مولانامحمدعبدالواحد رضوی رحمۃ اللہ علیہ

چودھویں صدی ہجری کی ایک مؤثرترین ہستی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ہے،آپ بہت بڑے عالم دین ،مفتی اسلام ،مفسرقرآں،محدث دوراں ، صاحب ِ دیوان شاعر،صاحب تصانیف،مجددِ وقت ،شیخ الاسلام والمسلمین، جامع معقول و منقول اورعبقری شخصیت کے مالک تھے ،آپ قدیم علوم کے ساتھ ساتھ جدیدعلوم پربھی دسترس رکھتے تھے ،برعظیم پاک وہندکے علماوعوام آپ کی شخصیت سے بہت عقیدت رکھتےہیں ،علمائے عرب بھی آپ کے علم وبزرگی کے قائل تھے ،عرب وعجم میں اس مقبول ہستی سے مستفیض ہونے والوں نے اپنےاپنے دائرہ کارمیں کارہائے نمایاں سرانجا م دئیے،انہیں میں سے خیبرپختون خواہ کے عالم دین،استاذالعلما حضرت مولاناحافظ قاضی محمدعبدالواحدرضوی صاحب بھی ہیں ،جو اعلیٰ حضرت کے شاگرداورخلیفہ ہیں ،انھوں نے اپنی ساری زندگی اللہ پاک اور رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے وقف کردی تھی ،ذیل کی سطورمیں ان کا ذکرخیرکیا جاتاہے ۔

خاندان کا تعارف

تلمیذ وخلیفہ ٔ اعلیٰ حضرت علامہ مولاناحافظ قاضی محمدعبدالواحدرضوی صاحب کا تعلق ضلع سوات (خیبرپختون خواہ،پاکستان )(1) کے گاؤں مانیارسوات (2) کے اخوندزادہ شیخ خاندان سےہے،آپ کا خاندان تقریبا 1100ھ/1700ء میں سوات سے گھڑی کپورہ(Garhi Kapura ) (3) ضلع مردان (4) میں منتقل ہواتھا ،وجۂ ہجرت یہ ہوئی کہ دوقبیلوں امازئی اورکمال زائی میں جھگڑاہوگیا ،امازئی قبیلہ حق پر تھا مگرکمزورتھا ،انھوں نے مدد کے لئے علاقہ مانیار سوات کے میاں سید حسین بابارحمۃ اللہ علیہ (5)سے درخواست کی ،چنانچہ بابا جی اپنی فوج اورقاضیوں کے ساتھ گڑھی کپورہ تشریف لائے، امازئی قبیلے کو کامیابی حاصل ہوئی ،چونکہ میاں سید حسین باباجی کی والدہ اسی علاقہ گڑھی کپورہ کی تھیں اس وجہ سے آپ یہیں مستقل مقیم ہوگئے اور وصال بھی یہیں ہوا۔ آپ کے ساتھ جو علماء اور قاضی تشریف لائےتھے ، ان میں ایک اہم شخصیت حضرت مولانا قاضی علی احمدقادری صاحب(سوات باباجی) کی ہے جوشیخ الاسلام والمسلمین حضرت سیدوبابا اخوندعبدالغفورقادری صاحب(6) کے خلیفہ ،جیدعالم دین،امام وقاضی علاقہ تھے ،آپ کی وفات امازو گھڑی (گڑھی کپورہ)میں ہوئی اوریہاں کے مشہور سنڈا سَرقبرستان گڑھی اسماعیل زئی میں دفن کیے گئے،یہاں آپ کا مزاردعاؤں کی قبولیت کا مقام ہے ۔ان کے رشتہ دار،شاگردوجانشین اصولی بابا حضرت مولاناقاضی غازی الدین قادری(7) تھے جو کہ مولانامحمد عبدالواحدصاحب کے والدگرامی ہیں ۔ (8)

پیدائش

حضرت مولانا قاضی حافظ محمد عبدالواحدرضوی صاحب کی ولادت 1302ھ /1882ء میں علاقہ امازئی گڑھی کپورہ (ضلع مردان ،خیبرپختونخواہ)پاکستان میں ہوئی ۔آپ عوام الناس میں ’’مولوی صاحب ‘‘ اوراپنے خاندان میں ’’ڈھلی کاکاجی‘‘کے القابات سے جانے جاتے تھے ،ان کو ڈھلی کاکاجی اس لیے کہاجاتاہے کہ خاندان میں سب سے پہلے آپ نے دہلی (9) جاکر وہاں کےمشہورمدرسۃ الاسلام(10) میں داخلہ لیا تھا۔ (11)

والد گرامی کا تذکرہ

علامہ محمد عبدالواحدرضوی صاحب کے والدگرامی صاحبِ حق، اصولی بابا حضرت مولانا قاضی غازی الدین قادری ہیں جو تقریبا1223ھ/ 1808ء میں پیداہوئے ،آپ اپنے والداخوندزادہ محی الدین خان صاحب کے اکلوتے فرزندتھے، آپ مانیارسوات سے علاقہ امازئی گڑھی میں منتقل ہوئے اپنے خاندان کی عظیم علمی شخصیت علامہ قاضی علی احمدقادری صاحب(سوات باباجی) سے علم دین حاصل کیا ،اصول وفنون میں مہارت حاصل کرکے ’’اصولی بابا‘‘کے لقب سے مشہورہوئےاورقاضی علی احمدقادری صاحب کے انتقال کے بعد ان کے علمی جانشین اورپورے علاقے کے قاضی مقررہوئے ،درس وتدریس کاسلسلہ بھی جاری رہاآپ کے مشہورشاگردوں میں٭آپکے بیٹے صاحبِ حق ، شمس العلما حضرت مولانا قاضی عبدالخالق صاحب(12) ٭ حضرت مولانامروَت عبدالقہارصاحب (13) ٭ہوتی ملاصاحب حضرت مولانا حکیم احمدنورصاحب(14) ٭ اورمولاناسیدفضل صمدانی بنوری صاحب(15) ہیں ۔ (16) اصولی بابا قاضی غازی الدین قادری نے1338ھ/ 1920ء میں جمعیت علمائے احناف یوسف زئی قائم فرمائی جس کے صدرآپ خود تھے ،نائب صدرمفتی سرحدمولانا شائستہ گل صاحب قادری (17) اور مشہورعالم دین، شیخ الاسلام ،باباجی یارحسین علامہ عبدالحنان قادری صاحب (18) اس کے رکن تھے۔جبکہ آپ کے بیٹے حافظ عبدالودودقادری صاحب ((19 جمعیت کےناظم اعلیٰ بنائے گئے ،ہندبھرکے بڑے بڑے علماسے حافظ عبدالودودصاحب کی خط وکتابت تھی ،جمیعت کے قیام اورفعال کردارکی وجہ سے ہند کےدوردرازشہروں کے علما گڑھی کپورہ (پشتونام امازوگھڑی) سے متعارف ہوئے ۔(20) قاضی غازی الدین قادری نے 13ذیقعدہ1357ھ /6جنوری1939ء بروزجمعہ وفات پائی ،آپ کی کرامت ہے کہ بغیرکسی ظاہری سبب کے چاروں جانب آپ کی وفات کی خبرپھیل گئی اورلوگ آپ کی نمازجنازہ میں شرکت کےلیے جوق درجوق آنے لگے، چالیس ہزارسے زائد لوگوں نے آپ کی نمازجنازہ میں شرکت کی ،آپ کو مقامی سنڈا سَرقبرستان گڑھی اسماعیل زئی میں دفن کیا گیا ۔(21)

والدہ محترمہ کا ذکرخیر

علامہ عبدالواحدرضوی صاحب کی والدہ محترمہ بی بی مریم معززقاضی سیّد خاندان کے چشم وچراغ قاضی سیّد فقیرشاہ (22) قاضی خیل،طورو معیار(ضلع مردان)کی بیٹی تھیں ،آپ عالمہ فاضلہ ،صابرہ شاکرہ اورعابدہ وزاہدہ خاتون تھیں ،اللہ پاک نےآپ کو دو بیٹیوں اورچھ بیٹوں کی نعمت سے نوازا،دوبیٹوں کا انتقال بچپن میں ہوگیا بقیہ چاربیٹے یہ ہیں :٭صاحبِ حق،شمس العلما مولاناقاضی عبدالخالق صاحب٭استاذالعلماحضرت مولاناقاضی حافظ عبدالواحد رضوی٭حضرت مولانا قاضی حافظ عبدالودودقادری صاحب ٭حکیم زین العابدین دہلوی (23)صاحب ۔ (24)

تعلیم وتربیت

حضرت مولانا عبدالواحدرضوی صاحب بچپن سے اسلامی علوم کی جانب متوجہ تھے ،چندسال کے تھےکہ قرآن مجیدحفظ کرلیا ،اس کے بعدابتدائی اسلامی علوم کی تحصیل اپنے والدصاحب سمیت علاقے کےعلماسے کی ،بعدِ بلوغت دہلی،ریاست رامپور(25) اوربریلی(26) وغیرہ کے مدارس میں حصول تعلیم کے لیے روانہ ہو گئے ،ان مدارس میں آپ نے 14 سال علم دین حاصل کرنے میں گزارے،ان میں سے ایک سال مدرسۃ الاسلام دہلی میں رہے اوربقیہ تعلیم مدرسہ عالیہ رامپور(27) اوردارالعلوم (مدرسہ اہل سنت وجماعت)منظراسلام بریلی شریف (28) وغیرہ میں حاصل کی ۔ (29)

مدرسۃ الاسلام دہلی اورعلامہ عبدالواحدصاحب

غالبا آپ نے 1335ھ /1817ءمیں اس مدرسۃ الاسلام المعروف مدرسہ مولوی عبدالرب میں داخلہ لیا،اس میں حضرت مولانا عبدالعلی دہلوی صاحب(30) اور مولانا محمدشفیع دہلوی صاحب (31) سے ہدایہ شریف ،صحاح ستہ ،شمائل ترمذی اورقصیدہ بردہ شریف پڑھنے کی سعادت حاصل کی ۔فراغت 15شعبان 1336ھ /26مئی 1918ءکو ہوئی، اختتام پر سند دی گئی جو ان کے ورثاکے پاس اب بھی موجودہے ۔(32)

دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف میں داخلہ

مدرسۃالاسلام دہلی سے فراغت کے بعد بھی علم کی پیاس باقی رہی اورغالبا شوال المکرم 1336ھ/جولائی 1918ء میں دارالعلوم (مدرسہ اہل سنت وجماعت )منظراسلام بریلی میں داخلہ لے لیا چنانچہ فتاویٰ رضویہ جلد10صفحہ 72پر آپ کااستفتاء درج ہے جس سے معلوم ہوتاہے رضوی صاحب 27ذوالحجہ1336ھ کو دارالعلوم منظراسلام کےطالب علم تھے۔ آپ کا بریلی شریف میں قیام دوسال غالبا شوال المکرم 1336ھ/جولائی 1918ء تا 20ذی الحجہ 1338ھ/ 5ستمبر1920ء پر محیط ہے ۔اس میں آپ نے اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان ،حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان(33) ،مولانا رحم الٰہی منگلوری (34) اورحضرت مولانا علامہ مولانا ظہورالحسین فاروقی نقشبندی(35) سے استفادہ کیا ۔

دارالعلوم منظراسلام سےسندکا اجراء

یہاں سےمولانا عبدالواحدرضوی صاحب کی فراغت 20ذی الحجہ1338ھ/5ستمبر1920ءکو ہوئی اورآپ کواسی دن سَنَدالتکمیل لمن اکمل التحصیل دی گئی، غالبا اسی دن آپ کو سلسلہ قادریہ رضویہ کی خلافت سےبھی نوازاگیا ۔ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان (36) رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے نام کے ساتھ یہ القابات تحریر فرمائے: الاخ السعید،الحمیدالرشید،ذوالقلب المکین،والدین المتین ،محب السنۃ،مبغض الفتنہ،العالم العامل،والفاضل الفاضل،المولوی عبدالواحدالرضوی بن المولوی غازی الدین المتوطن گڑھی کپورافشاورجعلہ اللہ ذاالفضل السامی ،والفیض النامی ۔ان القابات سے آپ کی شخصیت کی عکاسی ہوتی ہے۔(37) حضرت صاحبزادہ وجاہت رسول قادری صاحب (38) نےدارالعلوم منظراسلام کے نصاب کا ذکر کرتے ہوئےاس سندکا ذکر اس طرح فرمایا ہے :’’اس دارالعلوم کا نصاب امام احمدرضا نے اجل علماء کی معاونت ومشوروں سے خودترتیب دیاتھا ،تعلیمی معیارکا اندازہ ان کتب تفسیر،احادیث وفقہ سےلگایا جاسکتاہےجودارالعلوم منظراسلام کی اس سندحدیث میں مذکورہیں جو امام احمدرضا علیہ الرحمہ کی حیات میں جاری ہوئی تھیں ،راقم کے سامنےوہ سندفراغت ہے جوحضرت علامہ عبدالواحدرضوی ابن مولانا غازی الدین ساکن گڑھی کپورہ (پشاور،پاکستان)کو 20ذی الحجہ1338ھ/ 1920ء کو امام احمدرضا کی حیات میں جاری ہوئی تھی،اس پر علامہ مولانا حامدرضا خاں صاحب نے بحیثیت مدیراورعلامہ رحم الٰہی اورعلامہ مولانا ظہورالحسین الفاروقی نقشبندی المجددی نےبطورمدرس دستخط فرمائے ہیں ۔اس کی خاص بات یہ ہے اس میں ’’صحاح ستہ‘‘کے علاوہ دیگرتمام مشہورکتب حدیث، مسانیدمعاجم اورشروح کا ذکرہےجو دارالعلوم میں پڑھائی جاتی تھیں ۔فقہ حنفی کےعلاوہ دیگرائمہ ثلاثہ کےمذاہب سے متعلق بھی کتب پڑھائی جاتی تھیں ،مجموعی طورپر 30علوم کا ذکرہے جواس دارالعلوم میں پڑھائے جاتے تھے اورجس کی سندعلامہ عبدالواحدرضوی صاحب کو بعدفراغت جاری کی گئی تھی۔‘‘(39)

دارالعلوم منظراسلام کے سالانہ جلسوں میں شرکت

اس دوران دارالعلوم منظراسلام کےدوسالانہ جلسے ہوئے ،جس میں سے سولہواں سالانہ جلسہ بتاریخ 22،23،24شعبان1337ھ مطابق 23،24،25مئی1919ء،جمعہ تااتواربریلی مسجدبی بی صاحبہ مرحومہ (40) میں منعقدہوا۔(41) سترویں سالانہ جلسے کی تاریخ معلوم نہ ہوسکی ۔غالبا یہ جلسہ ذو الحجہ1338ھ/ ستمبر1920ءکو ہواہوگا کیونکہ علامہ رضوی صاحب کی اسنادپر 20ذوالحجہ 1338ھ درج ہے۔قرین قیاس یہی ہے کہ آپ نے ان جلسوں میں شرکت کی ہوگی ۔

رفقائے دارالعلوم منظراسلام بریلی

آپ کےساتھ پڑھنے والے علمامیں ٭ فقیہ زمانہ،حضرت مولانامفتی غلام جان ہزاروی(42) ٭مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ شاہ ابوالبرکات سیداحمدرضوی(43) ٭حضرت مولانا حشمت علی خان(44) ٭مولانا حاجی منیرالدین بنگالی(45) ٭مولانااکبرحسن خاں رامپوری(46) ٭حضرت مولانا افضل بخاری٭مولانا ظہورالحق صاحب ٭حضرت مولانا عبدالجلیل صاحب٭حضرت مولانالیاقت صاحب ٭حضرت مولانا عزیزاحمدفریدپوری ٭حضرت مولانا امام بخش ٭حضرت مولانا نورمحمدقادری رضوی صاحب ٭حضرت مولانا رحیم بخش بنگالی ٭حضرت مولانا میراحمدصاحب٭حضرت مولانا رمضان علی بنگالی٭حضرت مولانا محمودحسن قادری٭حضرت مولانا عبداللہ بنگالی ٭حضرت مولانا عثمان بنگالی٭حضرت مولانا محمداحمدبنگالی وغیرہ(47) شامل ہیں ۔(48)

مدرسہ عالیہ رامپورسے سند کا حصول

بریلی شریف کے قیام کے دوران آپ نے مدرسہ عالیہ رامپورسے دواسناد حاصل کیں،پہلی سند پر اجراءکی تاریخ 14ذی الحجہ 1338ھ درج ہے ،اس سندپر تین علمائے کرام کے دستخط ہیں: ٭فخرالعلماعلامہ فضل حق رامپوری(49) ٭حضرت علامہ احمدامین خان بن معین الدین پشاوری(50) اور٭حضرت علامہ مولانا ظہورالحسین فاروقی نقشبندی کی مہرہے ، یوں اس سندکے ذریعے آپ کی علوم عقلیہ کاانتساب سلسلہ غیرآبادی سے ہوجاتاہے ۔دوسری سند حضرت مولانا احمدامین خان پشاوری کی جانب سے دی گئی ،اس پر 15ذوالحجہ 1338ھ کی تاریخ درج ہے۔(51)

ہندمیں تدریس کا آغاز

فراغت کے بعد آپ1341ھ/ 1923ء تک دارالعلوم منظراسلام میں بطورمدرس خدمات سرانجام دینے لگے، ان تین سالوں میں آپ سے کثیرعلماء نے استفادہ کیا ۔ایک خاندانی تحریرسے معلوم ہوتا ہے آپ نےہند کے علاقے دان پور(52) (ضلع بلندشہر ،یوپی) کے کسی مدرسے میں بھی تدریس فرمائی۔(53)

ہند سے واپسی اورخدمات دین

آپ 1341ھ/ 1923ء کے بعد اپنے شہرگڑھی کپورہ تشریف لے آئے اور علاقہ گھڑی اسماعیل زئی کے محلہ (کندے)بقال خیل کی مسجدمیاں گان گڑھی کپورہ میں امامت وخطابت کرنے لگے ،آپ نے یہ خدمت تقریبا چالیس سال سرانجام دی ،یہی وہ مسجد ہے جس کے ایک گوشے میں مدرسہ تعلیم اسلام کا قیام میں عمل آیا،جوبعدمیں ترقی کرتے ہوئے ایک بڑے جامعہ کی شکل میں مستقل بلڈنگ میں منتقل ہوا۔(54)

گھریلوزندگی

آپ نے ساری زندگی شادی نہ کی،اس لیے آپ اپنے چھوٹے بھائی حضرت مولاناقاضی حافظ عبدالودودصاحب کے ہاں رہتے تھے ،دونوں بھائیوں میں بہت پیارتھا ،دکھ دردمیں شریک ہوتے ،رضوی صاحب کی اپنے بھائی کی اولادپر خصوصی شفقت تھی چنانچہ قاضی حافظ عبدالودودصاحب کے بیٹےاورآپ کے بھتیجے فقیہ العصر حضرت مولانا قاری عبداللطیف ظہیرصاحب(55) فرماتے ہیں :بچپن میں اسلامی تعلیمات کے راستہ پر مجھے جس نے لگایا ،جوانی میں غلط تعلیمات ومجالس سے جس نے روکا،وہ صرف اورصرف عمی المکرم حضرت علامہ مولانا عبدالواحد ہیں ۔جنہوں نے الف با سے لیکرصرف ونحو،معانی وادب،منطق وفلسفہ ،فقہ واصول فقہ کی تعلیم دی اورصرف میری ہی وجہ سے ایک مدرسہ ’’مدرسہ تعلیم الاسلام ‘‘کی بنیادڈالی،اورمیری ہرطرح سے نگرانی فرمائی ،مجھ پر عم محترم کی یہ بھی نظرعطوفت تھی کہ انہوں نے اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے دیگراساتذہ کو رکھا اورمیری ہی وجہ سے اتنی تکالیف برداشت کیں ،اللہ تعالی ان کو جزاے خیرعطافرمائے،آمین ثم آمین ۔(56)

خصائل و عادات

مولانا عبدالواحدرضوی صاحب کو جنہوں نے قریب سے دیکھا آپ سے علم حاصل کیا، سب کے سب آپ کے تقویٰ، پرہیزگاری ، اخلاص ، سادگی اور علم و عمل سے نہایت متاثر ہیں۔آپ ہر وقت باوضو ہوتے اور ہر موسم میں ہر ایک نماز کے لیے الگ وضو فرماتے۔آپ کا لباس انتہائی سادہ مگر پروقار ہوتا، آپ ہمیشہ سفید کپڑے ، سفید عمامہ شریف اور اس کے اوپر سفید رومال زیب تن فرماتے۔رات کے بہت کم حصہ میں آپ آرام فرماتے۔ آپ کو حلوہ میں مٹھائی پسند تھی جو آپ احتیاط کی وجہ سے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا کرتے تھے ،آپ نے کبھی کھانے میں بناسپتی گھی نہیں کھایا، اور یہ آپ کی کرامت تھی کہ آپ کی وفات پر ایصالِ ثواب کے لیے جتنے بھی دن جو کچھ بھی پکایا گیا سب دیسی گھی میں پکایا گیا، کہ آپ نے زندگی میں کبھی بناسپتی گھی پسند نہیں کیا تو بعد از وصال بھی آپ کی عادت کے خلاف کام نہ ہوا۔(57)

تدریس کا انداز

تہجد کے بعد سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوتا اور رات نماز عشا کے بعد تک جاری رہتا۔ آپ نہایت شفیق انسان تھے مگر تعلیم کے معاملے میں سخت مزاج تھے، طلبا پر بہت سخت نگرانی فرمایا کرتے تھے اور بسا اوقات سبق یاد نہ ہونے پر ان کی سرزنش بھی فرماتے تھے۔طلبہ کی دل جوئی کے لیے اپنی پسندیدہ مٹھائی طلبہ کے ساتھ مل کرکھایا کرتے تھے ۔(58)

بارگاہ رسالت میں آپ کی تدریس کی مقبولیت:آپ کے شاگردغلام محی الدین خان صاحب کا بیان ہے کہ ایک رات میں سویا تو قسمت انگڑائی لےکر جاگ اُٹھی ،میں نے کیا دیکھا کہ میرے پیارے آقا حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اس مسندپر جلوہ فرماہیں جس پر بیٹھ کر میرے استاذمحترم ’’مولوی صاحب ‘‘تدریس فرماتے ہیں ۔اس سے معلوم ہواکہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی مولانا عبدالواحدرضوی صاحب پر نظرتھی اورآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کی خدمت دین اورفیضان نبوی کوعام کرنے کی کوششوں سے راضی تھے۔(59)

رفاہی کاموں میں دلچسپی

آپ کو رفاہی کاموں سے بڑی دلچسپی تھی، جب ’’گڑھی امازئی ‘‘ میں تعلیم کا کوئی صحیح انتظام نہیں تھا آپ نے ایک ایسے مدرسہ کی بنیاد رکھی جس میں بیک وقت دینی اور دنیاوی ضروریات کا پورا اہتمام رکھا گیا تھا۔جناب ممتاز علی صاحب کہتے ہیں، جب گڑھی کپورہ کی ندی پر پل کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ صبح و شام معائنہ کے لیے جاتے اور منتظمین کو بسا اوقات ہدایات بھی دیتے۔(60)

دنیاوی معاملات سے دوری :آپ دنیوی باتوں اور محافل سے کوسوں دور تھے، آپ کے شاگرد جناب ممتاز علی خان صاحب ( ریٹائرڈ پرنسپل) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ خان ولی محمد خان کے گھر میں غالبا ان کے بیٹے کی خوشی ہوئی سب لوگ مبارک باد کے لیے گئے مگر مولوی صاحب نہیں گئے، ولی محمد خان خود آپ کے پاس آیا کرتا تھا، جب ملاقات ہوئی توشکوہ کیا کہ سب لوگ مبارک باد دینے آئے مگر آپ نہیں آئے تو مولوی صاحب کا سادہ جواب تھا۔’’ مجھے ان معاملات سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘(61)

مدرسہ تعلیم الاسلام گڑھی کپورہ کا قیام

مدرسہ تعلیم الاسلام کا آغا ز گڑھی کپورہ کے موضع گھڑی اسماعیل زئی کے محلہ (کندے)بقال خیل کی جامع مسجدمیاں گان کے ایک چبوترے میں ہوا،پھرمسجدکے ایک حجرے میں منتقل ہوگیا ،جب طلبہ کا اضافہ ہوگیا تو علامہ عبدالواحدرضوی نے دیگرافرادکے ساتھ مل کرپیپل چوک میں واقع ایک ویران عمارت (درمسال) کو مدرسے میں تبدیل کردیا ،اس مجلس انتظامی کا پہلا اجلاس یکم شعبان 1355ھ /18اکتوبر1936ء کو منعقدہوا۔اس مدرسے میں پرائمری تک دنیاوی تعلیم اوردرس نظامی کا اہتمام تھا،علامہ عبدالواحدرضوی صاحب کے ساتھ ایک اورمدرس حضرت فضل الرحمن خان صاحب(62) بھی پڑھاتےتھے ۔ مدرسے کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ان ابتدائی ایام میں تقریبا137طلبہ علم حاصل کرتے تھے ۔بعدمیں مدرسے کی دوشاخیں قائم ہوئیں ٭پہلی شاخ: یہ ابتدائی تعلیم،ناظرہ وحفظ قرآن،کچھ سورتیں ،مشق قراءت،املاء نویسی،خوشنویسی اور پہلی تا پرائمری جماعت تک مشتمل تھی۔٭دوسری شاخ :درجہ اولیٰ تا درجہ سابعہ تک کےدرجات پر مشتمل تھی۔علامہ عبدالواحدرضوی صاحب کے بھتیجے اورشاگرد حضرت مولانا قاری عبداللطیف ظہیرصاحب فرماتے ہیں :دوسری جماعت کورس شروع ہواجو ندرت فن کی بناء پراس وجہ سے ممتازتھی کہ صرف حساب وجغرافیہ ،اردو،املا،خوشنویسی پر منحصرنہیں تھا ،بلکہ پنج کتاب فارسی ،صرف بہائی اوربعض دوسری کتابوں پر مشتمل تھا ،دن گزرتے گئے اورچوتھی جماعت تک پہنچتے پہنچتے یہ نوبت آئی کہ ہمارامدرسہ اب صرف ڈے اسکول نہیں تھا بلکہ شبینہ بھی ہوااورہم صرف عصرومغرب کے درمیان تعطیل کرتے ۔اس زمانہ میں مدرسہ کااحاطہ پرائمری کے دائرہ سے نکل کرایک عظیم الشان درسگاہ بن گیا تھا چنانچہ چاراساتذہ پرائمری کے اورتین علمادرس نظامی پڑھانے میں مصروف تھے۔ہمارے گھرانے میں ماسوائے میرے دوچچازادبھائیوں کے کوئی بھی انسان ایسانہیں تھا جس کی بغل میں کتاب نہ ہو،بلکہ ابتداہی ایسی ہوتی تھی کہ سب سے پہلے توجہ اس طرف مبذول ہوتی تھی ۔ (63)

مدرسے کے قواعدوضوابط

علامہ عبدالواحدرضوی صاحب بہترین منتظم تھے ،آپ نے مدرسے کے کئی شعبے بنائے اورانہیں جدیدخطوط پراستوارکیا ،تمام شعبہ جات کے لیے ایک الگ ریکارڈ منضبط کیا گیا ،داخلہ فارم کا نفاذ،طلبہ کے داخلے اوراخراج کا ریکارڈ،آئین طلبہ کے نام سے طلبہ کے لیےقوانین وضوابط طے تھے۔ مدرسین کی کارکردگی،اسباق کی تقسیم ،تنخواہ اوردیگرقوانین،آئین رخصت مدرسین تحریری طورپر تیارکئے گئے ۔ تعلیمی سال کاتعین،امتحانات وتعطیلات کی تفصیل،مدرسے کے سالانہ تقریبات سب تحریری طور پرتیارکرکے نافذکیاگیا۔مالیات کا شعبہ بھی مضبوط تھا ،اس میں تنخواہ کے نظام کے لیے کتاب قبض الوصول،آمدن وخرچ کے حساب کے لیے کتاب آمدوخرچ کا نفاذتھا۔(64)

جید علما کا تقرر

علامہ عبدالواحدرضوی صاحب نے مدرسہ تعلیم الاسلام گڑھی کپورہ کے لیے بہترین مدرسین کا تقررفرمایا مثلا٭حضرت مولانا عبدالرب شہبازگڑھی (65) ٭حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب ٭مولانا رشیداحمدخان صاحب ٭حضرت مولانا قاضی حبیب الرحمن خان٭حضرت مولانا سیداحمدخان صاحب ٭حضرت مولانا محمدالیاس خان صاحب ٭حضرت مولانا حافظ عبدالوہاب کوٹ اسماعیل زئی٭حضرت مولانامیاں گل طوروصاحب ٭حضرت مولانا حافظ تاج دین کوٹ اسماعیل زئی(فاضل دارالعلوم حقانیہ سیدوشریف ) ٭حضرت مولانا عبداللہ بن فضل قادرسنڈاکی سوات٭حضرت مولانا عبدالعزیزخان صاحب (فاضل سیدوشریف) ٭حضرت مولانا فضل اللہ خان صاحب ٭حضرت مولانا قاری عبداللطیف ظہیرصاحب ٭حضرت مولانا شریف اللہ صاحب٭حضرت مولاناعبدالرؤف خان صاحب کوٹ دولت زئی٭حضرت مولانا سیدنوازخان صاحب٭حضرت مولانا عبیداللہ خان صاحب اور٭حضرت مولانافقیرمحمدشاہ (فاضل سیدوشریف) (66) وغیرہ ۔(67)

مدرسہ کی منتظمہ کمیٹی کا قیام

علامہ عبدالواحدرضوی صاحب کو پاک وہند کے مدارس میں پڑھنے کا موقعہ ملا،آپ جانتے تھے کہ مدرسہ بغیرانتظامی کمیٹی اورمعاونین کے نہیں چلایا جاسکتا ،اس لیے آپ نے مدرسۃ الاسلام کے انتظامی امورکےلیے دس افرادپر مشتمل ایک ’’جرگہ منتظمہ ‘‘بنایا،جس کے گاہےبگاہے اجلاس ہواکرتے تھے ۔(68)

دینی بالخصوص محافل میلاد النبی کا انعقاد

آپ یادگاردنوں میں محافل کا انعقادفرمایا کرتے تھے ،جب ربیع الاول کا مبارک ماہ آتاتو ان محافل میں مزیداضافہ ہوجاتا،ربیع الاول کی محافل کے لیے مستقل آپ نے ایک اشتہاربنایاہواتھا جس مسجدمیں محفل میلادہوتی اس کا نام لکھ دیا جاتاتھا،یہ طریقہ اب تک گڑھی کپورہ میں جاری ہے ، اب بھی گڑھی کپورہ اوراس سے ملحقہ مختلف گاؤں میں ربیع الاول کے تمام مہینے میں محافل میلادکا اہتمام بڑی دھوم دھام سے ہوتاہے۔ (69)

تحریک پاکستان میں حصہ

علامہ عبدالواحدرضوی صاحب تحریک پاکستان میں شامل رہےاورقوم وملت کی تعمیرمیں بھرپورحصہ لیا،علماومشائخ اہل سنت ساتھ نہ دیتے تو ہماراپیاراوطن وجودمیں نہ آتا۔

تلامذہ وشاگرد

علامہ قاضی محمدعبدالواحدصاحب کی علمی خدمات کی وجہ سے علاقہ امازئی ’’گڑھی کپورہ‘‘کو بخاراثانی کہاجاتاہے، وزیرستان،کوہاٹ،بنوں،خیبرایجنسی،مہمند،پشاور،مردان،سوات،دیراورچترال کے کئی علماعلامہ عبدالواحدرضوی صاحب کے شاگردہیں ۔مثلا ٭حضرت مولاناقاری عبداللطیف ظہیرصاحب(70) ٭حضرت مولانا گل بادشاہ خان صاحب سواڑیاں (71) ٭مشہورشاعرمولاناعبداللہ استادنوشہروی (72) وغیرہ(73)۔

وفات ومدفن

علامہ محمد عبدالواحدرضوی نے 14ربیع الاول 1381ھ /26اگست 1961ء تقریبا79سال کی عمرمیں وصال فرمایا ،(74) گھڑھی کپورہ کے سنڈاسَرقبرستان گڑھی اسماعیل زئی میں حضرت علامہ قاضی علی احمدقادری صاحب(خلیفہ شیخ الاسلام والمسلمین حضرت سیدوبابا)کے مزارکے قدموں کی جانب آپ کی تدفین خاندان کے دیگرافرادکی قبورکےساتھ ہوئی۔

مرقد انورپر حاضری

صفرالمظفر1439ھ مطابق اکتوبر 2017ء میں راقم کا تنظیمی مصروفیت کے سلسلے میں کراچی سے پاکستان کے مختلف شہروں کا شیڈول تھا،علامہ محمدعبدالواحد رضوی رحمۃ اللہ علیہ کے مزارپر حاضری کی تمنا تو کافی عرصے سےتھی ،جب میں واہ کینٹ پہنچاتو وہا ں برادران اسلامی محمد طارق بغدادی عطاری ،چوہدری محمدفیاض عطاری اورمحمد عاصم وقاص عطاری سے اس بات کا ذکر کیا ،وہ میرے ساتھ گھڑھی کپورہ جانے کے لیے تیارہوگئے ، سوئے اتفاق سفرکی تیاری کے دوران طارق بغدادی اورعاصم وقاص بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ،عاصم بھائی کو زیادہ چوٹیں لگیں جس کی وجہ سے وہ ہمارے ساتھ نہ جاسکے ،ہم واہ کینٹ سے صبح روانہ ہوئے ،تقریبا گیارہ بجے گڑھی کپورہ پہنچ گئے ۔ علامہ عبدالواحدصاحب کے بھتیجے کے بیٹےحضرت مولانا قاری عبدالہادی ظہیرصاحب(75) نے اپنے مدرسے جامعہ عالیہ ظہیریہ ضیاءالعلوم میں ہمارااستقبال کیا،مقامی مشروب سے مہمان نوازی کی ،اتنی دیرمیں وہاں کے مقامی برادرِطریقت مولانا علی عسکرعطاری صاحب بھی تشریف لے آئے ،ان سے ملاقات ہوئی ،پھر احباب کے ساتھ قاری عبدالہادی ظہیرصاحب کے بھائی حضرت مولاناڈاکٹر قاضی عبدالناصر لطیف ضیائی صاحب (76) کے ادارےمدرسہ اسلامیہ ضیا ءالعلوم حاجی آباد ڈھیر و بابا میں حاضرہوئے، ماشاء اللہ اس ادارے میں حفظ قرآن کی کلاس کے ساتھ ساتھ درسِ نظامی کے درجات بھی ہیں ،اللہ پاک اس ادارے کو آبادرکھے،اس میں علامہ عبدالواحد صاحب کی اسنادکی بھی زیارت کی جنہیں فریم کرواکر آویزاں کیاگیا تھا۔

اس کے بعد علامہ عبدالواحدصاحب کے مرقدانورکے لیے سنڈا سَرقبرستان پہنچے ، مرقدانورپرحاضری ہوئی اورفاتحہ پڑھی ،مرقدانورکےگردایک بالشت سے کم اونچائی کے پتھرلگائےگئے ہیں اوردرمیان سے کچی ہےجس میں اس وقت گھاس اگی ہوئی تھی،سرہانے کی جانب کتبہ ہے جس کی اونچائی دوبالشت اورچوڑائی ایک پالشت ہوگی ،اس پر یہ تحریرہے :

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ۔ مولوی عبدالواحد۔یغفرہ المجیب۔۱۳۸۱ھ۔ وفات۱۴ربیع الاول۱۳۸۱ھ ۔ بمطابق۲۶اگست۱۹۶۱ء بروزشنبہ۔

اللہ پاک علامہ صاحب کی مرقد پراپنے انواروتجلیات کی بارش فرمائے ،ان کے فیضان علم کے پھیلاؤکا سلسلہ تاقیامت جاری رہے ، ان کے خاندان سے ہرزمانے میں علم کی خیرات تقسیم ہوتی رہے ۔ امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ وسلم

حواشی ومراجع

(1) سوات پاکستان کے صوبہ خیبرپختون خواہ کا قدیم ترین اورپہاڑی وصحت افزاعلاقہ ہے ، سیروسیاحت میں مشہورہونے کی وجہ سے اسے پاکستان کا سویٹزرلینڈ کہا جاتا ہے، اس کا شماردنیا کے حسین ترین خطوں میں ہوتاہے ا س میں موجودسر سبز و شاداب وسیع ميدان،پانی کے چشمے اوردریااس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں ،یہاں کے لوگ خوبصورت،محنتی اورتعلیم یافتہ ہیں ، پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد سے شمال مشرق کی جانب 254 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جب کہ صوبائی دار الحکومت پشاور سے اس کا فاصلہ 170کلومیٹر ہے۔ 1998ء کی مردم شماری و خانہ شماری کے مطابق ضلع سوات کی کل آبادی بارہ لاکھ ستاون ہزار چھ سو دو (12,57,602) ہے اور اس کا کل رقبہ پانچ ہزارتین سوسینتیس( 5337 ) مربع کلومیٹر پر پھیلاہوا ہے۔ دیہی آبادی کا بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے ۔ سوات کو تین طبعی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: (1)بالائی سوات(2)زیریں سوات(3)کوہستان سوات۔

(2) مانیارسوات،تحصیل بریکوٹ ضلع سوات کا ایک گاؤں اوریونین کونسل ہے ،یہ مینگورہ سے جانب جنوب بارہ کلومیٹرفاصلے پر ہے ۔ جس کی آبادی پندرہ ہزارسے زائد ہے اوراس میں سولہ مساجدہیں ۔

(3) گھڑھی کپورہ (امازوگڑھی) ضلع مردان کی پانچویں تحصیل ہے،اس کا پشتونام امازوگھڑی ہے، یہ مردان سے جانب مشرق 9کلومیٹرکے فاصلے پرہے،اس کو گھڑی کپورہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ بارہویں صدی عیسوی کی ابتدا میں معزز آدمی ملک کپوررہتاتھا یہ یہاں کے ولی اللہغازی بابا سیدخواجہ نورترمذی رحمۃ اللہ علیہ (یہ مشہور ولی کامل پیرباباسیّدعلی ترمذی بونیری کے خاندان کے چشم چراغ تھے ، انکی تاریخ پیدائش 1075ھ مطابق1664ء ہے ،ان کامزار،گڑھی اسماعیل زئی قبرستان میں ہے ۔) کا مرید تھا ،اسی کےنام پر یہ مقام ہے۔ (تذکرہ سادات ترمذی،239)اس کا پشتونام امازوگھڑی (Amaazo Garhai)ہے کیونکہ یہاں امازئی قبیلے کے لوگ رہائش پذیرہیں ،اس میں ہسپتال،کالج،بازارجیسی تمام ضروریات موجودہیں ۔شہرکے درمیان کلپانی دریاواقع ہے ،شہرچار علاقوں پر مشتمل ہے،دریاکے مشرق کی جانب (1)گھڑھی اسماعیل زئی(2)گھڑھی دولت زئی کے علاقے اورمغرب کی جانب(3)کوٹ دولت زئی اور(4 )کوٹ اسماعیل زئی کے علاقے ہیں ،یہ آبادی سے بھرپورشہرہے۔ اسی سال 2021ءمیں اسے تحصیل کا درجہ دیا گیاہے ۔

(4) مردان پاکستان کے صوبہ خیبرپختون خواہ کا ایک اہم ضلع ہے،یہ سوات روڈ پر واقع ہے یہ پشاور سے 64 کلومیٹر دورشمال مشرق میں واقع ہے ، اس کا کُل رقبہ 1632 مربع کلوميٹر ہے۔اس کی آبادی اٹھارہ لاکھ کے قریب ہے دیہی آبادی کا بڑاذریعہ معاش زراعت ہے ،اسمیں عبد الولی خان یونیورسٹی موجودہے ۔اس کو مردان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ایک بزرگ حضرت پیر سیدمردان شاہ صاحب تبلیغ دین کے لیے تشریف لائے انہیں کے نام پر اس کا نام رکھا گیا ۔ ضلع مردان کے تاریخی مقامات شہباز گڑھی اور تخت بھائی ایک دوسرے سے نومیل کے فاصلے پر ہیں یہاں کے آثار قدیمہ مردان کی تاریخی عظمت کا تعین کرتے ہیں۔اس کی پانچ تحصیلیں ہیں :(1)تحصیل مردان(2)تحصیل تخت بھائی (3)تحصیل کاٹ لنگ(4)تحصیل رستم (5)تحصیل گڑھی کپورہ۔

(5) حضرت میاں سیدحسین بابا رحمۃ اللہ علیہ خیبرپختون خواہ کے مشہورولی اللہ حضرت پیرباباسید علی ترمذی شاہ رحمۃا للہ علیہ کے خاندان کے چشم وچراغ تھے ،آپ کی ولادت 1050ھ مطابق 1640ء کو دوکڈہ بونیرمیں ہوئی اورتقریبا1130ھ مطابق 1717ء کو گڑھی کپورہ میں وصال فرمایا ، مزارکلپانی (خوڑ)کے مغربی کنارے پرہے،آپ عالم دین ،صاحب دیوان پشتوشاعراوربہادرجرنیل تھے ،آپ نے خلاصۃ الاسلام کا پشتوترجمہ بھی کیاہے ۔(تذکرہ ٔ سادات ترمذی،252تا254)

(6) قطبُ العارفین، شیخُ الاسلام، امامُ المجاہدین حضرتِ سوات، سیدو بابا حافظ عبدالغفور اَخُونْد قادری رحمۃاللہ علیہ کی ولادت 1213ھ مطابق 1794ء کو موضع جبڑی سوات میں اور وصال 7محرمُ الحرام 1295ھ مطابق 12جنوری 1877ءکو سیدو شریف سوات خیبر پختونخواہ پاکستان میں ہوا۔ آپ سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخِ طریقت، ہر دلعزیز شخصیت اور شیخُ المشائخ ہیں۔ ( تذکرہ غوث الزماں سیدوباباجی،8،37)

(7) ان کی تفصیل آگےوالدین کاتذکرہ کے عنوان کےتحت موجودہے ۔

(8) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،11تا13۔

(9) دہلی یا دلی  بھارت کے شمال میں واقع ہے۔ اس کی سرحد شمال،مغرب اور جنوب میں ہندوستان کی ریاست ہریانہ سے ملتی ہے، جبکہ مشرق میں یہ اتر پردیش سے منسلک ہے۔ دہلی شہربھارت کا ممبئی کے بعد دوسرااوردنیابھرکا تیسراسب سے بڑاشہری علاقہ ہے ، اس کی آبادی اڑھائی کروڑسے زائدہے ، اس کا رقبہ 1484 مربع کلومیٹر (573 مربع میل) ہےدریائے جمنا کے کنارے یہ شہر چھٹی صدی قبل مسیح سے آباد ہے۔ تاریخ میں یہ کئی سلطنتوں اور مملکتوں کا دار الحکومت رہا ہے،  1920ء کی دہائی میں قدیم شہر کے جنوب میں ایک نیا شہر "نئی دہلی" بسایا گیا۔ جوکہ موجودہ بھارت کا دارالحکومت ہے ،فی زمانہ دہلی بھارت کا اہم ثقافتی، سیاسی و تجارتی مرکز سمجھا جاتا ہے۔ ستمبر 2012ء کے مطابق قومی دار الحکومت علاقہ دہلی گیارہ اضلاع پرمشتمل ہے ۔جامع مسجد دہلی ،فتحپوری مسجد،سنہری مسجد (لال قلعہ)،سنہری مسجد (چاندنی چوک) اہم مساجد ہیں جبکہ جامع مسجد (بھارت کی سب سے بڑی مسجد)، لال قلعہ، قطب مینار، ہمایوں کا مقبرہ دہلی کے عالمی ثقافتی ورثہ مقامات ہیں۔سیاحتی مقامات میں مقبرہ ہمایوں، لال قلعہ، لودھی باغ، پرانا قلعہ، جنتر منتر، قطب مینار، باب ہند اور دہلی کا آہنی ستوں کی دنیا بھر میں خاص اہمیت ہے۔

(10) مدرسۃ الاسلام المعروف مدرسہ مولوی عبدالرب دہلوی مشہورمدرسہ تھا،اس کی بنیاد1292ھ /1875ءکو رکھی گئی، اس کے بانی حضرت مولانا عبدالرب دہلوی عظیم عالم دین تھے،علوم عقلیہ ونقلیہ پردسترس،عربی ادب میں ماہراوربہترین ومؤثر واعظ بھی تھے،انھوں نے محرم 1305ھ/ اکتوبر1887ء کووفات پائی۔(تذکرہ علمائےہند،260  )

(11) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،24۔

(12) علامہ محمدعبدالواحدرضوی صاحب کے بڑے بھائی شمس العلماء ، صاحبِ حق حضرت مولانا قاضی عبدالخالق صاحب کی ولادت1292ھ/1875ء جبکہ وفات 12ربیع الاخر1406ھ / 25دسمبر1985ء کوہوئی ،مزارشریف جامع مسجدصاحبِ حق (محلہ بقال خیل،گڑھی کپورہ اڈا)سے متصل ہے ،آپ بہترین عالم دین،فن مناظرہ کےماہراوراچھے مدرس درسِ نظامی تھے ،انھوں اپنے والدکےعلاوہ جن علماسے استفادہ کیا ان میں سے صاحبِ حق حضرت مولانامضی الدین خان صاحب بھی ہیں ،آپ سے علم دین کی تحصیل کرنےوالے کئی علماہیں جن میں استاذالعلماحضرت مولانا قاضی امان اللہ خان(ڈاگئی یارحسین)نمایاں ہیں ۔یہ صاحب کرامت بزرگ تھے،کہاجاتاہے جنات بھی ان سے علم دین حاصل کیاکرتے تھے ۔مولاناقاضی غلام حبیب صاحب (تاریخ پیداش:18ربیع الاول1343ھ،تاریخ وفات:6جمادی الاولیٰ1431ھ) آپ کے بیٹے اورعلمی جانشین تھے۔(حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،21،تذکرہ علماومشائخ سرحد،2/192،204)

(13) حضرت مولانامروَت عبدالقہارصاحب کی ولادت 1296ھ/ 1879ء کو لکی مروت کے علمی گھرانے میں ہوئی اوروفات 21شعبان1359ھ / 20ستمبر1940ء کو نوشہرہ میں ہوئی۔آپ بہت بڑے عالم دین،جامع معقول ومنقول ،بہترین مدرس،مرجع علماوعوام،امام وخطیب جامع مسجدبازارنوشہرہ کلاں،اردو،عربی اورپشتوزبان کے بہترین مقررتھے ،آپ کئی سال تک مدرسہ اسلامیہ طورقل بائے پشاور اورمدرسہ انجمن تعلیم القرآن نوشہرہ کلاں میں صدرمدرس کے عہدے پر فائض رہے۔(تذکرہ علماومشائخ سرحد،2/65تا72)

(14) ہوتی (یا طبیب )ملاصاحب حضرت مولانا حکیم احمدنورصاحب نے استاذالعلماء مولانا محمودخان قادری صاحب اوردیگرعلما سےعلم دین حاصل کیا،آپ بہترین مبلغ وعالم دین،تنظیمی کاموں میں متحرک،خطیب جامع مسجدباجوڑی ،مدرس درس نظامی مدرسہ سراج الاسلام ہوتی ،علمائے مردان کے قائداورشیخ طریقت تھے۔(حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،21،تذکرہ علماومشائخ سرحد،2/280 )

(15) استاذالعلماحضرت مولانا سیدفضل صمدانی بنوری صاحب کی ولادت1300ھ/ 1882ء میں پشاورمیں ہوئی اوروصال6رجب1389ھ/ 18ستمبر1969ء کو ہوا،آپ جیدعالم دین،قاری قرآن،دارالعلوم رفیع السلام بھانہ ماڑی پشاور اورہزاروں کتب کی لائبریری کے بانی ہیں ۔آپ خوددار،متوکل، منکسرالمزاج،اخلاق حمیدہ کے پیکر،حق گو اورصاحبِ عزیمت تھے ۔(تذکرہ علماومشائخ سرحد،1/272،شخصیات سرحد،201)

(16) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی، 14،15 ۔

(17) متہ ملاصاحب ،مفتی سرحد،شیخ العلماءحضرت مولانا شائستہ گل صاحب کی ولادت موضع لنڈی شاہ متہ (ضلع مردان)میں1309ء/1891ء کو ہوئی اور5رمضان1401ھ/7جولائی1981ء کو مردان میں وصال فرمایا۔سندحدیث علامہ عبدالعلی دہلوی سےحاصل کی،دارالعلوم حنفیہ سنیہ لنڈی شاہ متہ کی بنیادرکھی،آپ پیرعبدالوہاب آف مانکی شریف سے بیعت ہوئے،آپ نے ترجمہ قرآن سمیت گیارہ کتب تحریرفرمائیں،آپ مفتی سرحداوراستاذالعلماتھے ۔(تحریک پاکستان میں علماء ومشائخ کا کردار،377)

(18) شیخ المشائخ حضرت باباجی یارحسین علامہ عبدالحنان قادری صاحب مشہورعالم دین،شیخ طریقت ،مدرس درس نظامی ،صاحب کرامت ولیاللہ اورمعمرترین بزرگ تھے ،آپ شیخ الاسلام ،حضرتِ سوات سیدوبابا علامہ عبدالغفورقادری صاحب کے مریداورخلیفہ سیدوبابا شیخ عبدالوہاب قادری مانکی شریف کے خلیفہ تھے ،آپ نیکی کی دعوت سے سرشار،دنیا کی محبت سے دوراورغناوسخاوت کے پیکرتھے ،ایک زمانے نے آپ سے فیض پایا انھوں نے 200سال عمرپائی،آپ کی پیدائش1163ھ/ 1759ءکو ہوئی اور وصال رمضان 1369ھ/ جنوری 1950ء کو ہوا،مزارشریف موضع یارحسین(ضلع صوابی) میں ہے ۔ (تذکرہ علماومشائخ سرحد،2/237تا239)

(19) حضرت مولانا قاضی حافظ عبدالودود صاحب ،اصولی بابا جی کے تیسرے فرزندہیں ،آپ عالم دین،مدرس درس نظامی ،متقی وقانع اور جمعیت علمائے احناف یوسف زئی کے ناظم اعلیٰ تھے ، اس زمانے میں موجودکثیرحفاظ آپ کے ہی شاگردتھے،آپ نے مشہوربزرگ پیرعبدالعزیزشیخ گل صاحب مبارک قادری (دربارعالیہ قادری لنڈی کوتل خیبرایجنسی)سے بیعت کا شرف پایا وصال صفر1395ھ / مارچ 1975 ء کو ہوا،تدفین سنڈاسَرقبرستان میں ہوئی۔ (مشاہیرے علمائے سرحد،436 ، حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،20)

(20) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،18تا20۔

(21) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی، 22۔

(22) قاضی سیّدفقیرشاہ صاحب بادشاہ افغانستان نادرشاہ کے مقربین میں سے تھے ،قاضی سیّد عبدالرزاق آپ کے بیٹے اورقاضی سیّد سیف الرحمن پوتے ہیں ، قاضی فقیرشاہ صاحب کی اولادابھی بھی گاؤں طورو معیار ضلع مردان میں آبادہیں ،آپ کے خاندان کے مشہورعالم دین حضرت مولانا قاضی سیدعلی شاہ باچاتھےجن کا ماضی قریب میں انتقال ہوگیا ہے۔

(23) حکیم زین العابدین دہلوی صاحب نے دہلی جاکرعلم طب حاصل کیا،بعد میں یہ مجذوب ہوگئے تھے،وفات گڑھی کپورہ میں ہوئی ،تدفین سنڈاسرقبرستان میں ہوئی ۔

(24) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،16۔

(25) دہلی سے مشرق کی جانب ریاست رام پور (Rampur State) یا مصطفی آباد ایک نوابی خودمختار ریاست تھی۔اس کا رقبہ 900مربع میل تھا ،یہ مرادآباد اوربریلی کے درمیان واقع تھی ،اس کی بنیاد 1774ء میں روہیلا جنگجو نواب فیض اللہ خان بڑھیچ نے رکھی اورپونےدوسوسال قائم رہ کر 3جون1949ء نواب رضا علی خان کے دورِ نوابی میں اس کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا ،اب یہ ضلع رامپور(یوپی ہند)کہلاتاہے ، رام پور شہر کی آبادی کم وبیش تین لاکھ ہے ۔یہاں کی رضا لائبریری (کتب خانہ رضا) اسلامی ثقافت و تہذیب سے متعلق کتب ہائے نوادر، قدیمی مخطوطات اور قلمی نسخوں کی وجہ سے مشہور ہے۔(عقیدت پر مبنی اسلام اورسیاست،32)

(26) بریلی Bareilly)):یہ بھارت کے صوبے اترپردیش میں واقع ہے، دریائے گنگا کے کنارے یہ ایک خوبصورت شہر ہے۔ دریا کی خوشگوار فضاء نے اس کے حسن میں موثر کردار ادا کیا ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ووفات یہیں ہوئی ،اس لیے یہ شہرآپ کی نسبت سےعالمگیرشہرت رکھتاہے۔

(27) مدرسہ عالیہ رامپورکا آغازریاست رامپورکے قیام(1774ء) سے ہوا، البتہ ریاست کےپانچویں نواب محمدسعید خان نے اپنےدورحکومت (1840ء تا1855ء )میں اسے باقاعدہ ایک ادارے کی صورت دی، اس کے مصارف کے لیے دوگاؤں کی آمدن وقف کی ، اس مدرسے میں بحر العلوم ملا عبد العلی فرنگی محلی ، مولانا فضل حق خیرآبادی،مولانا عبد الحق خیرآبادی، مولانا فضل حق رامپوری،علامہ عبدالعلی رامپوری اورمفتی ارشادحسین رامپوری جیسے جلیل القدر اساتذہ درس دیتےرہے۔( ممتاز علمائے فرنگی محل، ص 71،عقیدت پر مبنی اسلام اورسیاست،92،نواب محمدسعیدخان کے عہدکی علمی وادبی سرگرمیاں، 269 تا 277)

(28) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ نے شہر بریلی(یوپی ہند) میں غالباماہ شعبان المعظم 1322ھ/ اکتوبر1904ء میں دارالعلوم(مدرسہ اہل سنت وجماعت) منظر اسلام بریلی کی بنیاد رکھی، اس مدرسے کے بانی اعلیٰ حضرت ،سربراہ حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا قادری اورپہلے مہتمم برادراعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان مقررہوئے ، ہر سال اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والے حفاظ قرآن، قراء، عالم اور فاضل گریجویٹ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد ہے۔(صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص28،132)

(29) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،24،25۔

(30) مولانا عبدالعلی دہلوی، افضل المحدثین فی زمانہ، محشّی صحیح بخاری حضرت علامہ حافظ احمدعلی سہارنپوری اورعلامہ قطب الدین دہلوی کے شاگردتھے ۔

(31) مولانا محمدشفیع دہلوی صاحب کے حالات نہ مل سکے۔

(32) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،25،29۔

(33) شہزادۂ اعلیٰ حضرت،حجۃالاسلام مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ علامہ دہر، مفتی اسلام ،نعت گوشاعر،اردو،ہندی ،فارسی اورعربی زبانوں پر عبوررکھنے والےعالم دین ، ظاہری وباطنی حسن سےمالامال، جانشینِ اعلیٰ حضرت اوراکابرین اہل سنت سے تھے ۔بریلی شریف میں ربیعُ الاول1292ھ/1875ء میں پیداہوئے اور17جمادی الاولیٰ 1362ھ /22مئی 1943ءمیں وصال فرمایا اور مراز شریف خانقاہِ رضویہ بریلی شریف ہند میں ہے، تصانیف میں فتاویٰ حامدیہ مشہورہے۔(فتاویٰ حامدیہ،ص48،79)

(34) استاذُ العلما، حضرت مولانا رحم الٰہی منگلوری مظفر نگری قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت منگلور (ضلع مظفر نگر، یو پی) ہند میں ہوئی۔ آپ ماہر ِمعقولات عالم، صدر مدرس اور مجازِ طریقت تھے۔ آپ نے بحالتِ سفر آخر (غالباً28) صَفَرُالْمُظَفَّر 1363ھ کو وصال فرمایا۔ (تذکرہ خلفائے اعلی حضرت، ص138)

(35) شمسُ العلماء حضرت علّامہ ظہور الحسین فاروقی مجددی رامپوری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1274ھ/1857 ءمیں ہوئی اور 12جُمادَی الاُخریٰ 1342ھ/20جنوری 1924ء کو رامپور (یوپی، ضلع لکھنؤ) ہند میں آپ نے وفات پائی۔ آپ علامہ عبدالحق خیرآبادی ،علامہ مفتی ارشادحسین مجددی رامپوری کے شاگرداورعلامہ فضل رحمن گنج مرادآبادی سے بیعت وسندحدیث کی سعادت پانے والے ہیں، علومِ عقلیہ و نقلیہ میں ماہرترین،،استاذالعلما، صدر مدرس دارُالعلوم منظراسلام بریلی شریف،مہتمم ِثانی ارشادالعلوم، بشمول مفتیِ اعظم ہند سینکڑوں علما کے استاذ اور کئی دَرسی کتب کے مُحَشِّی ہیں۔مدرسہ عالیہ رامپورمیں بیس سال تدریس فرمائی ،یہاں کے اکثرمدرسین آپ کے شاگردتھے ،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ آپ پرکامل اعتمادفرماتےتھے ،اہم وضاحت :بعض کتابوں میں آپ کا نام ظہورالحسن فاروقی رامپوری لکھا گیا ہے جو کہ درست نہیں ،علامہ ظہورالحسن رامپوری ایک اور عالم دین تھے جن کے آباواجداد کا تعلق بخاراپھررامپورسے تھا اور یہ فاروقی نہیں تھے ۔ ( تذکرہ کاملان رامپور،184تا188،ممتاز علمائے فرنگی محل، ص417تا419)

(36) اعلیٰ حضرت ،مجدددین وملت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10شوال 1272ھ /6جون 1856ءکو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ /28اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجع خاص وعام ہے۔آپ حافظ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر،فقیہ اسلام ،محدث وقت ،مصلح امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریبا ایک ہزارکتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم،استاذالفقہاومحدثین ،شیخ الاسلام والمسلمین مجتہدفی المسائل اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن،فتاویٰ رضویہ (33جلدیں)، جد الممتارعلی ردالمحتار(7 جلدیں،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) اور حدائق بخشش آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،282، 301)

(37) حیات مولانااحمدرضا خاں بریلوی،۷۲،۱۱۸،۱۱۹۔

(38) صاحبزادہ وجاہت رسول قادری صاحب کی پیدائش1358ھ مطابق 1939ء کو بنارس (یوپی،ہند)میں ہوئی،آپ خلیفہ اعلیٰ حضرت مولاناہدایت رسول قادری لکھنوی صاحب کے پوتے ہیں ،ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کرکے1365ھ مطابق 1946ء میں مدرسہ حمیدیہ بنارس میں داخلہ لیا،ایک سال بعد والدین کےساتھ راجشاہی بنگلادیش ہجرت کرگئے،وہاں ایم اے معاشیات کیا1384ھ مطابق 1964ء میں کراچی منتقل ہوگئے ،درس نظامی کی بعض کتب اوربخاری شریف کے ابتدائی اسباق استاذالعلماءعلامہ نصراللہ خان افغانی صاحب سے پڑھے ،روزگارکے لیےملازمت اختیارکی ،آپ ادارہ تحقیقات امام احمدرضا کےبانی اراکین سے ہیں ،1986ءمیں رکن مجلس عاملہ منتخب ہوئے،اگلے سال نائب صدراور1992ءمیں صدربنائے گئے،آپ مفتی اعظم ہندکےمرید اورمفتی تقدس علی خان صاحب کےخلیفہ تھے،مفتی صاحب نے آپ کو 10صفر1408ھ مطابق 28فروری 1988ءکو خلافت عطافرمائی،30جمادی الاولیٰ 1441ھ مطابق27جنوری2020ء کو کراچی میں فوت ہوئے،نمازجنازہ مرکز دعوت اسلامی ڈیفنس جامع مسجد فیضان جیلان کلفٹن کےباہر علامہ سید شاہ عبد الحق قادری(امیر جماعت اہلسنّت کراچی) نے پڑھائی۔تدفین نیو قبرستان،فیز8ڈیفنس میں کی گئی۔(ماہنامہ معارف رضا2020ء ،وجاہت رسول نمبر،ص7،8)۔

(39) ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،صدسالہ منظراسلام نمبر1/29،حیات مولانااحمدرضاخاں بریلوی ،72۔

(40) مرکزی جامع مسجدبی بی جی صاحبہ ،بریلی شریف کے محلہ بہاری پور کےبزریہ (یعنی چھوٹےبازار) میں واقع ہے ،اسے حافظ الملک حافظ رحمت خاں شہیدکی ہمشیرہ نے تعمیرکروایا تھا ،اس میں دارالعلوم منظراسلام کے سالانہ جلسے ہوتے تھے،1356ھ/1937ء میں مفتی اعظم ہندمفتی محمدمصطفی رضا خان قادری کی سرپرستی میں دارالعلوم مظہراسلام قائم ہوا،محدث اعظم پاکستان علامہ سرداراحمدقادری چشتی صاحب اس کے منتظم اورشیخ الحدیث مقررہوئے،اس دارالعلوم کی مستقل عمارت نہیں تھی ،مسجدکےحجروں اورصحن میں پڑھائی کا سلسلہ ہوتاتھا۔( حیات محدث اعظم ،45)

(41) ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،صدسالہ منظراسلام نمبر1/ 241۔

(42) فقیہ دوراں، حضرتِ علّامہ مولانا قاضی ابوالمُظفّر غلام جان ہزاروی فاضل دارالعلوم مظہرِ اسلام بریلی شریف، بہترین مدرس، مفتیِ اسلام اور صاحبِ تصنیف ہیں۔ آپ کی ولادت 1316ھ اوگرہ مانسہرہ،پاکستان میں ہوئی اور وصال 25 محرمُ الحرام 1379ھ کو فرمایا، آپ لاہور میں غازی عِلْم دین شہید کے مزار کے جنوبی جانب محوِ استراحت ہیں۔ ”فتاویٰ غلامیہ“ آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے۔(حیات فقیہ زماں،تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت، ص299تا300)

(43) مفتیِ اعظم پاکستان، سیّدُ المحدّثین حضرت علامہ ابوالبرکات سیّد احمد قادری رضوی اشرفی استاذُ العُلَماء، شیخ الحدیث، مناظرِ اسلام، بانی و امیر مرکزی دارُالعلوم حِزبُ الاحناف اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔ 1319 ہجری کو محلہ نواب پور اَلْوَر (راجستھان) ہند میں پیدا ہوئے اور مرکز الاولیا لاہور میں 20شوّال 1398ہجری میں وِصال فرمایا، مزار مبارک دارُالعلوم حِزب الاحناف داتا دربار مارکیٹ لاہور میں ہے۔(تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ، ص314-318)

(44) شیر بیشۂ سنّت، مولانا ابو الفتح عبیدالرضا محمد حشمت علی خان رضوی لکھنوی 1319ھ کو لکھنو (یوپی) ہند میں پیدا ہوئے۔ آپ حافظُ القراٰن، فاضل دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف، مناظرِ اہلِ سنّت، مفتیِ اسلام، مصنف، مدرس، شاعر، شیخِ طریقت اور بہترین واعظ تھے۔ چالیس تصانیف میں ”الصوارم الہندیہ“ اور ”فتاویٰ شیربیشہ سنّت“ زیادہ مشہور ہیں۔ وصال8 محرَّمُ الحرام 1380ھ میں فرمایا، مزار مبارک بھورے خاں پیلی بھیت (یوپی) ہند میں ہے۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت، ص 304تا316)

(45) خلیفہ اعلیٰ حضرت ،بدرِمُنیر حضرت مولانا منیرالدین بنگالی رضوی ،عالم دین ،مَجازِطریقت اورصاحبِ کَرامت بُزُرْگ تھے ۔آپ  متحدہ بنگال ہند کے رہنے والے تھے۔حصول ِعلمِ دین کے بعد11 سال بریلی شریف میں رہے ۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت،ص 555 )

(46) مولانا اکبرحسن خاں رامپوری زمانہ طالب علمی میں تمام علوم دینیہ بالخصوص منطق میں بہت ماہرتھے، دارالعلوم منظراسلام کے درجہ ششم کے استاذصاحب مستعفی ہوئے تو آپ کے استاذعلامہ ظہورالحسین رامپوری نے آپ کو شرح جامی اورپھرکنزالدائق کی تدریس سپردکی ۔(حیات فقیہ زماں،29)

(47) حضرت مولانا افضل بخاری تا حضرت مولانا محمداحمدبنگالی تک 14طلبہ ٔعلم دین کےحالات معلوم نہ ہوسکے۔

(48) ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،صدسالہ منظراسلام نمبر1/256،244۔

(49) فخرالعلما حضرت علامہ فضل حق رامپوری کی ولادت 1278ھ / 1861ء کو محلہ پنجابیاں رامپور(یوپی ہند)میں حافظ عبدالحق رامپوری کے گھرہوئی اوروصال 28 ذوالقعدہ 1359ھ / 7 جنوری 1940ء کو ہوا،محلہ مردان خان رامپور کے قبرستان میں مدرسہ مطلع العلوم کے نزدیک دفن ہوئے۔آپ حافظ قرآن،استاذالکل علامہ لطف اللہ علی گڑھی ،علامہ ہدایت علی بریلوی اورعلامہ عبدالحق خیرآبادی کے شاگرد، پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے مرید،بہترین مدرس،کثیرالفیض عالم دین ،خوش اخلاق شخصیت کے مالک اورصوفی باصفاتھے ، مدرسہ طالبیہ بریلی، مدرسہ عالیہ کلکتہ ،مدرسہ سلیمانیہ بھوپال اورمدرسہ عالیہ رامپورمیں درس وتدریس میں مصروف رہے ،مدرسہ عالیہ رامپورمیں اول مدرس اورصدرالمدرسین کے عہدے پر فائض ہوئے، ہند و پاک کے علاوہ افغانستان، ایران، اور خراسان تک طلبہ شاگردہیں ، مثلا امام المناطقہ مولانا دین محمد بدھوی،شیخ الجامعہ مولانا غلام محمد گھوٹوی،مولانا غلام جیلانی ہزاروی،مولانا مفتی عطاء محمد ضلع چکوال، مولانا صدیق قندھاروی، مولانا سیف اللہ ہراتی اور مولانا عبدالکریم لکھنوی وغیرہ۔( تذکرہ کاملان رام پور،198،317،ممتازعلمائے فرنگی محل لکھنؤ،432)

(50) حضرت علامہ احمدامین خان بن معین الدین پشاوری ،علامہ فضل حق رامپوری کے شاگرداورمدرس دوئم مدرسہ عالیہ رامپورتھے ۔( تذکرہ کاملان رام پور، 318)

(51) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی، 26،27۔

(52) دان پور ہند کا ایک قصبہ ہے جو تحصیل دیبائی (ضلع بلندشہر،یوپی،ہند)میں واقع ہے یہ دیبائی سے ساڑھے آٹھ کلومیٹر واقع ہے ،دان پورمیں مسجدجامعہ وزیرالعلوم کے نام سے ایک عمارت موجودہے ممکن ہے اس مقام پر مولانامحمد عبدالواحدصاحب نےپڑھایا ہو۔

(53) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،40۔

(54) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،42۔

(55) فقیہ العصر حضرت مولانا قاری عبداللطیف ظہیرصاحب جیدعالم دین ،بہترین قاری اورمدرس درس نظامی تھے،آپ نےپاکستان اوردیگرکئی ممالک بالخصوص یواےای میں خدمات دین سرانجام دیں ، یواے ای میں ان کی خدمات کا دائرہ کافی وسیع رہا ،ابھی بھی لوگ انہیں یادکرتے ہیں ،آپ نے9جمادی الاولیٰ1415ھ/ 14اکتوبر1994ءمیں وصال فرمایا،تدفین سنڈاسرقبرستان میں ہوئی ،حضرت مولاناقاری عبدالہادی ظہیر صاحب(مہتمم جامعہ عالیہ ظہیریہ ضیاء العلوم گڑھی کپورہ)،مبلغ اسلام مولانا حافظ نورالہادی حلیم مرحوم (وفات: 1428ھ مطابق 2007،سابق عالمی مبلغ انٹرنیشنل اسلامک مشن)،مولانا قاری عبدالباسط زبیر(اسکول ٹیچر)اورحضرت مولاناڈاکٹر قاضی عبدالناصر لطیف صاحب( مہتمم مدرسہ اسلامیہ ضیا ءالعلوم حاجی آباد ڈھیر و بابا گڑھی اسماعیل زئی  گڑھی کپورہ ضلع مردان) آپ کے قابل فخرفرزندہیں ۔

(56) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،41۔

(57) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،42،43۔

(58) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،42،43۔

(59) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،44۔

(60) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،43۔

(61) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،43۔

(62) ان کے حالات نہ مل سکے۔

(63) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،44،45۔

(64) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،49تا60۔

(65) حضرت مولانا عبدالرب شہبازگڑھی مشہورعالم دین اورسابق مدرس دارالعلوم منظراسلام بریلی ،صاحب حق حضرت مولانا عبدالمنان شہبازگڑھی کے شاگردہیں ۔( تعارف علماء اہل سنت ص 210)

(66) حضرت مولانا عبدالرب شہبازگڑھی اور مولانا قاری عبداللطیف ظہیر صاحب کے علاوہ دیگر مدرسین کے حالات معلوم نہ ہوسکے۔

(67) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،60،61۔

(68) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی، 48۔

(69) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،60۔

(70) ان کا مختصرذکرحاشیہ 54میں ہے۔

(71) حضرت مولاناقاضی گل بادشاہ خان ،اپنے گاؤں سواڑیاں (جومردان سے دس کلومیٹرکے فاصلے پرہے)کے بڑے اورمشہورعالم تھے ۔

(72) پشتوکے مشہورنعت گوشاعرمولاناعبداللہ استاد نوشہروی علامہ عبدالواحدصاحب اورصاحب علامہ عبدالمنان شہبازگڑھی کے شاگردتھے،ان کا نعتیہ کلام مرتب اورشائع شدہ ہے ،ان کی لکھی گئی نعتیں پشتوزبان میں مشہورہیں ۔ان کامزارنوشہرہ شہرمیں ہے ۔ آپ عبداللہ بابا نوھارکے نام سے بھی جانے جاتے ہیں ۔ان کاوصال تقریبا 1421ھ مطابق 2000 ء میں ہواتھا ۔

(73) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،62،کچھ معلومات مولانا علی عسکرصاحب اورمولانا عبدالہادی ظہیرصاحب سے ملیں ۔

(74) حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی،63۔

(75) حضرت مولانا قاری عبدالہادی ظہیرصاحب کی ولادت 1382ھ مطابق 1963ء کو گڑھی کپورہ میں ہوئی،ابتدائی تعلیم کے بعد جامعہ قادریہ مردان میں داخلہ لیا ،یہاں سے 1400ھ مطابق 1980ء میں فارغ التحصیل ہوئے ،پھرڈی کام کرنے کے بعد اپنے والدمولانا قاری عبداللطیف ظہیرصاحب کے پاس دبئی چلے گئے اوروہاں دس سال تک تدریس سے منسلک رہے، 1416 ھ مطابق1996ء میں واپس آکروالدصاحب کے قائم کردہ ادارے جامعہ عالیہ ظہیریہ ضیاء العلوم گڑھی کپورہ کی تعمیروترقی میں مصروف ہوئے ،اس مدرسے میں درس نطامی کے ساتھ حفظ وتجویدکے شعبے بھی قائم ہیں ۔راقم ان کا شکرگزارہے اس مضمون میں کافی رہنمائی فرمائی ۔

(76) حضرت مولانا ڈاکٹرقاضی عبدالناصرلطیف صاحب کی ولادت14ربیع الاول 1396ھ مطابق 15مارچ 1976ءکو گڑھی کپورہ میں ہوئی ،انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کرکےجامعہ رضویہ ضیاء العلوم راولپنڈی میں داخلہ لیا اور 1420 ھ مطابق 2000ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ 1426 ھ مطابق2005ء میں اسلامی یونیورسٹی اسلام آبادسے اصول الدین میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی، 1435 ھ مطابق 2014ءمیں اصول الدین میں ہی ڈاکٹریٹ میں کامیاب ہوئے ،یہ گڑھی کپورہ اوراس کے گردونواح میں پانچ مدارس دارالعلوم اسلامیہ ضیاءالعلوم ،جامعہ ام الحسنین للبنات ،مدرسۃ الحسنین ضیاء العلوم ،مدرسۃ امہات المؤمنین ضیاء البنات،مدرسہ سیدہ آمنہ ضیاء البنات کے ذریعے دین متین کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ،آپ تنظیم المدارس اہل سنّت پاکستان کے صوبائی صدر(خیبرپختون خواہ)بھی ہیں ۔راقم الحروف ان کا شکرگزارہے ،انھوں نے اس مضمون کا بالاستیعاب مطالعہ فرمایا اورمفیدمشوروں سےنوازا،نیز ان کی کتاب ’’حیات خلیفہ اعلی حضرت مولوی عبدالواحدالرضوی‘‘ کی مددسے ہی یہ مضمون تیارہوا ہے۔