مذاق اڑانا 

Thu, 18 Aug , 2022
1 year ago

دینِ اسلام کی یہ خوبی ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کا ہی حکم نہیں دیا بلکہ ایک دوسرے کی عزت کی حفاظت کا بھی حکم دیا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہر وہ عمل جس کی وجہ سے کسی کی عزت پر حرف آتا ہو یا معاشرے میں فساد و بگاڑ پیدا ہو اس سے بچنے کی بھی خوب تاکید کی ہے۔ مثلاً ایک طرف راستوں سے گندگی ہٹا دینے کو صدقہ قرار دیا تو دوسری طرف مذاق کے ذریعے کسی مسلمان کی عزت کو پامال کرنے کو حرام و ناجائز اور گناہ قرار دیا۔ لہٰذا یاد رکھئے! تضحیک یعنی مذاق اڑانا چاہے اسلام کا ہو، دینی شعائر کا ہو یا معاذ اللہ انبیائے کرام و اولیا و صلحا کا ہو یا عام بندوں کا، اللہ پاک کو سخت ناراض کرنے والا کام ہے، اس لئے اس کی اسلام میں شدید مذمت بیان فرمائی گئی ہے اور قرآن کریم میں ایسے واقعات کثرت سے موجود ہیں جن میں یہ بتایا گیا کہ مذاق اڑانےوالی قومیں تباہ کردی گئیں۔

مذاق اڑانے کا مطلب: مذاق اڑانے سے مراد یہ ہے کہ کسی کو حقیر جان کر اس کا حقیقی یا فرضی عیب اس طرح بیان کرنا کہ سننے والے کو ہنسی آئے۔([1]) مذاق اڑانا بلا شبہ بیوقوفوں اور جاہلوں کا شیوہ ہے، کوئی بھی با شعور و عقل مند اس عمل کو پسند کرتا ہے نہ ہمارے دین میں اس کی اجازت ہے۔ جیسا کہ پارہ 26، سورۃ الحجرات کی 11 ویں آیت میں ہے: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ١ۚترجمۂ کنزالعرفان:اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں پر نہ ہنسیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر ہنسیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں۔

اس آیت کریمہ کے شانِ نزول کے متعلق دو قول ہیں:

(1)حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضور نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہُ عنہن کے متعلق نازل ہوئی ہے کہ انہوں نے حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہُ عنہا کو چھوٹے قد کی وجہ سے شرمندہ کیا تھا۔(2)

(2)حضرت عبدُ اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: آیت کا یہ حصہ اُمُّ المومنین حضرت صفیہ بنتِ حیی رضی اللہُ عنہا کے حق میں اس وقت نازل ہوا جب انہیں حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ نے یہودی کی بیٹی کہا۔(3)

مذاق اڑانے کے مختلف طریقے: کسی کا مذاق اڑانے کے مختلف طریقے ہیں: مثلاً کسی کی رنگت کا مذاق اڑایا جائے۔٭کسی کے وزن کے انتہائی کم یا زیادہ ہونے کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی کی غربت و مفلسی کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی کی کامیابی یا ناکامی کا مذاق اڑایا جائے٭کسی کو حاصل ہونے والے نفع و نقصان کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی میں پائے جانے والے جسمانی عیب کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی کی دینداری کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی کے تقویٰ کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی کے عمدہ اخلاق والا ہونے پر اس کا مذاق اڑایا جائے۔

مذاق کی آفات: ٭فی زمانہ جگت بازی کے نام پر کثیر خواتین بے سوچے سمجھے جو منہ میں آیا کہہ دیتی ہیں اور یہ بھی پروا نہیں کرتیں کہ اس سے کسی کی دل آزاری ہو رہی ہے٭نیز یہ بھی بھول جاتی ہیں کہ ان کا یہ عمل کسی بہت بڑے گناہ کا بھی سبب بن سکتا ہے، یعنی زبان کی حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے معاذ اللہ کلمات کفر بھی منہ سے نکل سکتے ہیں۔ ٭آج یہ کسی کو اپنے مذاق کا ہدف بنائے ہوئے ہیں تو کل کوئی اور انہیں بھی مذاق کا تختہ مشق بنا سکتا ہے۔

مشہور کہاوت ہے: جو آج کسی پر ہنس رہا ہے کل اس پر بھی ہنسا جا سکتا ہے۔ ٭جنہیں اپنے ایمان کی فکر نہیں ہوتی وہ اپنا وقت مذاق میں صرف کر کے برباد کرتی ہیں ٭جھوٹ کی آمیزش بھی مذاق میں اہم کردار ادا کرتی ہے، یاد رکھئے! جھوٹ بولنے والیاں بھی اللہ پاک کے غضب کو دعوت دیتی ہیں۔٭مذاق کرنے والیاں بعض اوقات اتنے سخت الفاظ استعمال کرتی ہیں کہ جس کا مذاق اڑایا جائے وہ بہت عرصے تک اس صدمے سے نہیں نکل پاتی اور وہ الفاظ اسے رنج پہنچاتے رہتے ہیں اور ادھر دل آزاری کرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ ہم نے تو بس مذاق کیا تھا، افسوس! ہمارے دین نے جس عمل کو نا پسند کیا ہے لوگ اسی سے لطف اٹھاتے ہیں۔

مذاق کے نتائج: یاد رکھئے! بے تکے مذاق والے روئیے کے دنیا و آخرت دونوں میں منفی نتائج نکلتے ہیں۔ مثلاً اس سے جہاں باہمی کدورتیں، رنجشیں، لڑائی جھگڑا، انتقامی سوچ، بدگمانی، حسد اور سازشیں جنم لیتی ہیں، جس سے دنیاوی زندگی بھی بسا اوقات جہنم محسوس ہوتی ہے تو دوسری جانب ایسے روئیے والی خواتین خدا کی رحمت سے محروم ہو کر ظلم کرنے والیوں میں شمار ہوتیں، اپنی نیکیاں گنوا بیٹھتیں اور آخرت کو خطرے میں ڈال دیتی ہیں۔ اس بری عادت کے نتائج کا اندازہ اس سے لگائیے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے: جس نے کسی مسلمان کو(ناحق)ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ پاک کو ایذا دی۔(4) اسی طرح ایک روایت میں ہے: قیامت کے روز لوگوں کا مذاق اڑانے والے کے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آؤ!آؤ! وہ جیسے ہی دروازے کے پاس پہنچے گا دروازہ بند ہو جائے گا۔ پھر جنت کا ایک دوسرا دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گا کہ ادھر آ جاؤ! وہ رنج و غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے گا تو وہ بھی بند ہو جائے گا۔ اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ ہوتا رہے گا یہاں تک کہ جب دروازہ کھلے گا اور اسے بلایا جائے گا تو وہ نہیں جائے گا۔(5)

یہ عادت کس طرح ختم کی جائے؟ اگر کسی اسلامی بہن میں ایسی عادتِ بد موجود ہے تو اسے چاہئے کہ ٭پہلی فرصت میں اللہ پاک کی بارگاہ میں سچی توبہ کرے اور آئندہ اس مذموم فعل سے بچنے کی بھر پور کوشش کرے ٭ایسی سہیلیوں سے جان چھڑائے جو اس طرح کی حرکات میں مبتلا ہیں ٭مسلمانوں کا مذاق اڑانے کی اسلام میں جو وعیدیں بیان کی گئی ہیں ان کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھے ٭نیک صحبتوں اور اجتماعات میں اپنا زیادہ وقت گزارے٭سنجیدہ اسلامی بہنوں کی زندگی کا بغور جائزہ لے اور ان جیسا بننے کی کوشش کرے، اللہ پاک نے چاہا تو جلد اس مرض سے چھٹکارا مل جائے گا۔

اسلام میں کسی بھی انسان کو حقیر سمجھنے کی اجازت نہیں بلکہ بہترین مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔لیکن اگر کسی کو ایسی آزمائش کا سامنا ہو بھی تو صبر کرے اور جوابی کاروائی کر کے خود بھی اسی گناہ میں شامل نہ ہو جائے۔ البتہ! یاد رہے کہ ایسا مذاق جو کسی کو خوش کرنے کے لئے ہو اور اس میں کوئی غیر مناسب بات بھی نہ ہو، جسے خوش طبعی اور خوش مزاجی کہتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ خوش طبعی کرنا سنتِ مستحبہ ہے۔(6) جیساکہ ایک مرتبہ حضور نے حضرت انس کو یا ذَا الاُذْنَیْن یعنی اے دو کانوں والے فرمايا۔ (7)

اللہ پاک ہمیں ہر اس عمل سے بچائے جو دوسروں کی تکلیف کا باعث بنے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[1] احیا ء العلوم، 3/207 2 تفسیر خازن، 4 / 169 3تفسیر خازن، 4/ 169 4 معجم اوسط، 2 /386، حدیث: 3607 5 موسوعہ ابن ابی دنیا،7/183، حدیث: 287 6 مراٰۃ المناجیح،6 /493 ماخوذاً 7 ترمذی، 3/399، حدیث:1998