خطیبِ پاکستان، واعظِ شیریں بیان، مشفق و محبِ دعوتِ اسلامی حضرت مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی رحمۃُ اللہِ علیہ کا  39واں سالانہ عرس 17اور 18فروری2022ء کو نہایت مذہبی عقیدت و احترام سے منایا گیا۔

عرسِ پاک کا مرکزی اجتماع جامع مسجد گلزار حبیب ، گلستان اوکاڑوی (سولجر بازار) میں ہوا جہاں دعوتِ اسلامی کے کئی ذمہ داران اور دیگر اسلامی بھائیوں سمیت ملک و بیرون ملک سے علما و مشائخ اور عقیدت مند حضرات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

عرسِ پاک میں علما و مشائخ اہل سنت اور ائمہ و خطبا نے اپنے خطابات میں حضرت کی حیات و خدمات، ذات و صفات اور دین و ملت اور ملک و قوم کے لئے ان کے مثالی کا رہائے نمایاں اور عشق رسول کے حوالے سے انہیں والہانہ خراج محبت وعقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر ایصال ثواب کے لئے اجتماعی فاتحہ خوانی و دعا بھی کی۔

اس موقع پر آئیے محب دعوتِ اسلامی کی سیرت کے کچھ پہلؤوں کے بارے میں پڑھتے ہیں:

حضرت علامہ مولانا محمد شفیع اوکاڑوی رحمۃُ اللہِ علیہ کی حیات و خدمات

ولادت : خطیبِ پاکستان، واعظِ شیریں بیان حضرت مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی بن شیخ کرم الٰہی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 1348ھ/1929ء کو کھیم کرن، مشرقی پنجاب (ہند) میں ہوئی۔آپ رحمۃُ اللہِ علیہ1947 ء میں قیام پاکستان کے موقع پر ہجرت کرکے اوکاڑہ آئے۔

بیعت و ارادت: آپ نے شیخ المشائخ حضرت پیر میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃُ اللہِ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کے فُیوض وبرکات سے مستفیض ہوئے ۔

تعلیم وتربیت: شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا غلام علی اشرفی اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ اور غزالیٔ دوراں حضرت علامہ سید احمد سعیدکاظمی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے علوم دینیہ حاصل کئے اور اسناد حاصل کیں ْ

مختلف خدمات دینیہ: ٭برلا ہائی اسکول اوکاڑہ میں دینیات کے ٹیچر رہے۔ ٭1955ء میں کراچی تشریف لائے اور کراچی کی مرکزی میمن مسجد (بولٹن مارکیٹ) میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دئیے، میمن مسجد کی امامت و خطابت کے بعد تقریباً تین برس جامع مسجد عیدگاہ میدان اور سَوا دو سال جامع مسجد آرام باغ اور بارہ برس نور مسجد نزد جوبلی مارکٹ میں بلامعاوضہ خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے اور نماز جمعہ پڑھاتے رہے۔ ان تمام مساجد میں تفسیرِ قراٰن کا درس دیتے رہے اور مجموعی طور پر تقریباً نو پاروں کی تفسیر بیان کی۔٭تین ہزار سے زائد افراد نے آپ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔ ٭1964ء میں، پی ای سی ایچ سوسائٹی کراچی میں مسجد غوثیہ ٹرسٹ سے ملحق ایک دینی درس گاہ دار العلوم حنفیہ غوثیہ قائم کی۔

خطابت: آپ مسلسل 40سال تک تقاریر فرماتے رہے ہیں۔ آپ کی علمی استعداد ،حُسنِ بیان، خوش الحانی اور شانِ خطابت نہایت منفرد اور ہر دل عزیز تھی۔ ماہِ محرم کی شبِ عاشورہ میں آپ کا خطاب امتیازی حیثیت کا حامل ہوتا تھا۔

راہِ خدا میں سفر: آپ نے دینِ متین کی خدمت کے لئے شرقِ اوسط، خلیج کی ریاستوں، ہند، فلسطین، جنوبی افریقہ اور ماریشس سمیت کئی ممالک کے سفر کئے۔

تصنیفی خدمات: آپ نے وعظ و بیان کے ساتھ ساتھ تحریروتصنیف کے ذریعے بھی خدمت دین کی، آپ کی تصانیف میں ذکرِ جمیل،ذکرِ حسین، راہِ حق،درسِ توحید،شامِ کربلا، امام پاک اور یزید پلید، برکاتِ میلاد شریف، مسلمان خاتون، انوارِ رسالت سمیت کئی کتب شامل ہیں۔

قاتلانہ حملہ: 16اکتوبر 1962ء میں کراچی کے علاقہ کھڈا مارکیٹ میں دَورانِ تقریر مخالفین نے آپ پر چُھریوں اور چاقوؤں سے قاتلانہ حملہ کِیا جس کے سبب آپ شدید زخمی ہوئے اور کئی دن تک کراچی کے سِوِل اسپتال میں زیرِ علاج رہے۔ لیکن آپ نے حملہ آوروں کو معاف کردیا۔

دعوتِ اسلامی سے اُلفت ومحبت: 1401ھ میں دعوتِ اسلامی کا آغاز ہوا، اس وقت ایک سوال پیشِ نظر تھا کہ ہفتہ وار سنّتوں بھرا اجتماع کہاں کیا جائے؟ چنانچہ اسی سلسلہ میں امیر اہل سنت حضرت علامہ محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت برکاتھم العالیہ نے خطیبِ پاکستان، حضرت علامہ مولانا محمد شفیع اوکاڑوی رحمۃُ اللہِ علیہسے ملاقات کی اور صورتِ حال بیان کی۔ آپ دعوتِ اسلامی کے بارے میں سن کر بہت خوش ہوئے اور اپنے دستخط کيساتھ دعوتِ اسلامی کیلئے تائیدی لیٹر جاری فرمایا۔ امیر اہلِ سنّت دامت برکاتہم العالیہ اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ” آپ کی مسلکِ اہلِسنّت سے مَحَبَّت صد کروڑ مرحبا!بے مانگے بابُ المدینہ کے قَلْب میں واقِع اپنی زیرِ تَو لِیَت جامِع مسجِد گلزارِ حبیب (واقِع گلستانِ اوکاڑوی کراچی)میں ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع کی اجازت کی سعادت عنایت فرمائی ۔ چُنانچِہ دعوتِ اسلامی کا اوّلین مَدَنی مرکزجامِع مسجِد گلزارِ حبیب بنا۔اُن کی حِینِ حیات اور بعدِوَفات ہم نے برسوں تک وہاں ہفتہ وا ر سُنّتوں بھر ا اِجتماع کیا ۔ عاشِقانِ رسول کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا یہاں تک کہ جامِع مسجد گلزارِ حبیب اجتماع کے لئے ناکا فی ہوگئی ،اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسباب مُہَیّا کئے، سب اسلامی بھائیوں نے مل کرخوب بھاگ دوڑ کی، کم و بیش سوا دو کروڑ پاکستانی روپے کا چندہ اکٹّھاکیا اور (پُرانی)سبزی منڈی کے پاس بابُ المد ینہ کراچی میں تقریباً 10 ہزارگز کا پلاٹ خریدا اور پھر مزید کروڑوں روپے کے چندے سے عظیمُ الشّان عالَمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ قائم کیا گیا جس میں شاندار مسجد ،مَدَنی کاموں کیلئے مُتَعَدَّدمَکاتِب اور جامِعۃُ المدینہ کی عالی شان عمارت کے ذَرِیعے لاکھوں مسلمان فیضانِ مدینہ لوٹ رہے ہیں۔(آدابِ طعام،ص445)

وفات: 20 اپریل 1984ء کو آخری خطاب جامع مسجد گلزار حبیب میں نمازِ جمعہ کے اجتماع سے کیا۔ اسی شب تیسری بار دل کا شدید دَورہ پڑا اور قومی ادارہ برائے امراضِ قلب کراچی میں داخل ہوئے۔ تین دن بعدمنگل، 21 رجب المرجب 1404 ھ مطابق 24 اپریل 1984ء کی صبح 55 برس کی عمر میں اذانِ فجر کے بعد دُرود و سلام پڑھتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جاملے ۔

25 اپریل کو نشتر پارک، کراچی میں علامہ سید احمد سعید کاظمی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی امامت میں ظہر کی نماز کے بعد کثیر افراد نے آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی۔ آپ کا مزارمبارک گلستانِ اوکاڑوی سولجر بازار کراچی میں واقع مسجد گلزارِ حبیب سے متصل ہے۔ آپ کا عرس ہرسال 21رجب المرجب کو منعقد ہوتاہے۔(ماخوذ از: خطیب پاکستان ، ص 9 تا 15)