امِ عطار کی زندگی سے متعلق ایک مختصر رپورٹ

از:محمد عمرفیاض عطاری مدنی

امیرِاَہل سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی والدہ ماجدہ کا نام امینہ تھا، آپ نیک ، صالحہ اور پرہیزگار خاتون تھیں ۔ اَمیرِ اَہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے والِد ِمحترم حاجی عبدُالرّحمن قادری کے وِصال فرمانے کے بعد بچّوں کی ساری ذِمّہ داری آپ کی والدہ کے کندھوں پر آگئی تھی، اِن کٹھن لمحات میں بھی آپ ہمّت نہ ہاریں، گھر کا نظام بھی اَحسن انداز سے چلایا اور سخت ترین معاشی آزمائشوں میں بھی اپنے بچوں کی اسلامی خُطوط پر تربیت کی۔ جس کا منہ بولتا ثبوت خود امیرِ اَہل سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی ذاتِ مقدسہ ہے ۔

امیرِ اَہل سنّت فرماتے ہیں کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ والدہ محترمہ رحمۃ اللہ علیہا کا شروع سے ہی فرائض و واجبات پر عمل کرنے اور کر وانے کا اس قدر ذہن تھا کہ ہم بہن بھائیوں کو چھوٹی عمر سے ہی نمازوں کی تلقین کرتیں اور سختی سے عمل بھی کر واتیں ، بالخُصوص نمازِ فجر کے لئے ہم سب کو لازمی اُٹھاتیں ۔ والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ علیہا کی اس طرح تلقین و تربیت کی بَرَکت سے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میری بچپن میں بھی کبھی نمازِ فجر چھوٹی ہو ۔

امیر اہل سنت کے بھائی کی وفات کے تھوڑے ہی عرصے بعد آپ کی والِدۂ محترمہ کا وصال 17 صَفَرُ الْمُظَفّر 1398سن ہجری جمعرات اور جُمُعہ کی درمیانی شب تقریباً سوا 10بجے کراچی کے علاقے میٹھادر میں ہوگیا۔

ایسے اعصاب شکن حالات میں عموماً لوگوں کے ہاتھ سے دامن ِ صبر چھوٹ جاتا ہے اور ان کی زبان سے شکوہ وشکایت کے الفاظ جاری ہوجاتے ہیں ،لیکن امیرِاہلِسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے دل برداشتہ ہونے کے بجائے اپنے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بارگاہ میں بصورتِ ا شعار اِستِغاثہ پیش کرتے ہوئے کلام لکھا:

گھٹائیں غم کی چھائیں،دل پریشاں یا رسولَ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

تمہیں ہو میرے دَرْد و دُکھ کا دَرماں یا رسولَ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

میں ننھا تھا، چلا والد، جوانی میں گیا بھائی

بہاریں بھی نہ دیکھیں تھیں چلی ماں یا ر سولَ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں کہ والدۂ مُشفِقَہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کا شبِ جُمُعہ کو انتقا ل ہوا۔الحمد للہ عزوجل کلِمۂ طَیِّبَہ اور اِسْتِغفار پڑھنے کے بعد زبان بند ہوئی ۔ غُسْل دینے کے بعد چہرہ نہایت ہی روشن ہوگیا تھا۔ جس حصۂ زمین پر روح قَبْض ہوئی اس میں کئی روز تک خوشبو آتی رہی اورخُصوصاً رات کو جس وقت انتقال ہوا تھا،اس وقت طرح طرح کی خوشبوؤں کی لَپٹَیں آتیں۔ سوئم والے دن صبح کے وقت چند گلاب کے پھول لاکر رکھے تھے جو شام تک تقریباً تروتازہ رہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے یہ پھول اپنی والدہ کی قبْر پر چڑھائے۔ یقین جانیں اُن پھولوں میں ایسی بھینی بھینی خوشبو تھی کہ آج تک مجھے گلاب کے پھولوں سےکبھی ویسی خوشبو سونگھنے کو نہیں ملی، بلکہ گھنٹوں تک وہ خوشبو میرے ہاتھوں سے بھی آتی رہی ۔ سبحان اللہ!!!

ہم اس عظیم ماں کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں اوراپنے تمام قارئین سے گزارش کرتے ہیں کہ جس ماردِ مشفقہ نے ہمیں الیاس قادری صاحب جیسی عظیم ہستی عطا کی ہے ان کے یومِ وصال پر آپ بھی خوب ایصال ِ ثواب اور فاتحہ خوانی کا اہتمام کیجئے:

اللّٰہ تعالٰی کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم