تمام حمدو ثناء ربِّ ذوالجلال کے لئے اور تمام دُرود و سلام رب کے پیارے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے،  سیرت سے مراد کسی بھی شخصیت کی عادات و اطوار، کردار و اوصاف ہوتے ہیں اور کسی بھی شخصیت سے ملنے والے موتیوں کو اپنی زندگی میں شامل کرنے سے قبل ان کی شخصیت کے بارے میں جاننا ضروری ہوتا ہے ۔

فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ"فاطمہ میری بیٹی، میرے بدن کی ایک بوٹی ہے، جس نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔"ایک اور جگہ فرمایا:"فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدۃ االنساء العالمین(تمام جہان کی عورتوں کی سردار اور سیدہ نساء اہل الجنۃ، اہلِ جنت کی تمام عورتوں کی سردار) ہیں۔(مشکوٰۃ، ص 568، مناقب اہلِ بیت و زرقانی، ج 3، ص 204)

آپ رضی اللہ عنہا زوجہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ رحمتِ عالمیان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شہزادی، حضرت امام حسن، حضرت امام حسین و حضرت محسن رضی اللہ عنہ، زینب، ام کلثوم و رقیہ رضی اللہ عنہن کی والدہ ماجدہ اور تمام عالم کی عورتوں کی سردار اور اہلِ جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔(سیرتِ مصطفی، ص 28 مدینۃ العلمیہ)

وہ ذاتِ مقدسہ کہ جواس لجپال گھرانے سے ہیں کہ جن کا بچہ بچہ نور کا ہے، ان کی سیرتِ پاک کے کیا کہنے ۔۔

صحابہ کی کنیز ہوں اور اہلِ بیت کی خادمہ

یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہے عنایت یارسول اللہ

میں قربان ہوں ان کے نقشِ قدم پر

میرا دین و ایمان ان کی ادا ہے

رُکنِ شوریٰ نے فرمایا تھا کہ" علم راستہ ہے تو ذکر روشنی، ہمیں یعنی اِسلامی بہنوں کو اگر کامیابی کا زینہ طے کرنا ہے تو اپنے اسلاف سے متعلق علم بھی حاصل کرنا ہو گا اور ان کا مسلسل ذکرِ اطہر بھی کرنا ہوگا، تبھی ہم ان کے وصف و اوصاف کو اپنی زندگی کا حصّہ بنا پائیں گے۔

ہمیں حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی سیرتِ مبارکہ سے والدین سے محبت، اولاد سے محبت، اپنے زوج کی خدمت، تقوی، پرہیز گاری، شکر،ذکر، فکر، خدمت، صلہ رحمی، حیاء، ایمان کی تقو یت، تربیت، گھر داری، سلیقہ شعاری، طریقہ، سلیقہ، مینجمینٹ، وقت کا صحیح استعمال غرض کیا کچھ نہیں ملتا، اگر اس میں سے چند موتی ہم اپنی زندگی کے بے ربط لمحوں میں شامل کر لیں تو ایک انمول ہیرا بن سکتے ہیں، لیکن افسوس اسلامی بہنیں اسے ظلم تصور کرتی ہیں، دیکھا جائے تو مرد وعورت دونوں ہی ایک جیسی محنت کر رہے ہوتے ہیں، وہ باہر کے تمام معاملات سنبھالتے ہیں اور یہ امورِ خانہ داری، دونوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے چلنا چاہئے، اگر ایسا نہ ہو تو عورت کو صبر کرنا اور اپنی سردار حضرت بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی حیاتِ طیبہ پر نگاہ کرنی چاہئے کہ جہاں وہ دن بھر کام میں مصروف ہیں اور پابندی وقت کے ساتھ نماز بھی ادا کر رہی ہیں اور لبوں پر شکایت کی بجائے حمدو ثناء ر ہے۔ سبحان اللہ

ہم بھی اگر تھکن کے وقت سنت پر عمل کرتے ہوئے تسبیحِ فاطمہ پڑھیں تو اثرات دیکھئے گا کہ تھکن دور ہو جائے گی اور آپ تازہ دم ہوں گی۔

ہم اگر والدین کی خدمت کی سنت ادا کریں گی تو دعاؤں سے نوازی جائیں گی اور ڈاکٹر نکلس ڈیونس اور پروفیسر سلین کین کی سائنسی تحقیق کے مطابق "والدین اگر اولاد سے خوش ہوں تو ان کی ہمدردیوں اور بھلی تمناؤں کے باعث غیر وئی شعاؤں کا سلسلہ اولادتک پہنچتا ہے، جو کہ جسم و اعصاب کو تقویت پہنچا تے ہیں اور انہیں نرم اور ملائم رکھتے ہیں، نیز والدین کا چھونا نفسیاتی بیماریوں اور ذہنی الجھنوں کو دور کرتا ہے۔(نیکی کی دعوت، مکتبۃ المدینہ)

ہمیں آپ رضی اللہ عنہا کی سیرت پاک سے درسِ انسانیت ملتا ہے کہ ساس اگر جھگڑا لُو ہے تو خاموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فرائض خوش اسلوبی سے اپنے نفس کو سمجھاتے ہوئے ادا کریں گی، تو عنقریب وہ بھی ہمارے لئے نرم گوشہ رکھیں گی، ہمیں اپنے غصّے کو دبانا ہے، لیکن شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے۔اپنے زوج کی خدمت کرنی ہے، لیکن حُدودِ شریعہ کے اندر، ہمیں اپنی اولاد کی تربیت کرنی ہے، مگر پہلے قرآن کریم سکھانا ہوگا، ان تمام اچھی باتوں کو سیکھنے کے لئے اللہ عزوجل نے ہمیں دعوت ِاسلامی کا پلیٹ فارم دیا ہے۔

پاک پروردگار ہمیں اپنے پیاروں کے ذکرِ خیر کے صدقے سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دعوتِ اسلامی کابھرپور اسلامی کام کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے، نیز ہم سب کا خاتمہ بالخیر فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم