حضرت شعیب (علیہ السلام) تیسرے عرب نبی ہیں جن کا اسم گرامی قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ اور عرب انبیاء یہ تھے: حضرات ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب اور حضرت محمد (علی نبینا والہ و علیہم السلام)۔ آپ کا نام قرآن کریم میں گیارہ بار ذکر ہوا ہے۔ اللہ تعالی نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مَدْیَن اور اَیکہ کے لوگوں کی طرف بھیجا تاکہ آپ ان لوگوں کو خدائی دین اور وحدانیت کی طرف ہدایت کریں اور بت پرستی اور برائیوں سے نجات دیں۔ مدین ایسا شہر تھا جو سرزمین معان، شام کے قریب، حجاز کے آخری حصہ میں قرار پایا تھا۔ وہاں کے لوگ بت پرستی، برائی اور لین دین میں خیانت اور دھوکہ بازی کرتے تھے۔ ناپ تول میں کمی اور خرید و فروخت میں خیانت کرتے حتی پیسوں کے سکوں میں سونا چاندی کو کم کرنا، ان میں عام تھا اور دنیا سے محبت اور دولت اکٹھا کرنے کی وجہ سے دھوکہ اور فریب دیا کرتے تھے اور طرح طرح کی معاشرتی برائیوں کے عادی تھے۔ اَیکہ، مَدْیَن کے قریب آباد اور درختوں سے بھرا ہوا گاوں تھا، وہاں کے لوگ بھی مدین کے لوگوں کی طرح برائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔

اللہ تعالی نے مدین کے لوگوں میں سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو نبوت کے لئے مبعوث کیا تاکہ ان کو اور ان کے آس پاس والے لوگوں کو گناہوں سے نکال کر توحید کی طرف پکاریں۔ پروردگار عالم نے سورہ ہود میں حضرت شعیب (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کے بارے میں فرمایا ہے:" وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ(۸۴)وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۸۵)بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﳛ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ(۸۶)

ترجمہ کنزالایمان:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہاراکوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کروبےشک میں تمہیں آسودہ حال(مالدار وخوشحال) دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے اور اے میری قوم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو اللہ کا دیا جو بچ رہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں کچھ تم پر نگہبان نہیں (پ 12، سورہ ھود 84 تا 86)

اور سورہ عنکبوت میں فرمایا ہے: وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاۙ-فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۳۶)ترجمہ کنزالایمان: مدین کی طرف اُن کے ہم قوم شعیب کو بھیجا تو اس نے فرمایا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اور پچھلے دن کی اُمید رکھواور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو ۔

(پارہ 20، سورہ عنکبوت: 36)

اور نیز اصحاب الایکہ کے بارے میں سورہ شعراء میں فرمایا ہے: كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْـٴَـیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ(۱۷۶)اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ(۱۷۷)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۷۸) فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۷۹)

ترجمہ کنزالایمان: بَنْ(جنگل ) والوں نے رسولوں کو جھٹلایا ،جب اُن سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں ،بےشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں ،تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ (پارہ 19 ، سورہ شعراء 176 تا 179)

حضرت شعیب علیہ السلام نے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور بشارت بھی دی اور جو عذاب قوم نوح، قوم ہود، قوم صالح اور قوم لوط پر آئے تھے، وہ بھی ان کو یاد دلوائے اور ان کے برے کاموں سے دستبردار ہونے کی نصیحت پر پوری کوشش کی، لیکن ان کا طغیان(ظلم و زیادتی)، کفر اور فسق ہی بڑھتا رہا۔ ان لوگوں میں سے سوائے چند افراد کے کوئی ایمان نہ لایا، بلکہ حضرت شعیب علیہ السلام کو اذیت دی، مذاق اڑایا، دھمکی دی اور دیگر افراد کو حضرت شعیب علیہ السلام کی فرمانبرداری سے منع کیا۔ جو راستہ بھی حضرت شعیب علیہ السلام پر اختتام پذیر ہوتا تھا اس پر بیٹھ جاتے اور گزرنے والے لوگوں کو حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس جانے سے ڈراتے اور جو آپ پر ایمان لائے تھے انہیں اللہ کی راہ سے منع کرتے اور اللہ کے راستے کو ٹیڑھا دکھاتے اور کوشش کرتے کہ جتنا ہوسکے لوگوں میں اِس راستے کی نفرت پھیلائیں۔ اور پھر الزام لگانا شروع کردیا، کبھی آپ کو جادوگر کہتے، کبھی كذّاب (جھوٹا) کہتے۔ انہوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کو دھمکی دی کہ اگر آپ تبلیغ سے دستبردار نہ ہوں تو ہم آپ کو سنگسار کریں اور دوبارہ آپ اور آپ پر ایمان لانے والوں کو دھمکی دی کہ ہم تمہیں شہر سے نکال دیں گے، مگر یہ کہ ہمارے بت پرستی کے دین پر آجاؤ ۔ انہوں نے اپنے اس کردار کو باقی رکھا یہاں تک کہ آپ ان کے ایمان لانے سے بالکل ناامید ہوگئے اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور دعا کی اور اللہ تبارک و تعالی سے فتح طلب کی عرض کیا:

رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ(۸۹) ترجمہ کنزالایمان: " اے رب ہمارے ہم میں اور ہماری قوم میں حق فیصلہ کر ، اور تیرا فیصلہ سب سے بہتر"۔ ( الاعراف : 89 )

اس دعا کے بعد اللہ تعالی نے عذاب یوم الظلہ نازل کیا، جس دن سیاہ بادلوں نے ہر جگہ پر اندھیرا کردیا اور سیلاب بہانے والی بارش برس گئی۔ اس جھٹلانے والی قوم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اگر واقعتا سچے ہو تو ہمارے اوپر آسمان کا کوئی ٹکڑا نازل کردو، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا کہ ہمارا پروردگار تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

قرآن کریم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل ہونے کے بارے میں فرمایا ہے: وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ اَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۙ(۹۴)كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَاؕ-اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ۠(۹۵)

ترجمہ کنزالایمان: اور جب ہمارا حکم آیا ہم نے شعیب اور اس کے ساتھ کے مسلمانوں کو اپنی رحمت فرماکر بچالیا اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آ لیا ،تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے،گویا کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے ارے دور ہوں مدین جیسے دور ہوئے ثمود۔

12،ہود:94تا 95)

نتیجہ: انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام تمام تر کوشش کرتے رہے کہ اپنی قوم کی ہدایت کریں اور شرک و بت پرستی کے ذلت خیز گڑھے سے نکال کر توحید پرستی کی باعزت بلندی پر لے چلیں، لیکن کئی قوموں نے اپنے انبیاء کی نافرمانی کی اور مختلف طریقوں سے جھٹلاتے رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب انہوں نے اپنے اختیار سے گمراہی کے اندھیروں کو ہر طرف سے اپنے اوپر یوں لپیٹ لیا کہ ہدایت کی کسی کرن کے نظر آنے کا امکان نہ رہا اور ان کے سیدھے راستے پر آنے سے ہدایت کرنے والے نبی بالکل ناامید ہوگئے تو عذاب الہی نے ان کو گرفت میں لے لیا اور غضب پروردگار نے عقاب میں جکڑ دیا۔ عذاب کی صورت اور ان کا سیاہ انجام، مستقبل میں آنے والی اقوام کے لئے درس عبرت اور نشانِ خوف بن کر رہ گیا۔


حضرت شعیب علیہ السلام کے قبیلے کا نام مدین تھا۔ مدین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام ہے۔ اور اکثر مفسرین کی رائےیہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے مدین نے اس شہر کی بنیاد ڈالی تھی۔ یہ قوم ایک انتہائی نافرمان قوم تھی اس قوم کی نافرمانیاں مندرجہ ذیل ہیں :

( 1) کفر : یہ قوم حضرت شعیب علیہ السلام سے بغض و عداوت رکھتی، دین حق کی مخالفت کرتی، اللہ پاک سے کفر پر اسرار کرنے اور بتوں کی پوجا کرنے پر قائم رہتی اور اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ سے اعراض کرتی تھی ۔

( 2) ناپ تول میں کمی و زیادتی : کفر کے بعد مدین والوں کی سب سے بُری عادت یہ تھی کہ یہ خریدو فروخت کے دوران ناپ تول میں کمی و زیادتی کرتے تھے کہ جب کوئی اپنی چیز انہیں بیچتا تو جتنا زیادہ ہو سکتا لے لیتے اور جب خود اپنی چیز کسی کو بیچتے تو جتنا ہوسکتا ناپ اور تول میں کمی کرتے اور یوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے میں مصروف رہتے۔

( 3)احمقانہ جوابات : حضرت شعیب علیہ السلام نے مدین والوں کو جب دوکاموں سے منع کیاکہ : (١) اللہ پاک کے سوا کسی اور کی عبادت مت کرواور(٢) ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ تو مدین والوں نے جواب دیا کہ ہمارے باپ دادا بھی بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے ۔ گویا کہ ان کا بتوں کی عبادت کرنا ان کے اپنے آباءو اجداد کی اندھی تقلید تھی ۔ اور دوسری بات کا جواب یہ دیا کہ ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق عمل کریں گے ۔ گویا کہ ہم اپنے مال پر پورا اختیار رکھتے ہیں چاہے کم تولیں یا زیادہ۔

(4) حضرت شعیب علیہ السلام کی گستاخی: حضرت شعیب علیہ السلام کے منع کرنے پر مدین والوں نے آپ علیہ السلام کی سخت گستاخی کی اور اپنے خیال میں آپ علیہ السلام کو جاہل اور بیوقوف سمجھتے ہوئےطنز کے طور پر آپ علیہ السلام سے کہا کہ "تم تو بڑے عقل مند اور نیک چلن ہو ۔ "

(5) قتل کر دینے سے ڈرانا : مدین والوں کی سرکشی اس حد تک بڑھ گئی کہ حضرت شعیب علیہ السلام کو قتل کردینے اور اذیت پہنچانے سے ڈرانے لگے اور کہتے کہ اگر تمہارے قبیلے والے ہمارے دین پر ہونے کی وجہ سے ہم میں عزت دار نہ ہوتے تو ہم پتھر مار مار کر آپ کو قتل کردیتے۔یہ قوم مدین کی نافرمانیاں تھیں جس کے سبب ان پر عذاب نازل ہوا ۔

اللہ پاک ہمیں ہر طرح کی نافرمانی سے محفوظ رکھے۔

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


  30 جھوٹے مدّعیانِ نبوت(کذّابوں) میں چند کی تفصیل پر مشتمل کتاب

کتاب العقائد

مصنف:صدرالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ

پیشکش: المدینۃ العلمیہ( اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)

اِس کتاب کی چندخصوصیات:

٭ اردو اورعربی کی عبارات میں جو کتابت کی غلطیاں تھیں ان کی تصحیح کردی گئی ہے ۔٭ مختلف مقامات پر دقیق عبارتوں کو باآسانی سمجھنے کے لئے حواشی کا اہتمام بھی کیا گیا ہے جس کی وجہ سے استفادہ مزید آسان ہوگیا۔٭ کتاب کے مصنف صدرا لافاضل نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمۃ کی مختصر سوانح عمری بھی پیش کی گئی ہے ۔٭ مصنف علیہ الرحمۃ نے اس کتاب میں جن جھوٹے مدعیانِ نبوت کا تذکرہ فرمایا ہے ان کے بارے میں تفصیل (رسالہ کی شکل میں ) آخر ی صفحات میں پیش کی ہے۔ ٭یہ وہ کاوش ہے جو ا ب تک چھپنے والے تمام ایڈیشن میں سے کسی میں بھی نہیں ۔ اس طرح یہ کتاب دیگر نسخوں میں انفرادی حیثیت کی حامل ہے ۔

66صفحات پر مشتمل یہ کتاب2004ء سے لیکر15 مختلف ایڈیشنز میں تقریباً64ہزار کی تعداد میں چھپ چکی ہے۔

اس کتاب کی PDF دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے مفت ڈاؤن لوڈ بھی کی جاسکتی ہے۔

Download Now


دعوتِ اسلامی کے تحت  شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران نے کوٹ غلام محمد نزد میرپور خاص کے سہیل حسین شاہ کو عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی کا وزٹ کروایاساتھ ہی انہیں رابطہ آفس میں دعوتِ اسلامی کی ڈاکومنٹری پریزنٹیشن پیش کیا گیا۔

ذمہ دار اسلامی بھائیوں نےچند شعبہ جات کاتعارف پیش کرتے ہوئے بعض شعبوں کا وزٹ بھی کروایا نیز انہیں اپنے ہاؤس میں شخصیات اجتماع رکھنے کی ترغیب دلائی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔

بعد ازاں مدنی مذاکرے میں شرکت کرنے والوں کے مناظر اور وزٹ پر اپنی محبت و جذبات کا اظہار کرتے ہوئے دعوت اسلامی کی خدمات کیلئے خود کو پیش کیا۔(رپوٹ: شعبہ رابط برائے شخصیات،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دعوتِ اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران نے پچھلے دنوں جھمرہ میں MPA مسلم لیگ ن آزاد علی تبسم کی والدہ کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور قراٰن خوانی کا اہتمام کیا۔

اس موقع پر کثیر تعداد میں سیاسی وسماجی شخصیات سمیت دیگر عاشقانِ رسول نے بھی شرکت کی ساتھ ہی ذمہ داران نے چند اہم شخصیات سے ملاقات کی اور انہیں دعوتِ اسلامی کی دینی وفلاحی خدمات سے آگاہ کیا۔(رپوٹ: شعبہ رابط برائے شخصیات،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


خاتم النبیین رحمت اللعالمین شفیع المذنبین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا نبوت آپ پر ختم ہوگئی آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی  حتی کہ حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے تو وہ بھی شریعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہوں گے اگرچہ پہلے نبوت پا چکے ہیں۔ یاد رہے کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیت قرآن و احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔ قرآن:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ( سورہ الاحزاب : 40 )

احادیث:

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میں  اللہ تعالیٰ کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین (لکھا) تھا جب حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام اپنی مٹی میں  گندھے ہوئے تھے۔

(مسند امام احمد ،6 / 87، الحدیث:17163)

2۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’میں  تمام رسولوں  کا قائد ہوں  اور یہ بات بطورِ فخرنہیں  کہتا، میں  تمام پیغمبروں  کا خاتَم ہوں  اور یہ بات بطورِ فخر نہیں  کہتا اور میں  سب سے پہلی شفاعت کرنے والا اور سب سے پہلا شفاعت قبول کیا گیا ہوں  اور یہ بات فخر کے طور پر ارشاد نہیں  فرماتا ۔

( معجم الاوسط، 1 / 63، الحدیث: 170)

3۔حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میرے متعدد نام ہیں ، میں  محمد ہوں ، میں  احمد ہوں ، میں  ماحی ہوں  کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، میں  حاشر ہوں  میرے قدموں  پر لوگوں  کا حشر ہوگا، میں  عاقب ہوں  اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔

( ترمذی، 4 / 382، الحدیث: 2849)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں میں انبیا کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے: (۱) مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے(۲) رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی (۳)مال غنیمت میرے لئے حلال کردیا گیا ہے (۴)روئے زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنادیا گیا ہے (۵) مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے (۶) اورمجھ پرنبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔“

(صحیح مسلم صفحہ 199،مشکوٰۃ ،جلد 1، صفحہ512)

5۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: بے شک میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس آدمی کی طرح ہے، جس نے بہت اچھے طریقے سے ایک گھر بنایا اور اسے ہر طرح سے مزین کیا، سوائے اس کے کہ ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ (چھوڑ دی) پھر لوگ اس کے چاروں طرف گھومتے ہیں اور (خوشی کے ساتھ) تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ اینٹ یہاں کیوں نہیں رکھی گئی؟ آپ (صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم) نے فرمایا: پس میں وہ (نبیوں کے سلسلے کی) آخری اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔

(صحیح بخاری: 3535، صحیح مسلم: 22/ 2286، دارالسلام: 5961)

6۔حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ پاک نے میرے لیے تمام روئے زمین کولپیٹ دیااورمیں نے اس کے مشرقوں اورمغربوں کودیکھ لیا۔ (اور اس حدیث کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ) عنقریب میری امت میں تیس(30) کذّاب ہوں گے، ان میں سے ہرایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اورمیرے بعدکوئی نبی نہیں ہے ۔

(ابوداؤد، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلہا، 4/ 132، الحدیث: 4252)

7۔سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے (بسندِ عامر بن سعد بن ابی وقاص) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے (سیدنا) علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا:أما ترضی أن تکون مني بمنزلۃ ھارون من موسی إلا أنہ لانبوۃ بعدي کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہ مقام ہو جو ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔ (صحیح مسلم: 36/ 2404، ترقیم دارالسلام: 6220)

حکم :۔(ختم نبوت کے منکر) اعلی حضرت امام احمد رضا خان فرماتے ہیں ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمہ فرماتے ہیں: اللہ عزوجل سچا اور اس کا کلام سچا، مسلمان پر جس طرح لَا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللہُ ماننا، اللہ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی کو اَحد، صَمد، لَا شَرِیْکَ لَہ (یعنی ایک، بے نیاز اور اس کا کوئی شریک نہ ہونا) جاننا فرضِ اوّل ومَناطِ ایمان ہے، یونہی مُحَمَّدٌ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ماننا ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی ٔجدید کی بِعثَت کو یقینا محال وباطل جاننا فرضِ اَجل وجزء اِیقان ہے۔ ’’وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘‘ نص ِقطعی قرآن ہے، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا، نہ شاک کہ ادنیٰ ضعیف احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا، قطعاً اجماعاً کافر ملعون مُخَلَّد فِی النِّیْرَان (یعنی ہمیشہ کے لئے جہنمی) ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے کافر ہونے میں شک و تَرَدُّد کو راہ دے وہ بھی کافر بَیِّنُ الْکَافِرْ جَلِیُّ الْکُفْرَانْ (یعنی واضح کافر اور اس کا کفر روشن) ہے۔ ( فتاویٰ رضویہ، رسالہ: جزاء اللہ عدوہ باباۂ ختم النبوۃ، 15 / 630)

مدینہ:تفسیر جلالین میں ہے:و قولہ علیہ السلام لا نبی بعدی و من بعد نبینا نبی یکفر لانہ انکرا نص و کذٰلک لو شک لان النبی تبین الحق من الباطل،یعنی اہلسنت و جماعت کا موقف و عقیدہ ہے کہ ہمارے نبی کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ۔اللہ پاک کی اس فرمان کی وجہ سے وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس فرمان کی بناء پر کہ لا نبی بعدی ۔

لہٰذا جو ختم نبوت کا منکر ہے وہ کافر اور خارج عن الإسلام ہے۔(تفسیر جلالین 2/403)


اللہ پاک نے قرآن مجید میں حضور نبی کریم شفیع امم رسول محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں فرمایا :۔ : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

( سورۃ الاحزاب : 40 )

اس آیت مبارکہ کے چھوٹے سے حصے میں رب عزوجل نے اپنے حبیب کی شان میں بہت کچھ ہم پر واضح کر دیا اگر کوئی سمجھنے والا ہو۔ جو لوگ کہتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم جیسے ہیں ہم جیسے بشر ہیں پھر کہتے کہ وہ کیوں کر نبی ہو سکتے ہیں ۔تو میرے رب نے فرمایا: کہ اے لوگوں سن لو محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی کے باپ نہیں، وہ صرف اللہ کے رسول ہیں اور وہ آخری نبی ہیں خاتم النبیین یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔آپ پر نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ۔ اب اگر کوئی آپ کو آخری نبی نہیں مانتا تو وہ کافر و گمراہ اور بد مذہب ہوگا اور دائرہ اسلام سے خارج ہوگا۔

میرے پیارے میٹھے اسلامی بھائیوں یہ ایک اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ اب قیامت تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا اور جب حضرت عیسی علیہ السلام تشریف لائیں گے تو وہ بھی ہمارےحضور کے دین پر چلیں گے اور ہمارے حضور کے دین کی پیروی کریں گے۔

بڑا کٹھن ہے راستہ جو آ سکو تو ساتھ دو

یہ زندگی کا فاصلہ مٹا سکو تو ساتھ دو

ہزار امتحان یہاں ہزار آزمائشیں

ہزار دکھ ہزار غم اٹھا سکو تو ساتھ دو

بڑی غور وفکر کرنے کی بات ہے کہ رات کے اندھیری میں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم رو رو کر اپنی امت کی بخشش مانگتا ہو آج اس نبی کی توہین ہو رہی ہے ۔اے امتیوں کہا ہے تمہاری غیرت نے کہا ہے تمہاری محبت رسول!

حدیث شریف میں ہے کہ حضرت ضحاک بن نوفل رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :لا نبی بعدی ولا امۃ بعد امتی

ترجمہ:میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری امت کے بعد کوئی امت نہیں ہوگی۔

( المعجم الکبیر لطبرانی 8/303،حدیث:8199)

پھر ایک اور جگہ میرے آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نحن الآخرون من اہل الدنیا والاولون یوم القیامۃ المقضی لھم قبل الخلائق ، ہم اہل دنیا میں سے سب سے آخر میں آئے ہیں اور روز قیامت کے اولین ہیں جن کا تمام مخلوقات سے پہلے حساب ہوگا۔( صحیح مسلم ،حدیث:982)

ان دو حدیثوں میں میرے آقا علیہ السلام کا واضح فرمان کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا میری امت آخری امت ہے یعنی اس امت کے ختم ہوتے ہی قیامت کا ظہور ہوگا۔ جب حضور کا یہ فرمان سنیں تو بس آنکھیں بند ۔ اب ختم نبوت کا دروازہ بند ۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ پاک نے میرے لیے تمام روئے زمین کولپیٹ دیااورمیں نے اس کے مشرقوں اورمغربوں کودیکھ لیا۔ (اور اس حدیث کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ) عنقریب میری امت میں تیس(30) کذّاب ہوں گے، ان میں سے ہرایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اورمیرے بعدکوئی نبی نہیں ہے ۔

(ابوداؤد، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلہا، 4/ 132، الحدیث: 4252)

اور اب یہ بات ہم سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس سے پہلے بھی ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے نبوت کا دعوی کیا اور عبرت کی موت مرے۔

خلاصہ عرض یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد توحید اور آخرت کے علاوہ جس اساسی عقیدہ پر ہے وہ یہ کہ نبی آخریالزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت اور رسالت کے مقدس سلسلے کی تکمیل ہوگئی۔ اور آپ کے بعد کوئی شخص کسی بھی قسم کا نبی نہیں ہو سکتا ۔ختم نبوت سے مراد یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے اس دنیا میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم میں بھی موجود ہے ،آپ کے بعد کسی پر وحی نہیں آ سکتی۔ اسلام کا یہی عقیدہ ختم نبوت سے معروف ہے۔

پوری امت مسلمہ کسی ادنی اختلاف کے بغیر اس عقیدے کو جزو ایمان قرار دیتی آئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سینکڑوں احادیث اس کی شاہد ہیں۔ یہ مسئلہ قطعی طور پر مسلم اور طے شدہ ہے۔ اور اس پر کئی مصنفین نے کتاب لکھی ہے۔ عقیدہ ختم نبوت و تحفظ و ناموس رسالت سے نئی نسل کو آگاہ کرنا دینی اور ملی فریضہ ہے۔

فتح باب نبوت پہ بے حد درود

ختم دور رسالت پہ لاکھوں سلام


اسلام کی بنیاد توحید  اور آخرت کے علاوہ جس اساسی عقیدے پر ہے وہ یہ ہے کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت اور رسالت کے مقدس سلسلے کی تکمیل ہوگئی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص کسی بھی قسم کا نبی نہیں بن سکتا۔ ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے آخری نبی ہیں ۔اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم میں کئی مقامات پر نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے ۔اسلام کا یہی عقیدہ ختم نبوت کے نام سے معروف ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی سورۃ الاحزاب آیت نمبر 40 میں ارشاد فرماتا ہے :مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ( سورۃ الاحزاب : 40 )

اس آیت کے آخر میں اللہ پاک نے آپ کو خاتم النبیین کہا ہے یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور نبوت آپ پر ختم ہوگئی۔ اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختم نبوت کا منکر اور اسلام سے خارج ہے۔

ختم نبوت احادیث کی روشنی میں :

(1)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی ،اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔( ترمذی،4 / 121،الحدیث:2279)

(2) حضرت ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:وأنا آخر الأنبیاء و أنتم آخر الأمم اور میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔

(سنن ابن ماجہ حدیث:4077)

(3) بے شک آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے۔

(صحیح مسلم 2/900،حدیث:3375)


ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خصوصیت خاتم النبیین ہونا ہے۔ خاتم ختم سے مشتق ہے اور ختم کے معنی  ہیں مہر کے بھی اور آخری کے بھی، بلکہ مہر کو بھی خاتم اسی واسطے کہتے ہیں کہ وہ مضمون کے آخر میں لگائی جاتی ہے۔ یا یہ کہ جب کسی تھیلے پر مہر لگ گئی تو اب کوئی چیز باہر کی اندر اور اندر کی باہر نہیں جا سکتی ۔اسی طرح یہ آخری مہر لگ چکی۔ باغ نبوت کا آخری پھول کھل چکا۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتم النبیین کے معنی بیان فرمائے ہیں کہ: "لا نبی بعدی" میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

اب جو شخص کسی طرح کا ، اصلی، عارضی، مراقی،مذاقی، شرابی ،افیونی نبی حضور کے بعد مانے وہ بے دین اور مرتد ہے۔ اسی طرح جو" خاتم النبیین" کے معنی کرے بالذات نبی اور کسی نبی کا آنا ممکن جانے وہ بھی مرتد ہے۔(شان حبیب الرحمٰن من آیات القرآن ،ص 195)

احادیث مبارکہ :۔

(1) حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میرے متعدد نام ہیں ، میں  محمد ہوں ، میں  احمد ہوں ، میں  ماحی ہوں  کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، میں  حاشر ہوں  میرے قدموں  پر لوگوں  کا حشر ہوگا، میں  عاقب ہوں  اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔

( ترمذی، 4 / 382، الحدیث: 2849)

(2) حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میں  اللہ تعالیٰ کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین (لکھا) تھا جب حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام اپنی مٹی میں  گندھے ہوئے تھے۔

(مسند امام احمد ،6 / 87، الحدیث:17163)

(3)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی ،اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔ ( ترمذی،4 / 121،الحدیث:2279)

( 4) حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجھہ الکریم نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے شمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ”حضورِ اقدس صلّی اللہ علیہ و الہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی اور آپ خاتم النبیین تھے“(سنن الترمذی ،364/5،الحدیث:3658)

اس پرفتن دور میں اپنے عقائد کی حفاظت کے لیے دعوت اسلامی کا دینی ماحول بہت مفید ہوگا۔ اے اللہ ! ہمیں اس ماحول کو اور عقائد کی حفاظت کی توفیق عطا فرما ئے۔آمین


ختم نبوت کا مطلب ہے حضور اکرم رسول محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی ماننا اور یہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت شریف کے بعد کوئی نبی مبعوث نہ ہوگا ۔ختم نبوت کا عقیدہ رکھنا ضروریات دین میں سے ہے اور جو بھی چیز ضروریات دین میں سے ہو اس کا منکر کافر ہوتا ہے لہذا ثابت ہوا کہ منکر ختم نبوت کافر ہے ۔رب تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ( سورہ الاحزاب : 40 )

قرآن کریم کی طرح احادیث کثیرہ بھی حضور صلی اللہ علیہ. کے آخری نبی ہونے پر شاہد ہیں۔ یہاں یہ بطور نمونہ احادیث مبارکہ پیش کی جاتی ہیں۔

1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت. سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بیشک رسالت و نبوت ختم ہو گئی اب میرے بعد نہ کوئی رسول نہ نبی۔

( جامع الترمذی 2/51)

2۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلاۃو السلام نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیاء کیا کرتے تھے، جب کسی نبی کی وفات ہوتی تھی تو اس کی جگہ دوسرا نبی آتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔“ (صحیح بخاری 1/491، صحیح مسلم 2/126)

3۔ فرمان آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں حضرت آدم علیہ سلام سب سے پہلے ہیں جبکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخری نبی ہیں۔(کنزالعمال 7/140)

4۔دو جہانوں کے لیے رحمت شفیع امت کا فرمان خوشبودار ہے : میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔( سنن ابن ماجہ،حدیث:4077)

5۔سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور فرمان عالی شان ہے :اے لوگوں تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے، تمہارا دین ایک ہے اور میرے بعد کوئی اور نبی نہیں ہوگا۔

( کنزالعمال،حدیث:32111)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں عقیدہ ختم نبوت پر مضبوطی سے قائم رہنے اور اسی عقیدہ پر موت عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


گزشتہ دنوں ذمہ دارانِ دعوتِ اسلامی نے تحصیل شاہپور میں SSP IABلاہور کے والد سردار اسلم میکن اور SHO شاہپور سٹی انسپکٹر راجہ اختر عباس سے ملاقات کی اور انہیں دعوتِ اسلامی کی دینی وفلاحی خدمات سے آگاہی فراہم کرتے ہوئے مدنی مذاکرے میں شرکت کی دعوت دی۔

بعد ازاں ذمہ داران نے ماہنامہ فیضان مدینہ پیش کیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(رپوٹ: شعبہ رابط برائے شخصیات،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

فرمان باری تعالی مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ( سورہ الاحزاب : 40 )

عقیدہ ختم نبوت کیا ہے؟:

حضور خاتم النبیین ہیں :یعنی اللہ عزوجل نے سلسلہ نبوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یا بعدکوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا۔ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یا حضور کے بعد کسی کو نبوت ملنا مانے یا جائز جانے کافر ہے۔

(بہار شریعت 1/63)

ختم نبوت احادیث کی روشنی میں:

1۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: بے شک میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس آدمی کی طرح ہے، جس نے بہت اچھے طریقے سے ایک گھر بنایا اور اسے ہر طرح سے مزین کیا، سوائے اس کے کہ ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ (چھوڑ دی) پھر لوگ اس کے چاروں طرف گھومتے ہیں اور (خوشی کے ساتھ) تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ اینٹ یہاں کیوں نہیں رکھی گئی؟ آپ (صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم) نے فرمایا: پس میں وہ (نبیوں کے سلسلے کی) آخری اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔

(صحیح بخاری: 3535، صحیح مسلم: 22/ 2286، دارالسلام: 5961)

2۔حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ سلام نے فرمایا : عنقریب میری امت میں تیس( 30 ) کذّاب(بڑے جھوٹے) پیدا ہوں گے، ان میں ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

(سنن ابی داؤد، حدیث : 4252)

3۔حدیث شریف میں ہے آپ اول ہیں آپ سے پہلے کوئی شے نہیں اور آپ آخر میں ہیں اور آپ کے بعد کوئی شے نہیں ۔(صحیح مسلم۔ص 1116، حدیث :6889)

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میں  اللہ تعالیٰ کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین (لکھا) تھا جب حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام اپنی مٹی میں  گندھے ہوئے تھے۔

(مسند امام احمد ،6 / 87، الحدیث:17163)

5 ۔حضرتِ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”بےشک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی“(سنن الترمذی ،4 /121،الحدیث:2279)

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو!بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ،لہٰذا تم اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ نمازیں پڑھو،اپنے مہینے کے روزے رکھو،اپنے مالوں کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرو ،اپنے حُکّام کی اطاعت کرو (اور) اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ۔

(معجم الکبیر، 8 / 115، الحدیث: 7535)