حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا شہنشاہِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں،  آپ کا نام" فاطمہ" اور لقب "زاہرہ" اور "بتول" ہے، آپ رضی اللہ عنہا کی ولادتِ باسعادت اعلانِ نبوت سے ایک سال قبل ہوئی۔

حضرت علی شیرِخدا رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح ہوا، ان کے شکم مبارک سے تین صاحبزادگان حضرت حسن، حسینرضی اللہ عنہ اور حضرت محسن رضی اللہ عنہ اور تین صاحبزادیوں حضرت زینب و کلثوم اور رقیہ رضی اللہ عنہن کی ولادت ہوئی۔

قابلِ رشک خاتون:

ایک مرتبہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ مسلمان عورت کے اوصاف کیا ہیں؟

انہوں نے عرض کیا کہ عورت کو چاہئے کہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے، اپنی اولاد پر شفقت کرے اور اپنی نگاہ نیچی رکھے، اپنی زینت چھپائے، نہ خود غیر کو دیکھے اور نہ غیر اس کو دیکھنے پائے"، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم صاحبزادی کا جواب سن کر خوش ہوئے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ترجمہ:"فاطمہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، جو اس کو ناراض کرے گا وہ مجھ کو ناراض کرے گا۔"(صحیح بخاری، ج1 ، صفحہ نمبر532)

رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:سَیّدَۃُ نِسَاءِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ۔ ترجمہ:"فاطمہ اہلِ جنت کی خواتین کی سردار ہیں۔"

آپ رضی اللہ عنہا گھر کا کام کا ج خود کرتی تھیں، آپ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کا احترام کرنے والی خاتون تھیں، ایک روز حضرت علی رضی اللہ عنہ گھرتشریف لائے اور فوراً کچھ کھانے کو مانگا، سیدہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ تین روز سے گھر میں اناج کا ایک دانہ تک نہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا:"آپ نے بتایا نہیں، جواباً سیّدہ نے فرمایا اے شوہرِ محترم! میرے والدِ گرامی صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصتی کے وقت مجھے یہ نصیحت کی تھی کہ میں کبھی کوئی سوال کر کے آپ کو شرمندہ نہ کروں۔"

پردہ کا اہتمام:

آپ رضی اللہ عنہا پردے کا اہتمام فرمانے والی خاتون تھیں، ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہا بیمار ہوگئیں، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک جانثار حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیا اور اپنی لختِ جگر کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے، دروازے پر پہنچ کر داخلے کی اجازت مانگی، اندر سے سیدہ رضی اللہ عنہا کی آواز آئی، تشریف لائیے"

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" میرے ساتھ عمران حصین بھی ہیں۔" آپ نے عرض کی ابّا جان!"اس خدا کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے، میرے پاس ایک عبا کے سوا کوئی دوسرا کپڑا نہیں ہے کہ جس سے پردہ کروں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر مبارک اندر پھینک دی اور فرمایا:" بیٹی اس سے پردہ کرلو۔"

سخاوت:

آپ رضی اللہ عنہا بہت سخی تھیں، آپ رضی اللہ عنہا سخاوت کی پیکر تھیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ساری رات ایک باغ سینچا اوراُجرت لے کر آٹا پیسا اور کھانا تیار کیا، عین کھانے کے وقت ایک مسکین نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا" میں بھوکا ہوں" حضرت سیّدہ رضی اللہ عنہا نے وہ سارا کھانا اسے دے دیا، پھر باقی اناج میں سے کچھ حصّہ پیسا اور کھانا پکایا، ابھی کھانا پک کر تیار ہوا ہی تھا کہ ایک یتیم نے دروازہ پر آکر دستِ سوال دراز کیا، وہ سب کھانا اس کو دے دیا، پھر انہوں نے باقی اناچ پیسا اور کھانا تیار کیا، اس مرتبہ ایک مشرک قیدی نے اللہ کی راہ میں کھانا مانگا، وہ سب کھانا اس کو دے دیا، غرض سب اہلِ خانہ نے اس دن فاقہ کیا، اللہ تعالی کو ان کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ اس گھر کے قدسی صفات مکینوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَّیَتِیْماً وَّاَسِیْراً۔

ترجمہ کنز الایمان: اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اَسِیر(قیدی) کو

(پ29، الدھر: 8)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت:

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے والد سے بہت محبت کرتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی بیٹی سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے، ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازراہِ محبت کھڑے ہو جاتے اور شفقت سے ان کی پیشانی کو بوسہ دیتے اور اپنی نشست سے ہٹ کر اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ بھی کھڑی ہو جاتیں، محبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک چومتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔( ابو داؤد)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے قلبِ مبارک پر بہت ہی بڑا صدمہ گزرا، چنانچہ وصالِ اقدس کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کبھی ہنستی دکھائی نہیں دیں۔

وصال :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چھ ماہ بعد 3 رمضان 11ھ منگل کی رات میں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔

حضرت علی یا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور سب سے زیادہ صحیح اور مختار قول یہی ہے کہ جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔( مدارج النبوۃ، جلد 2، ص461)

(بحوالہ سیرتِ مصطفی اور اور ذکرِخاتون جنت)