اللہ عَزَّ
وَجَلَّ قرآن
مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے: وَاَتِمُّوا
الحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہ ترجمۂ کنزالایمان (اور حج اور عمرہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے پورا کرو) ۔(البقرۃ، پ2، 196) آیتِ
مبارکہ کے اس جز کے تحت تفسیرِ صراط الجنان میں لکھاہے :اس سے مراد یہ ہے کہ حج و عمرہ دونوں کو ان کے فرائض و شرائط کے
ساتھ خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے بغیر
سستی اور کوتاہی کے مکمل کرو۔(صراط الجنان،1، 354، تحت الآیۃ:196)
اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اولاً حج کا اصلِ
مقصود رضائے الٰہی ہونا چاہیئے، اسی طرح حاجی کا گناہوں سے
پاک ہو جانا اسی صورت میں ہےجبکہ
و ہ صرف اللہ عزوجل کی رضا کے لئے حج
کرے جیساکہ حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے:جو صرف اللہ عزوجل کے لئے
حج کرے اور اس میں کوئی فحش بات یا گناہ نہ کرے تووہ حج سے ایسےلوٹتا ہے جیسا کہ
وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔(بخاری، فضل حج مبرور، 1، 512، حدیث1521)
اراکینِ حج اوراسلاف کی یادیں:
حج کا ایک مقصد ہمیں ہمارے اسلاف کی یادوں کے ساتھ جوڑنا ہے کیوں کہ حج میں
ادا کئے جانےوالے اراکین، واجبات، سنتیں
اور مستحبات الغرض احرام باندھنے سے لیکر طوافِ زیارہ تک ہر کام ہمارے اسلاف و
بزرگانِ دین کی یادوں پر مشتمل ہے جن کے
سبب مسلمانوں کا ایمان تازہ ہو جاتا ہیں اوریہ اُن کی بخشش کا سامان بھی بن جاتا ہے۔
مقصدِ حج:
جس طرح اللہ عزوجل نے باجماعت نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا کہ اس طرح مسلمان ایک ہی صف میں
ایک ہی امام کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں، اس طرح اتفاق و اتحاد پیدا ہوتا ہےنیز ایک
غریب انسان بغیر کسی تفریق اور امتیاز کے امیر آدمی کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہےکہ آقا
ہو یا غلام، خادم ہو یا مخدوم سب اللہ عزوجل کی
بارگاہ میں برابر ہیں کسی کو دوسرے پر فوقیت نہیں مگر تقوے کے ساتھ۔ارشاد خدا وندی
ہے: ان
اکرمکم عند اللہ اتقکم ۔ترجمۂ کنزالایمان(بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والاوہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے)
۔
اسی طرح اللہ عَزَّ
وَجَلَّ نے مسلمانوں کو یکجا و متحد کرنے اور اُن کے
درمیان اخلاص و محبت پیدا کرنے کے لئےانہیں ایک ایسی جگہ جمع ہونے کا حکم دیا جہاں
وہ لوگ نسل، زبان، رنگت اور شہروں کا امتیاز کئے بغیر خالصتاً اللہ عَزَّ
وَجَلَّ کی رضا کے لئے ایک ساتھ عبادت کریں کیوں کہ
مسلمان مشرق و مغرب تک پھیل چکے تھے اور اُن میں نسل و زبان کے اعتبار سے بھی فرق
آگیا تھالہٰذا انہیں ایک میدان میں جمع
ہونے کا حکم دیا گیا۔
افعالِ حج کی بزرگانِ دین سے نسبت:
جیساکہ ذکر کیا گیا کہ حج کے اراکین و افعال
دراصل ہمارے اسلاف کی یادیں ہیں جس کے ذریعے مسلمان اپنے قلوب و اذہان کو پاک و صاف کرتے اور اللہ عَزَّ
وَجَلَّ سے مغفرت کے طلب گار ہوتے ہیں،ان میں سے بعض درج
ذیل ہیں:
حجرِ اسود کا استلام:
حجرِ اسود ایک جنتی پتھر ہے جس کا حاجی استلام( اپنے
ہاتھ سے چھونا) کرتے ہیں ، زمانہ
جاہلیت میں لوگوں کو پتھر سے دور کیا جاتا تھا جبکہ اس پتھر کو چومنے اور
چھونے کا حکم دیا گیاکیوں کہ پیارے آقا ﷺ
نے جب حج کیا تو حجرِ اسود کو چوما تھا۔(سنن
ابی داؤو، کتاب المناسک، باب فی رفع الیداذا رأی البیت،2، 255، حدیث 1872)
روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے
پاس تشریف لائے اور اسے چوما پھر فرمایا:
میں جانتاہوں تو ایک پتھر ہے، تو نہ کسی کو نقصان پہنچاسکتا ہے نہ فائدہ اگر میں رسول اللہ ﷺ کو تجھے چومتے ہوئے نہیں دیکھتاتو
میں بھی تجھے نہیں چومتا ۔(بخاری ، باب ماذکر فی الحجر الاسود، 1، 537، حدیث 1597)
صفا اور مروۃ کی سعی:
یہ وہ دو مقام ہیں جن میں بعض مناسکِ حج ادا کئے
جاتے ہیں جیساکہ صفا و مروۃ کے درمیان سعی کرنا یعنی ان مقامات میں اُس شخص کی طرح
چلنا جو کسی چیز کی جستجو میں ہو یا کسی چیز کی تلاش میں ہو ۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی زوجہ سیدہ ہاجرہ رضی
اللہ عنہا اور ان کے شہزادے حضرت اسماعیل علیہ السّلام ان مقامات میں جلوہ افروز
تھےتو اس وقت سیدہ ہاجرہ رضی اللہ عنہا مشکیزے میں پانی ختم ہونے کے سبب صفا سے مروۃ کے درمیان
دوڑی تھیں تاکہ وہ اپنی اور اپنے شہزادے کی پیاس بھجا سکیں ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو سیدہ کا یہ عمل اتنا پسند آیا (کیوں کہ انہوں نے یہ سب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نبی کے لئے کیا تھا) لہٰذا اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے
اس عمل کو حج کے رکن میں شامل فرما دیا۔(صاوی، ابراہیم، 3/ 1027-1028،تحت الآیۃ:37)
قربانی:
اس میں حضرت
ابراہیم علیہ السّلام کی اقتداء ہے، جب اللہ عَزَّ
وَجَلَّ نے
انہیں حکم دیا کہ اپنے لختِ جگر کو ذبح کردو تو حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے بیتے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو اس معاملے
سے آگاہ کیا تو انہیں عرض کی اے میرے باپ آپ وہ کریں جس کا آپ کو حکم ہوا ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السّلاماس حکم
پر عمل پیرا ہونے کے لئے تیار ہو گئے اور اپنے لختِ جگر کو ذبح کرنے کے لئے لٹا
دیا لیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرت جبرائیل علیہ السّلام کے ذریعے ایک مینڈھا بھیج کر حضرت اسماعیل علیہ
السّلام کو
بچا لیااور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو
قربانی کرنے کا حکم دیا۔(صاوی، الصافات، 5/ 1746-1748)
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب بندوں کے افعال اراکینِ حج
میں شامل:
ان جیسے اور بھی اراکینِ حج ہیں جن کا تعلق اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے
محبوب بندوں سے ہےنیز ان نیک بندوں نے یہ ا راکینِ حج اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی
عبادت سمجھ کر نہیں بلکہ کسی خاص وجہ کے تحت کیا تھالیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے
اپنے محبوب بندوں کے ان افعال کو اراکینِ حج میں شامل فرما کر مسلمانوں (جو استطاعت
رکھتے ہوں) پر حج کو لازم قرار دے دیا تاکہ دنیا بھر کے مسلمان حج کے لئے جمع ہوکر ان نیک بندوں کی
اطاعت گزاری کو ملاحظہ کریں اور ان نیک
بندوں کی طرح اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حکم پر سرِ خم تسلیم کریں۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں
بھی اپنے بابَرَکت گھر کعبۂ معظمہ کی زیارت سے مشرف فرمائے تاکہ ہم مکہ مکرمہ میں
موجود ان مقدس مقامات کی زیارت کر سکیں جن کا تعلق اللہ عَزَّ
وَجَلَّ کے محبوب بندوں سے ہے۔
از:غیاث الدین عطاری مدنی
اسلامک اسکالر، اسلامک ریسرچ سینٹر(المدینۃ العلمیہ)