اللہ تعالی اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے اس نے انسانوں کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ ان کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے انہی میں سے کچھ نیک اور برگزیدہ بندے بھیجے۔ ایسے بندوں کو نبی  و رسول کہتے ہیں ۔ان رسول پر اللہ نے کتابیں نازل فرمائی تاکہ ان کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی لوگ اللہ کی کتابوں سے نصیحت حاصل کرتے رہیں۔ اور سب سے آخر میں اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید جیسی مقدس کتاب نازل فرمائی ۔اس مقدس کتاب میں بے شمار مضامین بیان ہوئے ہیں۔ ان مضامین میں سے ایک مضمون قصص بھی ہے۔

قرآن مجید کے اس مضمون میں سابقہ انبیاء کرام علیہ السلام اور ان کی امتوں کے واقعات بیان ہوئے تاکہ لوگ سبق حاصل کریں۔ بہت سی ایسی قومیں گزریں ہیں جن کو اللہ نے انعام و اکرام کی کی طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا لیکن انہوں نے اپنی ناشکری کے باعث عذاب الہی کے مستحق ہوئیں۔ انہی قوموں میں سے ایک قوم حضرت شعیب علیہ سلام کی قوم ہے۔ انہوں نے حضرت شعیب علیہ سلام کو جھٹلایا تو ان پر آگ برسی اور سب جل گئے۔

قرآن میں حضرت شعیب علیہ سلام کی قوم کی نافرمانیوں کا تذکرہ ہے ان میں سے چند یہ ہیں:۔ (1) کفر و شرک کرتے تھے (2) اللہ کے عذاب سے نہیں ڈرتے (3) حضرت شعیب علیہ سلام کو جھٹلا کر تمام رسولوں کو جھٹلا یا (4) ناپ تول میں کمی کرنا (5) لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا (6) رہزنی اور لوٹ مار کرنا (7) کھیتیاں تباہ کر کے زمین میں فساد پھیلانا (8) حضرت شعیب علیہ سلام نے ان کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا کہ تم ان لوگوں میں سے جن پر جادو ہوا ہے ۔

افسوس کہ ہمارے معاشرے میں ناپ تول میں کمی کرنا رہزنی اور لوٹ مار کرنا وغیرہ تمام برائیاں پائی جاتی ہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


 قرآن پاک میں اللہ تعالی نے بہت سے موضوعات کو بیان فرمایا ہے ان میں سے ایک گزشتہ امتوں کے واقعات بھی ہیں ۔ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ان قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کرے۔ اور ان نافرمانیوں سے خود کو بچائے جن کی وجہ سے وہ قومیں دنیا میں ذلت و رسوائی کا شکار ہوئی۔ انہی قوموں میں سے ایک قوم شعیب علیہ سلام کی بھی ہے۔ اس قوم کی کسی بستی کا نام مدین ہے۔ یہ حضرت شعیب علیہ سلام کے قبیلے کا نام ہے۔ اس بستی کا نام مدین اس لیے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ سلام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کے اولاد میں سے تھے۔ مدین اور مصر کے درمیان اسّی( 80) دن کے سفر کی مقدار کا فاصلہ تھا۔ حضرت شعیب علیہ سلام بھی حضرت ابراہیم علیہ سلام کی اولاد سے ہیں ۔آپ علیہ سلام کی دادی حضرت لوط علیہ سلام کی بیٹی تھی۔ حضرت شعیب علیہ سلام اہل مدین کے ہم قوم تھے۔ اور آپ انبیاء بنی اسرائیل میں سے نہ تھے۔(خازن)

شعیب علیہ سلام کی قوم کی جن نافرمانیوں کا ذکر قرآن پاک میں ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

(1) کفر و شرک (2) ناپ تول میں کمی کرنا(3) لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا (4) لوگوں کو حضرت شعیب علیہ سلام سے دور کرنے کی کوشش کرنا (5) ہم ضرور تمہیں اور تمہارے ساتھ مسلمانوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے (6) زمین میں فساد پھیلانا (7) بتوں کی پوجا کرنا (8) نصیحتوں پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنا

قوم نے نصیحتوں پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا :" بولے اے شعیب ہماری سمجھ میں نہیں آتیں تمہاری بہت سی باتیں اور بےشک ہم تمہیں اپنے میں کمزور دیکھتے ہیں اور اگر تمہارا کنبہ نہ ہوتا تو ہم نے تمہیں پتھراؤ کردیا ہوتا اور کچھ ہماری نگاہ میں تمہیں عزت نہیں"۔(پ 12،ھود 91)

ہمارے زمانے کے وہ لوگ جنہیں اسلام کے احکام پر کوفت ہوتی ہے کہ کسی کو سور (Pig) کی حرمت ہضم نہیں ہوتی۔ اور کسی کو پردے کی پابندی وبال جان لگتی ہے اور کسی کو حقوق اللہ کی ادائیگی اور عبادات کی پابندی پر مذاق سوجھتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے اقوال و افعال کو قوم شعیب کے بیان کردہ جملوں کے ساتھ ملا کر دیکھ لینا چاہیے کہ کیا یہ اسی کافر قوم کے نقش پر نہیں چل رہے ہیں۔

خدا را ! شعیب علیہ سلام کی قوم کی نافرمانیوں کے عبرت ناک انجام سے خود کو ڈرائیے ۔ان برائیوں سے خود کو بچائیے ورنہ یاد رکھے!! اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔ اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم


حضرت شعیب علیہ سلام کو رب تعالی نے مدین کی طرف مبعوث فرمایا۔ قوم نے آپ کی رسالت کو جھٹلایا اور قوم جو کہ طرح طرح کی خرافات میں مبتلا تھی یہ آپ علیہ سلام کو جھٹلاتی رہی۔ قرآن کریم میں  جابجا قوم شعیب کی نافرمانیاں کا تذکرہ ہے۔ چنانچہ رب تعالی نےارشاد فرمایا:

ترجمہ کنز الایمان: اور اس کی قوم کے کافر سردار بولے کہ اگر تم شعیب کے تابع ہوئے تو ضرور تم نقصان میں رہو گے۔(پ 9 ،الأعراف 90)

حضرت شعیب علیہ سلام کی قوم ناپ تول میں کمی کرتی تھی اور رب تعالی کی عبادت نہ کرتی تھی۔ چنانچہ رب تعالی ارشاد فرماتاہے۔

ترجَمۂ کنزُالایمان:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہاراکوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بےشک میں تمہیں آسودہ حال(مالدار وخوشحال) دیکھتا ہوں۔(پ 12،ہود 84)

حضرت شعیب کی قوم ناپ تول میں کمی کے ساتھ زمین میں فساد بھی مچاتی تھی چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ترجمہ کنز الایمان : اور اے میری قوم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو،اللہ کا دیا جو بچ رہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو۔(پ 12،ھود 85،86)

حضرت شعیب علیہ سلام کی قوم ان کو کمزور خیال کرتی تھی چنانچہ فرمان باری تعالی ہے۔ترجَمۂ کنزُالایمان: بولے اے شعیب ہماری سمجھ میں نہیں آتیں تمہاری بہت سی باتیں اور بےشک ہم تمہیں اپنے میں کمزور دیکھتے ہیں۔(پ 12،ہود 91)

حضرت شعیب کی قوم انبیاء علیہم السلام کو جھٹلاتی تھی چنانچہ فرمان رب العباد ہے : ترجمہ کنزالایمان: بَنْ(جنگل ) والوں نے رسولوں کو جھٹلایا ،جب اُن سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں۔(پ 19،شعراء 176،177)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی نافرمانیوں سے محفوظ فرمائے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی تعظیم کر تے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


دعوتِ اسلامی کے تحت پچھلے دنوں حیدرآباد اسسٹنٹ کمشنرنے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں مدنی مذاکرے میں شرکت کی ۔اس موقع پر مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن ونگرانِ ریجن قاری ایاز عطاری ،نگرانِ زون اور نگرانِ کابینہ بھی موجود تھے جنہوں نے اسسٹنٹ کمشنر کو دعوتِ اسلامی کی دینی وفلاحی خدمات کے بارے میں بتایا جس پر اسسٹنٹ کمشنر نے اظہار مسرت کیا۔بعدازاں ذمہ داران نے انہیں کتب ورسائل پیش کئے۔(رپوٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-  ترجمہ کنزالایمان: اور مَدیَن کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا۔(پ 8،الأعراف 85)

شعیب علیہ سلام کی بستی اور قبیلے کا نام بھی مدین تھا۔ یہ اس لیے ہوا یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ سلام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد سے تھے۔ حضرت شعیب علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام بھی حضرت ابراہیم علیہ سلام کی اولاد تھے۔ آپ کی دادی حضرت لوط علیہ سلام کی بیٹی تھی۔ حضرت شعیب اہل مدین کے ہم کون تھے اور انبیاء بنی اسرائیل سے نہ تھے۔

(خازن ،2/118،تحت الآیۃ 85)

اللہ تعالی نے پارہ 8 سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 85 میں ارشاد فرمایا : فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ ترجمہ کنز الایمان: تو ناپ تول پوری کرو۔

شعیب علیہ سلام کے قوم میں کفر و شرک کے علاوہ اور بھی بہت سے گناہ تھے جن میں سے تین یہ ہیں: (1)۔ ناپ تول میں کمی کرنا (2) لوگوں کو ان کے چیزیں کم کر کے دینا (3)لوگوں کو حضرت شعیب علیہ سلام سے دور کرنے کی ناپاک جسارت کرنا ۔جب نبی علیہ سلام نے ان باتوں سے منع کیا اور اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے دین کی تبلیغ کی تو قوم کے سردار بولے جسے اللہ تعالی نے پارہ 9 سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 88 میں ارشاد فرمایا: قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ

ترجمہ کنز الایمان: اس کی قوم کے متکبر سردار بولے اے شعیب قسم ہے کہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھ والے مسلمانوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے۔

(الاعراف ،2/272،تحت الآیۃ 88)

اسی طرح گفتگو چلتی رہی جب ان کی جہالت اور گمراہیاں اللہ کے نبی کی گستاخیاں انتہا درجے کو پہنچی تو ان کو شدید زلزلے نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ سورہ ہود میں اس کا ذکر کچھ اس طرح ہے: وَ اَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۙ(۹۴) ترجمہ کنز الایمان: اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آ لیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے۔

(پ 12،ھود 94)

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت شعیب علیہ سلام کو اصحاب ایکۃ کی طرف بھی مبعوث فرمایا اور اہل مدین کی طرف بھی۔ اصحاب ایکۃ تو ابر سے ہلاک ہوئے مگر اہل مدین زلزے میں گرفتار ہوئے اور ہولناک آواز سے مر گئے۔

(خازن ،الاعراف،2/120،تحت الآیۃ 91)

ناپ تول میں کمی کرنے کی سزا :حضرت نافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک بیچنے والے کے پاس سے گزر رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے ۔اللہ سے ڈر !اور ناپ تول پورا پورا کر !کیونکہ کمی کرنے والے کو میدان محشر میں کھڑا کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ اس کا پسینہ اس کے کانوں کے نصف تک پہنچ جائے گا۔

اللہ تعالی ہمیں ناپ تول پورا کرنے اور دوسروں کا حق کھانے، تول میں کمی کرنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسین 


خطیب الانبیاء حضرت شعیب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے آپ علیہ السلام مدین شہر میں رہتے اور یہاں کے لوگ کفر وشرک، ناپ تول میں کمی جیسی نافرمانیوں میں مبتلا تھے آپ علیہ السلام نے انہیں احسن انداز میں تبلیغ کی اور جب سرداران قوم اور عوام نے نافرمانیوں پر قائم رہنے کو ترجیح دی تو شعیب علیہ السلام کی دعا سے ان کو ہولناک چیخ اور زلزلے کے عذاب سے تباہ کر دیا گیا۔ اور پھر آپ علیہ السلام کو اصحابِ اَیکہ کی طرف مبعوث فرمایا۔یہ لوگ بھی اہل مدین جیسی نافرمانیوں میں مبتلا تھے انھوں نے بھی نصیحت حاصل نہ کی تو بادل کے ایک ٹکڑے سے آگ برسا کر راکھ کر دئیے گئے ۔

(سیرت الانبیاء صفحہ 504 مكتبۃالمدينہ )

سيدنا شعيب علیہ السلام کی قوم کی نافرمانیوں کی طویل فہرست ہے ان میں سے اجمالاً 18 نافرمانیاں ذکر کرتے ہیں:

(1) الله تعالٰی کی وحدانیت کا انکار کرنا(2)بتوں کو پوجا کرنا (3) نعمتوں کی ناشکری کرنا (4) ناپ تول میں کمی کرنا (5) لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا (6) قتل و غارت گری اور دیگر نافرمانیوں کے ذریعے زمین میں فساد کرنا (7) ڈاکے ڈال کر لوگوں کا مال لوٹنا (8) لوگوں کو اذیت دینے کے لیے راستوں میں بیٹھنا (9) اور جس چیز کو دیکھنا ان کے لیے حلال نہیں، اس کو دیکھنا (10) غریبوں پر ظلم کرنا (11) درہم و دینار بنا کر انھیں کسی بھی صحیح غرض کے بغیر توڑ پھوڑ دینا (12تا16)مسلمانوں کا مذاق اڑانا، نمازی اور اہل علم پر طنز کرنا، انھیں جبری احکام دینا، ان پر اپنی بڑائی جتانا، اور انھیں حقیر جاننا (17)بیماری اور غربت کی وجہ سے عار دلانا (18) لوگوں کو حضرت شعیب علیہ السلام سے دور کرنے کی کوششیں کرنا ۔

(سیرت الانبیاء ، صفحہ507اور508مکتبۃ المدينہ)

"لاتقعد" کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ راستے میں بیٹھتے تھے اور جو بھی ان کے پاس آتا اسے یہ بتاتے کہ شعیب علیہ السلام ( معاذاللہ) کذاب ہیں پس وہ تمہیں تمہارے دین کے بارے میں فتنہ میں نہ ڈال دے۔

(تفسیر طبری جلد 10 صفحہ 313 سورۃ الاعراف آیۃ 86 ھجر لطباعۃ والنشر القاھرہ)

جب آپ علیہ السلام انہیں درہم و دنانیر کے کاٹنے سے منع کیا تو انہوں نے جواب دیا بے شک یہ ہمارے مال ہیں ہم ان میں جو چاہیں کریں گے اگر ہم نے چاہا تو انہیں توڑ دیں گے اگر ہم نے چاہا تو جلا دیں گے اور ہم نے چاہا تو انہیں پھینک دیں گے۔

(تفسیر درمنثور جلد 3 صفحہ 1055 مکتبہ ضیاء القرآن)

اس طرح کی بیمار ذہنیت کے افراد کی ہمارے معاشرے میں کمی نہیں ،اسلامی احکام پر عمل کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں بلکہ اسلامی احکام کا مذاق اڑاتے ہیں ۔

الله عزوجل سے دعا ہے ہم سب کو ہدایت نصیب کرے آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم


قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے جو موضوعات ذکر کیے ہیں  ان میں سے گزشتہ قوم کے واقعات بھی ہیں تاکہ ہم ان واقعات سے عبرت حاصل کریں اور ان کاموں و عادات سے بچیں جو ان میں تھی انھیں قوموں میں سے قوم شعیب بھی تھی ۔

اللہ عزوجل نے ان کی طرف ان کے ہم قوم حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجاحضرت شعیب علیہ السلام مدین میں رہتے تھے ان کے قبیلے اور بستی کا نام مدین تھا۔

یہ قوم اللہ عزوجل کی نافرمانیوں میں ڈٹی رہی تو اللہ عزوجل نے ان پر عذاب نازل فرمایا چنانچہ قرآن پاک میں ہے(تو انہیں شدید زلزلے نے اپنی گرفت میں لے لیا تو صبح کے وقت وہ اپنے گھروں میں اوندے منہ پڑے رہ گے) (سورہ اعراف آیت نمبر ۹۱)

قوم شعیب کی جن نافرمانیوں کا ذکر قرآن پاک میں ہے ان میں سے چند یہ ہیں :

۱۔ناپ تول میں کمی کرتے تھے(اعراف۸۵)

۲۔لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دیتے تھے(اعراف۸۵)

۳۔لوگوں کو حضرت شعیب علیہ السلام سے دور کرتے تھے(اعراف۸۵)

۴۔زمین میں فساد کرتے تھے

۵۔ راستے میں راہ گیروں کو ڈراتے تھے

۶۔ڈاکہ زنی کرتے تھے(اعراف ۸۶)

۷۔ غرور وتکبر کرتے تھے(اعراف ۸۸)

آہ افسوس صد کروڑ افسوس یہ برا ئیاں ہمارے معاشرے میں بھی پھیلتی جا رہی ہیں :ناپ تول میں کمی کرنا ،غرور وتکبر کرنا،ڈاکہ زنی کرنا ۔یہ برائیاں ایسی ہیں کہ ہمارے معاشرے پائی جاتی ہیں اور کافی لوگ اس میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔خدارا اپنے آپ کو ان برائیوں سے بچائیے اور تھوڑی سی خوشی کی خاطر ان میں مبتلا مت ہوئیے یاد رکھیئے !ہم نے ایک دن مرنا ہے اور اللہ عزوجل کا عذاب سخت اور بڑا ہے۔

تو خوشی کے پھول لے گا کب تلک تو یہاں زندہ رہے گا کب تلک

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جاہے تماشہ نہیں ہے


قرآن پاک میں اللہ پاک نے جن موضوعات کو بیان فرمایا ہے ان میں سے ایک گزشتہ امتوں کے واقعات بھی ہیں، ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ان قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کریں اور نافرمانیوں سے خود کو بچائیں۔ انہیں قوموں میں سے ایک قوم حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کی بھی ہے

حضرت شعیب علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ رسول، حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر ان کے صہری والد اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے تھے آپ علیہ السلامسلام مَدیَن شہر میں رہتے تھے یہاں کے لوگ کفر و شرک ، بت پرستی اور تجارت میں ناپ تول میں کمی کرنے جیسے بڑے گناہوں میں مبتلا ہوتے تھے ۔

ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو مقرر فرمایا۔آپ علیہ السلام نے انہیں احسن انداز میں توحید و رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی اور ناپ تول میں کمی کرنے اور دیگر حقوق العباد تلف کرنے سے منع کیا ۔ عرصہ دراز تک تبلیغ و نصیحت کے باوجود صرف گِنے چُنے افراد ہی دولتِ ایمان سے مشرف ہوئے اور دیگر افراد کو سر دارانِ قوم نے معاشی بدحالی اور تجارتی خسارے سے ڈرا دھمکا کر ایمان سے دور رکھا۔ جب سردارانِ قوم اور عوام نے کفر و شرک اور دیگر گناہوں پر ہی قائم رہنے کو ترجیح دی اور ان کے ایمان لانے کی صورت نہ رہی تو حضرت شعیب علیہ السلام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے انہیں ایک ہولناک چیخ اور زلزلے کے عذاب سے تباہ و برباد کر دیا۔ پھر آپ علیہ السلام کو اصحاب اَیْکہ کی طرف مبعوث فرمایا ۔ یہ لوگ بھی اہل مَدیَن جیسے ہی گناہوں میں مبتلا تھے، انہوں نے بھی حضرت شعیب علیہ السلام کی تبلیغ سے نصیحت حاصل نہ کی تو انہیں بادل کے ایک ٹکڑے سے آگ برسا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔

اہل مَدیَن کے گناہ:

اہل مدین کے گناہوں اور جرائم کی ایک طویل فہرست ہے ان میں سے چند گناہ یہ ہیں:

1: اللہ تعالی کی وحدانیت کا انکار کرنا

2: بتوں کی پوجا کرنا

3: نعمتوں کی ناشکری کرنا

4: ناپ تول میں کمی کرنا

5: لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے دینا

6: ڈاکے ڈال کر لوگوں کا مال لوٹ لینا

7: قتل و غارت گری اور دیگر گناہوں کے ذریعے زمین میں فساد کرنا

8: مسلمانوں کا مذاق اڑانا

9: لوگوں کو حضرت شعیب علیہ السلام سے دور کرنے کی کوششیں کرنا

اور اس کے علاوہ بہت سے ایسے گناہ ہیں جن کی وجہ سے ان پر اللہ تعالی کا عذاب نازل ہوا۔

یا اللہ ہمیں پچھلی قوم کے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے عبرت حاصل کرنے اور اپنی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰہ علیہ وسلم

( ماخوذ سیرت الانبیاء ص 504 تا 508 )


گزشتہ دنوں ملتان میں  دعوتِ اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران نے پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی اور انہیں مدنی مرکز فیضانِ مدینہ وزٹ کی دعوت دی جس پر انہوں بہت مدنی مرکز فیضانِ مدینہ آنے کی نیت کی ۔

اس موقع پر سابق وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی، سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی، سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سابق MNA ، MPA سمیت دیگر سیاسی شخصیات موجود تھے۔(رپوٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


قرآن مجید کی وہ آیات مبارکہ جن میں اللہ تعالیٰ نے پچھلی امتوں کی ہلاکت کا ذکر فرما یا ہیں اُ ن میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر وہ قوم جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ، اللہ اور رسول کے احکامات پر عمل نہ کیا اور ایمان نہ لائے ،اللہ تعالیٰ نے ان اقوام کو ذلیل و رسواء کر دیا اور ان پر درد ناک عذاب نازل فرما کر ہلاک فرما دیا چنانچہ اپنے سے پہلی امتوں کےحالات معلوم کرنا، قوم کے بننے،بگڑنے سے عبرت پکڑنا حکم الٰہی ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ۠(۸۴) ترجمہ کنزالایمان: تو دیکھو کیسا انجام ہوا مجرموں کا ۔

8،اعراف 84:)

یعنی پچھلی امتوں کے احوال اور گزرے ہوئے زمانوں میں سرکشی کرنے والوں کے انجام عبرت کی نگاہ سے دیکھو او رسوچو۔ انہیں اقوام میں سے ایک حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم بھی ہے۔

شعیب علیہ السلام اور آپ کی قوم کی مختصر تعارف:

اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کو اہل مدین کی طرف بھی مبعوث فرمایا تھا اور اصحاب ِ اَیکَہ کی طرف بھی ۔ اہل مد ین زلزلہ میں گرفتار ہوئے اور ایک ہولناک آواز سے ہلا ک ہو گئے جبکہ اصحاب ایکہ ابر ( بارش) سے ہلاک کئے گئے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا:

وَ اَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۙ(۹۴)12،ہود :94) ترجمہ کنزالایمان:اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آ لیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے۔

فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۚۖۛ(۹۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو انہیں زلزلے نے آلیا تو صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ 9،اعراف 91)

حضرت شعیب علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے ہیں آپ علیہ السلام کی دادی حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹی تھیں حضرت شعیب علیہ السلام اہل مدین کے ہم قوم تھے۔ مدین حضرت شعیب علیہ السلام کے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا۔اس بستی کا نام مدین اس لئے ہو اکہ یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے۔ (تفسیر صراط الجنان ، الاعراف،تحت الآیۃ 85)

قوم ِشعیب علیہ السلام کی نا فرمانیاں :

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم میں شرک کے علاوہ اور بھی بہت سے گنا ہ اور نا فرمانیاں عام تھیں ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں ۔

(1) ناپ تول میں کمی کرنا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ 12،ھود : 84) ترجَمۂ کنزُالایمان:اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال (مالدار وخوشحال) دیکھتا ہوں۔

(2)لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ ( پ8،اعراف: 85) ترجمہ: اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو

(3)لوگو ں کو حضرت شعیب علیہ السلام سے دور کرنے کی کوشش کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًا (پ8،اعراف:86) ترجمہ کنزالایمان: اور ہر راستہ پر یوں نہ بیٹھو کہ راہ گیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ سے انہیں روکو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی چاہو(ٹیڑھا راستہ ڈھونڈو)

(4) قوم کے سر داروں نے حضرت شعیب علیہ السلام کی بے ادبی کی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا: قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ8، الاعراف: 88) ترجمہ کنزالایمان: اس کی قوم کے متکبر سردار بولے اے شعیب قسم ہے کہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھ والے مسلمانوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے۔

(5)مدین کے راستے میں بیٹھ کر اس کے بعض لوگ قافلوں اور مسافروں پر ڈکیٹیاں ڈالتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًا -ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہر راستہ پر یوں نہ بیٹھو کہ راہ گیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ سے انہیں روکو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی چاہو(ٹیڑھا راستہ ڈھونڈو) (پ8، الاعراف: 86)

پچھلی امتوں کے ہلاک ہونے کے واقعات قرآن مجید میں اس لئے بیان کیے گئے ہیں تاکہ ہم ان واقعات سے عبرت لیں اور اپنے اعمال و معاملات کو اسلام کی روشنی سے روشن کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کی نا فرمانی سے اور رسول کی بے ادبی سےمحفوظ فرمائے اور ہمیں شریعت کے احکامات پر عمل کرنے ، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنانے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری والی زندگی اور ایمان پر موت نصیب فرمائے۔


دعوتِ اسلامی کے تحت 4ستمبر2021ء بروز ہفتہ ذمہ دارانِ دعوتِ اسلامی  نے ملتان سینٹرل جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس عنایت اللہ چوھان سے ملاقات کی۔اس موقع پر سینٹرل جیل میں شجر کاری کرنے اور دیگر فلاحی کاموں کے حوالے سے گفتگو ہوئی نیز دعوتِ اسلامی کے مختلف شعبہ جات کا تعارف بھی پیش کیا گیا۔

ذمہ داران نے انہیں مدنی مذاکرے میں شرکت کرنےکی دعوت دی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کی دینی وفلاحی خدمات کو خوب سراہا۔(رپوٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


مؤلف:ماجد

Tue, 7 Sep , 2021
4 years ago

حضرت شعیب علیہ السلام جس بستی میں مبعوث ہوئے اس قبیلے یا اس بستی کا نام مدین تھا یہ ایک مشہور شہر تھا جو آج کل اردن (Jordan)میں واقع ہے۔ شعیب علیہ سلام کی قوم تاجر کافر اور ڈاکو قوم تھی۔ وہ درختوں اور بتوں کی پوجا کرتے تھے اور ڈاکے ڈالتے تھے یہ لوگ تجارتی راستوں پر کھڑے ہو جاتے اور جبرا قافلوں کو لوٹ لیتے تھے ۔ ملاوٹ ہیرا پھیری اور دھوکہ بازی میں اس قوم کا کوئی ثانی نہ تھا ۔ ملاوٹ میں ایسے ماہر تھے گویا انکی گٹھی میں پڑی ہو ۔ جس طرح تمام انبیاء کرام کی ہمیشہ یہی ذمہ داری ہوتی ہے کہ لوگوں کو خالص اللہ کی عبادت کی طرف بلایا جائے ۔ درست اعمال اور صحیح عقائد کی طرف ان کی رہنمائی کی جائے اور انہیں شرک وکفر اور دیگر گناوں سے بچنے کی تعلیم دی جائے اس کے ساتھ ساتھ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام ان خرابیوں کا بھی سامنا کرتے رہے جو ان کی قوم میں پائی جاتی تھیں۔ شعیب علیہ السلام کی قوم میں ملاوٹ کا رحجان سب سے زیادہ تھا ناپ تول میں کمی کرنا ان کے کاروبار کا حصہ اور ان کا شیوہ بن چکا تھا ۔شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو ایمان لانے اور ان برائیوں سے توبہ کرنے کی دعوت دینی شروع کی تمام انبیاء کرام معجزات کے ساتھ دنیا میں تشریف لائے ہیں اگر معجزات نہ ہوتے تو ہم ایک سچے نبی اور نبوت کے کسی جھوٹے دعویدار میں ہر گز فرق نہ کر سکتے نہ ہی لوگوں کو یہ پہچان ہوتی کہ وہ حق پر ہیں۔ معجزہ اس چیز کو کہا جاتا ہے جو زمینی قانون فطرت اور اصول کے خلاف ہو مثلا مردوں کو زندہ کرنا ،چاند کے دو ٹکڑے ہونا ،لاٹھی مار کر سمندر میں راستہ بنا دینا یا لاٹھی کا سانپ بن جانا ۔ شعیب علیہ السلام نے بھی اپنے معجزے کے ذریعے اپنی قوم کو چیلنج کیا اور انہیں شرک، ناپ تول کی کمی ،ملاوٹ ،فساد اور لوٹ مار سے منع کیا کہ اے میری قوم یہ سارے کام چھوڑ دو یہ کام عذاب الہی کو دعوت دینے والے ہیں ۔ شعیب علیہ السلام کی قوم لوط علیہ السلام کی قوم کے انجام سے واقف تھی لوط علیہ السلام کی قوم کے عذاب کا قصہ ان کے یہاں مشہور تھا ۔ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کیا اور ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے آپ کو جھٹلایا اور آپ کے دشمن بن گئے پھر بولے اے شعیب کیا تیری نماز تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کا یہ دین اور اپنے معبود چھوڑ دیں ۔ جس طرح ہمارے یہاں ہر قسم کا فتنہ فساد اور برائیاں پائی جاتی ہیں کچھ یہی حال شعیب علیہ السلام کی قوم کا بھی تھا شعیب علیہ السلام نے بار بار انہیں مخاطب کر کے فرمایا اے میری قوم میری خلاف تمہاری یہ ضد اس بات کا باعث نہ بن جائے کہ تمہیں بھی ویسا ہی معاملہ پیش آ جائے جیسا قوم نوح قوم صالح یا قوم لوط کے ساتھ پیش آیا اور قوم لوط کے انجام سے تو تم خوب واقف ہو تم اپنے رب کی طرف توجہ کرو اور توبہ کر کے اس سے معافی مانگو ۔ پہلے تو عام وعظ و نصیحت کی لیکن جب قوم نہ سمجھی تو انہیں سابقہ قوموں کی مثالیں دیں کہ کہیں تم پر بھی ویسا ہی عذاب نہ آ جائے تاہم انہوں نے ضد نہ چھوڑی اور بولے "تو ہمارے جیسا ہی ایک انسان ہے اورجھوٹ بولتا ہے اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے" ۔یعنی وہ مسلسل اپنے کفر پر ڈٹے رہے تو شعیب علیہ السلام بولے ذرا ٹھہر جاو یہاں تک کہ ہمارے درمیان اللہ فیصلہ کر لے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ وہ لوگ بھی پہلی قوموں کی طرح شعیب علیہ السلام کے مقابلے پر اتر آئے اور دھمکیاں دینے لگے کہ ہم آپ اور آپ کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے یا پھر تم واپس ہمارے مذہب میں آ جاو ۔جب قوم کے سرداروں نے آپ کو بستی سے نکالنے کا فیصلہ کیا تو آپ نے کہا اگر عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو میری بات مان لو میں تم سے کسی قسم کے مال و دولت کی طلب نہیں کرتا ۔

وہ مذاق اور ٹھٹا کرنے لگے کہ اے شعیب تیری اکثر باتیں تو ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی اور ہم اپنے اندر تجھے بہت کمزور سمجھتے ہیں اگر ہمیں تیرے قبیلے کا خیال نہ ہوتا تو ہم تجھے کب کا سنگسار کر دیتے شعیب علیہ السلام نے جواب دیا اے میری قوم تم میرے قبیلے سے تو ڈرتے ہو لیکن اللہ پاک کا تمہیں کچھ بھی ڈر نہیں ہے پھر انہیں مخاطب کیا اور کہا اے میری قوم تم سمجھنے والے نہیں ہو اب تم اپنی جگہ عمل کئے جاو میں بھی اپنی جگہ عمل کرتا ہوں ایک دن ہمارے درمیان فیصلہ ہو جائے گا اور بہت جلد یہ معلوم ہو جائے گا کہ کس پر رسوا ہونے والا عذاب آئے گا اور کون جھوٹا اور سچا ہے تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ۔ یہ کہہ کر آپ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ میرے اور میری قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے بیشک تو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ آخر کار فیصلے کی گھڑی آ پہنچی اللہ پاک نے شعیب علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات عطا فرمائی جبکہ ان کی قوم پر عجیب و غریب اور کئی قسم اور نوعیت کے عذاب نازل ہونے شروع ہو گئے ۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو دیگر قوموں کے برعکس عذاب دیا گیا۔اللہ تعالی نے ہوا کو روک دیا۔ حالت ایسی ہو گئی کہ ہوا بلکل نہ چل رہی تھی گرمی اور حرارت بہت زیادہ بڑھ گئی پھر اللہ تعالی نے بستی سے باہر ایک بادل بھیجا جس کے نیچے سایہ تھا ۔بچے بوڑھے مرد عورتیں سب اس سائے کے نیچے جگہ پانے کے لئے بھاگ نکلے تاکہ کسی طرح گرمی سے بچا جائے بالاآخر سارے بادل کے نیچے پہنچ کر بیٹھ گئے ۔جیسے ہی سب بیٹھے ان کے پاوں کے نیچے سے زمین ہلنے لگی یہاں تک کہ تباہ کن زلزلہ شروع ہو گیا سب گھٹنوں اور منہ کے بل گرتے چلے گئے اسی دوران جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور ایسی زور دار چیخ ماری کہ اس چیخ کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے سب کے سب وہیں ڈھیر ہو گئے وہ بادل سمجھ کر اس سائے کی طرف دوڑے تھے دراصل وہ سایہ ان کے لئے عذاب تھا اور انہوں نے یہی تو کہا تھا کہ اے شعیب آسمان کا کوئی ٹکڑا ہم پر گرا دے پس اللہ تعالی نے آسمان سے ایسا ہی عذاب بھیجا اور چنگھاڑ بھیجی کہ وہ اوندھے پڑے رہ گئے جبکہ شعیب علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والے ان سے دور کھڑے تھے اور وہ ان کی طرف حسرت بھری نگاوں سے دیکھ رہے تھے لیکن اب کوئی فائدہ نہ تھا کیوں کہ عذاب اتر چکا تھا اس وقت شعیب علیہ السلام منہ موڑ کر جانے لگے کہ اے میری قوم میں نے اپنے پروردگار کے احکام تم تک پہنچا دئیےتھے میں نے تمہاری خیر خواہی کی تھی پھر میں ان کافر لوگوں پر کیوں رنج کروں اس کے بعد وہ واپس اپنے شہر کی جانب لوٹ آئے کیوں کہ وہ شہر تو باقی رہ گیا تھا لیکن چلنے پھرنے والا کوئی شخص باقی نہ بچا تھا۔استغفراللہ