Under the management of Dawat-e-Islami, Zimmahdar Islamic sisters of South and West Yorkshire Kabinah conducted monthly Madani Mashwarah on 04 October. Islamic sisters from Division Mushawarat and subdivision attended this.

The Zimmahdar Islamic sister evaluated the performance of the Islamic sisters present in the Madani Mashwarah and taught them. She explained the points of Rabi’-ul-Awwal to them and motivated them to distribute booklets. Moreover, she delivered points for increasing Madani activities and bringing improvement into them.


Sunnah-inspiring Ijtima’aat in UK Scotland

Sun, 11 Oct , 2020
4 years ago

Under the management of Dawat-e-Islami, Sunnah-inspiring Ijtima’aat were held in UK Scotland in the regions of Glasgow Pollokshields, Govanhill, and Dunfermline from 30 September to 06 October 2020. More or less 93 Islamic sisters attended these Ijtima’aat.

The female speakers of Dawat-e-Islami delivered speeches on the topic of ‘Attributes of the Ummah of Mustafa .’ They also developed the mindset of the Islamic sisters present in the Ijtima’aat to attend weekly Ijtima’, watch Madani Muzakarah, and read booklet weekly.


اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر کردہ کتب ورسائل سے پتہ چلتا ہے کہ 105 سے زائد علوم وفنون پر آپ نے قلم اٹھایا ہے۔ (ماخوذ ازمعارف رضا، ص233، سال1991) جن میں دینی علوم مثلاً قرآن وحدیث ،فقہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ دیگرعلوم وفنون مثلاً سائنس، ریاضی، معاشیات واقتصادیات وغیرہ شامل ہیں، کتب ورسائل کے ساتھ ساتھ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار بھی ان علوم وفنون سے لبریز نظر آتے ہیں۔

ان میں سے کچھ علوم درج ذیل ہیں:

(1) علم لغت(Vocabulary): الفاظ کی بناوٹ اور معانی کا علم

اس فن میں اعلیٰ حضرت کی دو کتابیں ہیں:(1)اَحْسَنُ الْجُلُوْہ فِی تَحْقِیْقِ المِیْلِ وَالذِّرَاعِ وَالْفَرْسَخِ وَالْغُلُوہ (2)فَتْحُ الْمُعْطِی بِتَحْقِیْقِ مَعْنَی الْخَاطِی وَالْمُخْطِی۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۷۷ مکتبہ نبویہ لاہور)

(2) علم تاریخ(History)

اس فن میں اعلیٰ حضرت کی تین کتابیں ہیں: (1)اِعْلَامُ الصَّحَابَۃِالْمُوَافِقِیْنَ لِلْاَمِیْرِ مُعَاوِیَۃَ وَاُمِّ الْمُؤْمِنِیْن (2)جَمْعُ الْقُرْآنِ و بِمَ عَزْوَہُ لِعُثْمَان(3)سرگزشت وماجرائے ندوہ۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲/۸۹)

(3) علم تکسیر(Fractional Numeral Math)

(1)اَطَائِبُ الْاِکْسِیْرِ فِی عِلْمِ التَّکْسِیْرِ۔(2) 1152 مربَّعات (3)حاشیہ اَلدُّرُّ الْمَکْنُوْن (4) رسالہ در علمِ تکسیر(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۲)

(4) علم توقیت و نجوم(Reckoning of Time)

اوقات نماز کا علم ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے تاکہ ہر نماز صحیح وقت پر ادا کی جائے، اعلیٰ حضرت اس فن میں بھی یکتائے زمانہ تھے ، آپ ہی نے سب سے پہلے متحدہ پاک وہند میں شمسی سال کے اعتبار سے اوقاتِ نماز کا نقشہ مرتب کیا تھا۔اس فن میں اعلیٰ حضرت نے اردو، فارسی اور عربی زبانوں میں کم وبیش 16 کتب وحواشی تحریر فرمائے: (1)اَلْاَنْجَبُ الْاَنِیْقِ فِیْ طُرْقِ التَّعْلِیْقِ (2)زِیْجُ الْاَوْقَاتِ لِلصَّوْمِ وَالصَّلٰوۃ ِ (3)تاجِ توقیت(4)کَشْفُ الْعِلّۃِ عَنْ سَمْتِ الْقِبْلَۃِ (5)دَرْءُ الْقُبْحِ عَنْ دَرْکِ وَقْتِ الصُّبْح(6)سِرُّ الْاَوْقَاتِ (7)تَسْہِیْلُ التَّعْدِیْلِ (8)جدولِ اوقات (9)طلوع وغروب نیرین (10)اِسْتِنْبَاطُ الْاَوْقَاتِ (11)اَلْبُرْہَانُ الْقَوِیْمِ عَلَی الْعَرْضِ وَالتَّقْوِیْمِ (12)اَلْجَوَاہِرُ وَالتَّوْقِیْتُ فِیْ عِلْمِ التَّوْقِیْتِ (13)رؤیتِ ہلالِ رمضان (14)جدولِ ضرب (15)حاشیہ جَامِعُ الْاَفْکَار (16)حاشیہ زُبْدَۃُ الْمُنْتَخَب۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۴)

(5تا 7) علم نجوم، ہیئت وفلکیات(اسٹرولوجی واسٹرونومی)

علم نجوم یعنی ستاروں اور سیاروں کے متعلق علم۔

علم ہیئت : وہ علم جس میں اجرام ِ فلکی ،زمین اور اس کی گردش و کشش وغیرہ سے بحث کی جاتی ہے ۔

اعلیٰ حضرت ستاروں اور سیاروں کی چالوں سے اتنے زیادہ باخبر تھے کہ جب آپ سے سوال کیا گیا کہ اہرامِ مصر کب اور کس نے تعمیر کیا تو آپ نے امیر المؤمنین مولی علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے قول کی روشنی میں اوراس فن میں اپنی مہارت سےجواب دیا کہ اسکی تعمیرات کو12640 سال آٹھ ماہ کا عرصہ گزرچکا ہے اور یہ تعمیرات سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش سے بھی 5750 سال پہلے جنات نے کی تھی ۔(معارف رضا، ص16-17، مجلہ 2013)

ان علوم پر امام اہلسنّت علیہ الرحمہ کی درج ذیل آٹھ کتابیں ہیں: (1) مَیْلُ الْکَوَاکِبِ وَتَعْدِیْلِ الْاَیَّامِ (2)اِسْتِخْرَاجُ تَقْوِیْمَاتِ کَوَاکِب(3) زَاکِیُ الْبِہَا فِیْ قُوّۃِ الْکَوَاکِبِ وَضُعْفِہَا (4)رِسَالَۃُ الْعَاد قَمَر (5)حاشیہ حَدَائِقُ النُّجُوْم (6)اِقْمَارُ الْاِنْشِرَاحِ لِحَقِیْقَۃِ الْاِصْبَاحِ (7)اَلصِّرَاحُ الْمُوْجِزُ فِی تَعْدِیْلِ الْمَرْکَزِ (8)جَادَۃُ الطُّلُوْعِ وَالْحَمْرِ لِلسَّیَّارَۃِ وَالنُّجُومِ وَالْقَمْرِ۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۵)

(8-9) علمُ الْحِسَاب وریاضی(Arithmetic & Mathemetic)

ان پر امام اہلسنّت علیہ الرحمہ کی درج ذیل دس کتابیں ہیں: (1)کَلامُ الْفَہِیْمِ فِی سَلَاسِلِ الْجَمْعِ وَالتَّقْسِیْمِ (2)جَدْوَلُ الرِّیَاضِی (3)مسئولیاتِ اَسہام (4)اَلْجَمَلُ الدَّائِرَۃِ فِی خُطُوطِ الدَّائِرَۃِ (5)اَلْکَسْرُ الْعُسْرٰی (6)زَاوِیَۃُ الْاِخْتِلَافِ الْمَنْظَرِ (7)عَزْمُ الْبَازِی فِی جَوِّ الرِّیَاضِی (8)کسورِ اَعشاریہ (9)معدنِ علومی درسنینِ ہجری، عیسوی ورومی (10)حاشیہ جامعِ بہادر خانی۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۶)

(10) علمِ اَرْثْمَا طِیْقِی (Greek Arithmetic)

اس فن میں اعلیٰ حضرت کی تین کتابیں ہیں: (1)اَلْمُوْہِبَاتُ فِی الْمُرَبَّعَاتِ (2)اَلْبُدُوْرُ فِی اَوْجِ الْمَجْذُوْرِ (3)کِتَابُ الْاَرْثْمَاطِیْقِی۔ (حیات اعلیٰ حضرت، ۲/۹۷)

(11) علم جبر ومقابلہ(Algebra)

یہ علم حساب کی فرع ہے۔ اس فن میں اعلیٰ حضرت کا ایک رسالہ ہے:(۱)حَلُّ الْمُعَادَلَات لِقَوِیِّ الْمُکَعَّبَاتِ (2)رسالہ جبرومقابلہ (3)حاشیہ اَلْقَوَاعِدُ الْجَلِیْلَۃ۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۷)

(12) علم الزیجات(Astronomical Tables)

اس علم میں اعلیٰ حضرت کی ایک کتاب ہے: (۱)مُسْفِرُ الْمَطَالِعِ لِلتَّقْوِیْمِ وَالطَّالِعِ (2)حاشیہ زیج بہادر خانی۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲ /۱۰۱)

(13) علم الجفر(Numerology Cum Literology)

اس فن میں اعلیٰ حضرت نے بغیر کسی استاد کےاس قدر مہارت حاصل کی کہ اس فن کے کئی قواعد آپ نے خود استخراج فرمائے،عربی زبان میں6 کتابیں ہیں: (1)اَلثَّوِاقِبُ الرَّضَوِیَّۃ عَلَی الْکَوَاکِبِ الدُّرِّیَّۃ (2)اَلْجَدَاوِلُ الرَّضَوِیَّۃ عَلَی الْکَوَاکِبِ الدُّرِّیَّۃ (3)اَلْاَجْوِبَۃُ الرَّضَوِیَّۃ لِلْمَسَائِلِ الْجَفَرِیَّۃ (4)اَلْجَفَرُ الْجَامِع (5)سَفرُ السَّفر عَنِ الْجَفَرِ بِالْجَفَرِ (6) مُجْتَلَّی الْعُرُوسِ وَالنُّفُوسِ۔

(14) علم ہندسہ(Geometry): خطوط اور زاویوں کا علم

(1)اَلْمَعْنَی الْمُجَلِّی لِلْمُغْنِی وَالظِّلِّی (2)اَلْاَشْکَالُ الْاِقْلِیْدَسْ (3)حاشیہ اصولِ ہندسہ (4)حاشیہ تحریرِ اقلیدس۔

(15-16) سائنس وہیئت (سائنس اینڈ فزکس)

اس فن پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی تحریروں اور فتاوی میں بیش بہا خزانہ عطا فرماتے ہوئے کئی سائنسی نظریات بھی پیش کئے ہیں ، اس فن پر آپ کی درج ذیل 3 اردوکتابوں اور 1 عربی حاشیہ کا پتہ چلا ہے: (1) نزولِ آیاتِ قرآن بسکونِ زمین وآسمان(2) فوزِ مُبین دَر رَدِّ حرکتِ زمین (3) مُعینِ مُبین بَہر دَورِ شمس وسکونِ زمین (4)حاشیہ اصولِ طبعی ۔

(17)معاشیات واقتصادیات(Economics)

اعلیٰ حضرت نے اس شعبہ میں بھی مسلمانوں کی نہ صرف بھرپور رہنمائی فرمائی بلکہ انہیں معاشی استحکام کا راستہ بھی دکھایا اس سلسلے میں آپ نے1912ء میں چار معاشی نکات بھی پیش کئے، اس موضوع پر آپ کی 3 کتابیں ہیں: (1)کِفْلُ الْفَقِیْہِ الْفَاہِمِ فِی اَحْکَامِ قِرْطَاسِ الدَّرَاہِمِ (2)تدبیرِفلاح ونجات واصلاح (3)اَلمُنٰی وَالدُّرَرْلِمَنْ عَمَدَ مَنِیْ آرْدَرْ

(18) علم ارضیات(Geology)

یعنی وہ علم جس میں زمین اور اس کے حصوں کے متعلق گفتگو کی جاتی ہے، زلزلے کا تعلق بھی اسی علم سے ہے ۔ زلزلہ کیسے آتا ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟زلزلہ مختلف علاقوں میں کیوں آتا ہے؟ زلزلہ پوری دنیا میں ایک ساتھ کیوں نہیں آتا ؟ زلزلہ کبھی کم شدت کے ساتھ اور کبھی انتہائی شدت کے ساتھ کیوں آتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب اس فن کا ماہر ہی دے سکتا ہے، امام اہلسنّت سے جب سوالات پوچھے گئے تو آپ علیہ الرحمہ نے اپنی فنی مہارت سے ان تمام کے تسلی بخش جوابات مرحمت فرمائے، اسی طرح تیمم کے مسئلہ میں مٹی اور پتھروں کی اقسام وحالتوں پر اپنی تحقیق سے 107 ایسی اقسام کا اضافہ فرمایا ہے جن سے تیمم جائز ہے اور 73 وہ بھی بتائی ہیں جن سے تیمم جائز نہیں، مزید تفصیل کیلئے آپ کا رسالہ ’’ اَلْمَطَرُ السَّعِیْد عَلٰی نَبْتِ جِنْسِ الصَّعِیْد‘‘ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

(19) علم حجریات(Petrology)

یہ علم ارضیات کی ایک شاخ ہے جس میں پتھروں سے متعلق معلومات حاصل کی جاتی ہیں کہ کون سا پتھر، معدنیات، ہیرے جواہرات کہاں اور کیسے بنتے ہیں اور ان کو کس طرح تقسیم کیا جاسکتا ہے، Metalکی تعریف جتنی وضاحت کے ساتھ اعلیٰ حضرت نے فرمائی ہے اتنی وضاحت کے ساتھ علم حجریات والے بھی نہ کرسکے، اس فن میں اعلیٰ حضرت کے 3 رسائل ہیں: (1)حُسْنُ التَّعَمُّم لِبَیَانِ حَدِّ التَّیَمُّم (2)اَلْمَطَرُ السَّعِیْد عَلٰی نَبْتِ جِنْسِ الصَّعِیْد (3)اَلْجِدُّ السَّدِیْد فِیْ نَفْیِ الْاِسْتِعْمَالِ عَنِ الصَّعِیْد۔(ماخوذ ازمعارف رضا، ص17، مجلہ 2013)

(20) علم صوتیات:

یہ علم ہیئت کی ایک اہم شاخ ہے جس میں آواز کی لہروں سے متعلق علم حاصل کیا جاتا ہے، موبائل فون کے ذریعے ایک دوسرے تک آواز کا پہنچنا اسی طرح الٹرا ساؤنڈ کی مشینوں میں بھی آوازکی لہروں سے مدد لی جاتی ہے، اعلیٰ حضرت آواز کی لہروں سے بھی بھرپور واقف تھے ،’’اَلْکَشْفُ شَافِیَا حُکْمُ فُوْنُوْ جِرَافِیا‘‘ نامی کتاب اس فن پر آپ کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔(ماخوذ ازمعارف رضا، ص17، مجلہ 2013)

(21) علم البحر(Oceanography)

اس علم کی ایک شاخ سمندری موجوں سے تعلق رکھتی ہے جسے Tidesکہا جاتا ہے اور یہ لہریں مختلف قسم کی ہوتی ہیں، ان میں سے ایک قسم کو ’’مدوجزر‘‘ یعنی Lunar Tideکہا جاتا ہے،اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے’’فوز مبین ‘‘ میں ’’مدووجزر‘‘ کے سبب پر اپنا مؤقف نہ صرف مدلل انداز میں بیان فرمایا بلکہ اس فن میں بھی اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔

(22) علم الوفق

اس فن میں بھی اعلیٰ حضرت کی ایک کتاب ہے: (۱)اَلْفَوْزُ بِالْآمَال فِی الْاَوْفَاقِ وَالْاَعْمَالِ۔ (حیات اعلیٰ حضرت، ۲/۹۳)


درود شریف کی فضیلت:

نبی رحمت ، شفیع امت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ رحمت ہے، جو کوئی مجھ پر ایک مرتبہ درود پاک پڑھتا ہے، اللہ عزوجل اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اس کے دس گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں اور دس درجات بلند کردیئے جاتے ہیں۔ (عشقِ رسول ،ص۱)

عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر پورے طور پر دل میں جاں گزیں ہوتو اتباع ِرسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ظہور ناگزیر بن جاتا ہے، احکامِ الہی کی تعمیل اور سیرت نبوی کی پیروی عاشق کے رگ و ریشہ میں سما جاتی ہے دل و دماغ اور جسم و روح پر کتاب و سنت کی حکومت قائم ہوجاتی ہے، مسلمان کی معاشرت سنور جاتی ہے۔

آخرت نکھر تی ہے ، تہذیب و ثقافت کے جلوے بکھرتے ہیں اور بے مایہ انسان میں وہ قوت رونما ہوتی ہے جس سے جہاں بینی و جہاں بانی کے جوہر کھلتے ہیں۔

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

اسی عشق کا مل کے طفیل صحابہ کرام علیہم الرضوان کو دنیا میں اختیار و اقتدار اور آخرت میں عزت و وقار ملا، یہ ان کے عشق کا کمال تھا کہ مشکل سے مشکل گھڑی اور کھٹن سے کھٹن وقت میں بھی انہیں اتباعِ رسو ل سے انحراف گوارا نہ تھا، وہ ہر مرحلہ میں اپنے محبوب آقا علیہ التحیة والثنا کا نقش پا ڈھونڈتے اور اسی کومشعل راہ بنا کر جادہ پیما رہتے یہا ں تک کہ

لحد میں عشق رخ شہ کا داغ لے کے چلے

اندھیری رات سنی تھی چراغ لے کے چلے

مفتی نعیم الدین مراد آباد علیہ رحمۃ اللہ الہادی اس کے تحت فرماتے ہیں:

دین کے محفوظ رکھنے کے لیے دنیا کی مشقت برداشت کرنا مسلمان پر لازم ہے اور اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے مقابل دنیوی تعلیمات کچھ قابل التفات نہیں اور خدا اور سول کی محبت ایمان کی دلیل ہے۔محبتِ رسول خونی رشتوں سے بڑھ کر ہے۔

یاد رکھیے ایمان کامل کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان کے نزدیک سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تمام رشتوں ناتوں سے بڑھ کر محبوب ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

تم میں سے کوئی اس وقت کامل مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔

سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک کو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے مکمل طور پر اپنے اوپر نافذ کرلیا تھا۔جیسا کہ ایک بار امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم سے کسی نے سوال کیا کہ آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم سے کتنی محبت کرتے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:خدا کی قسم رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے مال، اپنی اولاد باپ اور سخت پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔

محمد ہے متاِ ع عالمِ ایجاد سے پیارا

پدر، مادر ، برادر جان مال اولاد سے پیارا

سبحن اللہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ عشقِ رسول کے کس اعلیٰ مقام پر فائز تھے کہ انہیں اپنی جان، مال اور قریبی رشتہ داروں سے بھی زیادہ عزیز نبی کریم کی ذات ہوا کرتی بلکہ ان نفوس قدسیہ کا حال تو یہ تھا کہ موت کی آغوش میں پہنچ کر بھی انہیں جانِ کائنات فخرموجودات علیہ افضل الصلوة والتسلیم ہی کی فکر دامن گیر ر ہتی۔

تابعین اور تعظیم مصطفی :

اسی طرح تابعین اور تبع تابعین بھی صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی تعظیم آثار کے معاملہ میں انھیں کے نقش قدم پر تھے۔ حضرت مصعب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ان کی پشت جھک جاتی یہاں تک کہ یہ امران کے ہمنشینوں پر گراں گزرتا۔

ایک دن حاضرین نے امام مالک رضی اللہ عنہ سے ان کی اس کیفیت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا:جوکچھ میں نے دیکھاہے، تم دیکھتے تو مجھ پر اعتراض نہ کرتے ۔ میں نے قاریوں کے سردار حضرت محمد بن منکدر کو دیکھا کہ میں نے جب بھی ان سے کوئی حدیث پوچھی تو وہ رودیتے یہاں تک کہ مجھے انکے حال پر رحم آتا تھا۔

(صحابہ کرام کا عشقِ رسول، ص51)

شاہکار عظیم:

غزوہ خیبر سے واپسی میں منزل صہبا پر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نماز عصر پڑھ کر مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے زانو پر سر مبارک رکھ کر آرام فرمایا: مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے نماز عصر نہ پڑھی تھی، آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ وقت جارہا ہے مگر اس خیال سے کہ زانو سے سراٹھاؤں تو شاید خواب مبارک میں خلل آئے زانو نہ ہٹایا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا۔ جب چشم اقدس کھلی مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنی نماز کا حال عرض کیا، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا کی ،ڈوبا ہواسورج پلٹ آیا، مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے نمازعصر ادا کی،پھر ڈوب گیا اس سے ثابت ہوا کہ” افضل العبادات صلوۃ،وہ بھی نماز وسطیٰ یعنی عصرمولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نیند پر قربان کر دی کہ عبادتیں بھی ہمیں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی کے صدقہ میں ملیں۔

بوقت ہجرت غارثور میں پہلے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ گئے اپنے کپڑے پھاڑپھاڑ کر اس کے سوراخ بند کئے ایک سوراخ باقی رہ گیا اس میں پاؤں کا انگو ٹھا رکھ دیا،پھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بلایا تشریف لے گئے اور انکے زانو پر سر اقدس رکھ کر آرام فرمایا اس غار میں ایک سانپ مشتاقِ زیارت رہتا تھا، اس نے اپنا سر صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے پاؤں پر ملا انھوں نے اس خیال سے کہ حضور صلی اللہعلیہ واٰلہٖ وسلم کی نیند میں فرق نہ آئے پاؤں نہ ہٹایا۔ آخر اس نے پاؤں میں کاٹ لیا جب صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے آنسو چہرہ انور پر گرے چشم مبارک کھلی ،عرض حال کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے لعاب دہن لگادیافوراَ َ آرام ہوگیا۔ ہر سال وہ زہر عود کرتا، بارہ برس بعد اسی سے شہادت پائی۔ صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے جان بھی سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نیند پر قربان کی۔(صحابہ کرام کا عشقِ رسول)

ان ہی واقعات کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ نے اپنے ان اشعار میں بیان فرمایا ہے:

مولا علی نے واری تری نیند پر نماز

اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلی خطر کی ہے

صدیق بلکہ غار میں جاں اس پہ دے چکے

اور حفظ جاں توجان فروض غررکی ہے

ہاں تونے ان کو جان انھیں پھیر دی نماز

پر وہ تو کرچکے تھے جو کرنی بشر کی ہے

ثابت ہو ا کہ جملہ فرائض فروع ہیں

اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

(حدائق بخشش)

محبت رسول اصل ایمان ہے:

صحابہ کرام علیم الرضوان کے اس بے مثال جذبہ عشقِ رسول کو سامنے رکھتے ہوئے ہر امتی پر حق ہے کہ وہ محبوب دو جہاں، سرور کون ومکان صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو سارے جہان سے بڑھ کر محبوب رکھے، کیونکہ ان کی محبت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴)

تَرجَمۂ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ذوات قدسیہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ان حضرات کی زندگیوں کے ہرہرپہلو کو زیر قلم لانا محال ہے، ہاں کچھ پہلوؤں کو بیان کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے مگر وہ بھی کما حقہ بیان ہو ممکن نہیں۔

ان ذوات ِ اقدسہ کی زندگی کا جو پہلو آج میرے زیر قلم ہے ، وہ حضور علیہ السلام سے ان حضرات کا ادب و عشق تابعین ، آئمہ اکابر ینِ اسلام الغرض تمام علمائے امت کا ادب و عشق صحابہ کرام کے ہی طرز پر مبنی ہے۔

صحابی تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوؤں سے منور ہو کر حضور کے عشق میں چو رچور ڈوبے تھے مگر تابعی حضرات بن دیکھے ہی عشق و ادب میں چور چور ہو رہے۔

قاضی عیاض الشفا میں اس کو اپنی سند کے ساتھ تحقیق سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ خلیفہ اور بادشاہِ وقت ابو جعفر منصور مسجد نبوی میں آئے وہ تھوڑی اونچی آواز سے بات کرنے لگے امام مالک رضی اللہ عنہ پاس کھڑے تھے فرمایا۔ اے خلیفہ وقت ولا ترفع صوتک فی ھذا المسجد یعنی یہ مسجد نبوی ہے اس میں آواز اونچی نہ کرو

محبوب کی جگہ چیزوں سے محبت کا یہ عالم ہے حضور سے محبت کا عالم و اندازہ دشوار ہے۔

مصعب بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ بےشک میں نے امام جعفر بن محمد الصادق کو دیکھا حالانکہ وہ انتہائی خوش مزاج اور ظرف الطبع تھے لیکن جب بھی ان کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر جمیل کیا جاتا تو ان کا چہرہ زرد ہوجاتا۔(قاضی عیاض الشا 521)

خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و ادب کو ربِ کریم نے صحابہ و تابعین ہی نہیں بلکہ رہتی دنیا تک کے لوگوں کے دلوں میں آباد کردیا ہے۔آج بھی عشق و ادب کے وہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ دل یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

ہر کوئی فدا ہے بن دیکھے دیدار کا عالم کیا ہوگا۔

ترکوں کو انتہائی خوبصورت عادت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ادب کا یہ عالم ہے کہ جب بھی آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک ان کے سامنے لیا جاتا ہے یا وہ خود لیتے ہیں تو احترام سے اپنا ہاتھ دل پہ رکھ لیتے ہیں۔ دین سارا ہی عشق و ادب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے ربِ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہماری نسلوں کو عشق ادب رسول عطا فرمائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

عدم سے لائی ہے بستی میں آرزوئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم

کہاں کہاں ہے پھرتی ہے جستجوئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم

تلاش نقش کف پائے مصطفی کی قسم

چنے ہیں آنکھوں سے ذرات ِ خاک کوئے رسول

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


محب کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں کہ کوئی اس کے محبوب کا ذکر چھیڑ دے۔

اور جب محبوب کا ذکر چھڑ جائے تو محب کی حالت کیا ہوتی ہے؟ اس کو بیان کرنا واقعی ایک دشوار ہے۔

مقصودِ کائنات شہنشاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر عشاق کو وہ قرار بخشتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے سوا کس سے نہیں ملتا۔ مورخین صحابہ کرام تابعین تبع تابعین اور دیگر عشاق کے ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیا ن کرتے ہوئے جن واقعات کو قلمبند کرسکے ان میں سے چند پیش خدمت ہیں۔

اذانِ بلال اور ذکرِ رسول:

بے مثال لوگوں کے انداز بھی بے مثال ہوا کرتے ہیں اذانِ بلالی میں جب اشھدان محمد رسول اللہ پکار ا جاتا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ اپنی انگلیوں سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ روشن کی طرف اشارہ فرماتے۔

مورخین لکھتے ہیں کہ سر کار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے بعد حسنین کریمین کے اصرار پرحضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی حضرت بلال رضی اللہ عنہ جب کلمہ شہادت پر پہنچے تو حالت غیر ہوگئی حسبِ عادت انگلیوں کا اشار ہ کرنے کے لیے نگاہ صحن مسجد کی جانب اٹھ گئی

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی یہ پہلی اذان تھی جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور سامنے نہیں تھا ایک عاشق دلگیر اس دردناک حالت کی تاب نہ لاسکا فضا میں ایک چیخ بلند ہوئی اور عشق کی دبی ہوئی چنگاری جاگ اٹھی پھر ہجر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا غم سینوں میں تازہ ہوگیا اس واقعہ کے بہت دنوں تک اہل مدینہ کی پلکیں بھیگی ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ جب تک مدینے میں رہے دل کا غم ستاتا رہا۔ غم فراق نہیں ضبط ہو سکا تو کچھ دنوں بعد ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے۔

قولِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرنے کا انداز :

حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ امام مالک علیہ الرحمۃ سکے ساتھ عقیق کی طرف جارہا تھا راستہ میں ان سے ایک حدیث کے بابت پوچھا انہوں نے مجھے جھڑک دیا اور فرمایا کہ مجھے تم سے توقع نہ تھی کہ راستے چلتے ہوئے مجھ سے حدیث شریف کی بابت سوال کرو گے۔ (ص،673 سیرتِ رسول عربی مکتبہ المدینہ )

امام مالک علیہ الرحمۃ کا حدیث بیان کرنے کا انداز:

جب کوئی امام مالک علیہ الرحمۃ کے پاس طلبِ حدیث کے لیے آتا تو خادمہ دولت خانہ سے نکل کران سے دریافت کرتیں کہ حدیث شر یف کے لیے آئے ہو یا مسائل فقہ کے لیے اگر وہ کہتے کہ مسائل فقہ کے لیے آئے ہیں تو امام موصوف فورا ً نکل آتے اور اگر وہ کہتے کہ ہم حدیث شریف کے لیے آئے ہیں تو امام مالک غسل کرکے خوشبو لگاتے پھر لباس تبدیل کرکے نکلتے آپ کے لیے ایک تخت بچھایا جاتا جس پر بیٹھ کر آپ حدیث روایت کرتے۔

(ص 672، سیرتِ رسول عربی مکتبہ المدینہ)

لیٹ کر حدیث شریف بیان کرنا پسند نہ کیا:

امام مالک علیہ الرحمۃکا قول ہے کہ ایک شخص حضرت ابن مسیب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا آپ اس وقت لیٹے ہوئے تھے اس نے آپ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث دریافت کی آ پ رضی اللہ عنہ ا ٹھ بیٹھے اور حدیث بیان کی اس نے کہا میں چاہتا تھا کہ آپ اٹھنے کی تکلیف نہ فرماتے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں پسند نہیں کرتا کہ لیٹے ہی حدیث بیان کروں۔ (ص، 673، سیرتِ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم مکتبۃ المدینہ )

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


الحمدللہ عزوجل ربِ کریم نے ہمیں مسلمان بنایا آقا کریم کی اُمت میں پیدا فرمایا اور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت ہمارے سینوں میں ڈالی ، محبت رسول ہر مسلمان میں پائی جاتی ہے مگر بے عقلی کی وجہ سے اس جذبۂ محبت میں کمی واقع ہوجاتی ہے پھر اللہ عزوجل کے نیک بندوں میں یہ وصف کامل طور پر پایا جاتا ہے، ہمارے اسلاف کے ایسے کئی واقعات موجود ہیں۔

ذکرِ رسول اور صحابہ کرام کا انداز:

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ :

جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مؤذن کو یہ فرماتے ہوئے سنتے :”اشہدان محمد رسول اللہ “تو یہی کلمات دوہراتے اور دونوں شہادت کی انگلیوں کو بوسہ دیتے اور آنکھوں سے لگالیتے۔

قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضور کی حرمت و تعظیم ، عزت و تکریم، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ایسے ہی واجب ہے جیسے آپ کی حیات میں لازم تھی یہ ادب آپ کے ذکر کے وقت آپ کی حدیث و سنت آپ کے اسم گرامی اور سیرت مبارکہ بیان کرتے وقت بھی واجب ہے۔

(شفا شریف ج ۲، ص ۳۳۶)

حضرتِ ابن مسعود رضی اللہ عنہ:

اسی طرح حضرت عمر ابن میمون فرماتے ہیں میں ایک سال آپ کی خدمت میں حاضر رہا میں نے نہیں سنا کہ انہوں نے یہ کہا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک دن حدیث بیان فرماتے ہوئے آپ سے یہ الفاظ ادا ہوگئے پھر آپ اتنے رنجیدہ ہوئے کہ پیشانی پر پسینہ دیکھا ۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کے چہرے کا رنگ متغیرہوگیا آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور ان کی رگیں پھول گئیں، (اللہ اللہ یہ ہے ادب ،احتیاط)

اے عاشقانِ رسول آپ نے صحابہ کا انداز ملاحظہ فرمایا اسی طرح اسلاف و صالحین اور آئمہ متقدمین رحمہم اللہ کی یہ عادت تھی کہ جب ذکر رسول ہوتا تو فرطِ ادب و شوق میں سیل اشک رواں ہوجاتے دل پر درد سے آہیں لیتے اور محبوب کی یاد میں کھو جاتے چنانچہ۔

حضرت احمد بن منکدر کو دیکھاگیا کہ جب بھی ان سے حدیث پوچھی جاتی تو وہ رو پڑتے کہ ان کے حال پر رحم آنے لگتا۔

یادِ رسول پاک میں روئے جو عمر بھر

مولا مجھے تلاش اُسی چشم تر کی ہے

مشہور تابعی محدث کا اندازِ ذکر رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :

حضرت ابن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا، حدیث دریافت کی آپ اس وقت لیٹے ہوئے تھے آپ ادب بجالاتے ہوئے اٹھے اور حدیث بیان کی اس پر اس شخص نے کہا آپ لیٹے لیٹے ہی بیان فرمادتیے آپ نے فرمایا میں یہ مکروہ جانتا ہوں کہ حدیث لیٹے لیٹے بیان کروں۔

حضرت امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ ہنس مکھ تھے مگر جب آپ ہنس بھی رہے ہوتے اور آپکے سامنے ذکر رسول کیا جاتا تو آپ متواضع ہوجاتے۔

کروڑوں مالکیوں کے عظیم پیشوا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جب حدیث دریافت کی جاتی تو آپ غسل فرماتے عمدہ لباس زیب تن کرتے عمامہ باندھتے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے لیے تخت بچھایا جاتا خوشبو سلگھائی جاتی، باوضو نہایت ہی عجز و انکساری کے ساتھ تخت پر تشریف فرما ہوتے اور حدیث بیان فرماتے۔

ایک مرتبہ آپ کو سولہ مرتبہ بچھو نے ڈنگ مارا۔(شدتِ الم سے) آپ کا رنگ متغیر ہوگیا اور چہرہ مبارکہ زرد پڑ گیا، مگر حدیث رسول کو قطع نہ فر مایا جب آپ سے اس کے متعلق پوچھاگیا تو فرمایا۔ ہاں میں نے حدیث رسول کی عظمت و جلال کے سبب صبر کیا۔ (الشفا باب الثالث ج ۲، ص ۳۳۷)

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ذکر رسول کے وقت اسلاف کے طریقے پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور ان کے صدقے ہمیں کامل عشقِ رسول نصیب فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


٭نبی اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی محبت کے بغیر آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر ایمان لانا متصورنہیں  ہے، مومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ نبی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو اپنی جان، باپ، بیٹے اور مخلوق سے زیادہ محبوب رکھے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں : کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں ، باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیا دہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔(صحیح البخاری )

محبت کی بہت ساری علامات ہیں۔ اس میں ایک علامت یہ ہے کہ کوئی اپنے محبوب کا کثرت سے ذکر کرے۔ کثرت ذکر کے ساتھ ساتھ ایک علامت یہ بھی ہے کہ تعظیم و تکریم کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے اور حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا نام پاک کمال تعظیم وتکریم اور صلوٰۃ و سلام کے ساتھ لے اور نام پاک لیتے وقت خوف و خشیت عجزوانکساری اور خشوع و خضوع کا اظہار کرے۔

حکم خداوندی ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا (پ۱۸ ، النور : ۶۳)

ترجمہ کنزالایمان:رسول کے پکار نے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔

تفسیر کبیر میں ہے :’’ نبی اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو اس طرح نہ پکارو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ یوں نہ کہو: یا محمد! یا ابا القاسم! بلکہ عرض کرو: یا رسول اللہ! ، یا نبی اللہ!‘‘ (یعنی نبی اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو نام یا کنیت سے نہ پکارو بلکہ اوصاف اور القاب سے یاد کرو)(التفسیرالکبیر ، ج۸ ، ص۴۲۵ ، پ ۱۸ ، النور : ۶۳)

تمام صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو بہترین القاب، کمالِ تواضع اور مرتبہ و مقام کی انتہائی رعایت سے خطاب کرتے تھے اور ابتدا ء ِکلام میں صلوٰۃ کے بعد ’’ فَدَیْتُکَ بِاَبِیْ وَ اُمِّیْ‘‘ میرے والدین بھی آپ پر فدا ہوں ، یا ’’ بِنَفْسِیْ اَنْتَ یَارَسُوْل! ‘‘ میری جان آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر نثار ہے ، جیسے کلمات استعمال کرتے تھے اور فیض صحبت کی فراوانی کے باوجود، محبت کی شدت کے تقاضے کی بنا پر، تعظیم و توقیر میں کوتا ہی اور تقصیر کے مرتکب نہیں ہوتے تھے بلکہ ہمیشہ آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی تعظیم میں اضافہ کرتے تھے ۔

حضرتِ عبدُاللہ بِن مُبارَک رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہىں:حضرتِ امام مالک رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ دَرسِ حدیث دے رہے تھے کہ بچھو نے آپ کو 16 ڈنک مارے ۔ دَرد کى شِدَّت سے مُبارک چہرہ پیلا پڑ گیا مگر دَرسِ حدیث جارى رکھا اور پہلو تک نہ بدلا۔جب دَرسِ حدیث ختم ہوا اور لوگ چلے گئے تو مىں نے عرض کى: اے ابو عبدُاللہ!(یہ امامِ مالک رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کی کنیت ہے۔)آج میں نے آپ میں ایک عجیب بات دیکھی ( کہ بچھو نے آپ کو 16 ڈنک مارے مگر آپ نے پہلو تک نہ بدلا)اِس میں کیا حکمت تھى؟ فرمایا :میں نے حدیث رَسُول کى تعظیم کى بِنا پر صبر کیا۔(الشفا ، الباب الثالث ،  فصل فی سیرة السلف فى تعظيم روايۃ  حديث ...الخ ، ۲ / ۴۶ )

حضرتِ سیِّدُنا مُصْعَب بن عبداللہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا امام مالِک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الخَالِق کے عشقِ رسول کا عالَم یہ تھا کہ جب اُن کے سامنے نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذِکْر کیاجاتا تو اُن کے چِہرے کا رنگ بدل جاتا اور وہ ذِکر مصطَفٰے کی تعظیم کے لئے خوب جُھک جاتے۔ ایک دن آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ سے اس بارے میں پوچھا گیاتو فرمایا:’’اگر تم وہ دیکھتے جو میں دیکھتا ہوں تو اِس بارے میں سُوال نہ کرتے۔ ‘‘ (الشفاء ج۲، ص ۴۱ ۔ ۴ ۲)

ذِکر ِرَسُول کے وقت تعظیم کا جَذبہ پیدا کرنے کا طریقہ:

پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی تعظیم سے متعلق حکایات اور  وَاقعات  سُننے اور پڑھنے سے تعظیم کا ذہن بنتا ہے اور جَذبہ ملتا ہے، اِس طرح کے واقعات پڑھیے اور تکلفاً تعظیم کی عادت بنائیے اِنْ شَآءَ اللّٰہ آہستہ آہستہ  عادت بن جائے گی۔

نام و کام و تن و جان و حال و مَقال

سب میں اچھے کی صورت پہ لاکھوں سلام

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کائنات کو بنایا ،دیکھا جائے تو کائنات میں سب سے زیادہ محتاج مخلوق انسان کی ہے کیونکہ سب سے زیادہ خواہشات انسان کی ہیں۔ انسان کی خواہشات، ضرورتوں اور حاجتوں کی کوئی حد نہیں اور بے شک اللہ پاک ہی کی ہستی ہے جو اس کی ہر حاجت پوری کرنے کے لیے بے شمار خزانے رکھے ہیں اور بے شک وہ ہر حاجت پوری کرنے پر قادر ہے۔ اللہ رب العالمین کے انسان پر اتنے احسانات ہیں کہ اگر انہیں انسان گنے اور اس کا شکر ادا کرنا شروع کر دے تو اس کیلئے اس کی تمام زندگی اور سانسیں کافی نہیں ہوں گی ، پھر بھی اس پر شکر ادا کرنے کا حق باقی رہے گا۔ بے شک ہر نعمت دینے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی ہے چاہے وہ دین و دنیا کی نعمت ہو یا ظاہری اور باطنی نعمتیں ہوں۔

ان تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت دین اسلام ہے اور یہ دین ہم تک پہنچانے کیلئے اللہ تعالی نے ہمارے درمیان اپنے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے رحمت اللعالمین کہا ۔ارشاد باری تعالی ہے :

ہم نے آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔"(الانبیاء107)۔

اللہ نے اس دنیا میں ہمیں سیدھا اور صحیح راستہ دکھانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پاک کو معیار بنایا۔ قرآن پاک میں اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے :

" تمہارے لئے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی زندگی میں خوبصورت نمونہ ہے۔"(الاحزاب21)۔

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر ہم اس دنیا میں اپنی زندگی بسر کریں اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا پسندیدہ ترین طریقہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے خاتم النبیین بنایا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی کوئی پیغمبر نہ آیا اور نہ ہی آئے گا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انسان کی ہدایت کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پر آکر مکمل ہوا ۔

سورہ احزاب ،آیت نمبر 40 میں اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے : " محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ تو اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور نبیوں کی نبوت ختم کرنے والے ہیں۔"

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی کوئی پیغمبر نہ آیا اور نہ آئے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سب کے رہنما ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے کامیاب ترین انسان ہیں اور جو بھی دنیا اور آخرت میں کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور اتباع کیے بغیر کامیابی کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ اللہ وحدہٗ لاشریک کا فرمان ہے: "کہہ دو کہ اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو اللہ تمہیں محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔" (آل عمران31)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالی اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دن رات فرشتے درود و سلام بھیجتے ہیں اور دعائے رحمت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر کی قسم اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن مجید میں یاد فرمائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اللہ تعالیکی اطاعت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے بڑھنے کی اہل ایمان کو اجازت نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے بلند آواز کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں جنت ہے۔ جہاں اللہ تعالی نے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی غرض بھی اطاعت ہی ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا کہ اگر تم آپ کی پیروی کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔ارشادِ ربانی ہے:

" کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے بھائی بیویاں قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنا عذاب لے آئے، اللہ عَزَّوَجَلَّ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔"(التوبہ24)۔

یعنی وہ قریب ترین رشتہ دار اولاد، بیوی، ماں ،باپ جن کے ساتھ انسان شب و روز گزارتا ہے اور مال و اسباب، کاروبار یہ سب چیزیں اپنی جگہ اہمیت اور افادیت کی حامل ہیں لیکن اگر ان کی محبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے زیادہ ہو جائے تو یہ بات اللہ تعالیکو سخت ناپسندیدہ ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی کا باعث ہے جس سے انسان اللہ تعالی کی ہدایت سے محروم ہوسکتا ہے جس طرح کہ آخری الفاظ سے واضح ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نے بھی اس مضمون کو وضاحت سے بیان کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

"قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں جب تک میں اس کو اس کے والد سے اس کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔" (صحیح بخاری:کتاب الایمان)۔

ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جب تک میں آپ کو اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں اس وقت تک آپ کامل مومن نہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پس واللہ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے عمر ! اب تم کامل مومن ہو۔(بخاری و مسلم) ۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا معیار بتا دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اپنی جان و مال اولاد والدین عزیزواقارب حتیٰ کہ ہر عزیز چیز سے زیادہ ہونی چاہیے اور یہی دین و ایمان کی اساس اور بنیاد ہے اور اگر اس میں کمی ہوگی تو دین و ایمان میں کمی اور خامی باقی رہ جائیگی۔

ڈاکٹر اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

گویا اگر کوئی شخص اللہ تعالی سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ محبت اس وقت تک سچی قرار نہیں پاتی جب تک وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی ہر معاملے میں نہ کرے ۔کسی شخص کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت اس وقت تک نصیب نہیں ہو سکتی جب تک وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتباع نہ کرے اور یہی اصل محبت کا تقاضا ہے۔

بات سمجھنے کی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کرنے کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت لازمی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کی جائے اور اپنی تمام زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔

اصل محبت تو یہی ہے اور انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی اطاعت کرتا ہے، اس کی فرمانبرداری کرتا ہے، اس کی پسند ناپسند کو اپنی پسند ناپسند بنا لیتا ہے، اپنے محبوب کو جیسا کرتے پایا خاموشی سے ویسا ہی کرتے چلے جانا ،اُسے اپنے محبوب کی رضا مطلوب ہوتی ہے اور وہ اس کی ناراضگی سے بچتا ہے، اور ہر وقت ہر محفل میں اپنے محبوب کا تذکرہ کرنا اسے اچھا لگتا ہے۔ اسے اپنے محبوب کے ذکر میں راحت محسوس ہوتی ہے۔

محبت کا ایک اور تقاضا یہ بھی ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے تو اس کی سوچ اور فکر کو بھی آگے پہنچایا جاتا ہے اور اپنے محبوب کے مشن کو آگے پھیلانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اسے اپنے محبوب کی ہر ادا سے محبت ہوتی ہے اور یہی تمام چیزیں ہمیں صحابہ کرام کی زندگیوں سے ملتی ہیں اور جس کی بے شمار مثالیں ہمیں مختلف کتابوں میں ملتی ہیں ۔

اسلاف کا انداز :

صحابہ کرام کی محبت کا تو یہ عالم تھا کہ جب انہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پسند اور ناپسند کا پتہ چلتا تو اس پر بغیر کسی حیل و حجت کے عمل فرماتے یہاں تک کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہننے ، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے ،چلنے پھرنے اور آپ کی ہر ہر ادا کو اپنا لیا تھا اور اپنی زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سانچے میں ڈھال لیا تھا ۔سبحان اللہ… اور یہی وجہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت ایسے لوگوں کیلئے واجب ہو گی جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس درجے تک محبت کرتے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرنا ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا اصل تقاضا ہے اور اصل محبت تو یہی ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند ناپسند کو اپنی پسند ناپسندبنا لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیں اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب دل میں سچی محبت ہو اور ہم سچی محبت کے دعوے دار ہوں ۔

میں اور آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور یقیناکرتے ہیں تو پھر ہمیں اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ کیا ہمارا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کا تعلق یہ تقاضے پورے کرتا ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہماری طرز زندگی ہے؟ کیا ہمارے عشق کی گواہی ہمارا عمل فراہم کر رہا ہے؟ ہم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے دعوے دار تو ہیں، تو کیا ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں؟ کیا ہماری طرز زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق ہے؟ کیا ہمارے لبوں پر ہر وقت اللہ اور اس کے محبوب کا ذکر رہتا ہے؟

لیکن جب ہم اپنی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں کیا نظر آتا ہے ؟یہاں تو یہ عالم ہے کہ جب ربیع الاول آتا ہے تو 12 دن ہم اسے خوب جوش و خروش اور عقیدت سے مناتے ہیں لیکن اس کے بعد کسی کو اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان یا اس پر عمل کرنا یاد نہیں رہتا،ہمارے اعمال نہیں بدلتے، ہماری زندگیاں نہیں بدلتیں، ہمارے روزوشب نہیں بدلتے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر ہم نے دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو اپنے رب کو راضی کرنا ہوگا اور اپنے رب کو ہم تب ہی راضی کر سکتے ہیں جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کریں۔ اِسی صورت میں ہمیں اللہ کی رضا حاصل ہو گی۔

اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا حبیب بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے سب سے اعلیٰ مقام دیا جو کسی نبی کو نہیں ملا۔ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام کو اپنے کلمے کا حصہ بنایا" لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ

اور اس طرح قیامت تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اکھٹا رہے گا ۔اللہ تعالی کی توحید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ساتھ پہچانی جاتی ہے اور قیامت تک پہچانی جائے گی ورنہ پہچان ادھوری ہے اور ہمارا ایمان ہی اسی کلمہ شہادت سے پورا ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی محبت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے۔ ہم اپنے رب کا قرب تب ہی حاصل کر سکتے ہیں اگر ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام بن جائیں۔

اللہ کا حکم ہے کہ اگر میرا بننا ہے تو میرے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقوں پر آنا پڑے گا۔ اپنے اللہ کو راضی کرنا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنی ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہو گا۔ اصل محبت کا تقاضا یہی ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ زندگی کو سیکھ کر اور اس پر عمل کرکے ہی دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اپنی ساری زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے سانچے میں ڈھال دینا ہی اصل محبت ہے۔ اگر ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت کے دعوے دار ہیں تو ہمیں اپنے قول و فعل سے اور اپنے عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو لوگوں تک پہنچانا ہوگا ۔یہی اصل حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ ہم محمدی نظر آئیں۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق نظر آئیں اور زندگی کے ہر قدم پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کریں ۔یہی اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اصل محبت کا تقاضا ہے۔ ہم اپنی تمام تر زندگی میں بغیر کسی حیل و حجت کے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کریں ۔یہی محبوبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان ہے۔

محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی جا ن گزیں فرما دے اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد اور تمام لوگوں سے محبوب نہ ہوجاؤں۔

اس سے معلوم ہوا کہ ایک مومن کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہ صر ف یہ کہ فرض ہے بلکہ سب قریبی رشتے دار وں میں سب سے قیمتی متاع پر مقدم ہے۔

محمد کی محبت دین حق کی شرط ِ اول ہے

اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے

صحابہ کرام کی محبت کے کیا کہنے آئیں ان میں سے چند کا ذکر خیر کرتے ہیں۔

جنگ احد میں ایک صحابیہ کے باپ اور بھائی شوہر شہید ہوگئے انہوں نے جب معلوم ہوا تو کچھ غم نہ کیا، پس یہ پوچھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں؟ جب ان کو بتایا گیا کہ حضور بخیر سلامت ہیں تو بولی مجھے حضور اکرم کو دیکھا دو جب آپ کو دیکھا گیا تو بے تابانہ کہنے لگی، ” آپ کے ہوتے ہوئے ہر مصیبت ہیچ ہے۔(السیرة النبوہ ج ۳ ص ۸۶)

صحابہ کر ام ادب کے ساتھ حضور پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوتے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ فرمات ے ہیں بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم یں اس حال میں حاضر ہو اکہ صحابہ کرام علیہ الرضوان آپ کے گرد اس طرح بیٹھے ہوئے تھے گویا ان کے سروں پرپرندے بیٹھے ہوئے ہوں،

(یعنی اپنے سر کو حرکت نہیں دے رہے ہوتے کیونکہ پرندہ اس جگہ بیٹھتا ہے جو ساکن ہوں۔

(الشفا الباب الثالث ج۳، ص 69 ، اگر اجلہ صحابہ کرام کی تعظیم اور اب کی روایات کا احاطہ کیا جائے تو کلام طویل ہوجائیں گا تم صحابہ کرام اس ذات کر یم کو بہترین القاب کمال تواضح مرتبہ مقام کی انتہائی رعایت سے خطاب کرتے تھے ابتدا اسلام میں صلوة کے بعد فدیتک یا ابی و امی ، میرے والدین بھی آپ پرفدا ہوں یا بنفسی یارسول اللہ ، میری جان آپ پر نثار ہے، جیسے کلمات استعمال کرتے ہیں،

امام مالک کے سامنے آپ علیہ السلام کا ذکر کیا جاتا تو آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ان کی سنیت جھلک جاتی ہے جب ان سے اس حالت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا میں نے قاریوں کے سردار محمد بن منکدر کو دیکھا جب میں نے جب بھی حدیث پوچھی وہ رو دیتے یہاں تک کہ مجھے ان کے حال پر رحم آنے لگتا۔(الشفا الباب الثالث ج ۲، ص ۸۳)

حضرت ابن عمر کا پاؤں مبارک سُن ہوگیا یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ آپ کے نزدیک جو سب سے زیادہ محبوب ہے اسے یاد کیجئے، یہ سن کر آپ نے کہا” یا محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسی وقت آپ کا پاؤں اچھا ہوگیا۔

حضرت حسان کی محبت کا نرالہ انداز یہ تھا کہ اس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح میں شعر لکھتے کہ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین نہ کبھی میری آنکھوں نے دیکھا نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین کسی ماں نے جنا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے مطابق کی گئی۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ہر نبی اور سول کے جان نثاروں اور جوانوں نے اپنی محبت و فاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے نبی کی اطاعت و فرمانبرداری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ  چھوڑا، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ رسول اکرم ، نبی محترم صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے والہانہ عشق و محبت سے سر شار ہو کر جس شاندار انداز میں اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔

جنگ بدر کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ مشورہ فرمایا اور لشکر کفار کے مقابلے میں جنگ و قتال کے متعلق ان کی رائے طلب فرمائی تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی قسم آپ علیہ السلام ہمیں عدن تک لے جائیں گے تو انصار میں سے کوئی ایک شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر ے گا۔

(حوالہ مدارج النبوت قسم سو م باب دوم ص 83)

حضور علیہ السلام سے محبت کی بہت سی علامتیں اور آثار ہیں ، ان میں سے ایک علامت حضور علیہ السلام کا بکثرت ذکر کرنا ہے، حدیث شریف میں ہے۔ من اَحَبَّ شیئاً اکثر ذکرہ، جو شخص کسی سے محبت رکھتا ہے اس کا ذکر بکثرت کرتا ہے۔

حضرت سیدنا اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ (یعنی عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ) جب دوعالم کے مالک صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے تو (عشقِ رسول میں بے تاب ہو کر) رونے لگتے اور فرماتے خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم تو لوگوں میں سب سے زیادہ رحم دل اور یتیم لوگوں کے لیے والد کی طرح، بیوہ عورت کے لیے شفیق گھر والے کی طرح اور لوگوں میں دلی طور پر سب سے زیادہ بہادر تھے وہ تو نکھرے نکھرے چہرے والے مہکتی خوشبو والے اورحسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ مکرم تھے، اولین اور آخرین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل کوئی نہیں۔(حوالہ، جمع الجوامع ۱۰/۱۴ حدیث ۳۰)

غزوہ خیبر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنی غفار کی ایک عورت (حمابیہ ) کو اپنے دستِ مبارک سے ہار پہنایا تھا وہ اس کی اتنی قدر کرتی تھیں کہ عمر بھر گلے سے جدا نہ کیا، اور جب انتقال فرمانے لگیں تو وصیت کی کہ ہار بھی ان کے ساتھ دفن کیا جائے۔(حوالہ۔ مسند احمد )

اسی طرح تابعین اور تبع تابعین رضی اللہ عنہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم آثار کے معاملے میں انہیں کے نقش پر تھے۔

حضرت مصعب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب امام مالک رضی اللہ عنہ کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسل کا ذکر کیا جاتاتھاتو آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ان کی پشت جھک جاتی یہاں تک کہ یہ ان کے ہمنشینوں پر گراں گزرتا ہے۔

ایک دن حاضرین نے امام مالک رضی اللہ عنہ سے ان کی کیفیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا جو کچھ میں نے دیکھا ہے تم دیکھتے تو مجھ پر اعتراض نہ کر تے میں نے قاریوں کے سردار محمد بن منکدر کو دیکھا کہ میں نے جب بھی ان سے کوئی حدیث پوچھی تو وہ رو دیتے یہاں تک کہ مجھے ان کے حال پر رحم آتا تھا۔( الشفا الباب الثالث ، ج ۲، ص ۷۳)

امام ابو یوسف (شاگرد امام اعظم رضی اللہ عنہما) کے سامنے اس روایت کا ذکر آیا کہ حضور علیہ السلام کدو پسند فرماتے تھے، مجلس کے ایک شخض نے کہا، لیکن مجھے پسند نہیں۔یہ سن کر امام یوسف رضی اللہ عنہ نے تلوار کھینچ لی اور فرمایا: جدد الایمان والا لا قتلنک

تجدید ایمان کر، ورنہ تم کو قتل کیے بغیر نہ چھوڑوں گا۔ الشفا بتعریف المصطفی باب الثانی ج ۲)

جس بڑے سے محبت ہوتی ہے اس کی عظمت دل و دماغ پر چھا جاتی ہے پھر یہ چاہنے والا اپنے محبوب کی تعظیم اور اس کی عظمت کا کلمہ پڑھنے لگتا ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام حضور کی بولی بولنے اور ان کی ا داؤں کو اپناتے ہیں۔ یہ تو صحابہ اور تابعین کی باتیں ہیں لیکن آؤ تمام جہانوں کے رب عزوجل اپنے محبوب کی شان میں کیا فرماتا۔چنانچہ قرآن مجید میں رب فرماتا ہے: وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا۔( الم نشرح 4)

شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے:

میں تومالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب

یعنی محبوب محب میں نہیں میرا تیرا

ورفعنا لک ذکر کا ہے سایہ تجھ پر

ذکر اونچا ہے تیر ابول ہے بالا تیرا

ورفعنالک ذکر کا ہے سایہ تجھ پر

آخر میں رب سے دعا ہے کہ رب عزوجل اپنا اور اپنے محبوب کے ذکر سے ہماری زبانوں کو تر فرمائے

امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی جس طرح ظاہری حیات میں تعظیم ضروری تھی ویسے ہی وصال ظاہری کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم لازمی ہے، اور یہ بات ہمارے اسلاف اپنے انداز سے سمجھاتے ہیں۔

حضرت سیدنا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا اندازہ :

حضرت سیدنا امام مالک رضی اللہ عنہ کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو آپ کا چہرہ متغیر ہوجاتا اور آپ جھکنا شروع ہوجاتے ، یہاں تک کہ آپ کا سینہ گھٹنوں سے مل جاتا تھا اور یہ بات آپ کے ساتھی لوگوں کو گراں گزرتی تھی ایک دن آپ سے عرض کی گئی کہ آپ کی کیفیت ایسی کیوں ہوجاتی ہے، یہ کیا معاملہ ہے تو آپ نے فرمایا، جو میں نے دیکھا ہے اگر تم دیکھتے تو میری ان باتو ں کو نئی چیز نہ سمجھتے۔پھر امام مالک نے چند اسلاف کا ذکر کیا

امام جعفر صادق، رضی اللہ عنہ کا انداز:

امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کی طبیعت میں خوش مزاجی تھی اور آپ مسکراتے رہتے تھے، لیکن جب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر خیر آتا تو آپ کے چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا، حالانکہ آپ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قریبی بیٹے تھے۔

حضرت سیدنا عبدالرحمن بن القاسم رحمۃ اللہ علیہ کا انداز:

آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آل میں سے ہیں جو کہ حضرت ابوبکر صدیق کے پر پوتے ہیں ، جب آپ کے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو آپ کے چہرے کے رنگ کو دیکھا جاتا تھا ایسا لگتا تھا کہ اس چہرے سے خون سارے کا سارا نچوڑ لیا گیا ہو بالکل زرد چہرہ پڑ جاتا تھا اور جب آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے تو ہیبت سے آپ کی زبان خشک ہوجایا کرتی تھی بول نہیں پا تے تھے چپ ہو جایا کرتے تھے۔

حضرت سیدناعامر بن عبداللہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ کا انداز:

جب آپ کے سامنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرکیا جاتا تھا تو اس قدر روتے تھے کہ ان کی آنکھ میں آنسو باقی نہیں رہتے تھے۔ اتنا روتے تھے کہ آنسو ختم ہوجایا کرتے تھے۔

امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا انداز :

آپ بہت زیادہ خوش اخلاق اور لوگوں میں گھل مل جانے والے ملنسار تھے لیکن جب آپ کے پاس ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا جاتا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ نہ یہ کسی کو جانتے ہے اور نہ کوئی ان کو جانتا ہے۔

حضرت سیدنا سفوان بن صالح رحمۃ اللہ علیہ کا انداز:

جو لوگ عبادت کے اندر جدوجہد کرنے والے ہیں ان میں آپ بہت بڑا مقام رکھتے ہیں، لیکن جب آپ کے پاس ذکر رسول کیا جاتا تو آپ اس قدر روتے کہ لوگ آپ کو چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔

ہمارے اسلاف پر یہ کیفیات خود بخود طاری ہوجایا کرتی تھیں، کیونکہ ہمارے اسلاف کی نظروں کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ موجود تھا اور دوسرا خوف ،یہ وہ خوف تھا کہ کہیں محبوب ناراض نہ ہوجائے۔ (شفاشریف)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں