.jpg)
یومِ دعوتِ اسلامی کے موقع پر فتح جنگ کے مقامی
ہال میں اجتماعی طور پر مدنی مذاکرہ دیکھنے کا سلسلہ ہوا جس میں علمائے کرام،صحافی
حضرات اور تاجران سمیت کثیرعاشقانِ رسول نے شرکت کی نیز مدنی مذاکرے کے اختتام پر
عاشقانِ رسول نےدعوتِ اسلامی کی خدمات کو خوب سراہتے ہوئے تاثرات بھی دیئے۔(رپوٹ: مبشر حسن عطاری مجلس حج و عمرہ واہ کینٹ اٹک زون،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

انسانی وجود بہت ساری صلاحیتوں، خوبیوں، قابلیتیوں
کاجامع ہے ساتھ ساتھ انسانوں میں خامیوں، برائیوں کا وجود بھی ہوتا ہے۔ اس دنیا میں
چونکہ اکثر لوگ علم کی روشنی سے دور ہیں اور انسانوں کا حصول علم کی طرف شوق کا نہ
ہونا، انسانوں میں برائیوں اور خامیوں کا سبب ہیں ۔لیکن اس طوفان کو دور کرنے کے
ذرائع بھی موجود ہیں۔
سب سے
پہلے ان تمام چیزوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے اور ان کے بارے میں معلومات کا ہونا ضروری ہے۔
آپ کے ہاتھ میں موجود "ماہانہ فیضان مدینہ" ان تمام امور میں اپنی مثال
آپ ہیں۔ اس میں آپ بہت سارے موضوعات کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
ابھی
ہم اسی انسانی برائیوں میں سے بد شگونی کے
بارے میں پڑھیں گے۔
شگون کا لغوی معنی ہےفال لینا یعنی کسی چیز ،شخص
،عمل ،آواز یا وقت کو اپنے حق میں برا سمجھنا ۔ ان کی بنیادی دو قسمیں ہیں :1) برا
شگون 2 ) اچھا شگون
علامہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رحمتہ اللہ علیہ تفسیر قرطبی میں فرماتے ہیں:" اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا اس کے بارے میں
کوئی کلام سن کر دلیل پکڑنا۔ یہ اس وقت ہے کہ جب کلام اچھا ہو ۔اگر برا ہو تو
بدشگونی ہے۔(الجامع الاحکام القرآن للقرطبی 8/132)
بد
شگونی لینا حرام اور نیک فال لینا مستحب ہے۔(الطریقۃ المحمدیہ ، 2/17،24)
اب آئیے
عورتوں میں پائی جانے والی بدشگونیاں کی 5 مثال پڑھتے ہیں:
1) حاملہ عورت کو میت
کے قریب نہ آنے دینا کہ بچے پر برا اثر پڑے گا ۔
2) خالی برتن یا چمچ آپس میں ٹکرائے تو گھر میں جھگڑا ہوگا۔
3) سورج گرھن کے وقت حاملہ عورت چھری سے کوئی چیز نہ کاٹے کہ بچہ پیدا ہوگا تو اس کا ہاتھ یا پاؤ کٹا یا ٹیرا ہوگا۔
4) دودھ پیتے بچے کے بالوں میں کنگھی کی جائے تو اس
کے دانت ٹیرھے نکلتے ہیں۔
5) بچہ سویا ہوا ہو اس کے اوپر کوئی پھلانگ جائے یعنی گزر جائے
تو اس کا قد چھوٹا رہ جاتا ہے۔

بدشگونی کی تعریف : شگون کا معنی ہےفال لینا اور کسی چیز ،شخص ،عمل ،آواز یا وقت
کو اپنے حق میں برا سمجھنا بد شگونی ہے۔
پیارے
پیارے اسلامی بھائیوں بد شگونی نہ آج کی ایجاد
کردہ کوئی چیز اور نہ ہی چودہ سال پہلے کی بلکہ یہ تو پہلی قوموں سے چلتا آ رہا ہے۔
مفتی احمد یار خان نعیمی پارہ 4 سورۃ الاعراف آیت نمبر 131 کے تحت لکھتے ہیں: جب فرعونیوں پر کوئی مصیبت آتی
تھی تو حضرت موسی علیہ سلام اور ان کے ساتھی مومنین سے بد شگونی لیتے تھے۔ کہتے تھے کہ جب سے یہ لوگ ظاہر ہوئے ہیں تب سے ہم پر
مصیبت بلائیں آنے لگیں۔
حدیث میں
بھی اس کی ممانعت آئی ہے:" جس نے بد شگونی لی اور جس کے لیے بدشگونی لی گئی
ہے وہ ہم میں سے نہیں"۔
بد شگونیاں :
1۔ اُلّو کی آواز سن لینے کے بعد بدشگونی لیتے
ہیں کہ کوئی مرنے والا ہے یا خاندان میں جھگڑا ہونے والا ہے۔
2۔ نئی
دلہن کے ہاتھوں اگر کوئی چیز گر کر ٹوٹ جائے تو اس کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔ اور
بات بات پر اس کی دل آزاری کی جاتی ہے۔
3۔ اگر نئی ماسی کوئی چیز گرا دے یا توڑ دے تو
اسے منحوس قرار دے کر نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔
4۔ حاملہ عورت کو میت کے قریب نہیں آنے دیتے کہ
بچے پر برا اثر پڑے گا۔
5۔ جوانی میں بیوہ ہو جانے والی عورت کو منحوس جانتے ہیں
6۔ نئی نویلی دلہن کے گھر آنے پر خاندان کا کوئی
شخص فوت ہو جائے یا کسی عورت کی صرف بیٹیاں
پیدا ہو تو اس پر منحوس کا لیبل لگ جاتا ہے۔

دعوتِ اسلامی کے تحت پچھلے دنوں سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ لاہور ریجن کے شمالی وجنوبی زون، گوجرانوالہ زون اور حافظ آباد زون
کے اراکینِ زون کابینہ کا مدنی مشورہ ہوا جس میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن ونگرانِ
لاہور ریجن حاجی یعفور رضا عطاری نے ذمہ دار اسلامی بھائیوں کی تربیت کی۔
رکنِ شوریٰ نے احساسِ ذمہ داری ،دینی کاموں میں شرکت اورمدنی مراکزمیں حفاظتی اقدامات کے حوالے سے اہم نکات پر مدنی
پھول دیئے۔(رپوٹ: احتشام نوید عطاری،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

دور جاہلیت میں اہل عرب مختلف قسم کی باطل رسم
و رواج اور بری عادتوں میں مبتلا تھے انہیں میں سے ایک بدشگونی بھی ہے جسے یہ اپنے
ایمان کا حصہ سمجھتے اور اسی کے مطابق عمل کرتے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے دور جاہلیت کے تمام شرکیہ عقائد ،فاسد خیالات وتوہمات کو ختم کرکے ہمیں
دین کامل اور درست عقائد عطا فرمائے۔
بد شگونی کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں
ہے۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔جس نے بد شگونی لی اور جس کیلئے بد
شگونی لی گئی وہ ہم سے نہیں(یعنی ہمارے طریقے پرنہیں)۔(المعجم الکبیر،162/18،حديث:355)
افسوس....! اسلامی تعلیمات سے دوری کی بناء پر
آج یہ (بد شگونی) ہمارے معاشرے میں اس قدر
جڑ پکڑ چکی ہے کہ کوئی بھی ان سے باہر نہیں خاص کر عورتوں میں اس کا بڑا رجحان ہے۔
پرانی عورتوں میں یہ آن (بد شگونی) کے نام سے
جانی جاتی ہے اور ان میں یہ بات تو بہت زیادہ مشہور ہے کہ یہ آن(بد شگونی) اِس
خاندان میں ہے تو فلاں آن(بد شگونی) اُس خاندان میں۔
بد شگونی:۔کسی چیز، شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے
حق میں برا سمجھنا بد شگونی (آن) کہلاتا ہے۔(مطبوعہ مکتبۃ المدينہ بد شگونی،صفحہ:10 مفہوما)
بہر حال لا علمیت کی وجہ سے عورتوں میں بہت سی
بد شگونیاں پائی جاتی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔
1۔حاملہ عورت کا
نہر پار کرنا : مختلف قوموں اور برادریوں میں کئی قسم کی بد
شگونیاں پائی جاتی ہیں مگر بعض قوموں میں تو یہ مشہور ہے کہ حاملہ عورت وضع حمل تک
کوئی نہر پار نہیں کرے گی(یعنی اس راستہ سے نہیں جائے گی جس میں نہر آتی ہو)اس سے
عورتیں یہ بد شگونی لیتی ہیں کہ ایسا کرنے سے بچہ کو نقصان ہوگا یا پھر ضائع
ہوجائے گا حالانکہ یہ بہت عجیب بات ہے کیونکہ بد شگونی کا حقیقت سے کوئی واسطہ
نہیں۔
چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔بد فالی کوئی چیز نہیں اور
فال اچھی چیز ہے۔ لوگوں نے عرض کی! فال کی چیز ہے؟ فرمایا: "ا چھا کلمہ جو
کسی سے سنے"۔
(بخاری، کتاب الطب، باب الطیرة،36/4،
حديث:5754)
2۔حاملہ کا میت کے قریب جانا: جہاں معاشرے میں دیگر بد شگونیاں پائی جاتی ہیں وہیں ایک یہ
بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ حاملہ عورت کو میت کے قریب جانے نہیں دیا جاتا کہ بچہ پر
اس سے برا اثر پڑے گا۔بھلا....! میت بھی کسی جان کو نقصان پہنچا سکتی ہے؟
3۔اولاد کے مرنے پر نتھ(لونگ) اتارنا: وہمی گھرانوں کے بارے میں یہ بھی سننے کو ملا ہے کہ جب کسی
عورت کے اولاد پیدا ہوتے ہی بقضاءِ الہی مرجائے تو ان کے مرنے کی وجہ نتھ کو ٹہرا
کر یہ نتھ اتار دیتی ہیں۔بھلا...! کسی کی موت کا تعلق نتھ سے کیسے ہوسکتا ہے؟ حالانکہ
زندگی اور موت تو اللہ تعالی کے دست قدرت میں ہے۔
4۔ حاملہ عورت اور چاند گرہن :بعض توہم پرست گھروں میں چاند گرہن والی رات حاملہ کی خاص
حفاظت کی جاتی ہے اور انکا یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر یہ سوئی یا چھری سے کوئی کام
کرے تو بچہ کا کوئی عضو کٹا ہوا ہوگا یا ناقص ہوگا۔
5۔ کثرت بیٹی :آج
بھی اکثر لوگ اہل عرب کی طرح اپنی بیٹیوں کو منحوس اور برا سمجھتے ہیں اور بیٹوں
کو بیٹیوں پر اہمیت دیتے ہیں اس قدر انکی سوچ پست ہوچکی ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر
انکے چہرے خوشیوں کی کرنیں بکھیرنے کے بجائے رنج و غم کے آثار پیش کرتے نظر آتے
ہیں اور انہیں طرح طرح کی تکالیف پہنچانے میں ذرا سی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے جبکہ
بیٹی تو اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔اور بیٹی کیونکر منحوس ہوسکتی ہے؟ حالانکہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم بھی خود بیٹیوں والے تھے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا :بیٹیوں کو برا مت کہو، میں بھی بیٹیوں والا ہوں۔ بے شک بیٹیاں تو
بہت محبت کرنے والیاں، غمگسار اور بہت زیادہ مہربان ہوتی ہیں۔"
(مسند الفردوس
للدیلمی، 415/2، حديث:7556)
ماہنامہ فیضان مدینہ کے معزز قارئین...!
دیکھا
آپ نے ہمارے معاشرے میں کیسی کیسی برائیاں اور بد فالیاں پائی جاتی ہیں اگر آپ بھی
کسی قسم کی بد فالی کا شکار ہیں تو خدارا...! ایسی سوچ کو ختم کریں کیونکہ یہ ذہنی
سکون کے لیے زہر قاتل اور دل شکستگی (depression) کا سبب ہے۔
کریں نہ تنگ خیالاتِ
بَد کبھی،کردے
شُعُور و فکر کو
پاکیزگی عطا یا ربّ
(وسائل بخشش،ص93)

بد شگونی کی تعریف: شگون کے معنی ہیں فال
لینا یعنی کسی چیز ،شخص ،عمل ،آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُراسمجھنا
اسلام اور بد شگونی: اسلام میں بد شگونی کا کوئی تصور
نہیں بلکہ دین اسلام نے اسے ناجائز وحرام قرار دیا ہے چناچہ اللہ پاک قرآن پاک میں
ارشاد فرماتا ہے : فَاِذَا جَآءَتْهُمُ
الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖۚ-وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا
بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗؕ-اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ
لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۳۱)
ترجَمۂ
کنزُالایمان: تو جب انہیں بھلائی ملتی کہتے یہ ہمارے لیے ہے اور جب
برائی پہنچتی تو موسی اور اس کے ساتھ والوں سے بدشگونی لیتے سن لو ان کے
نصیبہ(مُقَدَّر) کی شامت تو اللہ کے یہاں ہے لیکن ان میں اکثر کو خبر نہیں ۔( پ9،اعراف
131)
مفسر شہیر حکیم الامت
حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس آیت مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں جب
فرعونیوں پر کوئی مصیبت (قحط سالی )وغیرہ آتی تھی تو حضرت موسی علیہ السلام اور ان
کے ساتھ مؤمنین سے بد شگونی لیتے تھے کہتے تھے کہ جب سے یہ لوگ ہمارے ملک میں ظاہر
ہوئے ہیں تب سے ہمارے اوپر مصیبتیں ،بلائیں آنے لگیں۔
(تفسیر نعیمی پارہ 9 الاعراف ،تحت الآیہ :131
ج9ص117 )
حضور پاک صاحب لولاک صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! ليس منا من تطير ولا تطير له (یعنی جس نے بدشگونی لی اور جس کے لیے
بد شگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں)
(المعجم الکبیر ،18/162،حديث355،داراحياء التراث1422ھ )
بدشگونی کے عقائد کے حامل
لوگ کچھ چیزوں ،واقعات یاعلامات کو اپنے لیے منحوس یانقصان دہ سمجھتے ہیں اورمنفی
خیالات کاشکار ہوکر اپنی خوشیاں اور سکون برباد کردیتے ہیں ،کہنےکو تو ہم سائنسی
دور میں رہتےہیں جہاں ہر واقعے اورنظریہ کے دلائل اور حقائق تلاش کیے جاتے ہیں مگر
اس کے باجود دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں بھی بدشگونی عام ہے،اکثر عورتیں اس مرض
کا شکار نظر آتی ہیں طرح طرح کےکاموں سے بدشگونی لے لیتی ہیں جیساکہ : مثالیں: (1) اگر حاملہ عورت میت کے قریب جائے
تو اس سے بچے کی صحت پر بُرا اثر پڑتاہے(2)عصر
کے بعدگھر میں جھاڑو لگانے سے بلائیں نازل ہوتی ہیں (3)خالی برتن آپس میں ٹکڑانا
گھر میں لڑائی جھگڑے کاسبب ہے (4)حاملہ عورت سورج گرہن کے وقت چاقو کااستعمال کرے
تو بچہ لنگڑالولا پیداہوگا (5)سوئےہوئے بچےکے اوپر سےچھلانگ لگانے سے بچے کا قد
چھوٹارہ جاتاہےوغیرہ۔
میٹھے میٹھے اسلامی
بھائیو اور بہنو! مذکورہ بدشگونیوں کے علاوہ بھی کئی بدشگونیاں عورتوں
میں پائی جاتی ہیں اس کی ایک وجہ کم علمی اوردینی احکام سے ناواقفیت ہے ،لہذا ہمیں اپنے خیالات کو مثبت رکھنا چاہیے اور علمِ دین سیکھناچاہیے تاکہ اس طرح کے منفی خیالات سے
بچاجاسکے ۔

مشر ک قوموں میں مختلف
چیزوں سے بُرا شگون لینے کی رسم بہت
پُرانی ہے اور ان کے تَوَہُم پرست لو گ ہر چیز سے اثر قبول کر لیتے، مشرک قومیں پرندے کو اڑا کر اس سے فال لیتے
تھے ،پرندے کے دائیں طرف اُڑنے سے اچھا فال لیتے اور بائیں طرف اُڑنے سے بد شگونی لیتے تھے۔اور بھی بہت سی چیزوں سے
بد شگو نی لی جاتی تھی جیسے پرندوں کے ناموں سے ، آواز سے ،رنگوں سے، اور
عقاب سے مصیبت، کوے سے سفر ، ہد ہد سے سے ہدایت کی فال لیتے۔ اسی طرح کوئی شخص کسی
کام کو نکلتا اور راستے میں کوئی جانور سامنے سے گزر گیا یا کسی مخصوص پرندے کی آواز کان میں پڑ جاتی تو
فوراً گھر واپس لوٹ آتا۔ اسی طرح کے تصورات اور خیالات ہمارے معاشرے میں بہت پھیلے ہوئے ہیں ۔ اسلام اس طرح کی تَوَہُم پرستی کی ہرگز اجازت نہیں دیتا اور
اسلام نے جہاں دیگر مشرکانہ رسموں کی جڑیں ختم کیں وہیں اس نے بد شگونی کا بھی خاتمہ کر دیا ۔ کسی مسلمان
کو یہ زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ کسی چیز سے بد شگونی لے ،کیوں کہ یہ تو مشرکوں کا سا کام ہے جیساکہ حدیث مبارکہ میں بد شگونی کو شرک فرمایا گیا
ہے۔چنانچہ
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" شگون شرک ہے ،
شگون شرک ہے ، شگون شرک ہے ،" ( یعنی مشرکوں کا سا کام ہے) اور ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں، اللہ تعالیٰ اسے تو کُّل کے
ذریعے دور کر دیتا ہے۔
(
ابو داؤد،کتاب الطب، باب فی الطیرۃ،4/23 الحدیث:3910)
نوٹ:شگون شرک ہے اس سے مراد یہ ہے کہ (جب کوئی شخص
بدشگونی کے افعال کو مؤثِّرِ حقیقی جانے تو شرک ہے )
علامہ محمد بن احمد
اَنصاری قُرطبی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر قُرطبی میں نقل کرتے ہیں اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا ہو اس کے بارے میں کوئی کلام سن کر دلیل پکڑنا،
یہ اس وقت ہے جب کلام اچھا ہو، اگر بُراہو تو بد شگونی ہے۔ شریعت نے اس بات کا حکم
دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو
اور اپنا کام خوشی خوشی پا یہ تکمیل تک
پہنچائے اور جب بُرا کلام سُنے تو اس کی طرف توجہ نہ کرے او ر
نہ ہی اس کے سبب اپنے کام سے رُکے۔(الجامع
لاحکام القرآن للقرطبی پ 26، الاحکاف تحت الآیۃ:4 ج8 جزء ، 16 ص132/ بد شگونی
مکتبۃ المدینہ دعوتِ اسلامی ص10)
شگون کی تعریف و اقسام :
شگون کا معنی ہے فال لینا
یعنی کسی چیز، شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُڑا سجھنا اس کی
بنیادی طور پردو قسمیں ہیں : (1)بُرا شگون
لینا(2) اچھا شگون لینا
بد شگونی کا علاج:
حضرت عبد اللہ بن عمر
و بن العاص سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:"جسے کسی چیز کی بد فالی نے اس کے مقصد سے لوٹا دیا اُس نے شرک کیا۔ عرض کی گئی:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا شخص
کیا کفارہ دے؟ ارشاد فرمایا: یہ کہے" اَللّٰھُمَّ لَا طَیْرَ اِلّا طَیْرُکَ وَلَاخَیْرَ اِلَّاخَیْرُکَ وَ لَا
اِلٰہَ غَیْرُکَ" اے اللہ تیری فال
کے علاوہ اور کوئی فال نہیں ، تیری بھلائی کے سوا اور کوئی بھلائی نہیں اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔( یہ الفاظ کہہ کر اپنے کام کو چلا جائے۔)
(مسند امام احمد ، مسند
عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ 1/683،
الحدیث 7066)
حضرت عروہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شگون کا ذکر کیا گیا تو فرمایا:" اس میں ( نیک) فال اچھی چیز ہے اور مسلمانو ں کو کسی کام سے نہ روکے ،تو جب تم میں
سے کوئی نا پسند یدہ چیز دیکھے تو یوں کہے " اَللّٰھُمَّ لَا یَاتِیْ بِالْحَسَنَاتِ اِلَّا اَنْتَ وَ لَا یَدْفَعُ
السَّیِّآَتِ اِلَّا اَنْتَ وَ لَا حَولَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلّا بِکَ" ( یعنی اے
اللہ ! تیرے سوا کوئی بھلائیاں نہیں لاتا اور تیرے سوا کوئی برائی دو ر نہیں کرتا ، نہ ہم میں طاقت ہے اور نہ قوت مگر
تیری توفیق کے ساتھ) ( ابو داؤد،کتاب الطب، باب فی الطیرۃ،4/23 الحدیث:3910)
بد شگونی کی مثالیں:
ہمارے معاشرے میں جہالت
کی وجہ سے رواج پانے وا لی خرابیوں میں سے ایک بدشگونی بھی ہے جس کو بد فالی بھی
کہتے ہیں جبکہ عربی میں اسے طائِرٌ، طَیْرٌ اور طِیَرَۃٌ کہا جا تا ہے ان بد شگونیوں میں سے 5 مندرجہ ذیل ہیں :
(1) بیوہ یا وہ عورت جس کا پہلا حمل ضائع ہو گیا ہو یا جس کاپہلی اولاد نا بالغی میں
انتقا ل کر گئی ہو تو ایسی عورت کو شادی بیاہ کی رسومات میں شامل ہونے سے روکا جاتا ہے کیوں کہ اس سے یہ بد شگونی لی جاتی ہے کہ
اگر ایسی عورت ان رسومات میں شرکت کرے گی تو اس سے بُرا اثر ہوگا۔اسی طرح ایسی عورت کو نئی دلہن کے کپڑوں تک کو چھونے نہیں دیا جاتاکیوں کہ اس سے دلہن
کی زندگی پر بُرا اثر پڑے گا۔
(2)شیشے کا گلاس اگر صبح کے وقت ٹوٹ جائے تو اس سے
یہ بد شگونی لی جاتی ہے کہ بلا ٹل گئی اور
اگر شام کے وقت ٹوٹے کو یہ بد شگونی لی جاتی ہے کہ اب کوئی نہ کوئی مصیبت آئے گی۔
(3)دلہا شادی کے ایام میں سسرال نہیں جا سکتا اس
سے یہ بد شگونی لی جاتی ہے کہ اگر دلہا
شادی کے ایام میں اپنے سسرال گیا تو ساس
اور داماد یا دلہن اور دلہا کے درمیان
نفرتیں اور نا چاکیاں پیدا ہو جائیں گی۔
(4)جس عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے تو عدتِ وفات کے دوران اپنا چہرہ کھول کر چاند یا
سورج کے سامنے نہ جائے اگر گئی تو چاند یا
سورج سے نکاح ہو جاتا ہے۔
(5)اگر کسی کے پاس
پیسہ(رقم ) نہ ہو اور وہ کہے میرے پاس پیسے نہیں ، میرے پاس پیسے نہیں تو اس جملے
سے یہ بد شگونی لی جاتی ہے کہ جو ہر وقت
یہ کہتا رہتا ہے کہ میرے پاس پیسے نہیں تو
اس کے پاس کبھی پیسے آتے بھی نہیں اور نہ
اس کے پاس کبھی پیسے جمع ہو سکتے ہیں۔
محمد اسماعیل عطاری ( جامعۃ المدینہ فیضان بخاری ،
موسیٰ لین لیاری کراچی)

پیارے اسلامی بھائیو اور قارئین کسی شخص، جگہ،
چیز یا وقت کو منحوس جاننے کا اسلام میں کوئی تصور نہیں یہ محض وہمی خیالات ہوتے
ہیں۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے اسی نوعیت کا سوال ہوا کہ ایک
شخص کے متعلق مشہور ہے اگر صبح کو اس کی منحوس صورت دیکھ لی جائے یا کہیں کام کو
جاتے ہوئے یہ سامنے آجائے تو ضرور کچھ نہ کچھ دِقت اور پریشانی اٹھانی پڑے گی اور
چاہے کیسا ہی یقینی طور پر کام ہو جانے کا اعتماد اور بھروسہ ہو لیکن ان کا خیال
ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور رکاوٹ اور پریشانی ہوگی چنانچہ ان لوگوں کو ان کے خیال کے
مناسب ہر بار تجربہ ہوتا رہتا ہے اور وہ لوگ برابر اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ
اگر کہیں جاتے ہوئے اس سے سامنا ہوجائے تو اپنے مکان پر واپس آ جاتے ہیں اور تھوڑی
دیر بعد یہ معلوم کرکے کہ وہ منحوس سامنے تو نہیں! اپنے کام کے لئے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ عقیدہ اور
طرزِ عمل کیسا ہے؟ کوئی قباحتِ شرعیہ تو نہیں؟ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے جواب
دیا : شرعِ مطہر میں اس کی کچھ اصل نہیں لوگوں کا وہم سامنے آتا ہے۔ شریعت میں حکم
ہے ( اِذَا تَطَيَّرْتُمْ فَامْضُوْا ) یعنی جب کوئی شگونِ بَد گمان میں آئے تو اس
پر عمل نہ کرو۔
( فتح الباری، کتاب الطب، باب الطیرة ، 181/ 11
تحت الحدیث: 5754)
وہ طریقہ محض ہندوانہ ہے مسلمانوں کو ایسی جگہ
چاہیے کہ "اللّٰهم لَا طَيْرَ اِلَّا طَيْرُكَ
وَلَا خَيْرَ اِلَّا خَيْرُكَ وَلَا اِلٰهَ غَيْرُكَ" پڑھ لے ترجمہ (اے اللہ نہیں ہے کوئی بُرائی مگر تیری
طرف سے نہیں ہے کوئی بھلائی مگر تیری طرف سے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ) اور
اپنے رب کریم پر بھروسہ کر کے اپنے کام کو چلا جائے ، ہرگز نہ رُکے، نہ واپس
آئے۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔
(فتاویٰ رضویہ 29/641 ملخصاً)
شگون کی قسمیں : شگون
کا معنیٰ ہے فال لینا یعنی کسی شخص، چیز، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا
برا سمجھنا۔ اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: 1۔ بُرا شگون لینا 2 ۔ اچھا شگون لینا
علامہ محمد بن احمد انصاری القرطبی رحمۃ اللہ
علیہ تفسیرِ قرطبی میں نقل کرتے ہیں: اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا ہو
اس کے بارے میں کوئی کلام سن کر دلیل پکڑنا، یہ اس وقت ہے جب کلام اچھا ہو، اگر
برا ہوں تو بدشگونی ہے۔
شریعت
نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہوں اور اپنا کام خوشی خوشی
پایئہ تکمیل تک پہنچائے اور جب برا کلام سنے تو اس کی طرف توجہ نہ کرے اور نہ ہی
اس کے سبب اپنے کام سے رکے۔
(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، پ 26 ،الحقاف،
الآیہ: 4 ،ج8 ، جزء 16، ص 132)
اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدفالی
لینے والوں سے اپنی بیزاری کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا : "لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَطَيَّرَ وَلَا تُطُيِّرَ لَه" یعنی جس نے بدشگونی لی اور جس کے لیے بدشگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں
(یعنی ہمارے طریقے پر نہیں)
(المعجم الکبیر ، 18/162 حديث 355 و فیض القدیر، 3/288 تحت الحدیث: 3206)
بد شگونی لینا عالَمی بیماری ہے مختلف ممالک
میں رہنے والے مختلف لوگ مختلف چیزوں سے ایسی ایسی بدشگونی لیتے ہیں کہ انسان سن
کر حیران رہ جاتا ہے چنانچہ بدشگونی کی مثالیں ملاحظہ کیجیے :
1: کبھی مہمان کی رخصتی کے بعد گھر میں جھاڑو
دینے کو منحوس خیال کرتے ہیں۔
2: کبھی یہ خیال کرتے ہیں کہ خالی قینچی چلانے
سے گھر میں لڑائی ہوتی ہے ۔
3: عید جمعہ کے دن ہو جائے تو اسے حکومتِ وقت
پر بھاری سمجھتے ہیں ۔
4: کبھی یہ خیال کرتے ہیں سورج گرہن کے وقت
حاملہ عورت چھری سے کوئی چیز نہ کاٹے کہ بچہ پیدا ہوگا تو اس کا ہاتھ یا پاؤں کٹا
یا چِرا ہوا ہوگا ۔
5 : کبھی یہ خیال کرتے ہیں کہ مغرب کی اذان کے
وقت تمام لائٹیں روشن کر دینی چاہیے ورنہ بلائیں اترتی ہیں ۔
مذکورہ بالا بدشگونیوں کے علاوہ بھی مختلف
معاشروں، قوموں، برادریوں میں مختلف بد شگونیاں پائی جاتی ہے۔
حضرت سیدنا امام محمد آفندی رومی رحمۃ اللّٰہ علیہ الطریقہ المحمدیہ میں لکھتے
ہیں بد شگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مستحب ہے ( الطریقہ
المحمدیہ ،2/ 18، 24)
نیک فال یا اچھا شگون لینا بدشگونی کی ضد ہے
یعنی کسی چیز کو اپنے لئے باعثِ خیر و برکت سمجھنا اور یہ مستحب ہے مثلًا بزرگان
دین کی زیارت ہونا، بدھ کے دن نیا سبق شروع کرنا، پیر اور جمعرات کو سفر شروع کرنا۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نیک فال لینا پسند تھا چنانچہ ارشاد فرمایا
بدفالی کوئی چیز نہیں اور فال اچھی چیز ہے لوگوں نے عرض کی فال کیا چیز ہے فرمایا
"اچھا کلمہ جو کسی سے سنے"۔(بخاری، کتاب الطب، باب الطیرہ ،4 / 32،
حديث: 5754)
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بدشگونی اور
بد فالی سے بچائے اور ہمیں اچھا شگون و حسن ظن اور اچھے فال لینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
ماخوذ ( کتاب " بدشگونی" ص 8 ، 10 ،
12 ،15 تا 19 اور 113 )
طلحٰہ خان عطاری ( جامعۃالمدینہ فیضان خلفا ئے راشدین
بحریہ ٹاؤن ،راولپنڈی)

شُگُون کا معنی ہے فال لینا یعنی کسی چیز، شخص،
آواز، عمل یا وقت آنے کو حق میں اچھا یا برا سمجھنا۔اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں
ہیں : (1) برا شگون لینا (2) اچھا شگون لینا۔ علامہ محمد بن احمد انصاری
قرطبی علیہ الرحمة تفسیرِ قرطبی میں نقل کرتے ہیں: اچھا شگون یہ کہ جس کام کا
ارادہ کیا ہو اس کر بارے میں کوئی کلام سن کر دلیل پکڑنا، یہ اس وقت ہے جب کلام
اچھا ہو ، اگر بُرا ہو تو بد شگونی ہے۔ شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان
اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی پایہ تکمیل تک پہنچاۓ اور جب بُرا کلام سنے تو اس کی طرف توجّہ نہ کرے اورنہ ہی اس کے سبب اپنے
کام سے رکے ۔
( الجامع الاحکام القرآن للقرطبی ،پ 26،
الاحقاف، تحت الآیہ 4 ، ج 8 ، جز ٕ 16 ، ص132 )
ہمارا معاشرہ بھی بد شگونی کا سخت شکار ہے بالخصوص
خواتین کہ ایسی ایسی بد شگونیاں لیتیں ہیں کہ انسان سن کر حیران رہ جاتا ہے۔ جس
میں سے پانچ بد شگونیاں مندرجہ ذیل ہیں :
1) نئی دلہن کو منحوس سمجھنا : نئی نویلی دلہن کے گھر آنے پر
خاندان کا کوئی شخص فوت ہو جائےتو دلہن کو منحوس سمجھنا ۔
2) لڑکیوں کی مسلسل پیدائش کو منحوس
سمجھنا: کسی عورت کی صرف بیٹیاں ہی پیدا ہوں تو اس پر منحوس ہونے کا لیبل لگ
جاتا ہے ۔ اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمة سے اسی طرح کا لگاتار بیٹیوں
کی پیدائش کو برا سمجھنے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ علیہ الرحمة نے جواب ارشاد
فرمایا کہ: یہ محض باطل اور زنانہ اوہام اور ہندوانہ خیالاتِ شیطانیہ ہیں ان کی
پیروی حرام ہے۔
(فتاوی رضویہ ، 29 / 644 ، 696
مخلصاً )
3) میت سے بچے پر بُرا اثر سمجھنا : حاملہ عورت کو میت
کے قریب نہیں آنے دیتے کہ بچے پر بُرا اثر پڑے گا ۔
4) جوان بیوہ کو منحوس سمجھنا : جوانی میں بیوہ ہو جانے والی کو منحوس جانتے ہیں۔
5) گرہن سے جڑےہوئے توہمات : گرہن کے وقت حاملہ خواتین کو کمرے کے اندر رہنے اور سبزی
وغیرہ نہ کاٹنے اور سلائی کڑھائی نہ کرنے
کا کہاجاتا ہے کہ بچے پیدائش نقص کے بغیر پیدا ہوں ورنہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ
بچے کے جسم پر غلط اثر پڑ سکتا ہے۔ الامان والحفیظ

جب
اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا اور
انہیں اپنی ربوبیت پر قرار کرنے پر گواہ بنایا جس کا ذکر سورہ اعراف آیت نمبر 172 میں
ہے۔
ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور اے محبوب یاد کرو جب تمہارے رب نے اولادِ آدم کی پشت
سے ان کی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا،کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے۔
تو
شیطان نے اپنی پرانی دشمنی کے سبب بنی نوع
انسان کو اس وعدہ کے خلاف کرنے کے لیے کاروائی عمل میں لائی اور گمراہ کر دیا لہذا اللہ تعالی کا اپنے
پیارے انبیاء کو بھیجنے کا ایک مقصد اس وعدہ " اَلَسْتُ "کی یاد دہانی
کروانا بھی ہے اور ان انبیاء میں سے ایک
حضرت شعیب علیہ السلام بھی ہیں۔
آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو مدین نامی شہر میں
بسنے والی قوم کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے نیز ان کو ان کے برے
کاموں پر تنبیہہ کرتے ہوئے منع کرتے تھے ۔لیکن انہوں نے اپنے اس محسن کو اپنا بڑا
دشمن سمجھا۔نہ صرف آپ کی شان میں گستاخی کی بلکہ شہر کے راستوں میں بیٹھ کر آنے
والے لوگوں کو حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس جانے سے یہ کہتے
ہوئے روکتے تھے کہ آپ علیہ السلام جادوگر ہیں۔ جب ان کی نافرمانیاں زور پکڑتی گئیں
اور چند مسلمانوں کے علاوہ بقیہ قوم اپنے انہی حرکات میں ڈٹی رہیں تو اللہ پاک نے ابتداءً چیخ کے ساتھ پھر
شدید زلزلے کی صورت میں اس قوم کو ہلاک کر دیا۔
اس قوم کی نافرمانیاں
مندرجہ ذیل ہیں :۔
(1)شرک
(2)ناپ تول میں کمی اور دوسرے لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا (3)لوگوں کو حضرت شعیب علیہ سلام سے دور کرنا (4)ان کے سرداروں کا حضرت شعیب علیہ السلام کی
شان میں گستاخی کرنا ۔(صراط الجنان ،3/371)
یہ
وہ امور تھے جن کے ارتکاب کے سبب انہیں
ہمیشگی والے عذاب کا منہ دیکھنا پڑا ۔لہذا ہم غور کریں کہ کہیں یہ مفسدات ہمارے معاشرے میں تو نہیں ۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ بے برکتی کا دور دورہ ہے ہر بندہ یہ کہتا ہوا
نظر آتا ہے کہ ہمیں پورا نہیں ہوتا۔ تو کہیں وہ ان امور مفسدہ کے ارتکاب میں ملوث
تو نہیں۔ جن کے سبب پچھلی قومیں ہلاک کر دی گئی۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ نیک کاموں کو
اپنے اوپر نافذ کریں تاکہ بسبب فضل الٰہی بروز محشر نبی آخرالزمان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے
شرمندگی سے بچیں۔

دعوتِ اسلامی
کے تحت کشمیر کوٹ ضلع جعفر آباد میں شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران نے
پاکستان پیپلزپارٹی کےصوبائی صدر اور سابق وفاقی وزیر میر چنگیز خان جمالی کی
والدہ کے انتقال پراُن سے تعزیت کرتے ہوئے فاتحہ خوانی وایصالِ ثواب کا سلسلہ کیا۔

حضرت
شعیب علیہ السلام بھی اللہ تعالی کے نبیوں میں سے
ایک نبی ہیں ۔جن کی دو بیٹیاں تھیں۔جن میں سے ایک شادی حضرت موسی علیہ سلام سے کیا تھا ۔ان کو اہل
مدین کی طرف بھیجا گیا اور انہوں نے بھی آپ کے ساتھ وہی رویہ رکھا جو ان سے پہلے کفار نے حضرت شعیب علیہ السلام سے پہلے انبیاء کے ساتھ رکھا۔
ان کی قوم ناپ تول میں بہت کمی کرتی تھی۔ اور وہ
لوگوں کو کم چیزیں دیا کرتے تھے۔ یہ راستے
میں بیٹھ کر لوگوں کو ڈراتے اور لوگوں کو ایمان لانے سے منع کرتے تھے۔ اور خود کفر
اور شرک کے اندھیروں میں بھٹکنے اور دوسروں کو بھی بھٹکانے کی کوشش کرتے تھے۔ پھر
ہر دور کی طرح اس دور کے کفار اور متکبر لوگوں نے حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کے
پیروکاروں کو شہر سے نکالنے کی دھمکی دی۔ یہ مسلمان ٹس سے مس نہ کر سکی ۔پھر
کافروں نے کمزور لوگوں کو اپنے جھوٹے کہاں نیوں اور جھوٹے حیلوں سے راہ حق سے
ہٹانے اور ڈرانے کی کوششیں بھی کیں لیکن وہ ناکام ہوگئے۔
پھر آخر کار اللہ کا فیصلہ آگیا تو وہ عذاب میں
گرفتار ہو کر ختم ہوگئے جیسے ان سے پہلے کی قومیں ختم ہوگئیں تھیں۔ اس عذاب کی
کیفیت بھی قرآن میں اللہ نے بیان کی ہے۔ کہ پہلے ایک زور دار چیخ آئی پھر شدید زلزلے نے اس کا ایسا کام تمام کیا گویا کہ یہاں پر رہتے ہی نہ تھے۔
اس میں غور طلب بات تو یہ ہیں کہ کفار کا کیسا انجام ہوا۔ لیکن اس سے ان لوگوں کو سوچنا چاہیے جو
اسلام کے اصولوں کے خلاف اقتصادی ترقی
چاہتے ہیں۔ تاریخ بھی گواہ ہے جب اسلامی قوانین رائج تھے اس وقت مسلمانوں کی حالت کیا تھی۔ اس کے بعد کیا حالت ہوگئی۔
اللہ تعالی ہمیں شعیب علیہ سلام کی قوم سے عبرت
حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین
بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم