بتول و فاطمہ زہرا لقب اس واسطے پایا
کہ
دنیا میں رہیں اور دیں پتہ جنت کی نگہت کا
جس طرح ایک باادب کامل مرید اپنے
کامل پیر کی پہچان بنتا ہے اور اچھا قابل شاگرد اپنے قابل اُستاد کی پہچان بنتا ہے، ایک سُلجھی ہوئی بیٹی اپنی ماں کی صلاحیتوں کی آئینہ دار ہوتی ہے،
بلکہ اسی طرح امّتِ محبوب کی نسوانیت کا
جب ذکر چھڑتا ہے اور بات کردار کی ہورہی ہو تو سب سے پہلا نام جو لبوں سے نکلتا ہے،
وہ" خاتونِ جنت سیدہ فاطمہ
الزھرا" کا اِسمِ گرامی ہے۔
ذوق عبادت:
حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث
دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی مدارجُ النبوہ میں نقل فرماتے ہیں، حضرت سیدنا اِمام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"کہ
میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ
(بسااوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ
صبح طلوع ہو جاتی۔"حقیقی اُلفت و
محبت کا تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف فرائض بلکہ
سنن و نوافل کی ادائیگی کو بھی اپنا معمول بنائیں۔
پردہ و حیا کا درس:
حافظ الحدیث حضرت امام عبدالرحمٰن جلال الدّین
سیوطی شافعی علیہ الرحمہ نے امیرالمؤمنین، مولائے کائنات، علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ
سرکارِ دوعالم ، نورِ مجسم صلی اللہ علیہ
وسلم کا اِرشادِ معظم ہے:"جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی ندا کرے گا، اے اہلِ مجمع!اپنی نگاہیں جھکا لو تاکہ حضرت
فاطمہ بنتِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پُل صراط سے گزریں۔"(الجامع الصغیر
مع فیض القدیر، حرف الھمزہ، ج1، ص 549، الحدیث 822)
وہ ردا جس کی تطہیر اللہ کرے
آسمان کی نظر بھی نہ جس پر پڑے
جس کا دامن نہ سہواً ہوا چھو سکے
جس کا آنچل نہ دیکھا مہہ و مہر نے
اس ر دائے نزاہت پہ لاکھوں سلام
پردے کے بغیر عورت کا معاشرے میں
مقام نہیں بنتا، کیونکہ مقام اسی کو ملتا
ہے جو اپنی عزت کا خیال رکھتا ہے، ہمارے
معاشرے میں عورتیں باپردہ اور حیادار طریقے سے رہیں تو بہت سی برائیاں خود ہی
دم توڑ دیں گی۔
خاتونِ جنت کا نکاح
و جہیز:
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی شہزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب نکاح کی عمر کو پہنچیں
تو کئی نیک خصلت ذہنوں میں آپ کا خیال آیا، مگر محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم خدائی فیصلے
کے منتظر تھے، بالآخر حضرت علی کرم اللہ
تعالی وجہہ الکریم کا انتخاب ہوا۔
جہیز میں روئی دار بستر، کھجور کے درخت کی چھال بھرا تکیہ، چاندی کے کنگن،
لکڑی کی جوتی اور چکّی شامل تھے، آج اگر ہمارے معاشرے میں بھی سادگی کے ساتھ شادی
کی تقریب منعقد کی جائے تو غریب
والدین کے وہ سر جو جوان اولاد کے فرض ادا نہ ہونے کی وجہ سے جھکے ہوئے ہیں، وہ فخر سے بلند ہو سکتے ہیں۔
امورِ خانہ داری:
سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا نبیوں
کے سردار کی بیٹی گھر کے سب کام خود کرتی
تھیں، کوئی خادم نہیں رکھا یہاں تک کہ چکی پیس پیس کر ہاتھوں میں
چھالے پڑ جاتے تھے، آج کل ہمارے معاشرے
میں بچیوں کو دنیاوی تعلیم کی ڈگریاں تو بہت اعلٰی دِلوائی جاتی ہیں، مگرگھریلو کام کاج میں بالکل دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
ہمیں سیّدہ خاتونِ جنت کی سیرت سے
یہ درس ملتا ہے کہ خواہ حقوق اللہ ہوں یا
حقوق العباد، ہر معاملے میں اخلاقی اقدار
کو اپناتے ہوئے تن دہی سے کام لیں، اگر عورت بیٹی کے روپ میں ہے تو والدین اور بہن
بھائیوں کی خدمت میں کوئی کمی نہ کرے، اگر عورت بیوی کے رُوپ میں ہے تو شوہر کی
خدمت اور اس کے گھر کی حفاظت کرے اور اگر عورت ماں کے روپ میں ہے تو بچوں کی پرورش
اور تربیت اسلام کے مطابق کرے، اس کے
علاوہ وہ مُسلم گھرانے کی خاتون ہونے کے
لحاظ سے اچھی معلمہ، مبلغہ بھی بنے تا
کہ اسلام کی ترویج ہو اور سنتوں کابول بالا ہو۔