از: بنت اللہ بخش عطاریہ ہند

مشترکہ خاندانی نظام(Joint family system)ایک عمارت کی طرح ہوتا ہے اور عمارت کی مضبوطی، پائیداری، بقا اور خوبصورتی میں اس کے ستونوں کی مضبوطی اور باہمی ربط و تعلق کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے، اگر ان میں کسی قسم کی کمزوری پیدا ہو جائے یا ان کی مناسب دیکھ بھال کا خیال نہ کیا جائے تو ان پر قائم عمارت میں بھی جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ ہونے اور دراڑیں پڑنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، یوں وہ عمارت زیادہ عرصے تک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتی اور بالآخر گر کر ملیا میٹ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح مشترکہ خاندانی نظام کی عمارت کی مضبوطی و خوبصورتی بھی اس کے ستونوں یعنی ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والوں میں اسلامی تعلیمات پر عمل، قوتِ برداشت اور معاشرتی اخلاق و آداب کی رعایت پر موقوف ہوتی ہے، جہاں ان کی رعایت نہیں کی جاتی وہاں اس پاکیزہ عمارت میں کمزوری اور دراڑیں پیدا ہو جاتی ہیں اور یوں اس پاکیزہ عمارت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ۔بلاشبہ جٹھانی یعنی بڑے بھائی کی بیوی اور دیورانی یعنی چھوٹے بھائی کی بیوی بھی خاندان کے دو اہم ترین ستون ہیں، چونکہ یہ دونوں خواتین شادی کے بعد ایک نئے خاندان کا حصہ بنتی ہیں۔ لہٰذا ہونا تو یہ چاہئے کہ یہ دونوں خواتین مل جل کر خاندان کی عمارت کو مضبوط بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں، مگر افسوس! اکثر گھر ان کے درمیان بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑے کے سبب میدانِ جنگ بنے رہتے ہیں۔ یہاں ذیل میں چند ایسی باتیں ذکر کی جا رہی ہیں جنہیں اگر یہ دونوں مدِّ نظر رکھیں تو ان کے گھر امن کا گہوارا بن سکتے ہیں:

v جٹھانی یا دیورانی میں سے اگر کوئی گھر کے اہم افراد کا دل جیتنے میں کامیاب ہو جائے تو دوسری کو چاہئے کہ وہ حسد کی آگ میں نہ جلے بلکہ وہ بھی اپنے کام میں نکھار لا کر ان افراد کا دل خوش کرنے کی بھرپور کوشش کرے۔

v دونوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کی خوبیوں کی جائز تعریف ضرور کریں کہ اس سے آپس میں محبت بڑھتی ہے، مثلاً ان میں سے جس کو اچھا کھانا پکانا آتا ہو یا اچھے کپڑے سیتی ہو یا فرائض کے ساتھ ساتھ نفل عبادات بھی بجا لاتی ہو یا دینی کاموں کی شیدائی ہو وغیرہ تو اس کی تعریف کرنے میں دوسری کو ذرا بھی ہچکچاہٹ و کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔

v اگر جٹھانی کو دیورانی کی کوئی بات و حرکت اچھی نہ لگے تو وہ اس کے خلاف محاذ کھڑا کرے نہ کسی کے سامنے اظہار کرے اور نہ اسے جلی کٹی سنائے بلکہ اسے اپنی چھوٹی بہن سمجھ کر معاف کر کے ثوابِ آخرت کی حصہ دار بن کر نفس و شیطان کو ناکام و نامراد کر دے۔

v اسی طرح دیورانی کو جٹھانی کی کوئی بات و حرکت بری لگے تو وہ اسے ضد و انانیت کا مسئلہ بنائے نہ اسے اپنا دشمن سمجھ کر غیبت کے گناہ میں مبتلا ہو، بلکہ اسے اپنی بڑی بہن سمجھ کر غصہ پی لے اور درگزر سے کام لے۔

v ضد ی انسان ہمیشہ تنہا رہ جاتا ہے، لہٰذا جٹھانی دیورانی میں سے جس کو جو اور جتنا ملے وہ اس پر راضی رہے اور خواہ مخواہ اپنی شخصیت کو داغ دار کرے نہ بد گمانی کا شکار ہو۔ مثلاً یہ نہ سوچے کہ دوسری کو شادی پر اتنی مالیت کے زیورات پہنائے گئے، مجھے کیوں نہیں؟ اس کو گھر میں مجھ سے زیادہ جگہ کیوں دی گئی؟اس کے بچوں کا اتنا خیال رکھا جاتا ہے، لیکن میرے بچوں کو اِگنور کیا جاتا ہے! وغیرہ وغیرہ۔

v دونوں کو چاہئے کہ اگر کبھی آپس میں ” تُو تُو میں میں“ ہو جائے تو اسے بڑھاوا نہ دیں، بلکہ”رات گئی بات گئی“ کے مصداق رب کی رضا کی خاطر ایک دوسرے کو معاف کر کے معاملے کو رفع دفع کر دیں اور کوئی بھی اپنے شوہر کے سامنے دوسری کے خلاف باتیں کر کے اس کے دل میں نفرت پیدا نہ کرے، عین ممکن ہے ایسا کرنے سے بھائی بھائی کا دشمن بن جائے اور معاملہ مزید بھیانک روپ اختیار کر لے۔

v بعض خواتین میں یہ عادت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اچھا سمجھتیں اور دوسروں کی اولاد میں نقص ڈھونڈتی رہتی ہیں بلکہ بسا اوقات منہ پر ہی اظہار بھی کر دیتی ہیں کہ تمہارا بچہ تو ایسا ہے۔ لہٰذا ان دونوں کو ایک ہی خاندان کی بہو ہونے کے ناطے ایک دوسرے کے بچوں کو اپنا ہی سمجھنا چاہئے اور خواہ مخواہ ایک دوسری کے بچوں میں عیب نہیں ڈھونڈنا چاہئے، کہ اس سے بچوں کی تربیت پر بھی برا اثر پڑتا ہے اور وہ اپنی ماؤں کی باہمی ناراضی کی وجہ سے زندگی بھر کیلئے ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔

v بچے بچے ہوتے ہیں، جو لڑتے جھگڑتے ہیں پھر دوبارہ سب بھول بھال کر کھیلنے میں مشغول ہو جاتے ہیں، لہٰذا بچوں کی لڑائی کے سبب جٹھانی دیورانی کا آپس میں جھگڑنا، گالی گلوچ کرنا، رشتے ناطے توڑ لینا، خوشی غمی کے معاملات کا بائیکاٹ کر دینا، اپنے بچے کو بے قصور اور دوسری کے بچے کو قصور وار ٹھہرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دینا انتہائی درجے کی کم عقلی ہے۔ لہٰذا بچے لڑیں تو ہاتھوں ہاتھ صلح کروا دیں اور بچوں کو آئندہ ایسا نہ کرنے کی تنبیہ کر دیں، ان شاء اللہ شیطان مردود منہ کی کھائےگا۔

v جٹھانی رشتے میں دیورانی سے فائق ہوتی ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اس پر اپنی بڑائی کی دھاک بٹھائے یا اپنے احسانات جتلائے یا دھونس دھمکی کے ذریعے اپنے مطالبات منوائے یا اس کی کردار کشی کرے یا اسے نیچا دکھانے کے مواقع ڈھونڈتی رہے کہ اس طرح تو غیبتوں، چغلیوں، بہتان تراشیوں، بد گمانیوں، عیب دریوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑتا ہے، لہٰذا جٹھانی کو چاہئے کہ وہ اپنی دیورانی کی عزتِ نفس کا خیال رکھے اور اس کی اس قدر خیر خواہی کرے کہ وہ خود کہہ اُٹھیں کہ اللہ پاک ایسی جیٹھانی ہر دیورانی کو دے۔

v دونوں کو چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات بھلا کر دکھ سکھ کی گھڑی میں سہیلیوں کی طرح رہیں اور بوقتِ ضرورت ایک دوسری کا سہارا بنیں، مثلاً ایک بیمار ہو تو دوسری اس کے کام بھی خوش اسلوبی سے کر دے اور کبھی بھی اپنے دل میں یہ خیال نہ آنے دے کہ جب مجھ پر آزمائش آئی تھی تو اس نے میرے ساتھ کوئی تعاون نہ کیا تھا، لہٰذا میری بلا سے وہ جئے یا مرے میں اس کے ساتھ ہرگز کوئی تعاون نہ کروں گی۔کیونکہ اگر وہ بھی اسی جیسا سلوک کرے گی تو دونوں میں فرق کیا رہے گا۔ لہٰذا گھر کو امن کا گہوارا بنانے کے لئے ضروری ہے کہ کسی ایک کے ساتھ کبھی کچھ برا ہوا ہو تو وہ درگزر سے کام لے اور اللہ پاک کی رضا کی خاطر معاف فرما دے۔اللہ پاک ہمیں اتفاق سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)