دور جاہلیت میں اہل عرب مختلف قسم کی باطل رسم
و رواج اور بری عادتوں میں مبتلا تھے انہیں میں سے ایک بدشگونی بھی ہے جسے یہ اپنے
ایمان کا حصہ سمجھتے اور اسی کے مطابق عمل کرتے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے دور جاہلیت کے تمام شرکیہ عقائد ،فاسد خیالات وتوہمات کو ختم کرکے ہمیں
دین کامل اور درست عقائد عطا فرمائے۔
بد شگونی کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں
ہے۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔جس نے بد شگونی لی اور جس کیلئے بد
شگونی لی گئی وہ ہم سے نہیں(یعنی ہمارے طریقے پرنہیں)۔(المعجم الکبیر،162/18،حديث:355)
افسوس....! اسلامی تعلیمات سے دوری کی بناء پر
آج یہ (بد شگونی) ہمارے معاشرے میں اس قدر
جڑ پکڑ چکی ہے کہ کوئی بھی ان سے باہر نہیں خاص کر عورتوں میں اس کا بڑا رجحان ہے۔
پرانی عورتوں میں یہ آن (بد شگونی) کے نام سے
جانی جاتی ہے اور ان میں یہ بات تو بہت زیادہ مشہور ہے کہ یہ آن(بد شگونی) اِس
خاندان میں ہے تو فلاں آن(بد شگونی) اُس خاندان میں۔
بد شگونی:۔کسی چیز، شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے
حق میں برا سمجھنا بد شگونی (آن) کہلاتا ہے۔(مطبوعہ مکتبۃ المدينہ بد شگونی،صفحہ:10 مفہوما)
بہر حال لا علمیت کی وجہ سے عورتوں میں بہت سی
بد شگونیاں پائی جاتی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔
1۔حاملہ عورت کا
نہر پار کرنا : مختلف قوموں اور برادریوں میں کئی قسم کی بد
شگونیاں پائی جاتی ہیں مگر بعض قوموں میں تو یہ مشہور ہے کہ حاملہ عورت وضع حمل تک
کوئی نہر پار نہیں کرے گی(یعنی اس راستہ سے نہیں جائے گی جس میں نہر آتی ہو)اس سے
عورتیں یہ بد شگونی لیتی ہیں کہ ایسا کرنے سے بچہ کو نقصان ہوگا یا پھر ضائع
ہوجائے گا حالانکہ یہ بہت عجیب بات ہے کیونکہ بد شگونی کا حقیقت سے کوئی واسطہ
نہیں۔
چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔بد فالی کوئی چیز نہیں اور
فال اچھی چیز ہے۔ لوگوں نے عرض کی! فال کی چیز ہے؟ فرمایا: "ا چھا کلمہ جو
کسی سے سنے"۔
(بخاری، کتاب الطب، باب الطیرة،36/4،
حديث:5754)
2۔حاملہ کا میت کے قریب جانا: جہاں معاشرے میں دیگر بد شگونیاں پائی جاتی ہیں وہیں ایک یہ
بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ حاملہ عورت کو میت کے قریب جانے نہیں دیا جاتا کہ بچہ پر
اس سے برا اثر پڑے گا۔بھلا....! میت بھی کسی جان کو نقصان پہنچا سکتی ہے؟
3۔اولاد کے مرنے پر نتھ(لونگ) اتارنا: وہمی گھرانوں کے بارے میں یہ بھی سننے کو ملا ہے کہ جب کسی
عورت کے اولاد پیدا ہوتے ہی بقضاءِ الہی مرجائے تو ان کے مرنے کی وجہ نتھ کو ٹہرا
کر یہ نتھ اتار دیتی ہیں۔بھلا...! کسی کی موت کا تعلق نتھ سے کیسے ہوسکتا ہے؟ حالانکہ
زندگی اور موت تو اللہ تعالی کے دست قدرت میں ہے۔
4۔ حاملہ عورت اور چاند گرہن :بعض توہم پرست گھروں میں چاند گرہن والی رات حاملہ کی خاص
حفاظت کی جاتی ہے اور انکا یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر یہ سوئی یا چھری سے کوئی کام
کرے تو بچہ کا کوئی عضو کٹا ہوا ہوگا یا ناقص ہوگا۔
5۔ کثرت بیٹی :آج
بھی اکثر لوگ اہل عرب کی طرح اپنی بیٹیوں کو منحوس اور برا سمجھتے ہیں اور بیٹوں
کو بیٹیوں پر اہمیت دیتے ہیں اس قدر انکی سوچ پست ہوچکی ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر
انکے چہرے خوشیوں کی کرنیں بکھیرنے کے بجائے رنج و غم کے آثار پیش کرتے نظر آتے
ہیں اور انہیں طرح طرح کی تکالیف پہنچانے میں ذرا سی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے جبکہ
بیٹی تو اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔اور بیٹی کیونکر منحوس ہوسکتی ہے؟ حالانکہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم بھی خود بیٹیوں والے تھے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا :بیٹیوں کو برا مت کہو، میں بھی بیٹیوں والا ہوں۔ بے شک بیٹیاں تو
بہت محبت کرنے والیاں، غمگسار اور بہت زیادہ مہربان ہوتی ہیں۔"
(مسند الفردوس
للدیلمی، 415/2، حديث:7556)
ماہنامہ فیضان مدینہ کے معزز قارئین...!
دیکھا
آپ نے ہمارے معاشرے میں کیسی کیسی برائیاں اور بد فالیاں پائی جاتی ہیں اگر آپ بھی
کسی قسم کی بد فالی کا شکار ہیں تو خدارا...! ایسی سوچ کو ختم کریں کیونکہ یہ ذہنی
سکون کے لیے زہر قاتل اور دل شکستگی (depression) کا سبب ہے۔
کریں نہ تنگ خیالاتِ
بَد کبھی،کردے
شُعُور و فکر کو
پاکیزگی عطا یا ربّ
(وسائل بخشش،ص93)