سنجیدگی

Thu, 18 Aug , 2022
2 years ago

سنجید گی کیا ہے ؟ وہ تمام کام جو ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہیں، انہیں وقار اور اچھے طریقے سے ادا کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ فلاں نے یہ کام بڑی سنجیدگی سے کیا ہے۔ سنجیدگی اگرچہ اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتی ہے، مگر ہم نے اسے محض گفتگو کی حد تک محدود کر دیا ہے، یعنی کم گو ہونا، فضول نہ بولنا، قہقہہ نہ لگانا، کسی کا دل نہ دکھانا، بات بات پر مذاق نہ اڑانا وغیرہ امور کو ہی سنجیدگی سمجھتی ہیں۔ چنانچہ اسی حوالے سے اَمِیْرِ اَہْلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ سے ایک مدنی مذاکرے میں جب یہ پوچھا گیا کہ بعض لوگ اپنے چہرے پر ہر وقت اداسی طاری کئے رکھتے ہیں کیا اسی کا نام سنجیدگی ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: ہر وقت چہرے پر اداسی طاری کئے رکھنے کو سنجیدگی نہیں کہتے بلکہ خشکی کہتے ہیں۔([i]) اسی طرح مذاق مسخری کرنا، گناہوں بھری باتیں کرنا، لوگوں کا تمسخر اڑا نا اور بات بات پر قہقہہ لگا نا بھی سنجیدگی نہیں۔ بلکہ اگر آپ کسی ایسے ماحول کا حصہ ہیں تو یاد رکھئے کہ ایسے ماحول میں رہنے سے کئی گناہوں میں مبتلا ہونے کا شدید خدشہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جو خواتین سنجیدگی اختیار نہیں کرتیں ان کی باتوں میں بھی تاثیر نہیں رہتی، خواہ وہ دین کی مبلغہ ہی کیوں نہ ہوں۔ جبکہ سنجیدہ گفتگو کرنے والی اور مذاق مسخری سے بچنے والی خواتین کی باتیں توجہ سے سنی جاتی ہیں اور ان پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہمیں چاہئے کہ حکمت عملی کے ساتھ اپنے معمولات کو پورا کریں اور جہاں سنجیدگی کو اپنانا ضروری ہو وہاں سنجیدہ رہیں۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ حصولِ علم کیلئے وقار اور سنجیدگی اختیار کرو۔(2) لہٰذا ضروری ہے کہ ہمارے روئیے اور انداز میں میانہ روی ہو یعنی ہنسی مذاق والا مزاج ہو نہ غصیلا انداز، بلکہ ہمیں تو اپنی زندگی کے ہر معاملے میں ہی میانہ روی اختیار کرنی چاہیے کہ اس کے بے شمار فوائد ہیں اور اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سیرت کو اپنا لیں کیونکہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خوبصورت زندگی کا ہر پہلو ہمارے لئے بے مثال نمونہ ہے، آپ سنجیدگی اور وقار کا پیکر تھے، موقع کے لحاظ سے مسکراتے بھی تھے اور مزاح بھی فرماتے تھے مگر آپ نے کبھی بھی قہقہہ نہیں لگایا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ آقا کریم صلی الله علیہ والہ وسلم نے سب کے ساتھ ہنسی مذاق کیا ہو، آپ عام لوگوں کی طرح دوسروں سے نا شائستہ ہنسی مذاق نہیں فرماتے تھے۔ آپ کے صحابہ کرام بھی زور سے نہیں ہنستے تھے بلکہ آپ کی طرح مسکراتے تھے، وہ آپ کی مجلس میں ایسی سنجیدگی اور وقار سے بیٹھتے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔(3) اسی طرح حضرت اُمِّ درداء رضی اللہُ عنہا اپنے شوہر حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ کے متعلق فرماتی ہیں کہ وہ ہر بات مسکرا کر کیا کرتے تھے، میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا: میں نے حضور کو دیکھا ہے کہ آپ دورانِ گفتگو مسکرا تے رہتے تھے۔(4)نیز حضور صلی الله علیہ والہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے اس طرح کے مضامین بھی ملتے ہیں کہ آپ تمام لوگوں سے زیادہ تبسم فرمانے والے اور سب سے زیادہ خوش رہنے والے تھے، البتہ! جس وقت آپ پر وحی نازل ہو رہی ہوتی(5) یا قیامت کا تذکرہ ہو رہا ہوتا (6) یا وعظ و نصیحت سے بھرپور خطبہ ہو رہا ہوتا تو یہ کیفیت نہ ہوتی۔(7)

ہمیں چاہیے کہ ان احادیثِ کریمہ کی روشنی میں اپنے معمولات کاجائزہ لیں اور اپنی زندگی کو سنجیدگی کے زیور سے آراستہ کریں، ہر کام موقع کی مناسبت سے کریں اور مسکرانے کے وقت مسکرائیں، مگر ضرورت سے زیادہ سنجیدہ ہوں نہ روکھے پن کا مظاہرہ کریں، ورنہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے رشتے دار اور سہیلیاں بھی ہماری مسکراہٹ دیکھنے کو ترس جائیں۔ یاد رکھئے! غیر ضروری سنجیدگی ہمارے گھر کے افراد کو ہی اکتاہٹ میں مبتلا نہ کرے گی بلکہ ہم سے ملنے جلنے والی خواتین بھی ہمارے قریب آنا پسند نہ کریں گی، بالخصوص شادی شدہ خواتین ایسا رویہ نہ اپنائیں کہ اس سے بد مزاجی پیدا ہو گی اور ان سے یہ باتیں بھی صادر ہو سکتی ہیں: بات بات پر چیخ و پکار سے کام لینا، چھوٹی سی غلطی پر بلا وجہ غصے اور جذباتی پن کا مظاہرہ کرنا، شوہر سے روکھے پن سے پیش آنا، ہر وقت چہرہ سپاٹ و سنجیدہ رکھنا، سیدھے منہ بات نہ کرنا، خوشی یا رنْج کے موقع پر بھی چہرہ بے تأثّر رکھنا کہ خوشی یا غم کا اظہار ہی نہ ہو، یونہی گھر کے دیگر معاملات سے لاتعلقی برتنا یا بچوں سے بے رخی سے پیش آنا۔ یاد رکھئے! ان میں سے کوئی بھی بات درست نہیں، اس سے گھر کے ماحول بھی خراب ہوتا، میاں بیوی کے درمیان تناؤ پیدا ہوتا اور بچّوں سے ہم آہنگی ختم ہو جاتی ہے۔ لہٰذا خشک مزاجی سے جہاں تک ممکن ہو ہمیں بچنا چاہئے اور مسکراہٹ، ملنساری اور خندہ پیشانی کی عادات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہو سکے تو کبھی کبھار موقع کی مناسبت سے خوش طبعی سے بھی کام لینا چاہئے۔ اگر ہم ان اوصافِ کریمہ کو اپنا لیں گی تو ان شاء اللہ ہماری زندگی سے بھی مشکلات کم ہوں گی اور آسانیاں پیدا ہوں گی۔

سنجیدگی کے فوائد و برکات:٭ سنجیدگی اللہ پاک کی رضا کا باعث ہے۔٭سنجیدگی سے بزرگی و دنیا کی بے شمار برکتیں نصیب ہوتی ہیں۔٭وقار اور عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٭ گھر میں دینی ماحول بنانے اور نیکی کی دعوت کو عام کرنے کے لیے سنجیدگی بھرا رویہ بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ ٭سنجیدگی اختیار کرنے سے آخرت بھی اچھی ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو یعقوب بن حسین رازی رحمۃُ اللہِ علیہ کوکسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا: الله پاک نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ کہنے لگے: اللہ پاک نے میری مغفرت فرما دی۔ پوچھا گیا: کس وجہ سے؟ فرمایا: میں سنجیدہ بات میں مذاق شامل نہ کرتا تھا۔(8)

٭ منقول ہے: سنجیدگی اور وقار سے اچھا کوئی ہار نہیں، اللہ پاک جس کے فہم و فراست میں اضافہ فرماتا ہے اس کی ہدایت میں بھی اضافہ فرما دیتاہے۔(9)

سنجیدگی نہ اپنانےکے نقصانات: ٭غیر سنجیدہ خواتین کو پسند نہیں کیا جاتا٭ان کے متعلق رائے بھی اچھی نہیں رکھی جاتی ٭ ان سے مدد لی جاتی ہے نہ کی جاتی ہے ٭ان سے دور رہنے میں عافیت سمجھی جاتی ہے ٭ بسا اوقات ذلت و رسوائی کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃُ اللہِ علیہ کا فرمان ہے کہ آپس میں ٹھٹھا مذاق مت کیا کرو کیونکہ اس طرح ہنسی ہنسی میں دلوں میں نفرت بیٹھ جاتی ہے اور برے افعال کی بنیاد دلوں میں اُستوار ہو جاتی ہے۔(10)

اللہ پاک ہمیں سنجیدگی اور وقار کو اپنا کر اپنی زندگی اچھے انداز میں گزارنے کی توفیق عطافرمائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[i]مدنی مذاکرہ قسط 28: حافظہ کمزور ہونے کی وجوہات، ص 31 2جامع بیان العلم وفضلہ، ص187، حدیث:599 3وسائل الوصول کتاب جمال مصطفیٰ، ص157 4مکارم الاخلاق للطبرانی، ص319، حدیث: 21 5مکارم الاخلاق للطبرانی، ص319، حدیث: 22 6نسائی،ص 274تا275، حدیث: 1575 7مسلم، ص 430، حدیث 867 8احیاء العلوم مترجم، 5 / 654 9حلیہ، 5/ 160، الرقم: 6625 0کیمیائے سعادت، 2/563