محمد اسماعیل عطاری ( جامعۃ المدینہ فیضان بخاری ،
موسیٰ لین لیاری کراچی)
پیارے اسلامی بھائیو اور قارئین کسی شخص، جگہ،
چیز یا وقت کو منحوس جاننے کا اسلام میں کوئی تصور نہیں یہ محض وہمی خیالات ہوتے
ہیں۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے اسی نوعیت کا سوال ہوا کہ ایک
شخص کے متعلق مشہور ہے اگر صبح کو اس کی منحوس صورت دیکھ لی جائے یا کہیں کام کو
جاتے ہوئے یہ سامنے آجائے تو ضرور کچھ نہ کچھ دِقت اور پریشانی اٹھانی پڑے گی اور
چاہے کیسا ہی یقینی طور پر کام ہو جانے کا اعتماد اور بھروسہ ہو لیکن ان کا خیال
ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور رکاوٹ اور پریشانی ہوگی چنانچہ ان لوگوں کو ان کے خیال کے
مناسب ہر بار تجربہ ہوتا رہتا ہے اور وہ لوگ برابر اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ
اگر کہیں جاتے ہوئے اس سے سامنا ہوجائے تو اپنے مکان پر واپس آ جاتے ہیں اور تھوڑی
دیر بعد یہ معلوم کرکے کہ وہ منحوس سامنے تو نہیں! اپنے کام کے لئے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ عقیدہ اور
طرزِ عمل کیسا ہے؟ کوئی قباحتِ شرعیہ تو نہیں؟ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے جواب
دیا : شرعِ مطہر میں اس کی کچھ اصل نہیں لوگوں کا وہم سامنے آتا ہے۔ شریعت میں حکم
ہے ( اِذَا تَطَيَّرْتُمْ فَامْضُوْا ) یعنی جب کوئی شگونِ بَد گمان میں آئے تو اس
پر عمل نہ کرو۔
( فتح الباری، کتاب الطب، باب الطیرة ، 181/ 11
تحت الحدیث: 5754)
وہ طریقہ محض ہندوانہ ہے مسلمانوں کو ایسی جگہ
چاہیے کہ "اللّٰهم لَا طَيْرَ اِلَّا طَيْرُكَ
وَلَا خَيْرَ اِلَّا خَيْرُكَ وَلَا اِلٰهَ غَيْرُكَ" پڑھ لے ترجمہ (اے اللہ نہیں ہے کوئی بُرائی مگر تیری
طرف سے نہیں ہے کوئی بھلائی مگر تیری طرف سے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ) اور
اپنے رب کریم پر بھروسہ کر کے اپنے کام کو چلا جائے ، ہرگز نہ رُکے، نہ واپس
آئے۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔
(فتاویٰ رضویہ 29/641 ملخصاً)
شگون کی قسمیں : شگون
کا معنیٰ ہے فال لینا یعنی کسی شخص، چیز، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا
برا سمجھنا۔ اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: 1۔ بُرا شگون لینا 2 ۔ اچھا شگون لینا
علامہ محمد بن احمد انصاری القرطبی رحمۃ اللہ
علیہ تفسیرِ قرطبی میں نقل کرتے ہیں: اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا ہو
اس کے بارے میں کوئی کلام سن کر دلیل پکڑنا، یہ اس وقت ہے جب کلام اچھا ہو، اگر
برا ہوں تو بدشگونی ہے۔
شریعت
نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہوں اور اپنا کام خوشی خوشی
پایئہ تکمیل تک پہنچائے اور جب برا کلام سنے تو اس کی طرف توجہ نہ کرے اور نہ ہی
اس کے سبب اپنے کام سے رکے۔
(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، پ 26 ،الحقاف،
الآیہ: 4 ،ج8 ، جزء 16، ص 132)
اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدفالی
لینے والوں سے اپنی بیزاری کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا : "لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَطَيَّرَ وَلَا تُطُيِّرَ لَه" یعنی جس نے بدشگونی لی اور جس کے لیے بدشگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں
(یعنی ہمارے طریقے پر نہیں)
(المعجم الکبیر ، 18/162 حديث 355 و فیض القدیر، 3/288 تحت الحدیث: 3206)
بد شگونی لینا عالَمی بیماری ہے مختلف ممالک
میں رہنے والے مختلف لوگ مختلف چیزوں سے ایسی ایسی بدشگونی لیتے ہیں کہ انسان سن
کر حیران رہ جاتا ہے چنانچہ بدشگونی کی مثالیں ملاحظہ کیجیے :
1: کبھی مہمان کی رخصتی کے بعد گھر میں جھاڑو
دینے کو منحوس خیال کرتے ہیں۔
2: کبھی یہ خیال کرتے ہیں کہ خالی قینچی چلانے
سے گھر میں لڑائی ہوتی ہے ۔
3: عید جمعہ کے دن ہو جائے تو اسے حکومتِ وقت
پر بھاری سمجھتے ہیں ۔
4: کبھی یہ خیال کرتے ہیں سورج گرہن کے وقت
حاملہ عورت چھری سے کوئی چیز نہ کاٹے کہ بچہ پیدا ہوگا تو اس کا ہاتھ یا پاؤں کٹا
یا چِرا ہوا ہوگا ۔
5 : کبھی یہ خیال کرتے ہیں کہ مغرب کی اذان کے
وقت تمام لائٹیں روشن کر دینی چاہیے ورنہ بلائیں اترتی ہیں ۔
مذکورہ بالا بدشگونیوں کے علاوہ بھی مختلف
معاشروں، قوموں، برادریوں میں مختلف بد شگونیاں پائی جاتی ہے۔
حضرت سیدنا امام محمد آفندی رومی رحمۃ اللّٰہ علیہ الطریقہ المحمدیہ میں لکھتے
ہیں بد شگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مستحب ہے ( الطریقہ
المحمدیہ ،2/ 18، 24)
نیک فال یا اچھا شگون لینا بدشگونی کی ضد ہے
یعنی کسی چیز کو اپنے لئے باعثِ خیر و برکت سمجھنا اور یہ مستحب ہے مثلًا بزرگان
دین کی زیارت ہونا، بدھ کے دن نیا سبق شروع کرنا، پیر اور جمعرات کو سفر شروع کرنا۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نیک فال لینا پسند تھا چنانچہ ارشاد فرمایا
بدفالی کوئی چیز نہیں اور فال اچھی چیز ہے لوگوں نے عرض کی فال کیا چیز ہے فرمایا
"اچھا کلمہ جو کسی سے سنے"۔(بخاری، کتاب الطب، باب الطیرہ ،4 / 32،
حديث: 5754)
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بدشگونی اور
بد فالی سے بچائے اور ہمیں اچھا شگون و حسن ظن اور اچھے فال لینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
ماخوذ ( کتاب " بدشگونی" ص 8 ، 10 ،
12 ،15 تا 19 اور 113 )