔6۔اس کے ستّر رشتہ داروں میں اس کی سفارش قبول ہوگی۔(مشکوۃ المصابیح،کتاب الجہاد،حدیث 3656) اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں زیرِ گنبدِ خضریٰ شہادت عطا فرمائے اور جنت البقیع میں مدفن عطا فرمائے۔آمین

مرا یہ خواب ہو جائے شہا شرمندہ تعبیر

مدینے میں پیوں جامِ شہادت یا رسول اللہ

(وسائلِ بخشش، صفحہ 329، مرمم)


دعوت اسلامی کے شعبہ کفن دفن للبنات کے  زیر اہتمام گزشتہ دنوں بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ نارتھ زون کی ٹاؤن ہال کابینہ میں کفن دفن تربیتی اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں تقریباً 16اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

مبلغۂ دعوتِ اسلامی نے سنتوں بھرا بیان کیا اور اجتماعِ پاک میں شریک اسلامی بہنوں کو میت کے غسل کا طریقہ سمجھایا نیز اس شعبے کے تحت دینی کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب دلائی۔


دعوت اسلامی کے شعبہ کفن دفن للبنات کے  زیر اہتمام گزشتہ دنوں بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ نارتھ زون کی دھانمونڈی کابینہ میں کفن دفن تربیتی اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں تقریباً 19 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

مبلغۂ دعوتِ اسلامی نے سنتوں بھرا بیان کیا اور اجتماعِ پاک میں شریک اسلامی بہنوں کو میت کے غسل کا طریقہ سمجھایا نیز اس شعبے کے تحت دینی کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب دلائی۔


حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کی نافرمانیاں

حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو خدا کا پیغام سناتے رہے، مگر ان کی بدنصیب قوم ایمان نہیں لائی، بلکہ طرح طرح سے آپ کی تحقیر و تذلیل کرتی رہی اور قسم قسم کی اذیتوں اور تکلیفوں سے آپ کو ستاتی رہی، یہاں تک کہ کئی بار ان ظالموں نے آپ کو اس قدر زدو کوب کیا کہ آپ کو مردہ خیال کرکے کپڑوں میں لپیٹ کر مکان میں ڈال دیا مگر آپ پھر مکان سے نکل کر دین کی تبلیغ فرمانے لگے۔مگر ان ایذاؤں اور مصیبتوں پر بھی آپ یہی دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے میرے پروردگار ! تو میری قوم کو بخش دے اور ہدایت عطا فرما کیونکہ یہ مجھ کو نہیں جانتے ہیں۔

حضرت نوح علیہ السلام کی تبلیغ کے جواب میں قوم نے سرکشی کا مظاہرہ کیا، آپ علیہ السلام کو جھوٹا قرار دیا توحید کو ماننے اور شرک کو چھوڑنے سے انکار کردیا اور اس کے علاوہ د ھمکی دی کہ اگر تم اپنے وعظ و نصیحت اور دین کی دعوت سے باز نہ آئے تو ہم پتھر ۔۔۔مار کر قتل کردیں گے، اس انکار و تکذیب اور دھمکیوں کے ساتھ آپ علیہ السلام کی شان میں گستاخانہ جملے بھی کہنے لگے کہ یہ پاگل ہے، یہاں تک کہ ایک دن یہ وحی نازل ہوگئی کہ اے نوح ! اب تک جو لوگ مومن ہوچکے ہیں ان کے سوا اور دوسرے لوگ کبھی ہرگز ہرگز ایمان نہیں لائیں گے،اس کے بعد آپ اپنی قوم کے ایمان لانے سے ناامید ہوگئے، اور آپ نے اس قوم کی ہلاکت کے لیے دعا فرمادی، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ایک کشتی تیار کریں چنانچہ ایک سو برس میں آپ نے لگاتے ہوئے ساگوان کے درخت تیار ہوگئے،

اور آپ نے ان درختوں کی لکڑیوں سے ایک کشتی بنالی، اس میں تین درجے تھے، نچلے طبقے میں درندے، پرندے اور حشرات الارض وغیرہ اور درمیانی طبقے میں چوپائے وغیرہ جانوروں کےلیے اور بالائی طبقے میں خود اور مومنین کےلیے جگہ بنائی، جب آپ کشتی بنانے میں مصروف تھے تو آپ کی قوم آپ کا مذاق اڑاتی تھی کوئی کہتا کہ اے نوح (علیہ السلام ) اب تم بڑھئی بن گئے ؟ حالانکہ پہلے تم کہا کرتے تھے کہ میں خدا کا نبی ہوں، کوئی کہتا اے نوح، اس خشک زمین میں تم کشتی کیوں بنارہے ہو۔َ؟

آپ علیہ السلام ان کے جواب میں یہی فرماتے تھے کہ آج تم ہم سے مذاق کرتے ہو لیکن مت گھبراؤ جب خدا کا عذاب بصورتِ طوفان آجائے گا تو ہم تمہارا مذاق اڑائیں گے، ان کی قوم پر عذاب نازل ہونے اور ان کی ہلاکت کا وقت آگیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے اس عذاب کے نازل ہونے کی علامت یہ بیان فرمائی تھی کہ جب تم تندور میں سے پانی جوش مارتا دیکھو تو سمجھ لینا کہ عذاب کے نزول کا وقت آپہنچا۔

حضرت نوح علیہ السلام کے اہل خانہ کے یہ کل سات افراد تھے اور وہ لوگ جو حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لائے یہ کل 80 افراد تھے، صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے جب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر عذاب آیا تو آسمان سے زبردست بارش برسی اور یہ لگاتار چالیس دن رات برستی رہی، پانی پہاڑوں سے اونچا ہوگیا یہاں تک کہ ہر چیز اس میں ڈوب گئی، حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا کنعان اور ایک بیوی کافرہ تھی یہ بھی اس طوفان میں غرق ہوگئے۔اللہ پاک ہمیں اپنے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔


اللہ پاک نے ہر قوم کی طرف کسی نہ کسی نبی کو مبعوث فرمایا،  تاکہ قوم ہدایت پا جائے، مگر دیگر قوم کی طرح حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی نافرمانی کی، حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو خدا کا پیغام سناتے رہے، مگر ان کی بدنصیب قوم ایمان نہیں لائی، بلکہ طرح طرح سے آپ کی تحقیر و تذلیل کرتی رہی اور کسی قسم قسم کی اذیتوں اور تکلیفوں سے آپ کو ستاتی رہی، یہاں تک کہ کئی بار ان ظالموں نے آپ کو اس قدر زدوکوب کیا کہ آپ کو مردہ خیال کر کے کپڑوں میں لپیٹ کر مکان میں ڈال دیا، مگر آپ پھر مکان سے نکل کر دین کی تبلیغ فرمانے لگے، اسی طرح بارہا آپ کا گلا گھونٹتے رہے، یہاں تک کہ آپ کا دم گھٹنے لگا اور آپ بے ہوش ہو جاتے ہیں مگر ان ایذاؤں اور مصیبتوں پر بھی آپ یہی دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے میرے پروردگار! تو میری قوم کو بخش دے اور ہدایت عطا فرما، کیونکہ یہ مجھ کو نہیں جانتے۔اور قوم کا یہ حال تھا کہ ہر بوڑھا باپ اپنے بچوں کو یہ وصیّت کرکے مرتا تھا کہ نوح علیہ السلام بہت پرانے پاگل ہیں، اس لئے کوئی ان کی باتوں کو نہ سنے اور ان کی باتوں پر دھیان دے، یہاں تک کہ ایک دن یہ وحی نازل ہوئی کہ اے نوح!اب تک جو لوگ مؤمن ہو چکے ہیں، ان کے سوا اور دوسرے لوگ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے، آپ نے اس قوم کی ہلاکت کے لئے دعا فرمادی، اللہ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ایک کشتی تیار کریں، جب آپ کشتی بنانے میں مصروف تھے تو آپ کی قوم آپ کا مذاق اڑاتی تھی، کوئی کہتا کہ اے نوح!اب تم بڑھئی بن گئے، حالانکہ پہلے تم کہا کرتے تھے کہ میں خدا کا نبی ہوں، کوئی کہتا اے نوح!اس خشک زمین میں تم کشتی کیوں بنا رہے ہو؟ کیا تمہاری عقل ماری گئی ہے، غرض طرح طرح کا مذاق اور بدزبانیاں اور طعنہ بازیاں کرتے رہتے تھے، آپ ان کے جواب میں یہی فرماتے تھے کہ آج تم ہم سے مذاق کرتے ہو، لیکن گھبراؤ مت، جب خدا کا عذاب بصورتِ طوفان آ جائے گا تو ہم تمہارا مذاق اڑائیں گے، پھر جب طوفان آیا تو طوفان میں کشتی والوں کے سوا ساری قوم اور کل مخلوق غرق ہو کر ہلاک ہوگئی۔(عجائب القران، صفحہ نمبر 316۔318)اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا ایمان سلامت رکھے۔آمین


اللہ عزوجل کے نبی حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بتوں کی پوجا کرنے والی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو پہلے سے ہی ڈرا دیں کہ اگر وہ ایمان نہ  لائے تو ان پر دنیا و آخرت کا درد ناک عذاب آئے گا ،تاکہ ان کے لیے اصلاً کوئی عذر باقی نہ رہے ۔

حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم اگر تم خالصتاً اللہ عزوجل کی عبادت اور اس کی وحدانیت کا اقرار نہ کرو گے اور ان بتو ں سے کنارہ کشی اختیار نہ کرو گے تو مجھے خوف ہے کہ کہیں تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے درد ناک عذاب نہ آ جائے

جب حضرت نوح علیہ السلام کی طرف سے ترغیب دینے کی بناء پر بھی ان کی قوم نے نصیحت حاصل نہ کی تو حضرت نوح علیہ السلام نے دعوت دینے کا ایک اور انداز اختیار کیا ،حضرت نوح السلام نے اپنی قوم سے فرمایا :"تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اس سے عزت حاصل کرنے کی امید نہیں رکھتے حالانکہ اس نے تمہیں کئی حالتوں سے گزار کر بنایا کہ پہلے تم نطفہ کی صورت میں ہوئے ،پھر تمہیں خون کا لوتھڑا بنایا، پھر گوشت کا ٹکڑا بنایا یہاں تک کہ اس نے تمہاری خلقت کامل کی ،اور تمہارا اپنی تخلیق میں نظر کرنا ایسی چیز ہے جو کہ اللہ پاک کی خالقیت ،قدرت اور اسکی وحدانیّت پر ایمان لانے کو واجب کرتی ہے۔

جب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور اس چیز سے ڈرایا جس سے ڈرانے کا اللہ نے حکم دیا تھا تو قوم نے ان کی بات نہ مانی اور حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو احکامات لے کر آئے تھے انہیں رد کر دیا ،اس پر حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی :

اے میرے رب ! عزوجل (تو جانتا ہے کہ ) میں نے اپنی قوم کو رات دن تیری توحید اور تیری عبادت کی طرف بلایا ، تیرے عذاب اور تیری قدرت سے ڈرایا تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیا ڈال لیں تاکہ میری دعوت کو سن نہ سکیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور منہ چھپا لیے ۔پھر میں نے انہیں محفلوں میں اس طرف بلند آواز سے اعلانیہ بلایا جس طرف بلانے کا تونے مجھے حکم دیا تھا اور ایک ایک سے آہستہ اور خفیہ بھی کہا اور دعوت دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔

درس ھدایت: قران کریم کے اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ قوم نوح جو کہ اللہ عزوجل کی نا فرمانیوں کی وجہ سے کیسے غرق ہوئی اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ ہم اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی خیریت کے لئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کی نا فرمانیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں اور دوسروں کو بھی بچاتے رہیں ۔


مختصر تعارف :-

اللہ عزوجل کے نبی حضرتِ نوح علیہ السلام کے دور کی ایک قوم تھی جس کا نام قوم نوح تھا اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا اور حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو بت پرستی چھوڑ دینے اور صرف اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت کے دلائل بیان کیے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے پر انہیں غضب اور عذاب سے ڈرایا لیکن انہوں نے نوح علیہ السلام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا اسی طرح نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو خدا کا پیغام سناتے رہے مگر چند افراد کے علاوہ ان کی بدنصیب قوم ایمان نہیں لائی۔

خاصیت :-

اس قوم کا یہ حال تھا کہ ہر بوڑھا باپ اپنے بچوں کو یہ وصیت کر کے مرتا تھا کہ نوح (علیہ السلام ) بہت پرانے پاگل ہیں معاذ اللہ اس لئے کوئی ان کی باتوں کو نہ سنے اور نہ ان کی باتوں پر دھیان دے ، یہاں تک کہ ایک دن یہ وحی نازل ہوئی کہ اے نوح ! اب تک جولوگ مؤمن ہو چکے ہیں ان کے سوا اور دوسرے لوگ بھی ہرگز ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ اس کے بعد آپ اپنی قوم کے ایمان لانے سے نا امید ہوگئے ۔ اور آپ نے اس قوم کی ہلاکت کے لئے دعافرمادی۔

نافرمانیاں:-

۱. جب آپ کشتی بنانے میں مصروف تھے تو آپ کی قوم آپ کا مذاق اڑاتی تھی۔

۲. کوئی کہتا کہ اےنوح! اب تم بڑھئی بن گئے؟ حالانکہ پہلےتم کہا کرتے تھے کہ میں خدا کا نبی ہوں ۔

۳. کوئی کہتا کہ اے نوح! اس خشک زمین میں تم کشتی کیوں بنار ہے ہو؟ کیا تمہاری عقل ماری گئی ہے؟ غرض طرح طرح کا تمسخر واستہزاء کرتے اور قسم قسم کی طعنہ بازیاں اور بدزبانیاں کرتے رہتے تھے اور آپ ان کے جواب میں یہی فرماتے تھے کہ آج تم ہم سے مذاق کرتے ہو لیکن مت گھبراؤ جب خدا کا عذاب بصورت طوفان آ جائے گا تو ہم تمہارا مذاق اڑائیں گے۔

جب طوفان آ گیا تو آپ نے کشتی میں درندوں، چرندوں اور پرندوں اور قسم قسم کے حشرات الارض کا ایک ایک جوڑا نر ومادہ سوار کر دیا اور خود آپ اور آپ کے تینوں فرزند یعنی حام، سام اور یافث اور ان تینوں کی بیویاں اور آپ کی مومنہ بیوی اور 72 مؤمنین مردوعورت کل 80 انسان کشتی میں سوار ہو گئے اور آپ کی ایک بیوی ’واعلہ‘‘ جو کافر تھی ، اور آپ کا ایک لڑکا جس کا نام’’ کنعان‘‘ تھا، یہ دونوں کشتی میں سوارنہیں ہوئے اور طوفان میں غرق ہو گئے۔)تفسیر صاوی،پ 12،ھود :36۔39 )

قرآن کریم میں اللہ عزوجل نےاس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ

وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَىٕسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ۚۖ(۳۶)وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا وَ لَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاۚ-اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ(۳۷)وَ یَصْنَعُ الْفُلْكَ- وَ كُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُؕ-قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَ ؕ(۳۸)فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ-مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ(۳۹) (پ12، ہود: 36-39)

ترجمۂ کنزالایمان : اور نوح کو وحی ہوئی کہ تمہاری قوم سے مسلمان نہ ہوں گے مگر جتنے ایمان لاچکےتو غم نہ کھا اس پر جو وہ کرتے ہیں اور کشتی بنا ہمارے سامنے اور ہمارے حکم سےاور ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرنا وہ ضرور ڈوبائے جائیں گے اور نوح کشتی بناتا ہے اور جب اس کی قوم کے سردار اس پر گزرتے اس پر ہنستے بولا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ایک وقت ہم تم پر ہنسیں گےجیسا تم ہنستے ہو تو اب جان جاؤ گےکس پر آتا ہے وہ عذاب کہ اسے رسوا کرے اور اترتا ہے وہ عذاب جو ہمیشہ رہے۔

درس ھدایت: قرآن کریم کے اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ قوم نوح اللہ عزوجل کی نا فرمانیوں کی وجہ سے غرق ہوئی اسی لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کے خیریت و بقا کے لیے اللہ اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کی نافرمانیوں سے ہميشہ بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔( عَجَائبُ القُرآن مع غرائب القران )


حضرت نوح علیہ السلام کا تعارف:

حضرت نوح علیہ السلام کا اسمِ گرامی یشکریا عبدالغفار ہے اور آپ حضرت ادریس علیہ السلام کے پڑپوتے تھے، آپ کا لقب"نوح" اس لئے ہوا کہ آپ کثرت سے گریہ وزاری کیا کرتے تھے۔چالیس یا پچاس سال کی عمر میں آپ نبوت سے سرفراز فرمائے گئے اور 950سال آپ اپنی قوم کو دعوت فرماتے رہے اور طوفان کے بعد ساٹھ برس دنیا میں رہے تو آپ کی عمر ایک ہزار پچاس سال کی ہوئی۔

مذہبی اختلاف کی ابتداء کب ہوئی؟

مذھبی اختلاف کی ابتداء سے متعلق مفسرین نے کئیں اقوال ذکر کئے ہیں، ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے تک لوگ ایک دین پرر ہے، پھر ان میں اختلاف واقع ہوا تو حضرت نوح علیہ السلام ان کی طرف مبعوث فرمائے گئے، دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے کشتی سے اُترنے کے وقت سب لوگ ایک دین پر تھے۔

جب اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا:اے میری قوم! میں تمہیں اللہ کے حکم کی مخالفت کرنے اور اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنے پر اللہ کے عذاب کا صریح ڈر سنانے والا ہوں۔

آپ نے اپنی قوم کو عبادتِ الہی کی طرف دعوت دیتے ہوئے فرمایا: اے میری قوم!ایمان قبول کر کے اللہ پاک کی عبادت کرو، کیونکہ اس کے سوا کوئی اور ایسا ہے ہی نہیں کہ جس کی عبادت کی جا سکے، وہی تمہارا معبود ہے اور جس کا میں تمہیں حکم دے رہا ہوں، اس میں اگر تم میری نصیحت قبول نہ کرو گے اور راہِ راست پر نہ آؤ گے، تو مجھے تم پر بڑے دن یعنی روزِ قیامت یا روزِ طوفان کے عذاب کا خوف ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بتوں کی پجا ری تھی، اللہ نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو پہلے سے ہی ڈرا دیں کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان پر دنیا و آخرت کا دردناک عذاب آئے گا، تاکہ ان کے لئے اصلاً کوئی عذر باقی نہ رہے۔

یاد ہے!کہ حضرت نوح علیہ السلام وہ سب سے پہلے رسول ہیں، جنہوں نے کفار کو تبلیغ کی اور سب سے پہلے آپ کی قوم پر ہی دنیوی عذاب آیا۔

حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے آپ کی نبوت کو جھٹلایا، حضرت نوح علیہ السلام پر نازل ہونے والی وحی جو آپ ان تک پہنچا دیتے تھے، اسے قبول نہ کیا، ایک عرصے تک عذابِ الہی سے خوف دلانے اور راہِ راست پر لانے کی کوشش کرنے کے باوجود بھی وہ لوگ اپنی بات پر ڈٹے رہے تو ان پر اللہ پاک کا عذاب نازل ہوا۔

جو مؤمنین حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار تھے، اللہ پاک نے عذاب سے محفوظ رکھا اور باقی سب کو غرق کر دیا، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے دشمنوں پر اس وقت تک دنیاوی عذاب نہیں آتے، جب تک وہ پیغمبر کی نافرمانی نہ کریں:

ترجمہ کنزالعرفان:"اور ہم کسی کو عذاب دینے والے نہیں، جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں۔"(سورہ بنی اسرائیل:15)

حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں چالیس مرد اور چالیس عورتیں تھیں، مگر آپ کی اولاد کے سوا کسی کی نسل نہ چلی، اسی لئے آپ کو آدمِ ثانی کہتے ہیں۔

وَدّ، سُواع وغیرہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے ان بتوں کے نام ہیں، جنہیں وہ پوجتے تھے، ان لوگوں کے بت تو بہت تھے مگر یہ پانچ(وَدّ، سُواع، یَغوث، یَعُوق اور نَسْر) ان کے نزدیک بڑی عظمت والے تھے۔

وَدّ مرد کی صورت پر تھا، سُوااع عورت کی صورت پر، یَغوث شیر کی شکل میں، یَعُوق گھوڑے کی شکل میں اور نَسْرگدھ کی شکل میں تھا۔

یہ وَدّ، سُواع وغیرہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک آدمیوں کے نام تھے، جب وہ وفات پا گئے تو شیطان نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ جن جگہوں پر وہ اللہ والے بیٹھا کرتے تھے، وہاں ان کے مجسمے بنا کر رکھ دو، ان بتوں کے نام بھی ان نیک لوگوں کے نام پر ہی رکھ دو، لوگوں نے عقیدت کے طور پر ایسا کر دیا، لیکن ان کی پوجا نہیں کرتے تھے، جب وہ لوگ دنیا سے چلے گئے اور علم بھی کم ہوگیا تو ان مجسموں کی پوجا ہونے لگ گئی۔

محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وَدّ، سُواع وغیرہ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے نام تھے، یہ بہت عبادت گزار تھے، جب ان کا انتقال ہوگیا تو لوگ غمزدہ ہوگئے تو شیطان نے لوگوں کو بہلا کر کہ میں ان کی تصویر بنا دیتا ہوں، انہیں دیکھ کر تمہیں سکون میسّر ہوگا اور ان کی تصویر بنا کر مسجد کے کونے میں رکھ دی، پھر ایک وقت ایسا آیا، لوگوں نے اللہ کی عبادت چھوڑ کر ان کی پوجا شروع کر دی، یہاں تک کہ اللہ نے حضرت نوح علیہ السلام کو بھیجا، جنہوں نے ان لوگوں کو اللہ کی وحدانیت اور عبادت کی دعوت دی۔

بعض مفسرین کے نزدیک حضرت نوح علیہ السلام کی قوم سے یہ بت منتقل ہوکر عرب میں پہنچے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان بتوں کو طوفان نے مٹی میں دفن کر دیا تھا تو وہ اس وقت سے مدفون ہی رہے، یہاں تک کہ شیطان نے عرب کے مشرکین کے لئے انہیں زمین سے نکال دیا۔(تفسیر صراط الجنان)