علم حدیث کی اہمیت

Mon, 20 Apr , 2020
5 years ago

یہ بات ہر دین دار مسلمان کو معلوم ہے کہ دین کے اصول و فروع اعتقادیات وعملیات سب کی  بنیاد قرآن واحادیث ہیں ، احادیث سے انکار کے بعد قرآن پر عمل کا دعویٰ باطل محض ہے، رب تعالی فرماتا ہے۔ وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ- تَرجَمۂ کنز الایمان: او رہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے ( النسا ۶۴)

اور ہر ذی شعور کے نزدیک یہ مسلم ہے کہ کسی بھی ہستی کی اطاعت اس کے قول وفعل کی اطاعت ہی سے ممکن ہے، اور ا س اطاعتِ رسول کو رب نے اپنی اطاعت قرار دے کر اس کی ا ہمیت کو دنیائےعالم پر اجاگر فرمایا۔

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- تَرجَمۂ کنز الایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا ۔(النساء 80) (صحیح بخاری ۱، ص۶۳، نزھة القاری شرح صحیح بخاری ۱ ص ۶۳)

تو پہلی آیت مبارکہ میں رسولوں کے بھیجنے کا مقصد ہی یہ بیان کیا گیا تاکہ اللہ کے حکم سے ان کی پیروی کی جائے۔(تفسیر صراط الجنان جلد ۲)

علم حدیث کی اہمیت عہد صحابہ و تابعین میں کتابت حدیث سے بھی معلوم ہوتی ہے، امام بخاری نے بخاری کے اندر نو ہزار بیاسی احادیث جمع فرمائیں۔ امام مسلم نے صحیح مسلم مین تین لاکھ احادیث سے منتخب کرکے چار ہزار احادیث جمع فرمائیں۔ (مشکوة مع شرح مراة المناجیح جلد۱، ص ۳۳)

نیز اہمیت علم حدیث پر سب سے بڑی بات یہ کہ احادیث مبارکہ میں وہ احکام بیان کیے گئے جو قرآن میں اصلاً نہیں ہیں اور مثلاً:

۱۔اذان نماز پنج گانہ کے لیے اذان دی جائے حالانکہ یہ قرآن میں نہیں ۔

۲۔ نماز جنازہ کے بارے میں قرآن میں کوئی حکم نہیں مگر اسے بھی فرض کہا گیا اور وہ بھی صرف ارشاد رسول کی بنیاد پر۔

۳۔جمعہ و عیدین کا خطبہ قرآن میں کہیں مذکور نہیں۔

اسی طرح اسلام کا سب سے عام حکم ہے، اقیموا الصلوة کوئی بھی شخص بغیر حدیث کے قرآنی نماز اداکرکےدکھادے کہ نماز کل کتنے وقت ہے، کتنی رکعتیں ہیں؟

اسی طرح قرآن نے صرف سور کا گوشت حرام کیا کتے بلے، گدھے وغیرہ کی حرمت قرآن سے دکھادیجئے، قرآن کا قرآن ثابت ہونا خود حدیث کی وجہ سے ہے، ورنہ حدیث کی مدد کے بغیر ہمیں کیا معلوم کہ قرآن کلام اللہ ہے، کیونکہ کوئی بھی جن شیطان، شعبدہ باز یہ کہہ سکتا تھا کہ میں جبریل ہوں(معاذ اللہ) یہ خدا کی کتاب لایا ہوں۔

غرضیکہ احادیث رسول کے انکار کے بعد قرآن کے کتاب اللہ ہونے پر کوئی قطعی، یقینی دلیل نہیں رہ جاتی کیونکہ قران کا قرآن ہوناخود حضور علیہ ا لسلام ہی نے تو بتایا، اور وہی قولِ رسول حدیث ہے۔

(نزھة القاری شرح صحیح بخاری جلد ۱، ص ۶۶)

تو گویا قرآن لیمپ کی بتی ہے اور حدیث اس کی رنگین چمنی جہاں قرآن کا نور ہے وہاں حدیث کا رنگ ہے قرآن سمندرہے حدیث ا سکا جہاز، قرآن اجمال ہے حدیث اس کی تفصیل، قرآن ابہام ہے حدیث اس کی شرح، قرآن روحانی طعام ہے حدیث رحمت کا پانی کہ پانی کے بغیر نہ کھانا تیار ہو نہ کھایا جائے۔ حدیث کے بغیر نہ قرآن سمجھا جائے نہ اس پر عمل ہوسکے، قدرت نے ہمیں داخلی و خارجی دونوں نوروں کا محتاج کیا ہے نور بصر کے ساتھ نورقبر بھی ضروری ہے،اندھےکے لیے سورج بیکار، اندھیرے میں آنکھ بے فائدہ تو گویا قران و حدیث اسلام کی گاڑی کے دو پہیے ہیں کہ جن میں سے ایک کے بغیر بھی گاڑی نہیں چل سکتی۔

ہاں یہ مُسلّم ہے کہ قرآن مکمل کتاب ہے مگراس کتاب سے لینے والی کوئی مکمل ہستی چاہئے اور وہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں سمندر سے موتی ہر شخص نہیں نکال سکتا، شناور کی ضرورت ہے۔

(مراة المناجیح شرح مشکاة المصابیح، صفحہ ۲۳ جلد ۱)

تو ہمیں چاہیے کہ ہم علم حدیث بھی محنت و شوق سے حاصل کریں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔ اللہ تعالٰی عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم