جو لوگ ربّ العالمین کے در سے اپنی نسبت اُستوار کر لیتے
ہیں اور حقِ بندگی ادا کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کردیتے ہیں، وہ ساری کائنات کے لئےمعزز و محترم ٹھہرتے ہیں، دنیا
ایسے لوگوں کی سیرتوں سے روشنی حاصل کرتی ہے، خواہ دنیا سے گزرے انہیں صدیاں بیت جائیں، انہی
میں سے ایک عظیم ہستی حضرت سیّدہ، طیبہ، طاہرہ، زاہدہ، فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ہیں۔
کہ ان کی سیرت ہمارے لئے مشعلِ
راہ ہے اور ان کی سیرت سے تمام اسلامی بہنوں کو بہت درس ملتا ہے، زندگی
کا کوئی پہلو ہو، بچپن سے لے کر جوانی اور
وصال تک آپ رضی اللہ عنہا کی زندگی ہمارے
لئے مشعلِ راہ ہے، بچپن سے متین، سنجیدہ اور پاکباز تھیں، اپنے کام خود فرماتی تھیں، کام کاج کے ساتھ عبادت بھی فرماتیں، اسی طرح پڑوس کا خیال کرنا لازمی سمجھتی تھیں، بخاری شریف کی بہت سی روایتوں سے پتہ چلتا ہے
کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس صاحبزادی حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی
اللہ عنہا کا بھی یہی معمول تھا کہ وہ اپنے
گھر کا سارا کام کاج خود فرماتیں، کنویں سے پانی بھر کر اور اپنی پیٹھ مبارک پر مشک لاد کر پانی لایا کرتی تھیں، چکی پیستی تھیں مبارک ہاتھوں میں چھالے پڑجاتے۔
مفتی امجد علی اعظمی فرماتے ہیں کہ عورت کے
فرائض میں یہ بھی ہے کہ اگر شوہر غریب ہو اور گھریلو کام کاج کے لئے نوکرانی رکھنے
کی طاقت نہ ہو تو اپنے گھر کا کام کاج خود کر لیا کرے، اگر گھریلو کام کاج تھکا دیں تو سیرتِ فاطمہ کے مطالعہ اور تسبیحِ فاطمہ
کے ورد سے اس کا علاج کیجئے۔
حدیث مبارکہ:
امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے
اپنی والدہ ماجدہ کو دیکھا کہ رات کو مسجدِ بیت کے محراب میں نماز پڑھتی رہتیں، یہاں تک کہ نمازِ فجر کا وقت ہو جاتا، میں نے آپ رضی اللہ عنہا
کو مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے بہت زیادہ دعائیں کرتے سنا، آپ رضی اللہ عنہا اپنی ذات کے لئے کوئی دعا نہ کرتیں،
میں نے عرض کی، پیاری امّی جان! کیا وجہ ہے کہ آپ اپنے لیے کوئی دعا نہیں کرتیں، فرمایا" پہلے پڑوس ہے پھر گھر ۔"(
مدارج النبوۃ، ج2)
اس واقعہ میں ان اسلامی بہنوں کے لئے کئیں نصیحت آموز مدنی پھول
ہیں، جو نوافل تو درکنار فرائض سے بھی
غفلت برتتی ہیں۔
پیاری اسلامی بہنو! سیرتِ فاطمہ
پر ہمارے دل و جان قربان، آپ رضی اللہ
عنہا کو اُمّتِ مسلمہ کا کس قدر د رد تھا کہ ساری ساری رات دعائیں مانگتی رہتیں، ہم نادا ن ہیں کہ ہمسایوں کا ہمیں خیال تک نہیں۔
آپ رضی اللہ عنہا کی گفتگو اور چال چلنے کا انداز بالکل آپ علیہ
السلام سے مشابہت رکھنے والا تھا ۔
اسلامی بہنوں میں سے بعض تو چلا
چلا کر باتیں کرتی ہیں، آپ رضی اللہ عنہا کی
سیرتِ مبارکہ سے یہ بھی پتہ چلا کہ کسی سے چلا چلا کر بات نہیں کرنی چاہئے، بلکہ نرم لہجہ اپنائیے۔
مولا مشکل کشا حضرت علی رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے موت کے وقت وصیت فرمائی تھی کہ جب
دنیا سے رخصت ہوجاؤں تو رات میں دفن کرنا تاکہ کسی غیر مرد کی نظر میرے جنازے پر
نہ پڑے۔( مدارج النبوۃ، ج2)
تمام اسلامی بہنیں دنیا و آخرت
میں کامیابی پانے، با پردہ، باعزت زندگی
گزارنے اور شرم وحیا کے ساتھ جینے کا ڈھنگ سیکھنے کے لئے تبلیغِ قرآن و سنت کی
عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی سے
ہر دم وابستہ رہیں۔
آج مسلمان عورتوں کی حالت ایسی ہے کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے ، پردے
کا تصور ہی نہیں رہا۔
سنتوں کا ہو عطا درد مسلمانوں کو
فیشن کی ہے یلغا
رسولِ عربی
شہزادی کونین، ام السا دات، مخدومہ کائنات، دخترِ مصطفی، سردار خواتین جہان و جناں، حضرت سیّدہ، عابدہ، زاہدہ، محدثہ، مبارکہ، فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی ہر ہر ادا نرالی سے نرالی ہے، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھر نا، سونا جاگنا، عبادت و ریاضت گویا ہر ہر پہلو ہماری زندگی کے
ہر معاملے میں ہمارے لئے درس ہے، اگر یوں
کہا جائے کہ زندگی کو بہترین گزارنے کے لئے ہم خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی محتاج
ہیں تو بے جانہ ہوگا۔
گھریلو کام کاج:
حضور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری شہزادی
بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا خود تنور میں روٹیاں لگایا کرتی تھیں، گھر میں جھاڑو
دیتیں اور چکی پیستیں، جس سے آپ رضی اللہ
عنہا کے ہاتھوں میں چھالے پڑجاتے، رنگ
مبارک متغیر اور کپڑے گرد آلود ہو جاتے، ایک دفعہ خادم کی طلب میں بارگاہِ مصطفی صلی
اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئیں، تو تسبیحِ
فاطمہ کا تحفہ ملا۔
درس:مخدومہ کائنات رضی اللہ عنہا کی ذکر کردہ خوبیوں سے معلوم ہوا
کہ آپ اپنی لاڈلی شہزادی کے لئے یہی پسند فرماتے ہیں کہ وہ گھر کے کام کاج خود ہی کریں، اس سے اسلامی بہنوں کے لئے راہِ عمل متعین ہوتی ہے۔( خاتونِ جنت)
پیاری اسلامی بہنو! ذرا سوچئے کیا ہم بھی اپنے گھر کے کام کاج خوشی سے خود سرانجام دیتی
ہیں یا اس سے بیزار ہوکر والدین اور شوہر کی نافرمانی جیسا گناہ کرتی ہیں، یاد رکھئے!
گھر کےکام کاج کرنا کوئی شرم کی بات نہیں، بلکہ اگر سنتِ صحابیات اور اچھی نیت کے ساتھ کیا جائے تو ثوابِ جاریہ بن
جاتا ہے۔
خاتونِ جنت کا ذوقِ
عبادت:
حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں:میں ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سیّدہ فاطمہ رضی
اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے
دیکھا کہ حضراتِ حسنینِ کریمین سو رہے تھے اور آپ رضی اللہ عنہا ان کو پنکھا جھل
رہی تھیں اور زبان سے کلامِ الہی کی تلاوت جاری تھی، یہ دیکھ کر مُجھ پر ایک خاص
حالتِ رقت طاری ہوگئی۔"(شان خاتونِ
جنت)
درس:پیاری اسلامی بہنو! آپ نے غور
کیا کہ کس طرح خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کو تلاوت کا شوق تھا کہ وہ اپنی گھریلو
مصروفیت میں زبان کو ذکر اللہ سے تر رکھتی
تھیں، جبکہ ہماری مصروفیت میں جب تک گانے باجے اور موسیقی کا شور و غل نہ ہو، گویا کہ ہمارے گھریلو کام ہی مکمل نہیں ہوتے، اے کاش!سب اسلامی بہنوں کا یہ مدنی ذہن بن جائے
کہ گھریلو کام کاج میں مشغولیت کے دوران اپنی زبان کو ذکرِ الہی سے تر رکھیں، اس سے نہ صرف گھر میں برکت ہوگی، بلکہ اولاد پر
بھی اچھا اثر پڑے گا، کیونکہ بچے بھی وہی
کرتے ہیں جو بڑوں کو کرتا دیکھتے ہیں۔
ایثار و سخاوت:
رسولوں کے سالار، نبیوں کے تاجدار صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ
خوشبودار ہے:"یہ وہ دین ہے، جسے اللہ
عزوجل نے اپنے لئے چن لیا اور تمہارے دین کی اصلاح سخاوت اور حُسنِ اخلاق ہی پر منحصر ہے، پس ان دونوں کے ساتھ دین کو آراستہ کرو۔"(
جمع الجوامع، قسم الاقوال، جلد 2، صفحہ 232)
پیاری اسلامی بہنو!خاتونِ جنت کی
ایثار و سخاوت کے تو کیا ہی کہنے، آپ خود
کم اور دوسروں کو زیادہ کھلانے والی تھیں، حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما بچپن میں ایک دفعہ بیمار ہو گئے تو حضرت علی المرتضی رضی
اللہ عنہ اور فاطمۃ الزھرا اور خادمہ حضرت فضہ رضی اللہ عنہمانے ان شہزادوں کی صحت
یابی کے لئے تین روزوں کی منت مانی، اللہ
عزوجل نے صحت دی، نذر کی وفا کا وقت آیا، سب صاحبوں نے روزے رکھے، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ایک یہودی سے تین
صاع جو لائے، خاتونِ جنت نے ایک ایک صاع تینوں دن پکایا، لیکن جب افطار کا وقت آیا اور روٹیاں سامنے رکھیں تو ایک دن مسکین، ایک دن یتیم اور ایک دن قیدی دروازے پر حاضر ہو گئے اور روٹیوں کا سوال کیا
تو تینوں دن سب روٹیاں ان سائلوں کو دے
دیں اور صرف پانی سے افطار کر کے اگلا روزہ رکھ لیا۔(شانِ خاتون جنت)
پیاری اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے
خاتونِ جنت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا کس قدر سخاوت و ایثار کے جذبے سے سرشار تھیں۔
غور کیجئے کہ کیا ہم بھی اللہ عزوجل کی راہ میں خوب دل کھول کر خرچ کرتی ہیں، عموماً اسلامی بہنیں خرچ کے معاملے میں اور سونے
اور زیورات کے معاملے میں ہاتھ کھینچ کر رکھتی ہیں، پیاری بہنو یاد رکھئے!یہ مال و دولت ہر چیز اللہ
عزوجل کی عطا ہے، ہمارااس میں کچھ بھی نہیں۔
مدنی پھول:جب انسان اللہ عزوجل سے مانگتا ہے تو لاکھوں کروڑوں کی چاہت کرتا ہے،
لیکن جب اس کی راہ میں دینے کی باری آتی
ہے تو جیب میں سکّے تلاش کرتا ہے۔
پیاری اسلامی بہنو! خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی
کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے اور کس کو چھوڑا جائے، یقیناً آپ ہر ہر صفت میں عظیم سے عظیم تر ہیں، آپ کا ایک لقب"زاہدہ" یعنی دنیا سے بے رغبتی، ایک
لقب"مبارکہ" یعنی بابرکت، ایک
لقب"ذکیہ"یعنی پاک، بہرحال
ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بہت سے القابات سے نوازا اور ہر ایک کو بیان کرنا ہم جیسے گنہگاروں کے بس
کی بات نہیں۔
پیاری اسلامی بہنو! اگر زندگی کے ہر ہر پہلو میں
آپ رضی اللہ عنہا کی سیرت مبارکہ کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو نہ صرف ہم خود بلکہ
ہماری آنے والی نسلیں بھی اس پر عمل پیرا ہوں گی۔
اللہ تبارک و تعالی ہمیں خاتونِ جنت رضی اللہ
عنہا کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
خاتون جنت
حضرت فاطمۃالزہراء رضی اللہُ عنہا کی زندگی
ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے ان کی سیرت سے ہمیں بے پناہ اسباق ملتے ہیں انہی کی سیرت
سے انہی کی آمد سے ایک باپ اور بیٹی کے مقدس رشتے کی اہمیت سامنے آئی حضرت فاطمۃ الزہرا
رضی اللہ تعالی
عنہا ہمارے پیارے
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم
کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی تھی آپ کی زندگی سب مسلمانوں خصوصا ً خواتین کے لیے
بہترین نمونہ ہے ۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ نماز کی بے حد پابند تھی آپ رضی اللہ تعالی
عنہا ساری ساری رات نوافل پڑھتی یہاں تک کہ فجر کی اذان ہوجاتی۔ اور سب کے لیے دعا کرتی
مگر اپنے لیے کوئی دعا نہ مانگتی۔ جس پر ایک
دفعہ حضرت حسن رضی اللہ تعالی
عنہ
نے سوال کیا کہ: کیا وجہ ہے کہ آپ اپنے لیے دعا نہیں کرتی ؟
فرمایا: "پہلے پڑوس ہے پھر گھر"۔
(مدارج
النبوت (مترجم) ج، قسم پنجم باب اول ، ذکر
اولاد کرام ص 623)
نیزآپ رضی اللہ تعالی
عنہا
اپنے گھر کا سارا کام خود کیا کرتی تھی اس کا ذکر مندرجہ ذیل حدیث سے ثابت ہے ۔
ایک دفعہ
حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالی عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم
کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خادم کا سوال کیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم
نے فرمایا : "تمہیں ہمارے پاس خادم تو نہیں ملے گا تو کیوں نہ میں تمھیں ایسی
چیز بتاوں جو خادم سے بہتر ہے؟ جب تم بستر پر جایا کرو تو33 مرتبہ سبحان اللہ 33
مرتبہ الحمداللہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ (صحیح مسلم)
مندرجہ بالا
حدیث ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ہمیں اپنے گھر کے کام خود انجام دینے چاہئیں اس سے آدمی چاک و چوبند بھی رہتا ہے اور گھریلوں
چپقلش سے بھی نجات حاصل ہوتی ہے ۔
زندگی کا کام
گزرنا ہے وہ گزر جائے گی پھر اس میں چاہے آپ نافرمان ، بداخلاق، شرابی، وغیرہ بن
کر رہیں یا پھر سچا اور پکا مسلمان بن کر رہیں ، یا دین اسلام پر عمل کرنے والا بن
کر رہیں یا پھر دنیاوی رنگوں میں گم، یہ ہم پر ہے۔
ہم کہتے ہیں
وہ بھی تو یہ کرتا ہے میں کیوں نا
کروں ! وہ گانا گا سکتا ہے وہ نماز چھوڑ
سکتا ہے تو میں کیوں نہیں ! ارے بھائی آپ
اس لیے نہیں ، کیونکہ آپ نے دنیا کو چھوڑ
کر آخرت کو چنا ہے آپ نے دنیا کی نظروں میں نہیں بلکہ اللہ تعالی کی
نظروں میں اعلی مقام حاصل کرنا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
امتی ہونے کا فرض ادا کرناہے ۔
اور آخر میں
تمام مومن عورتوں کے لیے ایک پیغام جس کا درس ہمیں خاتون جنت کی سیرت سے بھی ملتا
ہے وہ یہ کہ خدارا پردے کا اہتمام کریں پردہ آپ کی شخصیت کو دباتا نہیں بلکہ
ابھارتا ہے۔
خاتون جنت نے
اپنی زندگی میں پردے کا خاص اہتمام کیا
"حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنی موت کے وقت وصیت فرمائی تھی کہ جب میں دنیا سے رخصت ہوجاؤں تو رات میں دفن کرنا تاکہ کسی نامحرم کی
نظر میرے جنازے پر نہ پڑے۔
(مدارج
النبوت (مترجم) ج، قسم پنجم باب اول ، ذکر
اولاد کرام ، ص 623)
آج کی خواتین باقاعدہ پردہ کرنا تو دور سر پر دوپٹہ
اوڑھنا بھی گناہ سمجھتی ہیں۔اس چھوٹے سے مضمون میں اتنی بڑی ہستی کے بارے سب کچھ
لکھنا ناممکن ہے۔
مختصر یہ کہ
ہمیں دین اسلام پر چلنے کے لیے اپنے اللہ تعالی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم
کو راضی کرنے کے لیے کہیں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہم صرف قرآن و سنت پر عمل کر
کے بھی اعلی سے اعلی مقام حاصل کرسکتے ہیں۔
کیونکہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ
وسلم
نے فرمایا: کہ "میں تم لوگوں کے درمیان دو چیزیں ایسی چھوڑ کر جارہا ہو ں جسے
تم تھامے رکھو تو کبھی گمراہ نہ ہونگے اور
وہ قرآن و سنت ہے"۔
اللہ تعالی سے دعا ہے
کہ اللہ تعالی ہمیں
قرآن و سنت پر عمل کرنے والا بنائے اور ہمیں خصوصاً تمام خواتین کوخاتون جنت کی سیرت
سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
تمام حمدو ثناء ربِّ ذوالجلال کے
لئے اور تمام دُرود و سلام رب کے پیارے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے
ہے، سیرت سے مراد کسی بھی شخصیت کی عادات
و اطوار، کردار و اوصاف ہوتے ہیں اور کسی بھی شخصیت سے ملنے والے موتیوں
کو اپنی زندگی میں شامل کرنے سے قبل ان کی شخصیت کے بارے میں جاننا ضروری ہوتا ہے ۔
فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
ہے کہ"فاطمہ میری بیٹی، میرے بدن کی ایک بوٹی ہے، جس نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ناراض کیا، اس نے مجھے
ناراض کیا۔"ایک اور جگہ فرمایا:"فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدۃ االنساء العالمین(تمام
جہان کی عورتوں کی سردار اور سیدہ نساء اہل الجنۃ، اہلِ جنت کی تمام عورتوں کی سردار) ہیں۔(مشکوٰۃ،
ص 568، مناقب اہلِ بیت و زرقانی، ج 3، ص 204)
آپ رضی اللہ عنہا زوجہ حضرت علی
کرم اللہ وجھہ رحمتِ عالمیان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شہزادی، حضرت امام حسن، حضرت امام حسین و حضرت محسن رضی
اللہ عنہ، زینب، ام کلثوم و رقیہ رضی اللہ
عنہن کی والدہ ماجدہ اور تمام عالم کی عورتوں کی سردار اور اہلِ جنت کی تمام
عورتوں کی سردار ہیں۔(سیرتِ مصطفی، ص 28 مدینۃ العلمیہ)
وہ ذاتِ مقدسہ کہ جواس لجپال گھرانے سے ہیں کہ جن کا بچہ بچہ نور کا ہے، ان کی سیرتِ پاک کے کیا کہنے ۔۔
صحابہ کی کنیز ہوں اور اہلِ بیت
کی خادمہ
یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی
ہے عنایت یارسول اللہ
میں قربان ہوں ان کے نقشِ قدم پر
میرا دین و ایمان ان کی ادا ہے
رُکنِ شوریٰ نے فرمایا تھا کہ"
علم راستہ ہے تو ذکر روشنی، ہمیں یعنی اِسلامی
بہنوں کو اگر کامیابی کا زینہ طے کرنا ہے
تو اپنے اسلاف سے متعلق علم بھی حاصل کرنا
ہو گا اور ان کا مسلسل ذکرِ اطہر بھی کرنا ہوگا، تبھی ہم ان کے وصف و اوصاف کو اپنی
زندگی کا حصّہ بنا پائیں گے۔
ہمیں حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ
عنہا کی سیرتِ مبارکہ سے والدین سے محبت، اولاد سے محبت، اپنے زوج کی خدمت، تقوی، پرہیز گاری، شکر،ذکر، فکر، خدمت، صلہ رحمی، حیاء،
ایمان کی تقو یت، تربیت، گھر داری، سلیقہ شعاری، طریقہ، سلیقہ، مینجمینٹ، وقت کا صحیح استعمال غرض کیا
کچھ نہیں ملتا، اگر اس میں سے چند موتی ہم
اپنی زندگی کے بے ربط لمحوں میں شامل کر
لیں تو ایک انمول ہیرا بن سکتے ہیں، لیکن
افسوس اسلامی بہنیں اسے ظلم تصور کرتی ہیں، دیکھا جائے تو مرد وعورت دونوں ہی ایک
جیسی محنت کر رہے ہوتے ہیں، وہ باہر کے تمام معاملات سنبھالتے ہیں اور یہ
امورِ خانہ داری، دونوں کو ایک دوسرے کا
خیال رکھتے ہوئے چلنا چاہئے، اگر ایسا نہ ہو تو عورت کو صبر کرنا اور اپنی
سردار حضرت بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی حیاتِ طیبہ پر نگاہ کرنی چاہئے کہ جہاں وہ دن بھر
کام میں مصروف ہیں اور پابندی وقت کے ساتھ نماز بھی ادا کر رہی ہیں اور لبوں پر
شکایت کی بجائے حمدو ثناء ر ہے۔ سبحان
اللہ
ہم بھی اگر تھکن کے وقت سنت پر عمل کرتے ہوئے تسبیحِ فاطمہ پڑھیں تو اثرات دیکھئے گا کہ تھکن دور ہو جائے گی اور آپ تازہ دم ہوں گی۔
ہم اگر والدین کی خدمت کی سنت ادا کریں گی تو دعاؤں
سے نوازی جائیں گی اور ڈاکٹر نکلس ڈیونس اور پروفیسر سلین کین کی سائنسی تحقیق کے مطابق "والدین اگر اولاد
سے خوش ہوں تو ان کی ہمدردیوں اور بھلی تمناؤں کے باعث غیر وئی شعاؤں کا سلسلہ اولادتک پہنچتا
ہے، جو کہ جسم و اعصاب کو تقویت پہنچا تے ہیں اور انہیں نرم اور ملائم رکھتے
ہیں، نیز والدین کا چھونا نفسیاتی
بیماریوں اور ذہنی الجھنوں کو دور کرتا ہے۔(نیکی کی دعوت، مکتبۃ المدینہ)
ہمیں آپ رضی اللہ عنہا کی سیرت پاک
سے درسِ انسانیت ملتا ہے کہ ساس اگر جھگڑا
لُو ہے تو خاموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فرائض خوش اسلوبی سے اپنے نفس کو
سمجھاتے ہوئے ادا کریں گی، تو عنقریب وہ
بھی ہمارے لئے نرم گوشہ رکھیں گی، ہمیں
اپنے غصّے کو دبانا ہے، لیکن شریعت کے
دائرے میں رہتے ہوئے۔اپنے زوج کی خدمت کرنی ہے، لیکن حُدودِ شریعہ کے اندر، ہمیں
اپنی اولاد کی تربیت کرنی ہے، مگر پہلے قرآن کریم سکھانا ہوگا، ان تمام اچھی باتوں کو سیکھنے کے لئے اللہ عزوجل
نے ہمیں دعوت ِاسلامی کا پلیٹ فارم دیا ہے۔
پاک پروردگار ہمیں اپنے پیاروں کے ذکرِ خیر کے صدقے سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے اور دعوتِ اسلامی کابھرپور اسلامی
کام کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے، نیز ہم سب کا خاتمہ بالخیر فرمائے۔آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہ علیہ وسلم
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچے کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
سیّدِ
کونین صلی اللہ علیہ وسلم
کی پیاری لاڈلی صاحبزادی اپنے گھر کے سارے کام خود کیا کرتی تھیں، یہاں تک کہ جھاڑو
اور چکّی بھی خود پیسا کرتی تھیں، اِس بنا
پر ہمارے پیرو مرشد شیخِ طریقت، امیر اہلسنت بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ
مولانا محمد الیاس عطار قادری نے ہماری رہنمائی کرتے ہوئے گھریلو کام کاج کرنے کا درس دیا، کہ اپنا کام اپنے دائیں ہاتھ سے کرنا سُنت ہے، اسلامی بہنوں کو اس پیاری پیاری سنت پر عمل کرنا
چاہئے، اپنے گھر کے کام کاج خود کرنا اور بوقتِ نماز دیگر تمام مصروفیات ختم
کر دینا سنت ہے، گھر میں رہتے ہوئے اسلامی
بہنوں کا دست کاری کرنا اور کسبِ حلال کے
زرائع اپنا نا سنتِ امُّ المؤمنین و سنتِ صحابیات ہے۔
گھریلو
کام کاج کرنے والی اسلامی بہن کی گھرمیں
اہمیت ہوتی ہے، یوں اسے گھر میں مدنی
ماحول بنانے میں آسانی ہوتی ہے، آج کل ڈپریشن
اور ٹینشن کی شکایت عام ہے، اس سے بچنے کا
بہترین نسخہ مصروفیت ہے ۔
ابنِ زہرا کو مبارک ہو عروسِ قدرت
قادری پائیں تصدّق میرے دولہا تیرا
ایک دفعہ حضرت فاطمہ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم
آئے، دیکھا کہ انہوں نے ناداری سے اس قدر
چھوٹا دو پٹہ اوڑھا ہے، لیکن سرڈھانکتی ہیں تو پاؤں کھل جاتے ہیں اور پاؤں چھپاتی ہیں تو سر برہنہ ہو جاتا ہے، لیکن کبھی اپنے شوہر سے تنگ دستی کا گلہ شکوہ نہیں کیا، زہدو
فقر کو اپنایا۔
صرف یہی نہیں بلکہ اکثر اوقات
فاقے سےبھی رہنا پڑتا، ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لے گئے تو حضرت
فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنھا نے اپنے فاقے
کا عالم بیان کرتے ہوئے عرض کی کہ میں نے اپنے پیٹ پر تین پتھر باندھ رکھے ہیں اور
ہر پتھر ایک دن کی بھوک کی وجہ سے باندھا
ہے۔
یہ آپ کی غربت کا حال تھا، لیکن دل صبرو شکر پر راضی تھا، زہد کا یہ حال تھا کہ ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کو
سونے کا ہار دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کو معلوم ہوا تو فرمایا" کیوں فاطمہ!کیا لوگوں سے یہ کہلوانا چاہتی ہیں کہ
رسول اللہ کی بیٹی آگ کا ہار پہنتی ہے، چنانچہ حضرت فاطمہ نے زہد اختیار کرتے اس
کو فورا ً بیچ کر اس کی قیمت سے ایک غلام
خریدلیا۔(نسائی)
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی
غزوہ سے تشریف لائے، حضرت فاطمہ نے بطورِ
خیر مقدم کے گھر کے دروازوں پر پردہ لگایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسبِ معمول گھر
آئے تو اس دنیوی سازوسامان کو دیکھ کر
واپس آ گئے، حضرت فاطمہ کو ناپسندیدگی کا
حال معلوم ہوا، تو پردہ چاک کردیا اور
بچوں کے ہاتھ سے کنگن نکال ڈالے، بچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روتے
ہوئے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:" میرے اہلِ بیت میں ہیں، میں
یہ نہیں چاہتا کہ وہ ان زخارفِ دنیا سے آلودہ ہوں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو
عبادت کا اس قدر ذوق تھا کہ پوری پوری رات
اللہ عزوجل کی عبادت میں گزار دیتی تھیں۔
حیا اور پردے کا یہ عالم تھا کہ
وصیت فرمائی کہ جب دنیا سے جاؤں تو مجھے
رات میں دفن کرنا تا کہ میرے جنازے پر کسی نامحر م کی نظر نہ پڑے ۔(فتاوی رضویہ)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت
کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کے لئے کبھی
کسی رشتہ داریا ہمسائی کو اپنی مدد کے لئے نہیں بلاتی تھیں، نہ کام کی کثرت، مشقت سے گھبراتی تھیں، پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھتیں، صدقہ وخیرات
کرتی تھیں، ساری عمر شوہر کے سامنے حرفِ شکایت نہ لائیں، نہ فرمائش کی، اتنے مصائب و آلام آئے مگر زبان پر
حرفِ شکایت نہیں، بلکہ راضی برضا رہیں۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حیاتِ مبارکہ کا ہر
پہلو بیش بہا کمالات اور انمٹ خصوصیات کا مظہر ہے، دینِ اسلام کی بے لوث خدمت،
نسبی و ازدواجی و دینی رشتوں سے بے پناہ محبت اور اولاد کی بہترین تربیت اور خلق خدا کی خیر خواہی کا درس ملتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں خاتونِ جنت کی سیرت
مبارکہ پر عمل کرنے اور ان کے اسوہ کے مطابق زندگی گزارنے اور جنت میں ان کا پڑوس
نصیب فرمائے، اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب
مغفرت ہو۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
صالحہ، صادقہ ، صائمہ، صابرہ
فاطمہ، کاملہ، زاہدہ، ذاکرہ
نورِ چشمِ نبی، عابدہ، شاکرہ
سیدہ، زا ہرہ، طیبہ، طاہرہ
جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
تاریخِ اِسلام میں بے مثال خواتین
کا ذکر ملتا ہے، ان میں صحابیات بھی گزری
ہیں اور ان سے فیض لیتی ہوئی کئی صالحات
بھی گزری ہیں، ان بے مثال خواتین کا کردار
بھی بے مثال رہا ہے، ان بے مثال خواتین
میں سے ایک خاتون ام السادات، مخدوم کائنات، دخترِ مصطفی، حضرت سیّدہ طیبہ، طاہرہ، عابدہ، زاہدہ، محدثہ خیر النساء، خاتون ِجنت، حضرت سیّدہ طیبہ فاطمہ بھی ہیں، آپ کی زندگی تمام عورتوں کے لئے مشعلِ راہ ہے۔
مختصر تعارف:
حضرت سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا شہنشاہِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے
چھوٹی مگر سب سے زیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں، آپ کا نام فاطمہ اور لقب "زہراء بتول"
ہے۔
آپ کے بے شمار فضائل حدیث مبارک
میں بیان کئے گئے ان میں سے ایک یہ ہے، اللہ عزوجل کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا
ارشاد ہے:" فاطمہ تمام جہانوں کی عورتوں اور سب جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔"
مزید فرمایا:"فَاطِمَۃ بضْعَۃ مِنِّی
فَمَنْ اَغْضَبَہَا اَغْضَبَنِی یعنی فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، جس نے
اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔"( مشکوٰۃ المصابیح، ج 2 ، حدیث6139)
حضرت حسن مجتبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی
والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ رات کو مسجدِ بیت کی محراب میں نماز پڑھتی رہتیں، یہاں تک کہ
نمازِ فجر کا وقت ہوجاتا، میں نے آپ رضی
اللہ عنہا کو مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے بہت زیادہ
دعائیں کرتے سنا، آپ رضی اللہ عنہا اپنی
ذات کے لئے کوئی دعا نہ کرتیں، میں نے عرض
کی "پیاری امّی جان! کیا وجہ ہے کہ آپ اپنے لئے کوئی دعا نہیں کرتیں، فرمایا"پہلے پڑوس ہے اور پھر گھر ۔"
پیاری پیاری اسلامی بہنو! اس
واقعہ میں ان اسلامی بہنوں کے لئے کئیں نصیحت اور سبق کے مدنی پھول ہیں، جو نوافل تور درکنار فرائض سے بھی غفلت برتتی
ہیں، دو جہاں کے تاجدار کی صاحبزادی تو
راتیں عبادتِ الٰہی میں گزاریں، مگر ان کی
راتیں غفلت میں گزرتی ہیں، بے حیائی کو
عار سمجھتی ہیں، بے پردگی سے خار کھاتی
ہیں، حالانکہ نورنگاہِ رسول حضرت فاطمہ رضی
اللہ عنہا کا
پردے کا اس قدر ذہن کہ جیتے جی ہی
نہیں بلکہ سفرِ آخرت پر گامزن ہوتے وقت
بھی اس کے بارےمیں متفکر تھیں اور اس کی
پابندی کی تاکید فرمائی۔
مولیٰ مشکل کشا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"حضرت فاطمہ نے موت کے وقت
وصیت فرمائی تھی کہ جب میں دنیا سے رخصت
ہو جاؤں تو رات میں دفن کرنا تاکہ کسی غیر
مرد کی نظر میرے جنازے پر نہ پڑے۔( شانِ خاتون جنت، ص41)
جگر گوشہ رسول، حضرت سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کی
حیات مبارکہ اور سیرت طیبہ کاہر پہلو بیشں
بہا کمالات اور انمٹ خصوصیات کا مظہر ہے، دینِ اسلام کی بے لوث خدمت، نسبی و ازدواجی و دینی رشتوں سے بے پناہ محبت
اور اولاد کی بہترین تربیت آپ رضی اللہ عنہا کے بہترین اخلاق کا ایک اہم حصہ ہے، اعلٰی اقدار انسان کاتحفظ، خلقِ خدا کی خیر
خواہی، بے کسوں اور بے چارہ گری آپ کے نمایاں اوصاف میں سے ہے۔( شانِ
خاتون جنت، ص188)
پیاری پیاری اسلامی بہنو! گھر کا
کام کاج اپنے ہاتھ سے کرنا آپ رضی
اللہ عنہا کی سنت مبارکہ ہے۔"( شانِ خاتون جنت،
ص291)
حضرت فاطمہ کی سیرت کا مطالعہ
کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کے لئے کبھی کسی رشتے دار یا ہمسائی کو اپنی مدد کے لئے
نہیں بلاتی تھیں، نہ کام کی کثرت اور نہ کسی قسم کی محنت، مشقت سے گھبراتی تھیں، آپ نے کبھی
گھر میں کام کے لئے خادم نہیں رکھا، بلکہ اپنے گھر کا کام خود کرتی تھیں، ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذہن میں آئے کہ وہ اور دور تھا، اب اور زمانہ ، تو سنئے امیر
اہلِ سنت کے گھر میں کوئی کام والی نہیں رکھی گئی، اس میں ہر اسلامی بہن کے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔اللہ تعالی ہمیں برکتیں نصیب فرمائے۔
آمین
درود شریف
کی فضیلت: فرمان مصطفی صلی اللہ
علیہ وسلم جو شخص مجھ پر درود پاک پڑھنا بھول گیا، وہ جنت کا راستہ بھول گیا۔"(طبرانی، سیرت
مصطفی، صفحہ 697)
شیخ
الحدیث حضرت علامہ مولانا عبد المصطفی اعظمی علیہ رحمۃ القوی فرماتے ہیں:"حضرت سیّدتنا فاطمۃ الزہرا رضی
اللہ عنہا شہنشاہِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ
پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں، آپ کا نام"فاطمہ
" اور لقب" زہرا" اور
"بتول" ہے،
اعلانِ
نبوت سے پانچ سال قبل حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی پیدائش
ہوئی۔
سیّدہ فاطمہ کا ذوقِ نماز:
حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے
ہیں، حضرت سیدنا اِمام حسن رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں"کہ
میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسااوقات)
گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی۔"( شان ِخاتون جنت، ص77)
مصروفیت میں بھی ذکرِ ربوبیّت:
حضرت
سلمان فارسی رضی اللہ عنہا
فرماتے ہیں:میں ایک مرتبہ حضورِ انور صلی
اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ
عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ حضراتِ حسنینِ کریمین سو رہے
تھے اور آپ رضی اللہ عنہا
ان کو پنکھا جھل رہی تھیں اور زبان سے کلامِ الہی کی تلاوت جاری تھی، یہ دیکھ کر مُجھ پر ایک خاص حالتِ رقت طاری ہوگئی۔"
( شانِ خاتون جنت، ص83)
کھانا پکاتے وقت بھی تلاوت:
امیر
المؤمنین حضرت سیّدنا علیُّ المرتضٰی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیّدہ رضی
اللہ عنہا کھانا پکانے کی حالت میں بھی قرآن پاک کی تلاوت جاری رکھتیں،
نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم جب نماز
کے لئے تشریف لاتے اور راستے میں سیدہ رضی
اللہ عنہا کے مکان پر سے گزرتے اور گھر سے چکّی چلنے کی آواز سنتے
تو نہایت دردو محبت کے ساتھ بارگاہِ ربُّ العزت میں دعا کرتے: یا ارحم الرحمین!فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ریاضت
وقناعت کی جزائے خیر عطا فرما اور اِسی حالتِ فقر میں ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرما۔(شان خاتون
جنت، ص92)
پیاری پیاری
اسلامی بہنو!آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خاتونِ جنت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کس قدر ذوقِ عبادت، شوقِ تلاوت تھا کہ پوری پوری اللہ عزوجل
کی عبادت میں گزار
دیتی تھیں، اپنی گھریلو مصروفیات کے دوران زبان سے تلاوت کرنے کا ورد بھی جاری رکھتیں،
جبکہ ہماری مصروفیات کے دوران گانوں باجوں اور موسیقی کا شوروغل جاری
رہتا ہے، جس کی وجہ سے گناہوں کا میٹر چلتا رہتا ہے۔
اے کاش!سب
اسلامی بہنوں کا یہ ذہن بن جائے کہ گھریلو کام کاج میں مشغولیت کے ساتھ اپنی زبان
کو ذکرواذکار سے تر رکھیں اور اللہ عزوجل
سے حقیقی محبت و الفت کا تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف فرائض بلکہ سنن و نوافل کی ادائیگی کو بھی
اپنا معمول بنائیں، تلاوتِ قرآن اور ذِکر و اذکار میں مشغول رہیں، اس سے نہ صرف اپنی نیکیوں میں اضافہ ہوگا، بلکہ اولاد بھی اس سے مستفیض ہو گی۔
تلاوت کی توفیق دے دے الہی
گناہوں کی ہو دُور دل سے سیاہی
نورِ نظر ِمصطفی، جناب سیّدہ، عابدہ، زاہدہ، حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا کی سیرت سے جو ہمیں درس حاصل ہوتا ہے، ان میں سے چند پیشِ خدمت ہے۔
عبادت:
خاتونِ جنت، حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا کی طبیعتِ
عالیہ ہمہ وقت عبادتِ الہیہ کی طرف متوجہ رہتی تھی، اپنے گھریلو کام کاج کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو عبادتِ الٰہیہ میں مشغول رکھا کرتی تھیں۔(شانِ
خاتون جنت، ص82,83)
گھر کے کام کاج:
گھر کے کام کاج کرنا سنتِ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ہے۔(ص38)
عشق رسول صلی اللہ
علیہ وسلم:
خواتینِ جنت کی سردار سیّدہ فاطمۃ
الزہرہ رضی اللہ عنہا کو حضور نبی رحمت
صلی اللہ علیہ وسلم سے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت فاطمہ رضی اللہ
عنہا سے بہت محبت تھی اور محبت کی علامت
میں سے ایک یہ ہے کہ جس سے محبت ہو اس کی ہر اَدا اپنانے کی کوشش کی جاتی ہے، چنانچہ سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے خود
کو ہر اعتبار سے سنتِ رسول کے سانچے میں ڈھال
رکھا تھا۔
عادات و اطوار، سیرت وکردار، نشست و برخاست، چلنے کے انداز، گفتگو اور صداقتِ کلام میں آپ رضی اللہ
عنہا سیرتِ مصطفی کا عکس اور نمونہ تھیں۔(
شانِ خاتون جنت، ص114،113)
رسول اللہ کی جیتی جاگتی تصویر کو
دیکھا
کیا نظارہ جن آنکھوں نے تفسیرِ نبوت کا
سخاوت:
کون نہیں جانتا کہ سیدہ فاطمہ
زہرا رضی اللہ عنہا اس فقیدالمثال(بے مثال)
عظمت کے مالک باپ کی لختِ جگر ہیں، جن کے
قدموں میں دنیا بھر کے خزانے بچھے رہتے ہیں اور اسلام کے اس مایہ ناز فرزند کی
اہلیہ تھیں، جن کی شمشیرِ جوہردار نے صفحہ ہستی پر انمٹ(نہ مٹنے والے)
نقوش ثبت کرکے دنیا کو ورطہ حیرت(انتہائی
حیرت) میں ڈال دیا تھا، لیکن اس کے باوجود
دُخترِخیرُ الانام کی زندگی اس حالت میں
گزری کہ کبھی پیٹ بھر کے دو وقت کا کھانا نہ کھایا، جو ملتا اس کو دوسروں پر نچھاور کر دیتیں اور
خود فقر و فاقہ سے زندگی بسر کرتیں۔(
ماخوذ از مکاشفۃ القلوب، باب فی فضل الفقر
اء، ص18)
ہمسائیوں کے لئےدعا:
آپ رضی اللہ عنہا ہمسایوں کے لئے
زیادہ دعا فرمایا کرتیں اور فرماتیں"
پہلے ہمسایہ ہے، پھر گھر۔"( شان
خاتون جنت، ص101)
پردہ و حیا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:" کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی ندا کرے گا اے اہلِ مجمع!اپنی
نگاہیں جھکا لو کہ حضرت فاطمہ بنتِ محمد
صلی اللہ علیہ وسلم و رضی اللہ عنہا پُل
صراط سے گزرےیں، آپ کے پردہ دار رہنے کا ایک صلہ یہ دیا کہ روزِ محشر آپ رضی اللہ عنہا کی خاطر اہلِ مجمع کو نگاہوں کو
جگانے کا حکم صادر کیا جائے گا۔"( الجامع الصغیر مع فیض القدیر، حرف ھمزہ، ج1، ص549 ، الحدیث822)
حاصلِ کلام یہ ہے کہ فاطمۃ الزہرہ
رضی اللہ عنہا کی مبارک حیات ایک اسلامی
بہن کے لئے مشعلِ راہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا بے مثال شہزادی، با کمال زوجہ، پُر
شفقت والدہ ہیں، آپ کے نقشِ قدم پر چل کر ایک اسلامی بہن اپنے ہر
کردار کو بخوبی ادا کر سکتی ہے۔
خاتونِ جنت سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا شہنشاہِ
کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی، مگر سب سے پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں، آپ کا نام" فاطمہ" اور لقب"زہراء
بتول" ہیں، اعلانِ نبوت سے 5 سال قبل آپ کی ولادت ہوئی۔
خاتونِ جنت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی
اللہ عنہا کی سیرت تمام مسلمان عورتوں کے لئے ایک کامل نمونہ ہے، آپ کی زندگی اور
سیرتِ مبارکہ میں ہمارے لئے درس کے بے شمار مدنی پھول ہیں۔
خاتونِ جنت کا ذوقِ
عبادت:
حضرت سیدنا علامہ شیخ عبدالحق
محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مدارج النبوۃ میں نقل کرتے ہیں: حضرت سیدنا اِمام حسن
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی
اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہا بسااوقات گھر کی مسجد کے محراب میں رات
بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔"
شہزادی کونین سیّدہ فاطمہ کی مبارک سیرت سے درس ملتا ہے کہ اللہ پاک کی عبادت میں ہمیں
زندگی بسر کرنی چاہئے، گھر کے کام کاج یا
مصروفیت کا بہانہ بنا کر ہرگز نماز نہیں
چھوڑنی چاہئے۔
امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیّدہ کھانا پکانے کی حالت میں بھی قرآن پاک کی تلاوت جاری
رکھتیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب
نماز کے لئے تشریف لاتے اور راستے میں سیدہ کے مکان پر سے گزرتے اور گھر سے چکّی
کی آواز سنتے تو نہایت درد ومحبت سے بارگاہِ
ر بّ العزت میں عرض کرتے "یاا رحم الرٰحمین فاطمہ کو ریاضت وقناعت کی جزائے خیر عطا فرما اور اسے حالتِ فقر میں ثابت
قدم رہنے کی توفیق عطا فرما۔
عشقِ رسول:
خاتونِ جنت کو حضور نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی اور آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو حضرت فاطمہ سے بے حد محبت تھی، محبت کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ
جس سے محبت ہو، اس کی ہر ادا اپنانے کی
کوشش کی جاتی ہے، حضرت سیدنا فاطمہ رضی
اللہ عنہانے خود کو ہر اعتبار سے سنت کے سانچے میں ڈھال رکھا تھا، عادت و اطوار سیرت و کردار، نشست و
برخاست، چلنے کے انداز، گفتگو اور صداقتِ کلام میں آپ رضی اللہ عنہا سیرتِ مصطفی
کا عکس اور نمونہ تھیں۔
خاتونِ جنت کی سیرت مبارکہ سے
جہاں عبادت، عشقِ رسول، سنت سے محبت، زہدو تقوٰی کا درس ملتا ہے، وہیں آپ رضی
اللہ عنہا باحیا، باکردار، عاجزی اور اخلاص کا بھی نمونہ ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہا اس قدر باحیا
اور پردے کی پابند تھیں کہ اپنے جنازے کے
لئے بھی پردے کا حکم اِرشاد فرمایا: آپ کی سیرت مبارکہ سے درس ملتا ہے کہ اپنی
زندگی عبادت میں گزاری جائے، اور اپنے شوہر کے حقوق سے غفلت اختیار نہ کی جائے، آپ
ایک کامل و اَکمل بیٹی کامل و اکمل بیوی اور کا مل واکمل ماں ہیں، آپ
کی سیرت مبارکہ میں ایک بیٹی کے لئے بھی درس کے مدنی پھول ہیں، ایک بیوی کے لئے
بھی اور ایک ماں کے لئے درس کے مدنی پھول
ہیں، حسن وحسین جیسے شہزادے آپ کی عظیم تربیت کے شاہکار ہیں۔
مخدومۂ کائنات حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت مبارکہ سے یہ بھی درس
ملتا ہے کہ اِسلامی بہن کو گھر کے کام کاج کرنے میں عار محسوس نہیں کرنی چاہئے۔
بخاری شریف کی روایتوں سے پتہ
چلتا ہے کہ سیدہ رضی اللہ عنہا کا یہی معمول تھا کہ آپ اپنے گھر کے کام کاج خود اپنے
ہاتھوں سے کر لیتیں، کنویں سے پانی بھر کر اپنی مقدس پیٹھ پر مشک لاد کر
پانی لایا کرتیں، چکی پیسا کرتیں، جس سے ہاتھوں میں چھالے پڑجاتے، گھرمیں جھاڑو خود لگالیا کرتی تھیں۔
اس میں ہماری اِسلامی بہنوں کے لئے
درس کے بے شمار مدنی پھول ہیں، خاتونِ جنت
کی سیرت سے ہمیں بے شمار مدنی پھول ملے، مثلاً ہماری زندگی کا مقصد ہمیشہ عبادتِ الہی
ہونا چاہئے، تقویٰ وپرہیزگاری کو اختیار
کئے ر کھیں، پردے کے دامن کو مضبوطی سے
تھام لیں، عاجزی و انکساری کی پیکربن جائیں،
اپنے شوہر کی اطاعت کرنے والی بن جائیں۔
اللہ پاک شہزا دی کونین کی سیرت پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سیّدہ فاطمہ کے چلنے کا انداز:
حضرت سیّدنا مسروق رحمۃ اللہ علیہ
سے روایت ہے کہ حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:"ہم اللہ عزوجل
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اَزواجِ مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع
تھیں اور ہم میں سے کوئی ایک بھی غیرحاضر نہ تھی، اتنے میں حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا وہاں تشریف لائیں، آپ رضی اللہ
عنہا کا چلنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چلنے سے ذرہ بھر مختلف نہ تھا۔(
المعجم الکبیر، ماروت عائشہ ام المومنین عن
فاطمہ، ج 9، ص373)
پیاری پیاری اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے حضرت سیدہ
فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسی محبت تھی کہ آپ رضی
اللہ عنہا کی ہر ہر اَدا سنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچے میں ڈھلی ہوئی
تھی، ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت
سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے چلنے کا انداز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے چلنے کے انداز کی طرح تھا، ہم بھی
اپنے اُوپر غور کر لیتی ہیں کہ ہم جب گھر سے نکلتی ہیں تو ہمارا کیا انداز ہوتا
ہے؟جاذبِ نظر بننے کے لیے ہم کس کس طرح کے فیشن اپناتی ہیں؟ہمارے چلنے کا انداز کیا ہوتا ہے اور چلنے میں ہم کس کی نقل
کرتی ہیں؟اِسلامی بہنوں کو گھر سے نکلتے وقت کن کن اِحتیاطوں کی ضرورت ہے۔
مکتبہ المدینہ کی مطبوعہ397 صفحات
پر مشتمل کتاب "پردے کے بارے میں سوال جواب" صفحہ 268 تا 270پر امیرِ
اہلسنت مولانا الیاس عطار قادری فرماتے ہیں:
عورت کا میک اپ کرنا کیسا؟
گھر کی چار دیواری میں صرف اپنے
شوہر کی خاطر جائز طریقے پر میک اپ کر
سکتی ہیں، بلا اجازتِ شرعی مثلاً محارم رشتے داروں کے یہاں جانے کے
موقع پر گھر سے باہر نکلنے کے لئے لالی پاؤڈر
اور خوشبو وغیرہ لگانا اور فیشن کے کپڑے پہن کر معا ذ اللہ غیر مردوں کے لئے جاذبِ
نظر بننا جیسا کہ آج کل عام رواج ہے، یہ
سخت ناجائز و گناہ ہے ، خوش قسمت ہیں وہ اِسلامی
بہنیں جن کو دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول میسر آ گیا کہ دعوتِ اسلامی نے اُنہیں
نمازیں پڑھنے کا ذہن دیا، حیا کا درس دیا،
مدنی بُرقع پہنا یا، اِسی ماحول کی برکت سے انہیں تلاوتِ قرآن کا ذہن
ملا، دُرودوسلام کی ترغیب ملی، گھر درس کی سعادت نصیب ہوئی، مٹی کے برتن میں کھانا کھانے کا ذہن ملا اور اس کے علاوہ اچھی اچھی نیتیں کرنے، اذان کا جواب دینے، توبہ کےنوافل ادا کرنے، سنت کے مطابق سونے، فضول سوالات سے بچنے، غصّہ کا علاج کرنے، آنکھ، کان، زبان کی حفاظت کرنے، باوُضو رہنے، جھوٹ، غیبت، چُغلی،حسد، تکبر، وعدہ خلافی، مذاق مسخری، طنز ، دل آزاری، نفاق سے بچنے کا ذہن اِسی مدنی ماحول سے ملا۔
یا اللہ عزوجل ہمیں سیّدہ فاطمۃ الزہرا
رضی اللہ عنہا کے چلنے کے انداز کے صدقے چلتے وقت نگاہیں نیچی رکھنے کی توفیق عطا فرما۔آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہ علیہ وسلم
اللہ پاک کے آخری نبی، محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب سے
چھوٹی، سب سے پیاری اور لاڈلی شہزادی کے
بارے میں فرمایا:"فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جو اسے ناگوار، وہ مجھے ناگوار، جو اسے پسند وہ
مجھے پسند ۔"
الحمدللہ اہلِ سنت وجماعت دیگر
تمام صحابہ و اہل بیت کی طرح حضرت بی بی
فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بھی نہایت محبت کرتے ہیں اور محبت محبوب کی سیرت کو اپنانے
پر اُبھارتی ہے ۔
ذیل میں خاتونِ جنت، بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت سے ملنے والے
چند پہلو درج ہیں:
مدارج النبوۃ میں ہے : اِمام حسن رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ٔماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ
عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسااوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول
رہتیں، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔"( شان ِخاتون جنت، ص77-76)
سبحان اللہ!خاتونِ جنت بی بی
فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کس قدر عبادت کا ذوق تھا کہ پوری پوری رات اللہ کی عبادت میں گزار دیتی تھیں، آپ رضی اللہ عنہا سے حقیقی اُلفت و محبت کا
تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف فرائض بلکہ سُنن و نوافل کی ادائیگی کو بھی اپنا معمول بنائیں۔
حضرت سیدنا ضمرہ بن حبیب رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امورِ خانہ داری(گھر کے کام
کاج وغیرہ) اپنی شہزادی کے ذمّہ لگائے اور
باہر کے کام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپُرد فرمائے۔"( شان خاتونِ جنت، ص272)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت
کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا گھر کے کام کاج کرنے کے لئے
کبھی کسی پڑوسن یا رشتہ دار کو اپنی مدد کے لئے نہیں بُلاتی تھیں اور نہ ہی کام کی
کثرت اور کسی قسم کی محنت و مُشقّت سے گھبراتی تھیں، بلکہ آپ رضی اللہ عنہا کو تو
ذکروتلاوت کا اِس قدر ذوق و شوق تھا کہ گھریلو مصروفیت کے دوران بھی زبان سے تلاوت
کا وِرد جاری رکھتیں۔
چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں:میں ایک مرتبہ حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سیّدہ
فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ حضراتِ حسنینِ کریمین سو رہے
تھے اور آپ رضی اللہ عنہا ان کو پنکھا جھل رہی تھیں اور زبان سے کلامِ الہی کی تلاوت جاری تھی، یہ دیکھ کر مُجھ پر ایک خاص حالتِ رقت طاری ہوگئی۔"
( شانِ خاتون جنت، ص83)
اُمّ المؤمنین سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا شہزادی کونین بی بی فاطمہ رضی
اللہ عنہا کی سچائی کے بارے میں فرماتی ہیں:"میں نےحضرت فاطمہ سے سچا، ان کے والد کے علاوہ کسی اور کو نہیں دیکھا۔"
( شان ِخاتون جنت، ص131)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:"جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی ندا کرے گا "اے اہلِ مجمع!اپنی
نگاہیں جھکا لو تاکہ حضرت فاطمہ بنتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پُل صراط سے گُزریں۔"(
شانِ خاتون جنت، ص314)
سبحان اللہ!نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش میں تربیت پانے
والی شہزا دی کے مرتبے کی ایک جھلک آپ نے
ملاحظہ کی کہ اللہ پاک نے آپ کو با پردہ رہنے کا ایک یہ صلہ دیا کہ روزِ محشر آپ
کی خاطر اہلِ محشر کو نگاہیں جھکانے کا حکم دیا جائے گا۔
خاتونِ جنت کی سیرت
سے ملنے والے درس کا خلاصہ:
آپ رضی اللہ عنہا نہایت عبادت
گزار* ذکراذکار کا ذوق رکھنے والی* باپردہ * نہایت سچی* گھر کے کام کاج خود انجام دینے والی* اور اس دوران تلاوتِ قرآن
کرنے والی تھیں۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں سیرت خاتونِ جنت سے ملنے والے درس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)