پیاری محترم اسلامی بہنو! آج کل ہر گھر میں ایک رواج بن چکا ہے،  کام والی رکھوانے کا یعنی جس گھر میں کام والی( ماسی) نہ ہو، اس گھر کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے، جیسے کوئی گناہ کر لیا ہو۔

آس پڑوس کی عورتیں طعن کرتی ہیں کہ اتنے کام آپ اکیلی کیسے کرتی ہیں، تھکان نہیں ہوتی تو میری محترم بہنو! سیّدِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری لاڈلی صاحبزادی، خاتونِ جنت، بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا خود اپنے ہاتھ مبارک سے تنور میں روٹیاں لگایا کرتی تھیں، جھاڑو دیتیں، چکی پیستیں، جس سے آپ کے مبارک ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے، رنگ متغیر اور کپڑے گرد آلود ہو جاتے۔

ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں طلبِ خادمہ کی غرض سے گئیں اور سُوال عرض کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تسبیحِ فاطمہ کا تحفہ عطا فرمایا کہ جب بستر پر جاؤ، 33بار سبحان اللہ، 33بارالحمدللہ اور 34بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔

تو ہمیں خاتونِ جنت کی سیرت سے یہ درس حاصل ہوتا ہے کہ کام پہاڑ جتنا ہی کیوں نہ ہو، ہمیں اللہ کے ذکر سے ہمت اور مدد مل سکتی ہے۔(شانِ خاتون جنت)


کام کاج:

جگر گوشہ رسول حضرت سیّدنا فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد جب حضرت سیدنا علی المرتضیٰ، شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کے دولت خانے میں تشریف لائیں تو گھر کے تمام کاموں کی ذمّہ داری کو بڑے احسن انداز میں نبھایا اور ہر طرح کے حالات میں اپنے عظیم المرتبت شوہر کا ساتھ دیا۔

چنانچہ حضرت سیدنا ضمرہ بن حبیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امورِ خانہ داری(مثلاً چکی پیسنے، جھاڑو دینے، کھا نا پکانے کے کام وغیرہ) اپنی شہزادی حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے سپرد فرمائے اور گھر سے باہر کے کام(مثلاً بازار سے سودا سلف لانا، اونٹ کو پانی پلانا وغیرہ) حضرت سیّدنا علی المرتضی کے ذمّہ لگادئیے۔(المصنف لا بن ابی شیبہ، کتاب الزہد، کلام علی بن ابی طالب)

ایک روایت:

ایک روایت میں ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہا نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنتِ اسد رضی اللہ عنہا کی خدمت میں عرض کی "فاطمۃ الزہرا آپ کی خدمت اورگھر کے کام کاج کیا کریں گی۔"

حضرت سیّدتنا فاطمۃ الزہرا کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ آپ خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کے لئے کبھی کسی رشتہ دار یا ہمسائی کو اپنی مدد کے لئے نہیں بلاتی تھیں، نہ کام کی کثرت اور محنت و مشقت سے گھبراتیں، ساری عمر شوہر کے سامنے حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں اور نہ ان سے کسی چیز کی فرمائش کی، کھانے کا اصول یہ تھا کہ چاہے خودفا قے سے ہوں، جب تک شوہر اور بچے نہ کھا لیتے، خود ایک لقمہ بھی منہ میں نہ ڈالتیں۔

پیاری اسلامی بہنو!معلوم ہوا کہ حیدرِ کرار، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور شہزادی رسول، حضرت فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا نے گھر میں کام کے لئے خادم نہیں رکھا، بلکہ اپنے گھر کے کام خود کیا کرتی تھیں، ہو سکتا ہے کسی کے ذہن میں آئے وہ دور اور تھا، اب اور زمانہ ہے تو سنئے کہ اس دور کی عظیم روحانی شخصیت شیخ طریقت، امیر اہلِ سنت محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتھم العالیہ کے گھر میں کبھی کوئی کام کرنے والی نہیں رکھی گئی، اس میں ہر اسلامی بہن بالخصوص امیر اہلسنت کی مریدنی، طالبہ یا محبّ اسلامی بہنوں کے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔

یادرہے:

فارغ دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے تو زیادہ مناسب یہی ہے کہ گھر کے کام کاج میں لگی رہیں۔

امیر اہلسنت فرماتے ہیں:" کرنے کے کام کرو ، ورنہ نہ کرنے کے کاموں میں پڑ جاؤ گے۔"

یاد رکھئے!خا تو نِ جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا کا گھر کا کام خود کرنا شہنشاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی و منشا کے مطابق تھا، یقیناً جو کا م شاہِ خیر الانام، محبوبِ ربّ الانام صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں، وہ ربّ کی بارگاہ میں بھی پسندیدہ اور محبوب ہے، اب ذرا غور فرمائیں کہ جس کام میں خدا و مصطفی عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا و خوشنودی ہو اس سے جی چرانا، جان چھڑانا، سستی کرنا کیسا؟ گھر میں کام کاج کی برکت سے بھائی بہنوں اور والدین کی منظورِ نظر بن جائیں گی، اگر شادی شدہ ہیں تو شوہر، نند اور ساس کے دلوں میں جگہ بن جائے گی، اگر پہلے سے ہی کام کرنے کی عادت پڑے گی تو شادی کے بعد گھر سنبھالنا آسان ہو گا اور گھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔

کئیں نادان والدین بچیوں کو کام نہیں کرنے دیتے، نتیجتاً انہیں کھانا پکانے، برتن دھونے، کپڑے دھونے، کپڑے سینے کی تربیت نہیں ہوتی، شادی کے بعد ان کے لئے آزمائش ہوتی ہے ۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا میرے پاس اپنے ہاتھ سے چکی پیستی تھیں، جس کی وجہ سے ہاتھوں میں نشان پڑ گئے تھے اور خود پانی کی مشک بھر کرلاتی تھیں، جس کی وجہ سے سینہ پر مشک کی رسی کے نشان پڑ گئے تھے اور گھرمیں جھاڑو وغیرہ خود ہی دیتی تھیں، جس کی وجہ سے تمام کپڑے میلے ہو جایا کرتے تھے۔(سنن ابی داؤد، کتاب باب فی التسبیح عندالنوم، ص790، حدیث5063)

پیاری اسلامی بہنو! گھر کا کام کاج اپنے ہاتھ سے کرنا جگر گوشہ تاجدارِ رسالت، خاتونِ جنت، اُم الحسنین رضی اللہ عنہا کی سنتِ مبارکہ ہے، اسلامی بہنیں اپنے کام خود کریں گی تو ان کاگھر خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گا۔ 


حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت سے  بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے، جن میں اپ کا ذوقِ عبادت بھی ہے:

حضرت سیدنا اِمام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسااوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔"

درس:

خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کو کس قدر عبادت کا ذوق تھا کہ پوری پوری رات اللہ کی عبادت میں گزار دیتی تھیں، آپ رضی اللہ عنہا سے حقیقی اُلفت و محبت کا تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف فرائض بلکہ سُنن و نوافل کی ادائیگی کو بھی اپنا معمول بنائیں۔( شان ِخاتون جنت، ص76)

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کثرت سے قرآن پاک کی تلاوت فرماتی تھیں کہ آپ کھانا پکانے کی حالت میں بھی قرآن پاک کی تلاوت جاری رکھتیں۔(شان ِخاتون جنت، ص92)

درس:

ہمیں بھی چاہئے کہ ہم کثرت سے قرآن پاک کی تلاوت کریں۔

حضرت فاطمۃ رضی اللہ عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے خود کو ہر اعتبار سے سنتِ رسول کے سانچے میں ڈھال رکھا تھا، عادات و اطوار، سیرت و کردار، نشست و برخاست، چلنے کے انداز، گفتگو اور صداقت و کلام میں آپ سیرتِ مصطفی کا عکس اور نمونہ تھیں۔(شان خاتونِ جنت، ص 113،114)

درس:

ہمیں بھی چاہئے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کریں، آپ کی سنت کو اپنائیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے سچا ان کے والد کے علاوہ کسی اور کو نہیں دیکھا۔(شان خاتونِ جنت، ص 131)

درس:

ہمیں بھی چاہئے کہ جھوٹ سے بچ کر ہمیشہ سچ بولیں کہ اس کی بہت برکتیں بھی ہیں۔

سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا بچپن سے ہی بے حد صابرو شاکر، متوکل، متین اور اطاعت شعار تھیں۔(شان خاتونِ جنت، ص 143)

درس:

ہمیں بھی چاہئے کہ ہم ہر چیز میں سبر صبر اور صبر کریں اور توکل کو اختیار کریں اور اپنے والدین کی اطاعت کریں۔

حضرت فاطمہ نے کبھی پیٹ بھر کر دو وقت کا کھانا نہ کھایا، جو ملتا اس کو دوسروں پر نچھاور کر دیتیں اور خود فقرو فاقہ سے زندگی بسر کرتیں۔(شان خاتونِ جنت، ص 158)

درس:

مال کم ہو یا زیادہ ہر صورت میں سخاوت کرنی چاہئے اور بخل نہیں کرنا چاہئے کہ سچے مسلمان سخی اور پیکرِ ایثار ہوتے ہیں اور مسلمانون کی تکالیف دور کرنے کی خاطر اپنی مشکلات کی ذرہ بھر پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔

درس: حضرت فاطمۃ رضی اللہ عنہا کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ آپ خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کے لئے کبھی کسی رشتہ دار یا ہمسائی کو اپنی مدد کے لئے نہیں بلاتی تھیں، نہ کام کی کثرت اور نہ کسی قسم کی محنت و مشقت سے گھبراتی تھیں، نہ آپ نے کام کے لئے خادم رکھا، بلکہ اپنے گھر کے کام خود کر لیا کرتی تھیں۔(شان خاتونِ جنت، ص 273)

درس:ہمیں بھی چاہئے کہ اپنے کام اور گھر کےکام خود کریں اور نہ اس سے گھبرائیں، ہمیں چاہئے کہ ہم خاتونِ جنت کی سیرت کے پہلو پر نظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں۔

اے اللہ ہمیں فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین 


پیارے آقا سرور کونین علیہ افضل الصلوة والتسليم کی لاڈلی اور چہیتی شہزادی  خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی زندگی اسلامی بہنوں کیلئے نمونہ حیات ہے، ان کے اسوۂ زندگی پر چل کر اور اسی کے مطابق زندگی گزار کر ربّ عزوجل اور مصطفی کریم علیہ افضل الصلوہ والتسلیم کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے، آئیے ان کی مبارک زندگی سے کچھ درس حاصل کرتی ہیں۔

خاتونِ جنت اور ذوقِ عبادت:

خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی طبیعت یہ تھی کہ ہر وقت عبادت الہیہ میں مشغول رہتیں، اپنی زبان مبارکہ سے ہمیشہ ذکرِ الہی میں مصروف رہتیں، گھریلو کام کاج کے ساتھ زبان ذکرِ الہی سے تَررہتی، ایک لمحہ بھی یادِ الہی سے غافل نہیں رہتیں۔محبتِ الہی کا تقاضہ ہے کہ زبان ہمیشہ ذکرِ الہی میں مصروف رہے، نیز ساتھ ہی دل یادِ الہی میں مشغول ہو۔

خاتونِ جنت اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم:

خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر محبت تھی کہ آپ کی ہر ہر ادا سنتِ مصطفی کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتی تھیں، ہر کام میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتیں، ہر عمل اس طرح انجام دیتیں جس طرح پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم انجام دیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصا لِ ظاہری سے آپ رضی اللہ عنہا کے قلب کو اتنا صدمہ پہنچا کہ اس کے بعد سے قبل از وفات آپ رضی اللہ عنہا کے مبارک چہرے پر صرف ایک بار ہی مسکراہٹ دیکھی گئی۔

پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے اصل محبت یہی ہے کہ ہم ان کی ہر ہر سنت پر عمل کریں اور ان کی محبت و یاد سے دل کو بسائے رکھیں۔

خاتونِ جنت اور قناعت:

خاتونِ جنت سیدہ فاطمۃ رضی اللہ عنہا اس عظیم والد کی لختِ جگر ہیں، جن کے قدموں میں زمانے بھر کے خزانے بچھے ہوئے ہیں، اس کے باوجود قناعت ایسی کہ زندگی اس حال میں گزاری کہ پوری زندگی میں کبھی دو وقت کا کھانا پیٹ بھر کر نہیں کھایا (اور یہ اختیاری تھا) اور اس پر اپنے ربّ عزوجل کا شکر بجا لاتی رہیں۔

آج ہم اتنی نعمتیں ملنے کے باوجود بھی اپنے ربّ عزوجل کی نا شکری کرتی نظر آتی ہیں، حالانکہ ہمیں بھی چاہئے ہم بھی خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کی عطا کردہ تھوڑی نعمت پر بھی راضی رہیں اور ہر حال میں شکر خداوندی بجا لائیں۔

خاتونِ جنت اور پردہ:

شہزادی کونین، جگر گوشئہ مصطفی، خاتونِ جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا انتہائی پردہ دار خاتون تھیں، آپ کے پردے کا عالم یہ تھا کہ آپ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں وصیت فرمائی کہ میرا جنازہ رات کے اندھیرے میں نکالا جائے تاکہ کسی غیر مرد کی نظر نہ پڑے۔

آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : عورت کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ نہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ کوئی غیر مرد اسے دیکھے، آپ کی چادر کے کسی حصّے پر بھی کسی غیر مرد کی نظر نہ پڑی، عظیم عاشقِ اھل بیت، اعلٰی حضرت، امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ اپنے کلام کے ایک شعر میں لکھتے ہیں:

جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے

اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام

( حدائقِ بخشش)

شرح کلامِ رضا : یعنی سیدتنا فاطمۃ الزهرا ء رضی اللہ عنہا کی چادرِ انور کا پلّو کبھی چاند اور سورج نے بھی نہیں دیکھا ، اس پاکیزہ چادر کی طہارت و پاکیزگی پہ لاکھوں سلام ہو۔

اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی مبارک چادر کے پلّو کے صدقے ہم تمام کو پردہ کرنے کی توفیق دے اور ان کی مبارک زندگی کے مطابق اپنی زندگی سنوارنے کی توفیق دے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)


حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:"بے شک فاطمہ نے پاک دامنی اختیار کی اور اللہ تعالی نے اس کی اولاد کو دوزخ پر حرام فرمادیا۔"(شانِ خاتون جنت، ص 20، المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، باب فاطمہ احصنت فرجھا۔۔ الخ،  حدیث 4779)

سیدہ، طاہرہ، عابدہ، زاہدہ، تقیہ، نقیہ، پارسا، مفتیہ، قاریہ، شہزادئ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، ملکہ طہارت خاتونِ جنت فاطمۃ الزہره رضی اللہ عنہا کی مبارک زندگی اُمّت کے لئے زبردست نمونہ ہے، آپ کی مبارک سیرت میں ہمارے لئے بہت سے درس ہیں، ان میں سے کچھ ملاحظہ ہوں۔

عبادت کا جذبہ:

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والدہ ماجدہ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہا (بسا اوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی۔(مدارج النبوة (مترجم)، قسم پنجم، در ذکر اولادِ کرام، سیدہ فاطمۃ الزہرا، ج 2، ص 623، شان خاتونِ جنت، ص 77)

حضورعلیہ الصلوہ والسلام کی لاڈلی شہزادی رضی اللہ عنہا سے محبت رکھنے والوں کے لئے ذوقِ عبادت پیدا کرنے کے لئے یہی فرمان کافی ہے۔

ایثار و سخاوت کا جذبہ:

سیّدہ خاتون جنت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا کی مبارک زندگی اس حالت میں گزری کہ کبھی پیٹ بھر کر دو وقت کا کھانا نہ کھایا، جو ملتا دوسروں پر نچھاور کر دیتیں، ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شہزادی سے ملنے تشریف لائے تو دیکھا کہ اِس قدر چھوٹی چادر اوڑھ رکھی ہے کہ سر ڈھانپتی ہیں تو پاؤں کھل جاتے ہیں اور پاؤں چھپاتی ہیں تو سر کھل جاتا ہے۔(ماخوذ از مکاشفۃ القلوب، باب فی فضل الفقراء،ص 180، شان خاتون جنت، ص 158)

ہمیں بھی اس مبارک سخاوت اور ایثار کے جذبے کو اپناتے ہوئے اپنے اندر ایثار کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے۔

حیاء کا جذبہ:

اگر حیاء اور پردے کے متعلق خواتین میں بات کی جائے تو واللہ سب سے پہلے سیدہ خاتونِ جنت کا ذکر کیا جائے گا، جس قدر آپ رضی اللہ عنہا کی حیاء تھی، اُس کی مثال نہیں مل سکتی، آپ رضی اللہ عنہا کے پردے کا یہ عالم ہے کہ قیامت کے دن منادی ندا منادی ندا کرے گا، اے اہلِ محشر !اپنی نگاہیں جھکا لو تاکہ حضرت فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پل صراط سے گزریں۔(الجامع الصغیر مع فیض القدیر، حرف الھمزہ، ج 1، ص 549، الحدیث 822، شان خاتون جنت، ص 314)

اللہ کریم اس پردے اور حیاء کے صدقے ہمیں بھی حیاء عطا فرمادے۔آمین

عشقِ رسول:

عشقِ رسول فقط دعوے کا نام نہیں، بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ محبوب اتنا اچھا لگے کہ محبّ(محبت کرنے والا) اس کی نقل کرے اور عشقِ رسول جس کو مل جائے، وہ ضرور سنتوں کا پابند ہو گا، ، سیدہ خاتونِ جنت کا کردار اپنے بابا جان صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا آئینہ دار تھا۔

الغرض جانِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شہزادی کی کیا بات بیان کریں اور کیا چھوڑیں، آپ کا ہر ہر فعل پیروی کے قابل ہے ، افسوس ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم اہلبیت سے محبت کرتے ہیں، مگر افسوس صد کروڑ افسوس!ہمیں محبوب سے اس قدر محبت ہی نہیں کہ ہم ان کی پیروی کریں، یاد رکھیں محبت اطاعت کرواتی ہے، جب محبت ہی کھوکھلی اور جھوٹےدعوؤں پر مشتمل ہو تو وہ اطاعت نہیں کرواتی، بس دکھاوا کرواتی ہے۔

سیدہ کی محبت میں اھل بیت ساداتِ کرام کی محبت بھی شامل ہے، جس طرح ساداتِ کرام سے امیر اہلسنت دامت فیوضھم محبت فرماتے ہیں، اللہ کریم ہمیں بھی محبت عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


خاتون جنت،سیدۃالنساء ، دختر مصطفےٰصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہراء رضی اللہُ عنہا کی تمام حیات مبارکہ نیکی، اخلاص، زہد و تقویٰ، عبادت، ریاضت، ذکاوت و ذہانت، خوف خدا و عشق مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، پردہ داری ، ایثار و مہربانی جیسی عادات خیر سے معمور تھی۔ آپ بہترین بیٹی، بہترین والدہ اور بہترین زوجہ رہیں۔ آپ کی زندگی مسلمان خواتین کیلئے نمونۂ حیات ہے۔

آیئے ہم مختصر طور پہ حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہراء رضی اللہُ عنہا کی سیرت مبارکہ کا جائزہ لیتے ہیں اور آپ کی سیرت مبارکہ سے اپنی زندگی کیلئے درس حاصل کرتے ہیں۔

خاتون جنت کا ذوق عبادت:

ذوق نماز:

علامہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ "مدارج النبوۃ" میں نقل فرماتے ہیں کہ سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں؛ میں نے اپنی والدہ کو دیکھا کہ آپ بسا اوقات گھر کی مسجد کی محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں یہاں تک کہ صبح طلوع ہوجاتی۔

ذوق تلاوت:

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم سے سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے دیکھا کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سو رہے ہیں اور آپ رضی اللہ عنہا انہیں پنکھا جھیل رہی ہیں اور ساتھ ساتھ زبان مبارکہ سے تلاوت قرآن کریم جاری ہے۔

پیاری اسلامی بہنوں! دیکھا آپ نے خاتون جنت رضی اللہ عنہا کو عبادت کا کس قدر شوق تھا۔ نماز کے شوق کا یہ عالم ہے کہ ساری ساری رات نماز میں گزار دیتیں اور تلاوت قرآن کا بھی شوق دیکھئے کہ کام بھی فرمارہی ہیں اور تلاوت کلام پاک بھی جاری ہے ۔ پیاری اسلامی بہنوں! ہم سیدتنا فاطمۃ رضی اللہ عنہا کی محبت کا دم بھرتی ہیں اور حقیقی محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ جس سے محبت ہو اس کی پیروی بھی کی جائے ۔ تو آئیے نیت کرلیتی ہیں کہ فرض نمازوں کی پابندی تو کرینگے ہی ساتھ ہی نفل نمازوں کیلئے بھی کوشش کرینگے۔ اور گھریلو کام کاج کے دوران ذکراللہ کا ورد جاری رکھیں گے ۔اس طرح نیکیوں میں بھی اضافہ ہوگا۔

خاتون جنت کا عشق رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :

پیاری اسلامی بہنوں! حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہراء رضی اللہُ عنہا اپنے والد محترم رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بے پناہ محبت فرمایا کرتی تھیں۔ اور پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذراسی تکلیف پہ بے چین ہوجایا کرتیں۔آئیے خاتون جنت، دختر مصطفیٰصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بانوئے مرتضی حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہراء رضی الله عنہا کا عشق رسول پہ مشتمل ایک واقعہ ملاحظہ کرتی ہیں:

ایک روز ایک نابکار نے راہ میں نبی اکرم، نور مجسم، شاہ آدم و بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سر مبارک پہ خاک ڈالدی۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسی حالت میں گھرتشریف لائے ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صاحبزادی سیدتنا فاطمہ رضی اللہُ عنہا نے دیکھا تو فورًا پانی لے کر دھونے لگیں اور روتی جاتی تھیں۔ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تسلی دیتے ہوئے فرمانے لگے : اے جان پدر! اللہتیرے باپ کو بچالےگا۔

پیاری اسلامی بہنوں دیکھا آپ نے سیدۃالنساء سیده فاطمہ رضی اللہ عنہا کا عشق رسول ۔ اللہ آپ رضی اللہ عنہا کے عشق رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہمیں بھی عشق رسول کی لازوال دولت عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامینﷺ

خاتون جنت رضی اللّٰه تعالیٰ عنہا کا پردہ

پیاری اسلامی بہنوں! ہمارے پیارے رب عزوجل نے ہماری عزت ، عصمت و عفت کی حفاظت کیلئے ہم پہ پردہ فرض فرمایا۔ آیئے جانتی ہیں کہ شہزادئ رسولﷺ و رضی اللّٰہ عنہا کا پردہ کیسا تھا۔ چنانچہ منقول ہے کہ : سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو یہ تشویش لاحق تھی کہ عمر بھر تو خود کو غیر مردوں کی نظروں سے بچائے رکھا ہے اب کہیں بعدِوفات میری کفن پوش نعش ہی پر لوگوں کی نظر نہ پڑجاۓ! ایک موقع پہ حضرت سیدتنا اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے حبشہ میں دیکھا ہے کہ جنازے پہ درخت کی شاخیں باندھ کر ایک ڈولی کی سی صورت بناکر اس پر پردہ ڈال دیتے ہیں . پھر انہوں نے کھجور کی شاخیں منگوا کر انہیں جوڑ کر اس پہ کپڑا تان کر سیدہ مخدومۂ کائنات حضرت فاطمۃ رضی اللہ عنہا کو دکھایا۔ آپ رضی اللہ عنہا بہت خوش ہوئیں اور لبوں پہ مسکراہٹ آگئی۔ بس یہی ایک تبسّم تھا جو آپ رضی اللہ عنہا نے پیارے آقاﷺ کے ظاہری وصال کے بعد فرمایا۔

جسکا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے

اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام

اس بتول جگرپارۂ مصطفیﷺ

حَجَلَہ آراۓ عفت پہ لاکھوں سلام

پیاری اسلامی بہنوں! سیدہ خاتون جنت رضی الله عنہا پیارے آقاﷺ کے وصالِ ظاہری کے بعد غمگین رہا کرتی تھیں اور آپﷺ کے وصال ظاہری کے بعد آپ رضی الله عنہا کبھی نہ مسکرائیں۔ صرف ایکبار آپ مسکرائیں اور وہ بھی جب آپ کی یہ تشویش دور ہوگئی کہ آپ رضی الله عنہا کے مبارک جنازے کا بھی پردہ رہے گا سبحان اللہ

اللہ پاک ہم کنیزان خاتون جنت کو بھی تاحیات پردہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہِ النّبی الامینﷺ

خاتون جنت اور امور خانہ داری

پیاری اسلامی بہنوں! دختر مصطفیٰ ،سیدةالنساء رضی اللہ عنہا کو عبادت و ریاضت کا ذوق و شوق تو ورثے میں ملا تھا۔ لیکن آپ رضی الله عنہا امور خانہ داری میں بھی طاق تھیں اور گھریلو کام کاج مثلاً چکی پیسنا، روٹی پکانا، جھاڑو دینا وغیرہ خود انجام دیا کرتی تھیں۔ آئیے خاتون جنت رضی الله عنہا کے گھر کے کام کاج کرنے کے بارے میں سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ تعالیٰ وجھہ الکریم کا قول مبارک پڑھتی ہیں:

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ تعالیٰ وجھہ الکریم فرماتے ہیں کہ مخدومۂ کائنات سیدہ فاطمةالزہراء رضی اللہ عنہا میرے پاس اپنے ہاتھ سے چکّی پیستی تھیں جسکی وجہ سے ہاتھوں میں نشان پڑگئے تھے اور خود پانی کی مشک بھر کر لاتی تھیں جسکی وجہ سے مشک کی رسی کے نشان سینۂ مبارک پہ پڑ گئے تھے اور گھر میں جھاڑو وغیرہ دیا کرتی تھیں جسکی وجہ سے تمام کپڑے میلے ہوجایا کرتے تھے۔

پیاری اسلامی بہنوں! دیکھا آپ نے سیدہ خاتون جنت رضی الله عنہا جنتی عورتوں کی سردار ہیں، آقائے دوجہاںﷺ کی شہزادی ہیں اور گھر کے کام بھی فرماتی تھیں۔ حضرت علامہ عبدالمصطفی اعظمی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں: عورت کے فرائض میں یہ بھی ہے کہ اگر شوہر غریب ہو اور گھریلو کاموں کیلئے ملازمہ رکھنے کی طاقت نہ ہو تو گھر کے کام خود کیا کریں۔اس میں ہرگز ہرگز نہ عورت کیلئے کوئی ذلت ہے نہ شرم۔

اللہ عزوجل خاتون جنت رضی اللہ عنہا کی سیرت مبارکہ پہ ہم کنیزان خاتون جنت کو عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔اور ہماری زندگیوں کو سنتوں کے سانچے میں ڈھلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النّبی الامینﷺ

صادقہ صالحہ صائمہ صابرہ

صاف دل نیک خو پارسا شاکرہ

عابدہ زاہدہ ساجدہ ذاکرہ

سیِّدہ زاہرہ طیِّبہ طاہرہ

جان احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام


نام، القاب:

نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا، سیدۃ النساء العلمین، صدیقہ، طاہرہ اور بتول ہیں۔

کنیت:

آپ کی مشہور کنیت "ام الائمہ"ہے۔

آپ کا اخلاق:

حضرت فاطمۃ الزہرا اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ کی صفات کا واضح نمونہ تھیں اور حضرت فاطمۃ الزہرا اپنے شوہر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے ایک دلسوز زوجہ تھیں، آپ کے قلبِ مبارک میں اللہ عزوجل کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی نقش نہ تھا، زمانہ جاہلیت کی بُت پرستی سے آپ کو سوں(یعنی بہت دور تھیں)، فاطمۃ الزہرا(اس خاتون کا نام ہے جس) نے اسلام کے مکتبِ تربیت میں پرورشی پائی تھی اور ایمان و تقویٰ اور خوفِ خدا، نمازوں کی پابندی اور ایک رکعت میں پندرہ پارے پڑھنا نوافل میں اور دوسری رکعت میں اگلے پندرہ پارے ، سبحان اللہ یہ ہے ان کی عبادت و ریاضت، ہمیں ان کے اخلاق و کردار سے کیا سبق ملا کہ ہمارے اندر خوفِ خدا، نمازوں کی پابندی ہونی چاہئے، ہمیں بھی اللہ والوں کی سیرت کے بارے میں مطالعہ کرنا چاہئے تا کہ ہمیں ان کی سیرت سے درس ملے ۔

طینت پاک تو مارا رحمت است

قوت دین و اساس ملت است

شعر کا ترجمہ:

آپ کے اخلاق و عادات ہمارے لئے باعثِ رحمت ہیں، آپ کا وجود دین کے لئے قوت اور ملت کے لئے اساس و بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔

حضرت فاطمۃالزہرہ رضی اللہ عنہا کا پردہ:

سیّدِہ عالم نہ صرف اپنی سیرتِ زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لئے پردہ کی اہمیت پر بہت زور دیتی تھیں، جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ حضرت فاطمۃ الزہرا میں شرم و حیا کا جوہر بدرجہ کمال موجود تھا، آپ کا یہ حجاب قدرتی شر م وحیا کی وجہ سے تھا، کیونکہ نزولِ آیات حجاب بعد میں ہوا اور جب پردے کا احکام نازل ہوئے تو آپ مزید پردہ کرنے لگیں، عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لڑکیاں میکہ میں پردہ کی پرواہ نہیں کرتیں، اگر کرتی بھی ہیں تو محض برائے نام اوڑھنی اوڑھ لیتی ہیں، لیکن سیّدہ فاطمہ جیسے میکے میں پردے کی پابند تھیں، ویسے ہی سسرال میں تھیں۔

چنانچہ!

ایک بار احباب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی صحابی کو دفن کر کے آ رہے تھے کہ مل راہ میں سیدہ مل گئیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:

بیٹی کہاں گئی تھیں اور گھر سے کیوں نکلی ہیں؟ سیدہ عالم نے فرمایا" ہمسایہ کے گھر میں موت ہو گئی تھی، تعزیت کے لئے گئی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے کا یہ مطلب تھا کہ کہیں بلا ضرورت تو گھر سے نہیں نکل آئیں اور آپ نے اس لئے پوچھا کہ آپ اپنے گھر کے پردے کا نمونہ کائنات کے سامنے پیش کرنا تھا۔

اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ اسلام نے عورتوں کو مجبور مقید کر دیا ہے اور انہیں گھر کی چار دیواری سے باہر نکلنے کی اجازت ہی نہیں نکلنا چاہئے، مگر با پردہ ہو کر ۔

ردائت پروہ ناموس ما

تاب تو سرمایہ فانوس ما

شعر کا ترجمہ:

سیّدہ فاطمۃ الزہرا آپ کی عظمت ِچادر اصل عزت و ناموس کا پردہ ہے، آپ کی جلوہ گری ہماری ملت کے فانوس کا سرمایہ ہے ۔


حضرت سیّدتنا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی،  لاڈلی شہزادی ہیں، آپ رضی اللہ عنہا فاتحِ خیبر، شیرِ خدا حضرت سیّدنا مولا علی مشکل کشا، علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ اور جنتی خواتین کی سردار ہیں، آپ نہایت عبادت گزار، متقی اور پاک باز خاتون تھیں، اس لئے آپ کو عابدہ، زاہدہ اور طاہرہ بھی کہا جاتا ہے، آپ رضی اللہ عنہا اخلاق و آداب، گفتارو کردار میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت مشابہت رکھتی تھیں۔

آپ کے پردے کا یہ عالم تھا کہ آپ کو یہ تشویش تھی کہ عمر بھر غیر مردوں کی نظروں سے چھپا ہے اب کہیں وفات کے بعد میری کفن پوش لاش میں لوگوں کی نظر نہ پڑ جائے، ایک موقع پر حضرت سیّدتنا اسماء بنت بن عمیس رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے حبشہ میں دیکھا ہے کہ جنازےپر درخت کی شاخیں باندھ کر ایک ڈولی کی صورت بنا دی جاتی ہے، پھر سیّدتنا عمیس نے کھجور کی شاخیں منگواکر اسے جوڑا اور اس پر کپڑا ڈال دیا، اس پر سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا بہت زیادہ خوش ہوئیں۔( جذب القلوب مترجم، 231)

سیدہ فاطمہ کی سیرت ہماری بہنوں اور بیٹیوں کے لئے کامل اکمل نمونہ ہیں اس بے حیائی کے ماحول میں جبکہ میڈیا بے لگام ہے سوشل میڈیا قیامت ڈھا رہا ہے، آنکھوں سے حیا اڑ گئی ہے،سوچوں میں آوارگی آگئی ہے، لباس سمٹ سمٹ کر بالکل واجبی سا رہ گیا ہے، اور حیا قصہ پارینہ بن گیا ہے، اڑھتے ہوئے آنچل لہراتے ہوئے دوپٹے اور بکھرے ہوئے بالوں نے حیا کا جنازہ نکال دیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم سیدہ فاطمہ کی سیرت کو مشعل راہ بنائیں۔

مذراء تسلیم راہ حاصل بتول

مادراء اسوہ کامل بتول

"تسلیم کی کھیتی کا جو حاصل ہے پھل ہے، وہ سیدنا فاطمہ ہیں اور ماؤں کے لئے کامل نمونہ سیدنا فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں۔

یاد رکھیں عورت کا دائرہ کار گھر ہے، چاردیواری ہے، اس چاردیواری کے ماحول کو خوشگوار رکھیں، سیدنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کے لئے کامل نمونہ ہے، اللہ تعالی ان کے نقوش پاک کی برکتیں، ان کے وجود سے وابستہ رحمتیں ہماری ماں، بیٹیوں اور بہنوں کو نصیب فرما، اے اللہ ہمیں اسوہ رسول پر گامزن کر دے۔آمین 


خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی زندگی سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت  کی اسلامی بہنوں کے لئے رول ماڈل ہیں کہ اِسلامی بہنیں آپ کی زندگی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آخرت کی تیاری کا سامان کر سکتی ہیں، اس طرح ان کی زندگی کی سیرت مبارکہ سے یہ بھی سبق حاصل ہوتا ہے کہ ایک اِسلامی بہن کا اِسلامی معاشرے میں کیا کردار ہونا چاہئے کہ ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے گھر والوں، پڑوسیوں اور رشتہ داروں اور اولاد کی تربیت میں بہترین کردار ادا کر سکتی ہے۔

اِس طرح ہم ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے معاشرے کی خامیوں، برائیوں اور فساد سے بچ سکتی ہیں، اس طرح آپ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اچھا اور اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، نیکیوں پر عمل کرنے اور گناہوں سے بچنے، سنتوں پر چلنے کا ذہن بنتا ہے، اس طرح حدیث مبارکہ میں ہے "جو کسی قوم سے مشابہت کرے گا تو وہ انہی میں سے ہوگا"، اس طرح ہم خاتونِ جنت کی سیرت مبارکہ پر عمل کریں گے تو انشاء اللہ عزوجل جنت میں بھی ان ہی کے ساتھ ہوں گے، ان ہی کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرنے ہی میں نجات ہے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والی اِسلامی بہن کی دنیا بھی سنورتی ہے اور آخرت بھی سنورتی ہے اور ان کی سیرت مبارکہ پر ہمیں عمل کرنے کا جذبہ ملتا ہے۔ اللہ کریم ہمیں ان کی سیرت مبارکہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


بتول و فاطمہ زہرا لقب اس واسطے پایا

کہ دنیا میں رہیں اور دیں پتہ جنت کی نگہت کا

جس طرح ایک باادب کامل مرید اپنے کامل پیر کی پہچان بنتا ہے اور اچھا قابل شاگرد اپنے قابل اُستاد کی پہچان بنتا ہے، ایک سُلجھی ہوئی بیٹی اپنی ماں کی صلاحیتوں کی آئینہ دار ہوتی ہے، بلکہ اسی طرح امّتِ محبوب کی نسوانیت کا جب ذکر چھڑتا ہے اور بات کردار کی ہورہی ہو تو سب سے پہلا نام جو لبوں سے نکلتا ہے، وہ" خاتونِ جنت سیدہ فاطمہ الزھرا" کا اِسمِ گرامی ہے۔

ذوق عبادت:

حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی مدارجُ النبوہ میں نقل فرماتے ہیں، حضرت سیدنا اِمام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"کہ میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسااوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی۔"حقیقی اُلفت و محبت کا تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف فرائض بلکہ سنن و نوافل کی ادائیگی کو بھی اپنا معمول بنائیں۔

پردہ و حیا کا درس:

حافظ الحدیث حضرت امام عبدالرحمٰن جلال الدّین سیوطی شافعی علیہ الرحمہ نے امیرالمؤمنین، مولائے کائنات، علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ سرکارِ دوعالم ، نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشادِ معظم ہے:"جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی ندا کرے گا، اے اہلِ مجمع!اپنی نگاہیں جھکا لو تاکہ حضرت فاطمہ بنتِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پُل صراط سے گزریں۔"(الجامع الصغیر مع فیض القدیر، حرف الھمزہ، ج1، ص 549، الحدیث 822)

وہ ردا جس کی تطہیر اللہ کرے

آسمان کی نظر بھی نہ جس پر پڑے

جس کا دامن نہ سہواً ہوا چھو سکے

جس کا آنچل نہ دیکھا مہہ و مہر نے

اس ر دائے نزاہت پہ لاکھوں سلام

پردے کے بغیر عورت کا معاشرے میں مقام نہیں بنتا، کیونکہ مقام اسی کو ملتا ہے جو اپنی عزت کا خیال رکھتا ہے، ہمارے معاشرے میں عورتیں باپردہ اور حیادار طریقے سے رہیں تو بہت سی برائیاں خود ہی دم توڑ دیں گی۔

خاتونِ جنت کا نکاح و جہیز:

رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی شہزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب نکاح کی عمر کو پہنچیں تو کئی نیک خصلت ذہنوں میں آپ کا خیال آیا، مگر محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم خدائی فیصلے کے منتظر تھے، بالآخر حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کا انتخاب ہوا۔

جہیز میں روئی دار بستر، کھجور کے درخت کی چھال بھرا تکیہ، چاندی کے کنگن، لکڑی کی جوتی اور چکّی شامل تھے، آج اگر ہمارے معاشرے میں بھی سادگی کے ساتھ شادی کی تقریب منعقد کی جائے تو غریب والدین کے وہ سر جو جوان اولاد کے فرض ادا نہ ہونے کی وجہ سے جھکے ہوئے ہیں، وہ فخر سے بلند ہو سکتے ہیں۔

امورِ خانہ داری:

سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا نبیوں کے سردار کی بیٹی گھر کے سب کام خود کرتی تھیں، کوئی خادم نہیں رکھا یہاں تک کہ چکی پیس پیس کر ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے، آج کل ہمارے معاشرے میں بچیوں کو دنیاوی تعلیم کی ڈگریاں تو بہت اعلٰی دِلوائی جاتی ہیں، مگرگھریلو کام کاج میں بالکل دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

ہمیں سیّدہ خاتونِ جنت کی سیرت سے یہ درس ملتا ہے کہ خواہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد، ہر معاملے میں اخلاقی اقدار کو اپناتے ہوئے تن دہی سے کام لیں، اگر عورت بیٹی کے روپ میں ہے تو والدین اور بہن بھائیوں کی خدمت میں کوئی کمی نہ کرے، اگر عورت بیوی کے رُوپ میں ہے تو شوہر کی خدمت اور اس کے گھر کی حفاظت کرے اور اگر عورت ماں کے روپ میں ہے تو بچوں کی پرورش اور تربیت اسلام کے مطابق کرے، اس کے علاوہ وہ مُسلم گھرانے کی خاتون ہونے کے لحاظ سے اچھی معلمہ، مبلغہ بھی بنے تا کہ اسلام کی ترویج ہو اور سنتوں کابول بالا ہو۔


حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا شہنشاہِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں،  آپ کا نام" فاطمہ" اور لقب "زاہرہ" اور "بتول" ہے، آپ رضی اللہ عنہا کی ولادتِ باسعادت اعلانِ نبوت سے ایک سال قبل ہوئی۔

حضرت علی شیرِخدا رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح ہوا، ان کے شکم مبارک سے تین صاحبزادگان حضرت حسن، حسینرضی اللہ عنہ اور حضرت محسن رضی اللہ عنہ اور تین صاحبزادیوں حضرت زینب و کلثوم اور رقیہ رضی اللہ عنہن کی ولادت ہوئی۔

قابلِ رشک خاتون:

ایک مرتبہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ مسلمان عورت کے اوصاف کیا ہیں؟

انہوں نے عرض کیا کہ عورت کو چاہئے کہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے، اپنی اولاد پر شفقت کرے اور اپنی نگاہ نیچی رکھے، اپنی زینت چھپائے، نہ خود غیر کو دیکھے اور نہ غیر اس کو دیکھنے پائے"، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم صاحبزادی کا جواب سن کر خوش ہوئے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ترجمہ:"فاطمہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، جو اس کو ناراض کرے گا وہ مجھ کو ناراض کرے گا۔"(صحیح بخاری، ج1 ، صفحہ نمبر532)

رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:سَیّدَۃُ نِسَاءِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ۔ ترجمہ:"فاطمہ اہلِ جنت کی خواتین کی سردار ہیں۔"

آپ رضی اللہ عنہا گھر کا کام کا ج خود کرتی تھیں، آپ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کا احترام کرنے والی خاتون تھیں، ایک روز حضرت علی رضی اللہ عنہ گھرتشریف لائے اور فوراً کچھ کھانے کو مانگا، سیدہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ تین روز سے گھر میں اناج کا ایک دانہ تک نہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا:"آپ نے بتایا نہیں، جواباً سیّدہ نے فرمایا اے شوہرِ محترم! میرے والدِ گرامی صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصتی کے وقت مجھے یہ نصیحت کی تھی کہ میں کبھی کوئی سوال کر کے آپ کو شرمندہ نہ کروں۔"

پردہ کا اہتمام:

آپ رضی اللہ عنہا پردے کا اہتمام فرمانے والی خاتون تھیں، ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہا بیمار ہوگئیں، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک جانثار حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیا اور اپنی لختِ جگر کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے، دروازے پر پہنچ کر داخلے کی اجازت مانگی، اندر سے سیدہ رضی اللہ عنہا کی آواز آئی، تشریف لائیے"

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" میرے ساتھ عمران حصین بھی ہیں۔" آپ نے عرض کی ابّا جان!"اس خدا کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے، میرے پاس ایک عبا کے سوا کوئی دوسرا کپڑا نہیں ہے کہ جس سے پردہ کروں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر مبارک اندر پھینک دی اور فرمایا:" بیٹی اس سے پردہ کرلو۔"

سخاوت:

آپ رضی اللہ عنہا بہت سخی تھیں، آپ رضی اللہ عنہا سخاوت کی پیکر تھیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ساری رات ایک باغ سینچا اوراُجرت لے کر آٹا پیسا اور کھانا تیار کیا، عین کھانے کے وقت ایک مسکین نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا" میں بھوکا ہوں" حضرت سیّدہ رضی اللہ عنہا نے وہ سارا کھانا اسے دے دیا، پھر باقی اناج میں سے کچھ حصّہ پیسا اور کھانا پکایا، ابھی کھانا پک کر تیار ہوا ہی تھا کہ ایک یتیم نے دروازہ پر آکر دستِ سوال دراز کیا، وہ سب کھانا اس کو دے دیا، پھر انہوں نے باقی اناچ پیسا اور کھانا تیار کیا، اس مرتبہ ایک مشرک قیدی نے اللہ کی راہ میں کھانا مانگا، وہ سب کھانا اس کو دے دیا، غرض سب اہلِ خانہ نے اس دن فاقہ کیا، اللہ تعالی کو ان کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ اس گھر کے قدسی صفات مکینوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَّیَتِیْماً وَّاَسِیْراً۔

ترجمہ کنز الایمان: اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اَسِیر(قیدی) کو

(پ29، الدھر: 8)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت:

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے والد سے بہت محبت کرتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی بیٹی سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے، ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازراہِ محبت کھڑے ہو جاتے اور شفقت سے ان کی پیشانی کو بوسہ دیتے اور اپنی نشست سے ہٹ کر اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ بھی کھڑی ہو جاتیں، محبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک چومتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔( ابو داؤد)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے قلبِ مبارک پر بہت ہی بڑا صدمہ گزرا، چنانچہ وصالِ اقدس کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کبھی ہنستی دکھائی نہیں دیں۔

وصال :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چھ ماہ بعد 3 رمضان 11ھ منگل کی رات میں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔

حضرت علی یا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور سب سے زیادہ صحیح اور مختار قول یہی ہے کہ جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔( مدارج النبوۃ، جلد 2، ص461)

(بحوالہ سیرتِ مصطفی اور اور ذکرِخاتون جنت)


سیّدہ  فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذوقِ نماز:

حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی مولوی رحمۃ اللہ علیہ مدارج النبوۃ میں نقل فرماتے ہیں: حضرت سیدنا اِمام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسااوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی۔"

پیاری پیاری اسلامی بہنو! خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کو کس قدر عبادت کا شوق و ذوق تھا کہ پوری پوری رات اللہ عزوجل کی عبادت میں گزار دیتی تھیں، لہذا آپ رضی اللہ عنہا سے حقیقی الفت و محبت کا تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف فرائض بلکہ سنن و نوافل کی ادائیگی کو بھی اپنا معمول بنائیں۔( المدینۃ العلمیہ، شانِ خاتون جنت، صفحہ نمبر 77، 76)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتونِ جنت کو زہد کی تعلیم:

صحابی رسول حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ پیارے پیارے آقا، میٹھے میٹھے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے شہزادی حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے تو آپ رضی اللہ عنہا نے اپنی گردن میں پہنا ہوا سونے کا ہار پکڑ کر عرض کی:یہ ابو الحسن(یعنی حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے مجھے تحفے میں دیا ہے۔ امام الزہدین، سید المحبوبین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہزادی رضی اللہ عنہا کی تربیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:"اے فاطمہ! کیا لوگوں کے اس طرح کہنے سے تمہیں خوش ہوگی کہ" فاطمہ بنتِ محمد" کے ہاتھ میں آگ کا ہا رہے ۔یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بغیر ہی تشریف لے گئے، اس کے بعدام السادات حضرت سیّدتنا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے وہ ہار دے کر ایک غلام خریدا، پھر اسے آزاد کر دیا، جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"اَلْحَمْدُلِلہِ الَّذِیْ نَجَّی فَاطِمَۃَ مِنَ النَّار۔یعنی سب خوبیاں اللہ عزوجل کو جس نے فاطمہ کو آگ سے نجات عطا فرمائی۔

اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ آمین بجاہ نبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

پیاری پیاری اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے پیارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہزادی خاتونِ جنت حضرت سیّدتنا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی کیسی تربیت فرمائی، اگرچہ اسلامی بہنوں کو سونے کے زیورات پہننا جائز ہیں، لیکن امامُ الزاہد ین، سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہزادی کو زہدکی تعلیم دیتے ہوئے اس سے منع فرما دیا، یاد رہے! اولاد کی صحیح دینی تربیت کرنا، انہیں علمِ دین کی لازوال نعمت سے بہرہ ور کرنا اور اچھے اخلاق سکھانا والدین کی ذمہ داری ہے۔(شان خاتون جنت، صفحہ نمبر388,386,387)

حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا تو ا نتہائی درجہ باپردہ ہیں، آپ کا جنازہ بھی پردے میں اٹھایا گیا، یہاں تک کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ بروزِ قیامت بھی آپ کے شرم و حیا کا مکمل لحاظ رکھتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہا کی آمد پر تمام اہلِ محشر کونگاہیں جھکانے کا حکم دیا جائے گا۔( شان خاتون جنت، صفحہ نمبر353)

ہمیں بھی چاہئے کہ خا تونِ جنت رضی اللہ عنہا کی سیرت پر چلتے ہوئے زندگی بسر کریں۔